بس اسٹاپ پر کھڑے کھڑے اسے آدھا
گھنٹہ ہوگیاتھا۔سڑک پہ آتی جاتی گاڑیوں کو وہ یوں دیکھ رہا تھا جیسے کوئی
گدھ اپنے شکار کو دبوچنے کے لیے نظریں گاڑھے بیٹھا ہو۔بظاہر اس نے اپنے لب
بینچ لیے تھے کہ جیسے گویا برسوں سے کوئی لفظ ان لبوں سے ادا ہی نا ہوا
ہو۔پر آنکھیں تھیں کہ چیخیں جا رہی تھیں۔اس کے اندر شور بہت تھا لیکن باہر
کا شور اسے اس بات کا یقین دلا چکا تھا کے بولنے کا کوئی ثمر نہ ملے
گا۔لحاظا ہونٹ خاموش تھے۔اس کے اندر پکنے والا جوالا پھٹنے کوتھا۔لیکن
دھواں اسے باہر دکھائی دیا سڑک پر گزرتی گاڑیوں کا دھواں۔اب اس کی آنکھیں
غصے کی بجاے فکرکے گھیرے میں تھیں۔’’میں آج بھی لیٹ ہوگیا تو شاید نوکری
چلی جائے۔‘‘ وہ بند لبوں سے ہی خود سے مخاطب ہوا۔اس نے ایک خالی رکشے کو
دیکھ کر رکنے کا اشارہ کیا۔ رکشہ والینے دفتر تک جانے کا ڈبل کرایہ مانگ
لیا۔ مہینے کی آخری تاریخیں چل رہی تھیں۔ وہ اپنی جیبیں ٹٹولنے لگا۔ رکشہ
والا اپنے بتائے کرائے پر بضد تھا۔ اس کی اکڑ تھی بھی ٹھیک۔ شہرمیں سی این
جی یوں توغائب تھی اور لیکن اس رکشے والے کے پاس موجود تھی،سو فائدہ تواسے
اٹھاناتھا ہی۔ آخر اس نے رکشے میں نہ جانے کا فیصلہ کیا اور دوبارہ بس کا
انتظار کرنے لگا۔ دو گھنٹے شدیدتکلیف دہ انتظارکے بعد دور سے مطلوبہ بس آتی
نظر آئی،اب اس نے بس دبوچنے کی منصوبہ بندی شروع کردی تھی۔ دھیمی رفتار سے
چلتی مسافروں سے کھچاکچھ بھری بس آخر اسٹاپ پر آکر رک گئی۔ وہ اپنی ساری
تہذیب اورنفاست ایک طرف رکھ کر بس کی چھت کو جاتی سیڑھی پر پیر جمائے اوپر
جانے کی کوشش کرنے لگا۔ اچانک نقاہت کی وجہ سے اسے اپنا وجود بے جان
ہوتامحسوس ہوا۔ وہ سوچنے لگا کہ یہ کم زوری کیسی، چکر کیوں آرہے ہیں؟ اسے
یاد آیا کہ آج تو وہ بناکچھ کھائیپیئے گھر سے نکلا تھا، مہینے کا بچاکھچا
راشن تو موجود تھا، مگر گیس تھی ہی نہیں تو گھر کے چولہے کیا خاک جلتے۔
بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے وہ پاپے خرید لایا تھا، آج بس وہ اتنا ہی خرچہ کر
سکتا تھا،لحاظا خود بھوکادفتر روانہ ہوگیا۔ باہر کا کھانا اس کے بجٹ سے
باہر تھا۔ تندور کی روٹی بھی تو آٹھ روپے کی ہوگئی۔ آخر کب تک یہ فضول خرچی
ہوتی۔بس کی سیڑھی سے لٹکا وہ گزرے ہفتے کی باتیں یاد کر رہا تھا۔ نان بائی
کے پاس کھڑے ہوکر وہ سوچتا کہ اسے آٹا پانی میں گھول کر پی لینا چاہیے، کم
سے کم نان بائی کو اَسی روپے تونہیں دینے پڑیں گے۔ مگر وہ ایسا کرنہیں سکتا
تھا۔ اچانک اسے یاد آیا کہ اسے کے سب سے چھوٹے بچے نے اس کی جیب میں ایک
ٹافی ڈالی تھی۔ اس نے ایک ہاتھ سیڑھی سے ہٹاکر بہ مشکل جیب میں ڈالا اور
ٹٹول کر ٹافی نکال کر منہ میں رکھ لی۔ اب وہ خود کو کچھ بہتر محسوس کررہا
تھا۔ اپنے وجود کو گھسیٹتا ہوا وہ بس کی چھت پر جا بیٹھا اور سوچنے لگا کے
کل بھی اسے ایک ایسے ہی دن کا سامنا کرنا ہوگا۔’’کرایہ کرایہ‘‘اس کی سماعت
میں آتی سدا بیوی کی آواز میں ڈھل گئی،’’گھر کا کرایہ․․․جاوید․․․گھر کا
کرایہ․․․دوسرا مہینا شروع ہونے کو ہے۔اس ماہ کے بارہ اور اگلے ماہ کے بارہ
کل ملا کہ چوبیس ہزار دینے ہیں ․․․‘‘ کرایہ کرایہ۔۔اب وہ آواز کرخت ہوگئی
’’کرایہ دے دے بھائی، کیا بھنگ پی کر گھر سے نکلا ہے۔‘‘ اس بار لہجہ خاصا
سخت تھا۔ اس سے عمر میں کوئی دوگنا چھوٹا کنڈیکٹر اس کی تذلیل کر رہا تھا۔
جیب میں ہاتھ ڈال کر پیسے نکالتے ہوئے اس نے غصے سے کہا،’’ابے دے رہا ہوں،
مر کیوں رہا ہے۔ بات تو تمیز سے کر۔‘‘ کنڈیکٹر چلتی بس کی سیڑھی سے لٹکے
لٹکے چلایا،’’میں تو جاہل ہوں، تو تو پڑھا لکھا جاہل ہے۔ ہاں نہیں تو،
آجاتے ہیں صبح صبح دماغ کی دہی کرنے۔‘‘ جاوید بات بڑھانا نہیں چاہتا تھا۔
بس پر بیٹھے دوسرے مسافروں کی نظروں کی گرمی اسے اپنے چہرے پر محسوس ہوئی،
جیسے ہر نگاہ اس کا مذاق اُڑا رہی تھی۔ اس نے پیسے کنڈیکٹر کو پکڑاتے ہوئے
گید ڑ بھپکی لگائی،’’دوں گا ابھی اُلٹے ہاتھ کا، چل نکل۔
کنڈیکٹر نے ’’ہوررررر‘‘ کی صدا لگائی اور نیچے اتر گیا۔
ساتھ بیٹھے ایک مہذب اور باریش شخص نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور بولتا
چلا گیا۔ وہ اس کی باتیں
سننا نہیں چاہتا تھا لیکن سفر ختم ہونے تک یہ سماع خراشی اس کی مجبوری تھی۔
مہذب شخص بولے جا رہا تھا’’ارے صاحب! آپ کہاں ان چماروں کے منہ لگتے ہیں۔
ان کا تو روز کا یہی کام ہے۔ آپ ٹھیرے شریف آدمی اور شریف آدمی کو چپ کرانے
کے لیے یہ حربہ ہی کافی ہے کہ اسے بھری محفل میں گالی دے دی جائے۔ آپ ماشاء
اﷲ کیا جاب کرتے ہیں؟‘‘ جاوید کو اس سوال کا جواب دیتے ہوئے اپنی گردن میں
تناؤ محسوس ہوا۔’’جی میں ایک کمپنی کے آئی ٹی ڈیپارٹمینٹ کے ہیڈ کا اسسٹننٹ
ہوں۔ سوفٹ ویئر انجنیئر کہہ لیجیے․‘‘
باریش شخص مسکراتے ہوئے گویا ہوا،’’ماشاء اﷲ ماشاء اﷲ بھائی پھر تو آپ کو
چھوٹی موٹی گاڑی لے لینی چاہیے۔ اب سی این جی کے بحران کی وجہ سے پبلک
ٹرانسپورٹ کے مسائل تو ختم ہوں گے نہیں۔ آپ
جیسا پڑھا لکھا شخص بس کی چھت پر بیٹھ کر سفر کرے۔ رکشہ کرلیتے ۔آرام سے
جاتے۔ اب اس گرمی میں کہاں پریشان ہورہے ہیں۔‘‘
’’رکشہ ملا ہی نہیں، کافی دیر انتظار کیا۔‘‘ جاوید نے مہارت سے جھوٹ داغ
دیا۔
’’اچھا اچھا، بس بھئی یہی ہے اس شہر کا حال، سیاسی جماعتیں ایک دوسرے سے
گتھم گتھا، گیس بند اور۔۔‘‘
وہ بولے جارہا تھا مگر جاوید کے کانوں میں بس اپنی بیوی سعدیہ کے الفاظ
گونج رہے تھے،’’گھر کا کرایہ جاوید گھر کا کرایہ۔ پورے بارہ ہزار دینے ہیں۔
کل پہلی ہے۔ ابھی پچھلے مہینے کا کرایہ بھی نہیں دیا۔تیس ہزار روپے میں گھر
نہیں چلتا۔ مہینے کا راشن ہی دس پندرہ ہزار لے جاتا ہے۔ پھر تمھاری بہنوں
کی آئے دن کی دعوتیں، امی کی دوا، میری زچگیوں پر اٹھنے والے اخراجات۔ دو
بچوں کی دفعہ تو نارمل ڈیلوری تھی، اس بار ڈاکٹر نے کہا ہے کہ آپریشن کرنا
ہوگا۔ میں نے پتا کیا تھا، اسپتال میں پچاس ہزار جمع کروانے ہوں گے۔ پھر
آپریشن کے بعد حساب ہوگا، رقم بچی تو وہ واپس کردیں گے۔ وہ ایمرجینسی کے
لیے اپنے پاس ایڈوانس رقم رکھتے ہیں۔ بس کو جھٹکا لگا اور سعدیہ کی آواز جو
وہ بڑے غور سے مہذب شخص کے ہونٹوں سے نکلتے سن رہا تھا۔ اچانک پھر بھاری
آواز میں شہر کا نوحہ سنانے لگی۔ ’’کل پھر ہڑتال ہے۔ آپ کہاں جا رہے ہیں؟‘‘
جاوید تیز دھوپ میں چندھیائی آنکھوں سے مخاطب کو دیکھتے ہوئے بولا،’’میں
زینب مارکیٹ پر اتروں گا۔ وہاں سے میرا آفس دس منٹ کے فاصلے پر ہے۔‘‘
’’اچھا اچھا․․․․منہگائی بہت بڑھ گئی ہے، بچوں کی فیس․․․․‘‘ وہ شخص پھر شروع
ہوگیا۔
اب جاوید کو اس کے ہونٹوں سے اپنے بچوں کی آواز آرہی تھی،’’پاپا فیس واؤچر
مل گیا ہے۔ آپ فیس لیٹ کردیتے ہیں، پینلٹی لگ جاتی ہے۔ میرے ایگزامز ختم
ہوں گے تو میں سکستھ کلاس میں چلا جاؤں گا۔‘‘ اب کی بارچار سالہ عمیمہ کی
ننھی سی آواز سماعت سے ٹکرائی،’’پاپا باربی ہاؤس، پاپا باربی ہاؤس․․․․دلائیں
گے نا پاپا۔‘‘ عمیمہ کی خفگی بھری معصوم سی آواز نے اسے لمحے بھر کو سکون
دیا۔ اس کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔ باریش شخص نے غور سے اس کی آنکھوں میں
جھانکا۔ آواز پھر بدل گئی،’’کیا ہوا بھائی صاحب! آپ کو میری بات مذاق لگتی
ہے۔ یہاں ایسا ہی کرنا پڑے گا۔ یہ قوم ڈنڈے ہی سے سدھر سکتی ہے۔‘‘
بس زینب مارکیٹ کے اسٹاپ پر پہنچ چکی تھی۔ جاوید جلدی میں اٹھا۔ پیچھے سے
باریش شخص کی آواز آئی’’میں بولتا بہت ہوں، خوشی ہوئی آپ سے مل کر۔ اپنا
خیال رکھیے گا۔‘‘ جاوید پیچھے مُڑکر قدرے زور سے بولا’’ارے نہیں، مجھے تو
بہت اچھا لگا آپ کے ساتھ۔‘‘ بس سے اترنے کے لیے اس نے گھوم کر قدم سیڑھی پر
جمائے ہی تھے کہ بس چل پڑی۔ اس نے جلدی سے دوسرے اسٹیپ پر پاؤں رکھا۔ اب
تیسرا اور آخری اسٹیپ تھا۔ بس نے اسپیڈ پکڑ لی۔ جاوید کو خطرہ تھا کہ بس
اسے اگلے اسٹاپ تک نہ لے جائے۔ باس کی صورت خوف بن کر نگاہوں میں گھومنے
لگی۔ اس نے سوچا ابھی بس کی رفتار اتنی تیز نہیں ہوئی، وہ اتر سکتا ہے۔ اس
نے چلتی بس سے چھلانگ لگادی، مگر وہ اپنا توازن قائم نہ رکھ سکا، پیر مُڑا
اور وہ
سڑک پر گرپڑا۔ وہ ابھی اٹھنے کی کوشش بھی نہ کرپایا تھا کہ تیزی سے آتی
ہوئی ایک کرولا اسے روندتے ہوئے گزر گئی۔ سڑک پر جابہ جا خون بکھرا ہوا
تھا۔ ہاتھ اور گردن کٹ کر الگ ہوچکے تھے۔ لُہولان لاش کے گرد لوگ جمع
ہوگئے۔ ان کی تعداد بڑھتی جارہی تھی، آوازیں بڑھتی جارہی تھیں۔ ’’ابے روکو
اس گاڑی والے کو، مارکے نکل گیا سالا․․․‘‘،’’فون کرو کوئی ایمبولینس کو۔‘‘
جاوید مجمع میں شامل ہوکر اپنے مُردہ جسم کو تک رہا تھا۔ وہ سمجھنے سے قاصر
تھا کہ یہ مُردہ جسم تو میرا ہے، یہ مسخ شدہ چہرہ میرا ہے، یہ بکھرا ہوا
خون میرا ہے، تو مجھے تکلیف کیوں نہیں ہورہی۔ لمحے کے دسویں حصے میں
جاویدیہ حقیقت سمجھ چکاتھا کہ اس کی روح جسم سے الگ ہوگئی ہے اور وہ مر چکا
ہے۔
اب وہ بھی تماشائیوں میں شامل ہوگیا۔ایک نوجوان جوش میں آگے بڑھا اور اس کے
شکستہ جسم کو سمیٹنے لگا۔ اتنے میں دوسرے نوجوان نے آواز لگائی،’’پاگل
ہوگیا ہے کیا۔ اسے اسپتال پہنچایا توانتظامیہ گلے پڑجائے گی۔ چل نکل، دیر
ہورہی ہے۔‘‘ دوسری طرف کوئی کہہ رہا تھا،’’یہ ہے انسان کی زندگی۔ کُتے بلی
کی طرح مار کے چلے جاتے ہیں۔ توبہ استغفار۔‘‘ کوئی بیس منٹ بعد ایمبولینس
کی آواز سنائی دی تو مجمع چھٹنے لگا۔ پولیس کی موبائل بھی ایمبولینس کے
ساتھ تھی۔وہ تماشائیوں کے بیچ کھڑا اپنا تماشہ دیکھ رہا تھا۔ اس کے بکھرے
ہوئے جسم کو ایک چادر میں لپیٹ کر ایمبولینس میں ڈالاگیااوروہ ایمبولینس اس
کی نظروں کے سامنے سائرن بجاتی ہوئی نکل گئی۔وہ ہاتھ بڑھا کر چیخا،’’روکو
روکو‘‘ لیکن اس کی آواز کوئی نہیں سُن رہا تھا۔ مجمع چھٹ گیا، جائے حادثہ
سے گاڑیاں گزرنے لگیں، سب اپنی اپنی زندگی میں مگن ہوگئے۔ اور جاوید سڑک کے
بیچوں بیچ اپنے بکھرے ہوئے خون کو دیکھنے لگا۔ |