اگر کوئی یہ سوال کرے کہ دنیا کی
معلو م تا ریخ میں سب سے پہلے مزدور رہنما کون تھے جنھوں نے مزدور رہنما نہ
ہونے کے باوجودمزدوروں کے حوالے سے اس وقت کے بادشاہ سے رعایت حاصل کی تو
میرا جواب تو یہ ہو گا کہ یہ اﷲ کے ایک نبی حضرت موسیٰ علیہ السلام تھے ۔
آپ نے فرعون کے دربار میں تربیت حاصل کی تھی بنی اسرائیل سے آپ کا تعلق تھا
فرعون بنی اسرائیل کے لوگوں پر بہت ظلم کرتا تھا ۔حالانکہ اس وقت سب سے بڑا
دولتمند شخص قارون کا تعلق بھی بنی اسرائیل سے تھا لیکن ظالم حکمرانوں اور
سرمایہ داروں کا گٹھ جوڑ ہمیشہ سے آپس میں مضبوط رہا ہے ،چاہے ان کی اپنی
قوم پر حکمران کتنا ہی ظلم کریں چونکہ ان کے مفادات برسراقتدار طبقہ سے
وابستہ ہوتے ہیں اوربالخصوص مالی منفعت کا مسئلہ ہو تو وہ اپنی مظلوم قوم
کا ساتھ دینے کے بجائے ظالم حکمرانوں کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوتے ہیں قارون
براہ راست تو خود کوئی ظلم بنی اسرائیل پر نہیں کرتا تھا لیکن ظالم فرعون
کا ہاتھ بھی ظلم سے نہیں روکتا تھاکسی ظالم کو اس کے ظلم نہ روکنا بھی
دراصل ظالم ہی کا ساتھ دینا ہوتا ہے ۔اس طرح اﷲ تعالیٰ نے دونوں کو سزا دی
ایک کو دریا میں ڈبودیا اور دوسرے کو زندہ زمین میں دھنسا دیا ۔ایک کی جان
کو قیامت تک کے لیے ایک عبرت کی مثال بنا دیا اور دوسرے کے مال کو ایک ضرب
ا لمثل بنادیا ۔جب کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنی قوم پر ہونے والے ظلم پر
دن رات کڑھتے تھے ویسے تو ان کا اصل ہدف بنی اسرائیل کو وہاں سے نکال کر لے
جانا تھا مگر ابھی یہ منزل دور تھی ۔پھر فرعون کے کان میں جب سے نجومیوں نے
یہ پھونکا کہ بنی اسرائیل میں ایک لڑکا پیدا ہو گا جو تمھاری حکومت کا تختہ
الٹ دے گا اس وقت سے اس نے ان پر ظلم اور بڑھادیا تھا اس نے ان کے لڑکوں کو
قتل کروا نا شروع کردیا۔فرعون بنی اسرئیل پر جوظلم کرتا تھا اس میں یہ بھی
تھا وہ ان سے دن بھر مزدوری کراتا تھا یعنی ایک طرح سے ان سے بیگار
لیتاتھااور یہ مسلسل بغیر کسی ناغہ کے کام کراتا تھا ۔حضرت موسیٰ علیہ
السلام نے فرعون کو ایک ٹکنیکل مشورہ دیا کہ اس طرح مسلسل کام کرنے سے ان
کی صحتیں گر جائیں گی اور یہ زیادہ محنت سے بہتر کام نہیں کر سکیں گے،اس
لیے اگر انھیں ہفتے میں ایک دن کی چھٹی دے دی جائے تو انھیں آرام کا موقعہ
مل جائے گا ۔چھٹی کے بعد والے دن یہ تروتازہ ہو کر جب کام پر آئیں گے تو یہ
اچھا کام کر سکیں گے اور یہ کہ اس سے ان کی کارکردگی زیادہ عرصے تک برقرار
رہ سکے گی۔فرعون کو یہ بات سمجھ میں آگئی چنانچہ اس نے ہفتہ میں ایک دن
چھٹی کا اعلان کر دیا ۔ہمارے آج کے دور کے مزدور رہنما یا مزدور تنظیمیں
کیا کررہی ہیں یہ ایک بہت بڑا سوال ہے کیا وہ آج کے فرعون صفت حکمرانوں ،
سرمایہ داروں اور ٹھیکیداروں سے مزدوروں کو کوئی ریلیف دلارہی ہیں یا محض
شعبدہ بازی ہو رہی ہے ۔ہمارے پیارے نبی آخر الزماں محمدﷺ کی نبوت سے پہلے
جن لوگوں سے دوستی تھی ان میں حضرت ابو بکر رضی اﷲ تعالیٰ کے علاوہ حضرت
بلال حبشی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ بھی شامل تھے ۔حضرت بلال جس کے غلام تھے وہ
شخص ان سے بہت زیادہ کام لیتا تھا ۔آپ ﷺ تقریباَروز حضرت بلال سے ملنے جاتے
تھے اور حضرت بلال کے کام میں ہاتھ بٹاتے تھے۔یہ آپ ﷺ کی جہاں ایک طرف حضرت
بلال سے محبت اور تعلق کی ایک مثال ہے وہیں یہ آپ ﷺ کی مزدور دوستی کو بھی
ظاہر کرتی ہے۔ آپ ﷺ مزدوروں سے خصوصی محبت کرتے تھے ایک دفعہ مکہ ایک صحابی
اپنے مالک کی دکان میں بیٹھے محنت مزدوری کر رہے تھے ان کے جسم سے پسینہ
بہہ رہاتھا نبی اکرمﷺ نے ان کے عقب سے جا کر ان کی آنکھوں پر اپنے دونوں
ہاتھ رکھ دیے تاکہ وہ اندازے سے بتائیں کے کون آیا ہے ۔وہ صحابی رسول کچھ
دیر اسی حالت میں رہے کہ جیسے نہ پہچان سکے ہوں کہ کون آیا ہے۔آپ ﷺ نے ہاتھ
ہٹاکر ان کا نام لے کر کہا کہ ارے تم مجھے نہیں پہچان سکے ۔ صحابی رسول نے
جواب دیا یا رسول اﷲ میں تو آپ کے ہاتھ رکھتے ہی پہچان گیا تھا کہ اس مکہ
میں آپﷺ کے علاوہ کون ہے جوہم جیسے غلاموں،مزدوروں اور غریبوں سے اتنا پیار
کرتا ہو میں اس لیے نہیں کچھ بولا کہ بولتے ہی آپ ہٹ جائیں گے اور میں
چاہتاتھا کہ زیادہ دیر تک آپ ﷺ کا جسم اطہر مجھ سے چمٹارہے۔انبیاء کرام کی
یہ مثالیں اس لیے دی گئیں ہیں کہ ویسے تو انبیا کرام کا اصل کام بندوں پر
سے بندوں کی خدائی ختم کرکے خدائے واحد کی خدائی کے دائرے میں لانا ہوتا ہے
۔لیکن اس کام کے لیے بندوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے ساتھ ساتھ ان کے مسائل
میں دلچسپی لینا اور اسے حل کرنا بھی ضروری ہے ۔تمام انبیاء کرام اور
بالخصوص آپ ﷺ کی پوری زندگی اس کی گواہ ہے ۔ویسے تو سیکڑوں مثالیں دی جا
سکتی ہیں لیکن ایک مثال کہ ایک شخص آپﷺ کے پاس آیا اور اپنی بے روزگاری اور
پریشانی کا ذکر کیا ۔آپﷺ نے اس سے پوچھا تمھارے پاس کچھ پیسے ہیں اس نے کہا
صرف ایک دینار ہے آپ ﷺ نے کہا جاؤ اس سے ایک کلہاڑی خرید لاؤ پھر آپﷺنے کہا
جنگل میں جاکر لکڑیاں کاٹ کر لاؤ اور اسے فروخت کرو،اسی طرح حضرت بلال
(ر)کا مالک ان سے بہت زیادہ کام بھی لیتا تھا اور ایمان لانے کی پاداش میں
ان پر ظلم بھی بہت کرتا تھا ۔آپ ﷺ اس پر دل گرفتہ رہتے تھے حضرت ابو بکر
(ر)جو آپﷺ کے جگری دوست بھی تھے ۔انھوں نے حضرت بلال (ر) کے مالک کو بھاری
معاوضہ دے کر انھیں اس سے آزاد کرا لیا۔آج ہمارے مزدور رہنما حضرات،مزدور
تنظیمیں اور بالخصوص این ایل ایف اور تحریک محنت اپنا جائزہ لیں کہ وہ
مزدوروں کے لیے کیا کررہی ہیں ۔کیا اسلام میں ٹھیکداری سسٹم کی جازت ہے
۔دیکھیے آپ نے جو ذمہ داری اٹھائی ہے وہ بہت اہم ہے اﷲ کی رضا کا راستہ
بندوں سے ہو کر گزرتا ہے ۔آج ہمارے ملک میں ٹھیکداری سسٹم نے مزدوروں کے
جسم سے خون نچوڑلیا ہے ۔حکومت اور سرمایہ داروں کے گٹھ جوڑ نے مزدوروں
کوایسی حالت میں مبتلا کردیا ہے کہ وہ نہ کچھ کہہ سکتے ہیں اور نہ کہیں
اپنی فریاد لے کر دہائی دے سکتے ہیں ،بے روزگاری کے خوف سے وہ چپ چاپ خون
کے گھونٹ پی کر زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں ۔ان کے دل سے نکلنے والی آہیں
چاہے ہمارے حکمران اور سرمایہ دار نہ سن سکیں لیکن وہ تو سن رہا ہے جو دلوں
کے حال تک سے واقف ہے۔جب ایوب خان کے زمانے میں صنعتی ترقی ہوئی اور ہماری
فیکٹریوں کی چمنیوں سے دن رات دھواں نکلتا تھابہت بڑی تعداد میں شہر کراچی
کے باسیوں اور اندرون ملک سے آنے والے غریبوں کو روزگار ملا 1960سے1970کے
عشرے میں اگر آپ کراچی سائٹ ایریا کا کسی وقت بھی دورہ کرتے وہاں ایک چہل
پہل نظر آتی تھی رات کو بھی دن کا سماں رہتا تھا اس زمانے میں اشیائے ضرورت
اتنی سستی تھیں کہ ایک عام مزدور اپنی تنخواہ میں آسانی سے گزارہ کرلیتاتھا
۔پھر پتا نہیں اس ملک کو کس کی نظر لگ گئی۔1970میں روٹی کپڑا اور مکان کا
نعرہ بلند کیا گیا جب کہ یہ سب چیزیں آج کی بہ نسبت اس وقت آسانی سے دستیاب
تھیں ۔کچھ بلکہ بہت کچھ ہمارے سرمایہ دار مل مالکان کی حوس زر نے قومی جذبے
کو پس پشت ڈال دیا اور ان کا مطمع نظر دولت کے ڈھیر جمع کرنا رہ گیا تھا اس
کے نتیجے میں مزدوروں کے حقوق سلب کیے گئے اور مزدوروں کی اس بے چینی کو
کچھ سیاستدانوں نے کیش کیا اور دلفریب نعروں سے انتخابی معرکہ سر کرکے جب
برسراقتدار آئے تو نیشنلائزیشن کی پالیسیوں نے سرمایہ داروں کو بد دل کردیا
دوسری طرف مزدوروں کی یونینوں نے احتجاج اور ہڑتال کر کے رہی صنعتوں کا
بیڑہ غرق کردیا ۔ محرومیوں کی یہ کہانی بہت طویل ہے قصہ مختصر یہ کہ
مزدوروں کی محرومیوں کو سیاستدانوں نے اپنی سیاست کے لیے استعمال کیا تو
مزدوروں کی بھی اپنے سیاستدانوں سے بے جا توقعات وابستہ کرلینے کی وجہ سے
صنعتی بحران پیدا ہوا ۔آج کل کی جو صورتحال ہے اس میں مزدوروں کی حالت زار
دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ایک ایسی فیملی بھی میرے علم میں آئی ہے جس
نے اپنی کم آمدنی کی وجہ سے اپنے گھر میں دوپہر کا کھانا پکانا بند کر دیا
ہے اور ناشتے کے بعد رات کو کھانا کھاتے ہیں ۔دیکھیے ایسا کب تک چلتا ہے
اور وہ رات کا کھانا کب چھوڑتے ہیں۔میں انتہائی دلسوزی سے مزدور رہنماؤں سے
اپیل کرتا ہوں کہ وہ ٹھیکداری سسٹم کو ختم کرانے کی بھرپور مہم چلائیں اور
اس کے لیے دیگر تمام مزور تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو نے کی ضرورت
ہے ۔ایک اور مسئلہ قومی اداروں کی نجکاری کا ہے جس سے مزدوروں کا استحصال
اور سرمایہ داروں کو مضبوط کر کے ان کی دولت کے ڈھیر میں اضافہ کرنامقصود
ہے ۔اگر پاکستان اسٹیل،پی آئی اے،کے پی ٹی اور دیگر قومی ادارے بیچ دیے گئے
تو ملک میں بے روزگاری کا ایک سیلاب آجائے گا،اسی سلسلے میں آج 22فروری کو
جماعت اسلامی کراچی کے تحت کراچی پریس کلب میں لیاقت بلوچ کی قیادت میں ایک
قومی لیبر کانفرنس ہو رہی ہے ،جس میں مختلف زعماء حضرات بھی شریک ہوں گے
۔امید ہے کہ اس کانفرنس کے ذریعے مزدوروں کی فلاح بہبود کے حوالے سے کوئی
لائحہ عمل تیار کرلیا جائے گا۔ایک زمانے میں جب اسٹیل مل میں پاسلو،پی آئی
اے میں پیاسی،ریلوے میں پریم،واپڈا میں شاھین،اور دیگر بڑے چھوٹے اداروں
میں جماعت اسلامی کی این ایل ایف سے ملحق لیبر یونینیں تھیں تو حکومت اس
طرح کے فیصلے کرنے دشواری محسوس کرتی تھی ،اب اس کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں
ہے ۔
|