گُذشتہ سے پیوستہ۔
یار یہ سب کیا ہے۔۔۔؟ کامل علی نے دبے دبے لہجے میں احتجاج کرتے ہُوئے ابو
شامل کی جانب اخباری اشتہار بڑھاتے ہُوئے کہا۔۔۔۔
کچھ بھی نہیں یار۔۔۔ بس شکار کیلئے چارہ ہی تو بِچھایا ہے۔۔۔۔ ابو شامل نے
اپنے مخصوص انداز میں آنکھ مارتےہُوئے ایک خوبصورت سیلولر فُون کامل علی کی
جانب بڑھا دیا۔۔۔ یہ موبائیل کس لئےہے۔۔۔۔ اور جب کوئی گھر آئے گا تو جاناں
کو کیا جواب دیں گے۔۔۔۔ کامل علی نے ابو شامل کے جواب دینے سے قبل ہی دوسرا
سوال بھی داغ دِیا۔۔۔
اب مزید پڑھیئے۔
جاناں کو سنبھالنا تُمہارا کام ہے۔ دھیرے دھیرے وُہ بھی اِس معاملہ کو قبول
کرلے گی۔ اُور جہاں تک سوال ہے لُوگوں کے گھر آنے کا۔ تو آپکی اطلاع کیلئے
عرض ھے کہ،، ہم لُوگوں سے ،، اِس گھر میں مُلاقات نہیں کریں گے۔ بلکہ میں
نے اِس مقصد کیلئے کچھ فاصلے پر ایک کوٹھی کرائے پر حاصل کرلی ہے۔ اشتہار
میں رابطہ کیلئے اِسی موبائیل کا نمبر دِیا گیا ہے۔جو اِس وقت تُمہارے
ہاتھوں میں ہے۔ ابتدا میں کلائینٹ کیساتھ میں گفتگو کروں گا۔ اُس کے بعد
ضروری ہُوا۔ تو مزید گفتگو تُم کرلینا۔۔۔ تُم جس قدر خاموش رَہو گے۔لُوگ
اُسی قدر زیادہ متاثر ہُونگے۔۔۔ ابو شامل نے تمام تفصیلات سے کامل علی کو
آگاہ کیا۔۔
اَبو شامِل شام کے آخری پہر کامل علی کوٹھی دِکھانے کیلئے اپنے ساتھ لےگیا۔۔۔۔
کُوٹھی دیکھ کر کامل علی کی آنکھیں کھلی کی کھلی رِہ گئی۔ تمام کوٹھی کو
اتنی نفاست سے ڈیکوریٹ کیا گیا تھا۔کہ،،پہلی ہی نظر میں یہ کوٹھی کسی شاہی
خاندان سے وابستہ فرد کے ذُوق کی مرہونِ منت دِکھائی دیتی تھی۔۔۔۔ یار اتنی
مہنگی کوٹھی کرائے پر لینے کی کیا ضرورت تھی۔ ۔۔۔ْ؟؟؟ کامل علی نے حیرت سے
کوٹھی کے منقش دَر و دِیوار پر نِگاہ دُوڑاتے ہُوئے کہا۔۔۔
یار جب شِکار بڑا پھانسنا ہُو۔تب انتظام بھی اچھی طرح ہی کرنا چاہیئے نا!!!
ہمارے تمام شِکار کروڑ پتی یا اَرب پتی لُوگ ہُونگے۔ ہم نے غریب لُوگوں سے
کیا لے لینا ہے۔ جو اُن بیچاروں پر فضول محنت کریں۔۔ غریب آدمی اپنا پیٹ
بھرلے وہی کافی ہے۔ وُہ ہماری ڈیمانڈ کیا خاک پُوری کریں گے۔ ابو شامل کی
گفتگو جاری تھی۔کہ کامل علی کے موبائیل فون کی گھنٹی بجنے لگی۔۔۔ کامل علی
موبائیل کو جیب سے باہر نِکال کر تذبذب سے دیکھنے لگا۔
ابو شامِل نے فوراً کامل علی سے جھپٹ کرموبائیل اپنے ہاتھ میں لیےلیااُور
اسپیکر آن کردیا۔ دُوسری جانب سے کسی شخص نے بھاری لیکن شائستہ آوازمیں
سلام کیا۔۔۔ ابوشامِل نے سلام کا جواب دینے کے بعد مدعا جاننے کی کوشش کرتے
ہُوئے کہا۔جی فرمائیے میں آپکی کیا خِدمت کرسکتا ہُوں۔۔۔ کیا میں کامل شاہ
صاحب سے بات کرسکتا ہُوں۔ ؟؟؟ دوسری جانب سے اِس مرتبہ نہایت عاجزی سے
استفسار کیا گیا۔ ۔۔۔کامل علی نے اپنا تذکرہ سُن کر فُون لینے کی کوشش کی
لیکن ابو شامل نے اُسے ہاتھ کے اِشارے سے منع کرتے ہُوئے کالر کو جوابدِیا۔۔۔
کیا آپ نے حضرت صاحب سے مُلاقات کیلئے اپائٹمنٹ لی ہُوئی ہے۔۔۔ دُوسری جانب
سے آواز آئی جناب ملاقات کا وقت تو نہیں لیا ہے۔ لیکن کیا فون پر گفتگو بھی
ممکن نہیں ہے۔؟
نہیں جناب ۔حضرت قبلہ شاہ صاحب بُہت مصروف شخصیت ہیں۔ اُنکے لئے ممکن نہیں
ہے کہ،، وُہ ہر وقت لوگوں سے گفتگو یا مُلاقات کرسکیں۔ ۔ ویسے اگر کوئی
ایمرجنسی ہے تو آپ مجھے بتاسکتے ہیں۔ اگر مجھے لگا کہ آپکا مسئلہ بُہت اہم
ہے تو میں کوشش ضرور کرسکتا ہُوں۔کہ،، آپ کیلئے شیڈول سے قبل وقت حاصِل
کرسکوں۔۔۔ ابوشامل نے کامل کی جانب دیکھتے ہُوئے اداکاری کی۔۔۔۔ دوسری جانب
سے شکریہ ادا کرنے کے بعد کہا گیا۔ میرا نام نِفاست صدیقی ہے۔ میری عمر
ساٹھ برس سے کچھ زائد ہے۔اُور مجھے قریباً دس برس سے جوڑوں میں شدید درد کی
شکایت ہے۔میں نے اخبار میں آپکی جانب سے دِیا گیا اشتہار پڑھا تھا۔ کیا آپ
مجھے جُوڑوں کے دَردسے نجات دِلواسکتے ہیں۔۔۔
جناب کامل شاہ صاحب چاہیں تو کس درد یا تکلیف سے نجات نہیں دِلواسکتے۔۔۔۔
لیکن۔۔۔۔۔ ابو شامل کی لیکن کے بعد خاموشی نے دوسری جانب بے چینی پیدا کردی
تھی۔۔۔ لیکن کیا جناب۔؟؟؟نِفاست علی نے نہایت بےچینی سے دریافت کیا۔۔۔ لیکن
یہ کہ،، جناب جوڑوں کی یہ دوائی بُہت نایاب قسم کی جڑی بوٹیوں اُور خاص قسم
کے عرقیات سے تیار کی جاتی ہے۔ یہ کوئی عام قسم کی داوئی نہیں ہے۔۔۔
حالانکہ قبلہ شاہ صاحب اِن ادویات سے ایک رُوپیہ بھی منافع کی مَد میں نہیں
لیتے۔ لیکن اِن عرقیات سے حاصل شُدہ آئل کی ایک بوتل کی قیمت کوئی عام آدمی
نہیں خرید سکتا۔۔۔ اسلئے میں معذرت خواہ ہُوں۔آپ شائد یہ بوتل خریدنا افورڈ
نہیں کرپائیں گے۔ابوشامل نے انتہائی مہارت سے نفاست علی کی عزت نفس پر چُوٹ
کی۔
افورڈ نہیں کرپاؤں گا۔ یہ آپ نے کیسے سُوچ لیا۔۔۔؟؟؟ جناب میں ایک بزنس مین
ہُوں۔ اُور لیدر ایکسپورٹ کے شعبے سے وابستہ ہُوں۔ آپ قیمت بتائیے۔ پھر میں
آپکو بتاؤں گا کہ،، میں کیا کچھ افورڈ کرسکتا ہُوں۔ نفاست علی نے تمکنت
بھرے لہجے میں کہا۔۔۔۔ ابوشامل کا چھوڑا ہُوا تیر عین نشانے پر لگا تھا۔۔۔۔۔۔
ٹھیک ہے جناب آپ ناراض نہ ہُوں ۔میں آپکو قیمت بتاے دیتا ہوں۔جوڑوں کے درد
کے آئل کی لاگت تقریباً نوے ھزار روپیہ ہے۔کیا آپ یہ قیمت افورڈ کرسکتے ہیں۔۔۔؟ابو
شامل نے نِفاست علی کو جواب دِیتے ہُوئے سوال کیا۔۔۔
اُوہ! نَوے ھزار۔۔۔ سُنیں میں آپکو نَوے ھزار نہیں بلکہ پُورا ایک لاکھ
روپیہ دُونگا۔۔۔ لیکن مجھے آرام آنا چاہیئے۔۔۔ کیا آپ مجھے یقین دِلا سکتے
ہیں۔کہ،، مجھے اِس دوائی سے ضرور اِفاقہ ہُوگا۔ نِفاست علی صدیقی نے اپنے
شک کا اِطہار کرتے ہُوئے کہا۔۔۔ ٹھیک ہے نِفاست صاحب میں کل آپکی قبلہ
کامِل شاہ صاحب سے مغرب کی نماز کے بعد مُلاقات کا بندوبست کئے دیتا ہُوں۔
مجھے یقین ہےکہ،، قبلہ شاہ صاحب سے مُلاقات کے بعد آپکو کسی قسم کا اِبہام
نہ رہے گا۔ اسکے بعد اَبو شامِل نے نفاست صدیقی کو اِس نئی کوٹھی کا ایڈریس
لکھوانے کے بعد کال کا سلسلہ منقطع کردِیا۔
کیوں میرے دُوست تم نے انسانوں کو مارکیٹنگ کرتے ہُوئے تو ہزار مرتبہ دیکھا
ہُوگا۔ لیکن کیا کسی انسان کو مجھ جِن زادے کی طرح مارکیٹنگ کرتے بھی دیکھا
ہے۔۔۔ ابو شامل نے تفاخر سے سینہ پُھلاتے ہُوئے داد طلب نِگاہوں سے کامل
علی کی جانب دیکھا۔۔۔۔۔۔ یار تمہاری پرفارمنس تو واقعی زبردست تھی۔۔۔ لیکن
یہ بتاؤ کہ نفاست صدیقی کو اعتبار کیسے دِلاؤ گے۔۔۔۔ اُور یہ آئل جسکا ابھی
تُم نفیس صدیقی سے تذکرہ کررہے تھے۔ وُہ کہاں سے پیدا کرو گے۔ ۔۔۔ کامل علی
نے تعجب سے ابو شامل سے دریافت کیا۔
دَوا ئی کیلئے میں ابھی کوہ قاف کے شاہی حکیم بطلیموس سے رابطہ کرونگا۔
مجھے معلوم ہے۔ وُہ ہر قسم کے امراض کا شافی علاج کرتے ہیں۔ اُور مجھ سے
خصوصی محبت رکھتے ہیں۔۔۔ اِس لئے مجھے کبھی کسی کام کیلئے منع نہیں کریں گے۔۔۔
اُور جہاں تک نفاست صدیقی کو مطمئین کرنے کی بات ہے تو میرے خیال میں ہمارے
کانٹے میں ایسی مچھلی آگئی ہے۔ جس کے پیچھے پیچھے دوسری مچھلیاں خود بخود
چلی آئیں گی۔ اُور ہمیں پبلسٹی کیلئے ذیادہ محنت نہیں کرنی پڑے گی۔ اِس لئے
نِفاست صدیقی کو ہم ایڈوانٹیج دیں گے۔ اُور تعلقات کو مستحکم کرنے کیلئے
پہلے کسٹمر کو فری دوائی دیں گے۔ جسکی وجہ سے نفیس صدیقی جیسی بڑی پارٹی
ہمیشہ ہمارے اِحسان تلے دبی رہے گی۔۔۔۔ ابوشامل نے مکارانہ انداز میں قہقہ
بلند کرتے ہُوئے کہا۔۔۔۔جبکہ کامل علی ہونقوں کی طرح ابو شامل کے آئیڈیئے
پر دِل ہی دِل میں اُسے داد دے رَہا تھا۔
جاری ہے۔۔۔
اُسکا کہنا ہے۔ کِسی اُور کو دیکھوں نہ کبھی
کیوں کہ اُسکو یہ میرا رُوپ بُرا لگتا ہے۔
مجھکو ہر چہرے میں آتی ہے نظر اِک وُہ ہی
جُو نہ بھر پائے یہ بہروُپ بُرا لگتا ہے۔ |