پچھلے دنوں سعودی عرب کے ولی عہد
شہزادہ سلمان بن عبد العزیز نے پاکستان کا بھر پور دورہ کیا ۔ پیر کو ان کے
دورے کے اختتام پر ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا ، جس میں ایک طرف دفاع
، توانائی ، تجارت، سرمایہ کاری اور ذراعت کے شعبوں میں تعاون بڑھانے پر
اتفاق کیا گیا تو دوسری طرف ،مسئلہ ِ فلسطین ، مسئلہ ِ کشمیر ، مسئلہ ِ شام
اور افغانستان کی ابتر صور ت حال کا احاطہ بھی کیا گیا ۔اس اعلامیے میں امت
ِ مسلمہ کے جن دیو ہیکل مسائل کا احاطہ کیا گیا ، وہ درج ذیل ہیں :
1۔ دونوں فریقوں (پاکستان اور سعودی عرب ) نے جنیوا قرارداد کے مطابق شام
میں امن بحال اور وہاں کے لوگوں کے قتل ِعام کی روک تھام کے لیے حالیہ
بحران کا فوری حل تلاش کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے ۔ دونوں فریقوں نے اس
حوالے سے بین الاقوامی نگرانی میں شام کے قصبوں اور دیہاتوں کے محاصرے کے
خاتمے اور فضائی اور توپ خانے کی بم باری روکنے پر بھی زور دیا ہے ۔اعلامیے
میں شام کے ملکی حالات سنبھالنے کے لیے با اختیا ر عبوری حکومتی باڈی کے
قیام کا مطالبہ بھی کیا گیا ہے ۔
2۔ اعلامیے میں مسئلہ ِ کشمیر کے پر امن حل کی امید کا بھی اظہار کیا گیا
ہے۔
3۔ دونوں فریقوں نے مارچ میں شیڈول کے مطابق افغانستان میں انتخابی عمل کی
حمایت کا بھی اعلان کیا ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ اس عزم کا بھی اظہا ر کیا گیا
ہے افغانستان میں امن و سلامتی کی بحالی کے لیے مفاہمتی عمل کی حمایت کی
جائے گی ۔
4۔ دونوں فریقوں نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ مسئلہ ِ فلسطین اس انداز
میں حل کیا جائے کہ فلسطینیوں کی آزاد ریاست قائم ہو سکے ۔ اس کے ساتھ ساتھ
دونوں ملکوں نے فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ بھی کیا ۔اعلامیے
میں اسرائیلی کارروائیاں فوری طور پر بند کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا ۔
اس اعلامیے میں پاکستان اور سعودی عرب کے مشترکہ مفادات کے ضمن میں جن
خیالات کا اظہار کیا گیا ، میں ان کو طوالت کے خوف سے یہاں تحریر کرنے سے
قاصر ہوں ۔ ویسے وہ میرا موضوع بھی نہیں ہیں ۔اس اعلامیے میں جو باتیں میری
آج کی تحریر سے متعلق تھیں ، وہ میں نے لکھ دیں ۔
یہ پاک سعودی مشترکہ اعلامیہ واقعی قابل ِ تعریف ہے ، جس کی جتنی تعریف کی
جائے ، کم ہے ۔ایک ایسے پر آشوب وقت میں ، جب پوری مسلم امہ انتہائی نازک
دور سے گزررہی ہو، دو اہم اسلامی ملکوں کی طرف سے ایک ایسے اعلامیے کا
اجراء جو دو برادر ملکوں کے مشرکہ مفادات کے ساتھ ساتھ مسلم امہ کے بڑے بڑے
مسائل کا بھی احاطہ کرتا ہو، واقعی لائق تحسین اقدام ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ اس
طرح کے اعلامیے اور پھر ان پر عمل مسلم امہ کے تمام مسائل کے حل میں ممد و
معاون ثابت ہو سکتے ہیں ۔ظاہر ہے کہ جس طرح اپنی قوم کے افراد اپنے ہی
لوگوں کے غموں میں شریک ہو سکتے ہیں ، اس طرح دوسری اقوام کے افراد نہیں ہو
سکتے ۔اس سے ایک قدم آگے بڑھ کر یہ بھی کہا جا سکتا ہے جس طرح اپنی قوم کے
افراد اپنے لوگوں کے مسائل حل کرنے کی کوشش کرسکتے ہیں ، اس طرح دوسری
اقوام کے افراد نہیں کر سکتے ۔اس بات کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے
کہ شام ۔۔۔جو تین سالوں سے خانہ جنگی کا تختہ ِ مشق بنا ہوا ہے ، جہاں اب
تک ایک لاکھ سے زائد افراد موت کے گھاٹ اتر چکے ہیں ۔۔۔ ہنوز امن کے لیے
ترس رہا ہے ۔ ایک خبر کے مطابق وہاں کے لوگ مردار جانور کھانے پر مجبور ہو
چکے ہیں ۔اگرچہ اقوام متحدہ نے جنیوا ون اور جنیواٹو معاہدں کی مدد سے شام
کا مسئلہ حل کرنے کی حتی الامکان کوشش کی ہے ، لیکن کچھ نہیں ہو سکا ۔ شام
اُسی طرح خانہ جنگی کی آگ میں جل رہا ہے ۔مسئلہ ِ کشمیر اور مسئلہ ِ فلسطین
بھی مسلم امہ کے دیرینہ مسائل ہیں ، جو ، بشمول مسئلہ ِ شام و دیگر ،اسی
صور ت میں حل ہو سکتے ہیں ، جب اسی طرح کے اعلامیے ، قراردادیں اور ان پر
عمل سامنے آتا رہے ۔
بلکہ میں تو اس سے بھی آگے بڑھ کر ایک اور بات کہتا ہوں کہ مسلمانوں کو اس
وقت اقوام ِ متحدہ جیسے ایک مضبوط اور منظم ادارے کی اشد ضرورت ہے ، ایک
ایسا ادارہ جس کے تمام مسلم ممالک ممبر ہوں ۔ ایک ایسا ادارہ جو مسلم امہ
کے چھوٹے سے چھوٹے مسئلے پر تڑ پ اٹھے ، اور اس مسئلہ کے حل کے لیے ہر ممکن
کوشش کرے ۔ لیکن جناب ، یہ اسی صورت ممکن ہے ، جب ہم اپنی صفوں میں اتحاد
پیدا کریں گے اور عصبیت کی بیخ کنی کریں گے ۔جب ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان
متحد ہو کر اپنے مسائل حل کرنے کی کوشش کریں گے ، تو ان کے سارے مسائل ایک
ایک کر کے حل ہو جائیں گے ۔ پھر ہماری کوئی بہن یا بھائی غیروں کی جیلوں
میں نظر نہیں آئیں گے ۔ لیکن اتحاد شرط ہے ۔
پوری مسلم امہ سے میری دردمندانہ گذارش ہے کہ خدا را متحد ہو جایئے ۔ خدا
را !!
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاک ِ کا شغر
(نوٹ:میرا فیس بک رابطے کا ایڈریس یہ ہے :
https://www.facebook.com/naeemurrehmaan.shaaiq(
|