دیا،لارڈ نذیر احمد اور دنیا کی دوسری جاہل ترین قوم

حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت علی بن حسینؒ کہتے ہیں جب حضرت علی بن ابی طالبؓ جنگ صفین سے واپس آئے تو ان سے بنو ہاشم کے ایک نوجوان نے کہا اے امیر المومنین میں نے آپ کو جمعہ کے خطبہ میں یہ کہتے ہوئے سنا اے اﷲ! تو نے جس عمل کے ذریعہ سے خلفائے راشدینؓ کی اصلاح فرمائی اسی کے ذریعہ سے ہماری بھی اصلاح فرما تو یہ خلفائے راشدینؓ کون ہیں اس پر حضرت علیؓ کی دونوں آنکھیں ڈبڈبا آئیں اور فرمایا خلفائے راشدینؓ حضرت ابو بکرؓ اور حضرت عمرؓ ہیں جو کہ ہدایت کے امام اور اسلام کے بڑے زبردست عالم ہیں جن سے حضورؐ کے بعد ہدایت حاصل کی جاتی ہے جو ان دونوں کا اتباع کرے گا اسے صراط مستقیم کی ہدایت ملے گی اور جو ان دونوں کی اقتداء کرے گا وہ رشد والا ہو جائے گا جو ان دونوں کو مضبوطی سے پکڑے گا وہ اﷲ کی جماعت میں شامل ہو جائے گا اور اﷲ کی جماعت والے ہی فلاح پانے والے ہیں۔

قارئین! گھٹا ٹوپ اندھیرے کے اندر اگر آپ یہ تصور کر لیں کہ آپ ایک بحری جہاز میں بیٹھے ہوئے ہیں اور آپ کے ارد گرد ایک زبردست قسم کا طوفان تمام مسافروں سمیت آپ کو گھیرے میں لیے ہوئے ہے رات کی تاریکی میں آسمان پر چھائے کالے بادلوں سے کڑکتی ہوئی بجلی کی روشنی اور آواز آپ کے دلوں کو بری طرح خوفزدہ کر رہی ہے اور آپ دنیا کے دوسرے خطرناک ترین درجے پر کھڑے ہیں تو آپ پر کیا گزرے گی کچھ ایسی ہی صورتحال اس وقت وطن عزیز کی ہے ہم نے حال ہی میں پاکستان میں تعلیمی انقلاب کے بانی ماہر تعلیم سابق وفاقی وزیر وسابق چیئرمین ہائر ایجوکیشن کمیشن ڈاکٹر عطا الرحمن کا ایک تفصیلی انٹرویو ایف ایم 93 میرپور ریڈیو آزاد کشمیر کے مقبول پروگرام ’’فورم 93ود جنید انصاری‘‘میں کیا اس سے قبل انہوں نے استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان کے ہمراہ راقم کو ریڈیو کے مقبول ترین پروگرام ’’ لائیو ٹاک ود جنیدانصاری‘‘میں بھی فخرِ امت مسلمہ اور پاکستان کے جوہری پروگرام کے بانی ڈاکٹر عبدالقدیر خان جوہری سائنسدان کے ہمراہ ایک تاریخی انٹرویو دیا تھا ان انٹرویوز میں ڈاکٹر عطاء الرحمن نے بتایا تھا کہ پاکستانی اور کشمیری بچے دنیا کے ذہین ترین بچوں میں شامل ہیں پاکستانی بچے بین الاقوامی مقابلوں میں اول پوزیشن حاصل کرتے ہیں پاکستانی اور کشمیری بچوں کاآئی کیو جسے اب تبدیل کر دیا گیا ظاہر کرتا ہے کہ ان بچوں کی ذہانت انتہائی اعلیٰ درجے کی ہے کیمبرج کے امتحانات میں یہ بچے دنیا کے تمام بچوں سے اچھا پرفارم کرتے ہیں لیکن بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ریاست جو عوام کے لئے ماں کا درجہ رکھتی ہے وہ اپنی آمدن کا صرف دو فیصد تعلیم پر خرچ کر رہی ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارے بچے باوجود دنیا کے ذہین ترین بچے ہوتے ہوئے وہ مقام حاصل نہیں کر پاتے جو وہ حاصل کرسکتے ہیں پاکستانی قوم دنیا کے ایک سو چھپن ممالک میں چوتھی ذہین ترین قوم تسلیم کی گئی ہے لیکن چونکہ ہماری مملکت اور ہمارے سیاستدان تعلیم کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں رکھتے اس لیے اسوقت ہم دنیا کی دوسری جاہل ترین قوم ہیں ہمارے کروڑوں بچے پرائمری سکول تک بھی رسائی نہیں رکھتے ہمارے کروڑوں بچے سکینڈری سکول جانے سے پہلے ہی کسی ورکشاپ، ہوٹل یا کھوکھے پر ’’اوئے چھوٹے ‘‘کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں اور ہماری آبادی کا صرف 0.2 فیصد حصہ یونیورسٹی تک پہنچنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ ڈاکٹر عطاء الرحمن نے یہ بھی بتایا کہ میں نے وفاقی وزیر سائنس ٹیکنالوجی وآئی ٹی بننے کے بعد ملک میں یونیورسٹیوں کی تعداد 59 سے بڑھا کر پانچ سال کے اندر 159 کر دی ملک میں پی ایچ ڈی سکالرز کی تعداد گزشتہ پچاس سالوں سے اڑھائی ہزار تک پہنچی تھی اﷲ کی مہربانی سے پانچ سالوں میں پی ایچ ڈی سکالرز کی تعداد ساڑھے سات ہزار سے بڑھ گئی میں نے ملک کے لائق اور ذہین ترین انتہائی غریب گھرانوں کے پانچ ہزار سٹوڈنٹس منتخب کئے اور انہیں پچاس لاکھ روپے سے لے کر ایک کروڑ روپے تک کا سکالرشپ دے کر برطانیہ، یورپ ، امریکہ اور دنیا بھر کی بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کرنے کے لئے بھیجا میں نے یہ کوشش کی کہ ملک میں اوریجنل ریسرچ فروغ پائے اور و ہ پاکستان کہ جہاں سالانہ ایک سو کے قریب ریسرچ پیپرز شائع ہوتے تھے ان کی تعداد سالانہ نو ہزار ریسرچ پیپرز تک پہنچ گئی۔ سافٹ ویئر کمپیوٹر ٹیکنالوجی میں پاکستان کی ایکسپورٹ صرف تیس ہزار ڈالرز سالانہ تھی جبکہ پڑوسی ملک بھارت ہر سال تیس ارب ڈالرز کمپیوٹر سافٹ ویئر پراڈکٹ ایکسپورٹ کر کے کماتا تھا ہم نے کمپیوٹر کی تمام اشیاء پر سے پچیس سال کے لئے ٹیکس ہٹا دیا اور اس شعبے کی حوصلہ افزائی کی تو ایک سال کے اندر پاکستان کی کمپیوٹر پراڈکٹ ایکسپورٹ ایک ارب ڈالرتک پہنچ گئی۔ ڈاکٹر عطاء الرحمن نے انتہائی افسوس بھرے انداز میں بتایا کہ جب جنرل مشرف کی حکومت ختم ہوئی اور پیپلز پارٹی کی حکومت صدر آصف علی زرداری کی قیادت میں پاکستان میں برسراقتدار آئی تو ان لوگوں کی ترجیحات تبدیل ہو گئیں اور انہوں نے پوری دنیا میں بھیجے گئے پانچ ہزار لائق ترین پاکستانی طلبا وطالبات کے پی ایچ ڈی سکالر شپس روک دیئے اور ان لوگوں نے اسی پر بس نہ کیا بلکہ پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرنے والے ادارے ہائر ایجوکیشن کمیشن کو صرف اس لئے توڑنے کی کوشش کی کہ پیپلز پارٹی کے اراکین قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی میں سینکڑوں لوگ ایسے تھے کہ جن کی ڈگریاں جعلی تھیں میں نے سپریم کورٹ میں تنہا یہ جنگ لڑی اور سپریم کورٹ نے آخر میں تاریخی فیصلہ جاری کیا کہ ایچ ای سی ایک وفاقی قومی ادارہ ہے اسے کوئی نہیں توڑ سکتا۔ ڈاکٹر عطاء الرحمن نے کہا کہ افسوس ناک ترین امر یہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کے وفاقی وزیر تعلیم کی بھی دونوں ڈگریاں جعلی تھیں ملائیشیا نے ڈاکٹر مہا تیر محمد کی قیادت میں آج سے تیس سال قبل تعلیم کو اپنی ترجیح قرار دیا اور اپنے بجٹ کا تیس فیصد تعلیم کے لئے مختص کر دیا یہی وجہ ہے کہ آج ملائیشیا چھپن اسلامی ممالک میں 87 فیصد ہائی ٹیک پراڈکٹ پوری دنیا میں ایکسپورٹ کرتا ہے اور باقی پچپن اسلامی ممالک بشمول پاکستان مل کر بقیہ 13 فیصد اشیاء ایکسپورٹ کرتے ہیں اسی طرح فخر امت مسلمہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان ایٹمی سائنسدان کا کہنا تھا کہ میں نے اپنی میٹرک تک کی تعلیم بھارت میں موجود اسلامی ریاست بھوپال میں حاصل کی تھی اور وہاں کامعیار تعلیم اس درجہ اعلیٰ تھا کہ ایک میٹرک کے سٹوڈنٹ کو اردو، فارسی، عربی، میتھ، کیمسٹری، فزکس اور ان سب سے بڑھ کر قرآن پاک کا ترجمہ اور سیرت النبیؐاتنے موثر اور جامع انداز میں پڑھائے جاتے تھے کہ ایک میٹرک سے فارغ التحصیل طالب علم ایک ذمہ دار شہری بن جاتا تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے کہا کہ آج یہ دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے کہ کراچی جو علم کا شہر تھا وہاں والدین اساتذہ کیساتھ مل کر بچوں کو نقل کروا کر پاس کرواتے ہیں یہ قومی خود کشی کا معاملہ ہے۔

قارئین! آزاد کشمیر کی صورتحال بھی تعلیمی لحاظ سے الا ماشاء اﷲ کچھ ایسی ہی ہے۔ محکمہ تعلیم کو سردار عبدالقیوم خان سے لے کر موجودہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید تک تمام وزرائے اعظم اور حکومتوں نے اپنے سیاسی ورکرز کو نوازنے اور نوکریاں دینے کا مرکز بنائے رکھا۔ یہ سیاسی کارکن استاد بننے کے بعد بھی استاد نہ بنے بلکہ ایسے ’’ استاد‘‘بن گئے کہ ان کی ’’استادیوں‘‘ کے نتیجے میں نقل نے فروغ پایا، اساتذہ کا مرتبہ گرا اور عرف عام میں وہ استاد جسے دیکھ کر معاشرہ اور لوگ کھڑے ہو جاتے تھے دین کی تعلیم دینے والے علمائے کرام کو ’’مولوی اور ملاں‘‘ کا لقب ملنے کی طرح اس استاد کو معاشرہ ’’ماشٹر ‘‘ کہہ کر مخاطب کرنے لگا یہ سیاسی ورکرز استاد بننے کے بعد بھی اپنے اپنے سیاسی قبلے کی طرف منہ کر کے کھڑے رہے اور ہر الیکشن میں آج بھی یہ ’’سیاسی استاد‘‘اپنے اپنے گاڈ فادر کی سیاسی مہم چلاتے ہیں اور تنخواہ محکمہ تعلیم سے وصول کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج آزاد کشمیر اور پاکستان کو اقوام عالم کی صف میں دوسری جاہل ترین قوم کے درجے پر کھڑا کر دیا گیا ہے یہاں ہم آج کے کالم کے موضوع کے پہلے لفظ کی طرف آپ کی توجہ دلائیں گے پاکستان کی طرح آزاد کشمیر میں بھی آپ کی نظروں سے سڑکوں پر گھومنے والے وہ بچے گزرتے ہونگے جو ایک گندا سا پلاسٹک کا تھیلا اٹھائے کوڑے کے ڈھیروں سے مختلف اشیاء اکٹھی کر رہے ہوتے ہیں ان بچوں میں اکثریت پٹھان بچوں کی ہوتی ہے جو قبائلی علاقہ جات، صوبہ خیبر پختونخواہ یا افغان مہاجرین سے تعلق رکھتے ہیں آزاد کشمیر میں تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک خاتون کو اﷲ تعالیٰ نے یہ اعزاز دیا کہ اس خاتون نے اپنی ذاتی آمدن سے کوڑا چننے والے ان بچوں کو مفت تعلیم دینے کا خواب دیکھا اور اس خواب کی عملی تعبیر آج ’’دیا ویلفیئر فاؤنڈیشن سکول‘‘کی شکل میں میرپور میں دکھائی دے رہی ہے اس سکول میں اس وقت گزشتہ تین سالوں سے ایک سو بچے زیر تعلیم ہیں جن کی یونیفارم، کتابیں، پک اینڈ ڈراپ اور تعلیم کا تمام خرچ دیا ویلفیئر فاؤنڈیشن اور دی گائیڈنس ہاؤس سکول اینڈ کالج سسٹم کی چیئرپرسن مسز غزالہ خان اپنی ذاتی جیب سے برداشت کرتی ہیں اسی ادارے نے رواں ہفتے پاکستان کے تعلیم وتربیت اور تحقیق کے سب سے بڑے ادارے ’’آفاق لاہور‘‘کے اشتراک سے میرپور میں 35سے زائد کالجوں اور سکولوں کے مالکان اور پرنسپلز کی تربیت کے لئے دو روزہ ورکشاپ کا اہتمام کیا اس ورکشاپ کی اختتامی تقریب کی صدارت برطانوی ہاؤس آف لارڈز کے پہلے تاحیات مسلمان رکن لارڈ نذیر احمد نے کی جبکہ مہمان خصوصی ڈاکٹر عطاء الرحمن کے لاڈلے شاگرد میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے وائس چانسلر ڈاکٹر حبیب الرحمن تھے ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے۔برطانوی ہاؤس آف لارڈز کے پہلے تاحیات مسلمان رکن لارڈ نذیر احمد نے کہا کہ برطانوی حکومت نے اس سال پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ میں دہشتگردی کا نشانہ بننے والے ہزاروں سکولوں کی تعمیر کے لئے اربوں روپے کے فنڈز مختص کئے ہیں میری ذاتی خواہش ہمیشہ سے یہی رہی ہے کہ میرپور اور آزاد کشمیر میں شفاف انداز میں کام کرنے والے مختلف نجی اور سرکاری تعلیمی اداروں سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ کو برطانیہ سے ٹریننگ دلوانے کے لئے میں اپنا کردار ادا کروں مجھے یہ دیکھ کر انتہائی خوشی ہوئی ہے کہ دی گائیڈنس ہاؤس دیا ویلفیئر فاؤنڈیشن اور پاکستان کا اساتذہ کی تربیت اور درسی کتابیں بنانے والا سب سے بڑا ادارہ آفاق مل کر مشنری بنیادوں پر اساتذہ کو تربیت دینے کی کوششیں کر رہے ہیں ۔ پاکستان اور دنیا کے تمام اسلامی ممالک اسی صورت میں ترقی کی معراج کو چھو سکتے ہیں جب وہ تعلیم کو اپنی ترجیحات میں اولیت دینگے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ پوری اسلامی دنیا کے چھپن ممالک کے مشترکہ بجٹ سے پانچ گنا زائد جاپان نے تعلیم کے لئے مختص کر رکھا ہے اور فرانس نے اس مد میں چھ گنا بجٹ رکھا ہوا ہے ملائیشیاء نے آج سے بہت عرصہ پہلے تعلیم کے لئے اپنے جی ڈی پی کا بیس فیصد سے زائد تعلیم کے لئے مختص کیا تھا پاکستان اور آزاد کشمیر میں یہ شرح کم ہو کر دو فیصد رہ جاتی ہے ہمارا ملک دنیا کا وہ بدنصیب ملک ہے جہاں کے حکمران اپنے عوام کی تعلیم پر اپنے بجٹ کا صرف دو فیصد خرچ کرتے ہیں پاکستان کی مدد کے لئے برطانیہ نے اس سال دو سو ارب سے زائد رقم تعلیم کی مد میں رکھی ہے اور خیبر پختونخواہ میں ہزاروں سال برطانوی عوام کے بجٹ کے پیسے کی مدد سے قائم کیے گئے ہیں مجھ سے میڈیا کے دوستوں کی طرف سے اکثر اوقات یہ سوال کیا جاتا ہے کہ برطانیہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کیوں کرتا ہے میڈیا کے ان دوستوں کو میرا جواب یہی ہوتا ہے کہ آپ لوگوں کو برطانیہ سے مالی امداد لینے پر تو کوئی اعتراض نہیں ہے لیکن برطانیہ کی حکومت کی اس بات پر آپ شکایت ضرور کرتے ہیں کہ برطانوی حکومت اپنی دی گئی مالی امداد کو درست جگہوں پر خرچ کرنے کے کام کی نگرانی بھی کرتی ہے تاکہ کسی قسم کی بدعنوانی کی وجہ سے برطانوی عوام کے خون پسینے کے بجٹ سے پاکستانی عوام کے لئے دی جانے والی یہ امداد ضائع نہ ہو لارڈ نذیر احمد نے کہا کہ دنیا کی وہی قومیں ترقی کرتی ہیں جو تعلیم کو اس کا درست مقام دیتی ہیں آج ملائیشیا اپنے بجٹ کا بیس فیصد تعلیم پر خرچ کرتا ہے جبکہ پاکستان میں یہ بجٹ ظاہری طور پر دو فیصد سے بھی کم ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا گریجویٹ برطانیہ جا کر اے لیول کے بچے کا مقابلہ نہیں کر سکتا اس تمام صورتحال کا تجزیہ کریں تو تمام فرق کی وجہ اساتذہ کی تربیت اور ان کی تدریسی صلاحیتوں کو بین الاقوامی معیار کے مطابق ترقی نہ دینا ہے آج امریکہ برطانیہ سمیت دنیا کے دیگر تمام ترقی یافتہ ممالک ریسرچ اور ڈویلپمنٹ کی خاطر اپنی یونیورسٹیوں کالجوں اور سکولوں پر کثیر سرمایہ خرچ کر رہے ہیں پاکستان اور آزاد کشمیر میں بھی اگر ہم واقعی ترقی دیکھنا چاہتے ہیں تو ہمیں تعلیم کو اپنی ترجیحات میں صف اول میں جگہ دینا ہو گی پاکستان اور آزاد کشمیر میں جی ڈی پی کا کم از کم پانچ فیصد تعلیم کے لئے مختص ہونا چاہیے۔ تقریب سے چیئرپرسن دیا ویلفیئر فاؤنڈیشن مسز غزالہ خان، شاہد وارثی، گلریز انصاری اور دیگر نے بھی خطاب کیا۔راقم نے بھی شرکائے تقریب کی خدمت میں کچھ باتیں پیش کیں۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے لارڈ نذیر احمد نے کہا کہ مجھے انتہائی مسرت ہوئی ہے کہ دیا ویلفیئر فاؤنڈیشن گائیڈنس ہاؤس اور پاکستان کے قابل فخر ادارے آفاق نے میرپور ڈویژن کے اساتذہ اور 35سے زائد کالجوں اور سکولوں کے مالکان اور پرنسپلز کی ٹریننگ کے لیے ایسی زبردست ورکشاپ منعقد کی ہے اس قابل تعریف کاوش پر میں چیئرپرسن دیا ویلفیئر فاؤنڈیشن مسز غزالہ خان کو سلام پیش کرتا ہوں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے مہمان خصوصی وائس چانسلر میرپور یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی ڈاکٹر حبیب الرحمن نے کہا کہ اس وقت آزاد کشمیر میں یو ایس ایڈ کے تعاون سے اساتذہ کی ٹریننگ کے لئے چار سالہ کورس متعارف کروایا گیا ہے اور امید ہے کہ کچھ عرصے بعد صورتحال بہتر ہو جائے گی۔ ڈاکٹرحبیب الرحمن نے کہا کہ لارڈ نذیر احمد کی کشمیر کی آزادی فلسطین کے بیگناہ مسلمانوں کے لئے جدوجہد اور دنیا بھر کی پسی ہوئی اقوام کے لئے عالمی برادری میں آواز بلند کرنا پوری کشمیری قوم کے لئے لائق فخر ہے لارڈ نذیر احمد کشمیر کا بہت بڑا اثاثہ ہیں اور پوری کشمیری قوم ان کی تمام مثبت کوششوں پر انہیں سلام پیش کرتی ہے ڈاکٹر حبیب الرحمن نے کہا کہ اساتذ ہ کو تربیت دیئے بغیر ہم بہتر نتائج کی امید نہیں رکھ سکتے مسز غزالہ خان نے دیا ویلفیئر فاؤنڈیشن اور آفاق کے انتظام سے جس کام کا آغاز کیا ہے مسٹ کا وائس چانسلر ہونے کی حیثیت سے میں ان کی بھرپور مدد کا اعلان کرتا ہوں۔

قارئین!جو کچھ بھی وطن عزیز میں ہو رہا ہے کچھ ٹھیک نہیں ہو رہا اور بہت کچھ درست کرنے کی ضرورت ہے ہمارے محسن اور ایک انتہائی قریبی دوست سٹی فورم میرپور کے چیئرمین ڈاکٹر سی ایم حنیف اکثر اوقات یہ بات دہرایا کرتے ہیں کہ اگر ہم اپنی قوم اور اپنے ملک کی تقدیر بدلنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی کمائی کا زیادہ سے زیادہ حصہ تعلیم پر خرچ کرنا ہو گا اس حوالے سے ڈاکٹر سی ایم حنیف ایک ماسٹر پلان تیار کر رہے ہیں جس کے مطابق وہ پی ایچ ڈی کرنے والے طلبا وطالبات کو سکالر شپ دینا چاہتے ہیں یاد رہے پاکستان میں سب سے زیادہ پی ایچ ڈی سکالرز ہر سال پیدا کرنے والے ادارے ابراہیم جمال انسٹی ٹیوٹ آف کیمیکل سائنسز کے بانی ڈاکٹر سلیم الزمان صدیقی مرحوم کو پی ایچ ڈی سکالر شپ دے کر حکیم اجمل خان مرحوم قرشی دوا خانہ والے نے ہی جرمنی بھیجا تھا آج اس ادارے میں جرمنی سے سینکڑوں سٹوڈنٹس پی ایچ ڈی کرنے کراچی پاکستان آتے ہیں بقول چچا غالب ہم یہ کہتے چلیں
آئینہ کیوں نہ دوں کہ تماشا کہیں جسے
ایسا کہاں سے لاؤں کہ تجھ سا کہیں جسے
حسرت نے لا رکھا تری بزمِ خیال میں
گلدستۂ نگاہِ سویدا کہیں جسے
پھونکا ہے کس نے گوشِ محبت میں اے خدا
افسونِ انتظار، تمنا کہیں جسے
سرپر ہجومِ دردِ غریبی سے ڈالیے
وہ ایک مشتِ خاک کہ صحرا کہیں جسے
ہے جشمِ تر میں حسرتِ دیدار سے نہاں
شوقِ عناں گیختہ دریا کہیں جسے
غالب برا نہ مان جو واعظ برا کہے
ایسا بھی کوئی ہے کہ سب اچھا کہیں جسے

قارئین! ایک وہ لوگ ہیں کہ جنہیں تصویر بنا آتی ہے اور ایک ہم ہیں کہ جنہوں نے اپنی اچھی خاصی صورت کو خود ہی بگاڑ کر رکھ دیا ہے ہمیں ڈاکٹر عطاء الرحمن، ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ان جیسے بے لوث محسنوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے اور استفادہ کرنا چاہیے۔ دیا ویلفیئر فاؤنڈیشن اور مسز غزالہ خان نے آزاد کشمیر میں اپنے عمل کے ذریعے سب کو راستہ دکھا دیا ہے یہ ادارے نہ تو بھیک مانگتے ہیں اور نہ ہی دستِ سوال بن کر ایک کشکول کی شکل میں کام کر رہے ہیں بلکہ یہ لوگ چپ چاپ انتہائی خلوص کے ساتھ غریب ترین کام کرنے والے بچوں کو علم کی روشنی دے رہے ہیں آگے بڑھیے اور ان اداروں کے دست وبازو بن کر انہیں مضبوط کیجئے یہی آج کی آواز ہے۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
استاد نے شاگرد کو کرکٹ میچ پر مضمون لکھنے کا ہوم ورک دیا بچہ بہت سست اور کام چور تھا اس لیے استاد نے بچے کو انعام کا لالچ بھی دیااگلے ہی روز بچے نے استاد کو بتایا میں نے مضمون لکھ لیا ہے۔ استاد نے کاپی کھولی تو صفحے پر لکھا تھا
’’عنوان کرکٹ میچ‘‘
اور مزید نیچے کچھ لائنز چھوڑ کر تحریر تھا
’’بارش کی وجہ سے میچ نہ ہو سکا ‘‘

قارئین! ہماری سیاسی قیادت بھی تعلیمی میچ کا عنوان تو لکھ دیتی ہے لیکن مضمون میں ’’مختلف بارشیں‘‘حائل ہو جاتی ہیں اور تعلیمی میچ شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جاتا ہے ہمیں شرم آرہی ہے کہ ہم دنیا کی دوسری جاہل ترین قوم ہیں اگر آپ کو بھی شرم آرہی ہے تو خدارا جاگیے اور اپنی تقدیر بدلنے کے لئے کچھ عمل کیجئے دیا ویلفیئر فاؤنڈیشن سکول اور مسز غزالہ خان اسی بیداری اور عمل کو خود شروع کرنے کی زندہ مثالیں ہیں بقول علامہ اقبالؒ
’’اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے‘‘
Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 374325 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More