ہمیں تو بس طالبان چاہیے

پچھلے دنوں ایک جلسہ سیرت میں شرکت کا موقعہ ملا ۔اگر آپ کے برابر میں کوئی ایسے دوست بیٹھے ہوں جو خود جلسہ سنیں نہ دوسروں کو سننے دیں اور دوران جلسہ اپنی ہی بات سناتے جائیں تو آپ کے دونوں کانوں کے ساتھ آپ کی قوت سماعت کی بھی آزمائش ہوتی رہتی ہے۔میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا کہ ایک دوست کو میں نے خود ایک اہم بات کہنے کے لیے بلایا ۔میں اپنی بات تو کہہ چکا لیکن جب ان کی بات شروع ہوئی تو مولانا صاحب کی سیرت پر پوری تقریر ختم ہوگئی ، لیکن ان کی باتیں ختم نہیں ہوئیں ۔میری کیفیت یہ تھی کہ کبھی ایک کان سے ان کی بات سنتااور ہاں۔ہوں،کہتا رہتا ،کبھی کبھی دو چار الفاظ یا کوئی مختصر جملہ بھی آہستہ سے بول دیتا کہ کہیں وہ یہ نہ سمجھیں کہ یہ ہماری بات پر توجہ ہی نہیں دے رہے ،لیکن دل اور کان مولانا صاحب کی تقریر میں بھی لگے ہوئے تھے ۔دونوں کانوں سے دونوں کی باتوں کے نتیجہ میں ہماری سوچ کی لہریں بھی متاثر ہو رہی تھیں ۔ایک طرف تو اسٹیج سے پروفیسر اقبال عظیم کی یہ خوبصورت نعت سنائی جارہی تھی کہ"کیا خبر کیا سزا مجھ کو ملتی ،میرے آقا نے عزت بچالی ۔لے کے فرد عصیاں میری دامن میں اپنے چھپالی

دوسری طرف وہ دوست کان میں کہہ رہے ہیں کہ جاوید بھائی کہ آج۔۔۔۔اگر آج اس ملک میں آزادانہ اور دیانتدارانہ انتخابات ہو جائیں اور طالبان کو حصہ لینے کا موقعہ ملے تو میں آپ کو یقین سے کہتا ہوں ۔۔۔وہ جس طرح لفظ پہ زور دے کر تیقن کے ساتھ بات کر رہے تھے ،تحریر میں اس کی ترجمانی مشکل ہے کہ پھر کہا کہ میں شرطیہ یقین سے کہتا ہوں کہ طالبان بہت بھاری اکثریت سے کامیاب ہو جائیں گے۔اسٹیج پر نعت ختم ہو چکی تھی اور اسٹیج سکریٹری نے مولانا صاحب کو تقریر کے لیے بلا لیا تھا ۔ادھر میں نے اپنے دوست سے کہا آپ نے جو بات کی ہے وہ ایک لحاظ سے تو صحیح ہے لیکن۔۔۔۔۔۔ابھی میں بات آگے بڑھاتا وہ فوراَ میری بات کا ٹ کر بولے آ پ کو کیا بتاؤں کہ لوگ کتنے پریشان ہیں وہ ہر سیاسی جماعت سے مایوس ہو چکے ہیں ۔میں اپنی بات شروع کرنے والا تھا کہ مولانا صاحب تلاوت کے بعداپنی تقریر شروع کیا تو وہ درود شریف کے حوالے سے بتا رہے تھے کہ عمر میں ایک مرتبہ پڑھنا فرض ہے ،سال میں ایک دفعہ واجب ہے اور آپﷺ کا جب نام آئے تو پڑھنا مستحب ہے ۔اﷲ تعالیٰ ہم سب کو مستحب ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔میں درود شریف پڑھ کے اپنے دوست کی طرف متوجہ ہوا اس درمیان میں وہ پتا نہیں کیا کیا کہہ گئے ۔میں نے آہستہ سے ان کے کان میں کہا کہ طالبان نے خود کو کتنا بدنام کیا ہے یہ لوگوں کے گلے کاٹتے ہیں ،خود کش اور ریموٹ بم دھماکوں سے بے گناہوں چیتھڑے اڑا دیتے ہیں۔پھر بھی۔۔۔۔۔انھوں نے کہا یہ سب ٹھیک ہے بلا شبہ اس میں طالبان کی مجرمانہ حماقتیں بھی ہیں ملک میں سارے دھماکے اور کارروائیاں چاہے دوسرے گروپ ہی کیوں نہ کرتے ہوں لیکن طالبان ہر ایک کو خود اون کرتی رہی ہے جس سے ایک طرح کی ان کے خلاف نفرت پیدا ہوئی ہے ،لیکن اس کے باوجود لوگ چاہتے ہیں طالبان اس ملک میں آجائیں۔انھوں نے ایک واقعہ بتایا میں اپنی بائیک پر سگنل پر رکا برابر میں ایک اور بائیک آکر رکی بائیک پچھلی سیٹ پر ایک صاحب بیٹھے ہوئے تھے جو آپس میں باتیں کر رہے تھے ۔ایک صاحب مایوسی کے انداز میں کہہ رہے تھے کہ دیکھو یار اتنے سے کام کرنے کے وہ کتنی بھاری رشوت مانگ رہا ہے ،دوسرے نے کہا بس بھئی اس ملک میں تو طالبان کو آنا چاہیے جب رشوت خوروں قاتلوں اور بھتہ خوروں کی لاشیں کھمبوں سے لٹکائی جائیں گی تو تب لوگ کچھ سدھریں گے۔ویسے ہی دیکھو کتنے روز بے گناہ لوگ مر رہے ہیں اگر ہزار پانچ سو ٹارگٹ کلروں ،اور دھماکا کرنے والوں کو چاہے وہ کتنے ہی با اثر کیوں نہ ہوں سرسری سماعت کی عدالتیں بناکر پھانسی پر لٹکا دیا جائے تو بہت حد تک سکون ہو جائے گا۔لوگ مہنگائی کے بوجھ تلے کراہ رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔اس بڑھیا سے اپنا بوجھ اٹھایا نہیں جا رہا تھا ،وہ ہر ایک کی منت سماجت کررہی تھی اب میری توجہ مولانا کی طرف ہو گئی تھی جو مکہ کی ایک بوڑھی خاتون کا واقعہ بتا رہے تھے جو اپنے گھر کاسارا سامان لے کر شہر سے باہر جانا چاہتی تھی کوئی اس کی مدد کو نہیں آرہا تھا اتنے میں آپﷺ ااگے بڑھے اور اس بوڑھی خاتون سے پوچھا کے آپ کو کہاں جانا ہے اس نے کہا مجھے شہر سے باہر جانا ہے سامان کابوجھ مجھ سے اٹھایا نہیں جارہا ہے اور کوئی مدد کو بھی نہیں آرہا ۔آپﷺ نے کہا لایے میں آپ کا سامان لے چلتا ہوں ،یہ کہہ کر آپ ﷺ نے ان کا سامان اٹھا لیا راستے میں آپﷺ نے اس بوڑھی خاتون سے پوچھا کہ اس میں کیا ہے اور آپ کہاں اور کیوں جارہی ہیں ۔ اس خاتون نے جواب دیا کہ میں نے سنا ہے کہ مکہ میں کوئی ایک شخص ہے جو کوئی نیا دین لے کر آیا ہے اور جو کوئی اس سے ملتا ہے وہ اپنے دین کو چھوڑکر اس کا دین اختیار کر لیتا ہے بس میں اپنا دین بچانے کی خاطر اپنا سامان باندھ کر شہر سے باہر جارہی ہوں ۔جب ایک جگہ پہنچ کر سامان رکھ دیا تو اس خاتون نے کہا اے نو جوان تم تو بتاؤ کے تم کون ہو کہاں سے آئے ہو ۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں وہی محمد ہوں جس کے بارے میں آپ کو یہ باتیں بتائی گئیں ہیں ۔یہ سننا تھا کہ وہ خاتون بولیں کہ اگر تم وہی ہو تو میں تمھارے اس دین پر ایمان لاتی ہوں اور اس طرح وہ مسلمان ہو گئیں۔اپنے دوست کی کھسر پھسراور مولانا صاحب کی تقریر سے ہٹ کر اس سوچ میں پڑ گیا کہ اخلاق کے زور پر ذہنوں کو متاثر کرنا چاہیے یا بندوق کی نوک پر۔مورال پوائنٹ پر تبدیلی لانا چاہیے یا گن پوائنٹ پر ۔سنت نبوی ﷺ کیا ہے کہ آپﷺ نے اپنے اخلاق سے دلوں کو مسخر کیا تھا ۔میں نے اپنے دوست سے کہا یار کچھ بھی ہو گن پوائنٹ پر تبدیلی نہیں آسکتی اور اگر آئے گی بھی تووہ پائدار نہیں ہوگی ،انھوں نے جواب دیا کہ ایسی بات نہیں ہے افغانستان میں یہی طالبان تھے جو شمالی اتحاد سے جنگ کرکے برسراقتدار آئے تھے وہ بات الگ ہے کہ انھیں پاکستان اور امریکا کی حمایت حاصل تھی ،لیکن جب وہ آگئے تو انھوں نے اپنے یہاں شریعت نافذ کی تھی اور بہت جلد پورے افغانستان میں امن قائم ہو گیا تھا ،پوست کی کاشت پر پابندی لگادی گئی تھی مجرموں کو فوری سزائیں دے کر مظلوموں کی دادرسی کی جارہی تھی ۔ایک مظلوم یتیم لڑکا خانہ کعبہ میں قریش کے سرداروں کے پاس آیا اور کہا کے ابو جہل نے میرا مال رکھ لیا ہے اور وہ مجھے دے نہیں رہا ہے آپ لوگ اس سے میرا مال واپس دلادیں ۔ (ایک دفعہ پھر میری توجہ مولانا صاحب کی تقریر کی طرف ہو گئی )قریش کے سرداروں نے شرارت کے طور پر نبی اکرمﷺ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس لڑکے سے کہا کے ان کے پاس چلے جاؤ وہ ابو جہل سے تمھارا مال واپس دلادیں گے۔آپﷺ اٹھے اور اس بچے کو ساتھ لے کر ابو جہل کی طرف چل دیے ادھر قریش کے سردار دیکھ رہے تھے کہ دیکھیں اب کیا ہوتاہے ۔آپﷺ نے ابو جہل کو آواز دے کر بلایا وہ باہر آیا تو اس سے آپﷺ نے کہا کہ اس بچے کا مال لاکر واپس کردو،وہ خاموشی سے اندر گیا اور اس کا سامان لا کر دے دیا ۔مظلوم کو اس کا حق دلانے کی ایک مثال یہ بھی ہے اور ایک مثال وہ ہے ہم قائم کر رہے ہیں۔میں پھر اپنے دوست کے دلائل کی طرف متوجہ ہوا اور سلسلہ تکلم اسی جگہ جوڑتے ہوئے کہا یہ آپ کی بات تو ٹھیک ہے ،لیکن پھر ہوا کیا کہ طاقت کے زور پر یہ تبدیلی پائدار تو ثابت نہ ہو سکی اور بہت جلد ہی طالبان کی حکومت کو ختم کردیا گیا۔اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ عوامی تائید کے بغیر کوئی بھی مصنوعی تبدیلی چاہے وہ بندوق کے زور پر ہی کیوں نہ ہو عارضی تبدیلی ہو گی۔انھوں کہا کہ اگر ایسی بات ہے تو پھر بتایے کہ الجزائر میں اسلامک سالویشن فرنٹ کے ساتھ کیاہوا وہ بھی تو عوامی تائید سے کامیاب ہوئے تھے ۔حماس بھی تو بھاری اکثریت سے جیتی تھی ،اس کے خلاف کیوں کارروائی کی گئی ،اور اب مصر میں اخوان کے ساتھ کیا ہورہاہے مصر کی فوجی حکومت مصر کے ان ووٹروں کا غصہ جنھوں نے اخوان کو ووٹ دیا تھا اخوان کے کارکنوں کے اوپر ٹینک چڑھا کر نکال رہی ہے ،ہزاروں افراد کو جس میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں آن واحد میں شہید کردیا گیا ۔اب مجھے اپنے دلائل کمزور محسوس ہونے لگے ،اسی لمحے مجھے مولانا فضل الرحمن کی ایک تقریر یاد آنے لگی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ جو لوگ آج یہ الزام لگاتے ہیں کچھ لوگ بندوق کی نوک پر شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں وہ یہ بتائیں کہ پچھلے 66سال سے جب ان کے پاس پارلیمنٹ،عدلیہ ،مقننہ،فوج سب کچھ موجود تھا تو انھوں نے شریعت کے لیے کیا کچھ کیا،ہم ڈنڈے کے زور پر شریعت نافذ کرنے کے ہامی نہیں ہیں لیکن ہمیں معاملات کو اس حد تک جانے کی وجوہات پر ضرور غور کرنا چاہیے۔میں نے اپنے دوست سے کہا کہ آپ کی باتوں وزن ہے لیکن وژن کی کمی محسوس ہوتی ہے کہ ڈنڈا بردار شریعت سے تو صورتحال اور بگڑجائے گی ۔انھوں کہا ایسی بات نہیں ہے جاوید بھائی اس وقت لوگ اتنے پریشان ہیں کہ انھیں شریعت سے زیادہ ڈنڈے سے دلچسپی ہے کہ کوئی ایسی حکومت آئے جو اس ملک کے لٹیروں، بدمعاشوں، قاتلوں، اغواکاروں، مختلف قسم کی مافیاؤں کو اور عوام کا خون چوسنے اورپینے والوں کو سرسری سماعت کی عدالتوں سے سزا دلوا کر انھیں پھانسی دے کر ان کی لاشوں کو کھمبوں سے لٹکائے اور ملک میں انصاف کا نظام قائم کرے ،دیکھیے غضب خدا کا کہ عوامی خدمت والے ادارے کراچی الیکٹرک اور سوئی گیس نے بھی عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑ دیے ہیں اگر آپ کا بجلی کا بل زیادہ آگیا تو کہا جائے گا کہ پہلے اسے بھردو پھر شکایت سنی جائے گی ۔اگر معمول کے بل اوسطاَ2000=/ماہانہ کے آتے ہیں اور کسی ماہ 10000=/کا آجائے تو لامحالہ آپ شکایت کریں گے اس شکایت کا نتیجہ یہ ہو گا کہ کچھ دن کے بعد آپ کو 50000=/کا بل ملے گا،اور لکھا ہو گا کہ ہم نے آپ کا میٹر چیک کیا یہ دو سال سے خراب ہے اسلیے یہ آپ کے میٹر کے فرق کا بیلنس بل ہے اسی طرح ایسا لگتا ہے سوئی گیس والے صارفین پر ظلم کے معاملے میں بجلی والوں سے آگے نکلنا چاہتے ہیں۔پہلی بات تو یہ کہ وہ گیس سکیورٹی کے نام پر صارفین کو لوٹ رہے ہیں اور ہر ایک کے ساتھ بل میں ایک رقم لکھی ہوئی آرہی ہے جو چھ ماہ تک وصول کی جائے گی۔ جب کے ان کے پاس پہلے کے گیس سکیوریٹی کے اربوں روپئے جو موجود ہیں ان کا کوئی حساب دیا اور نہ کوئی حساب مانگنے والا ہے ۔پھر ان دونوں اداروں نے سلیب سسٹم کی بنیاد پر بلنگ میں دھاندلی کی اعلیٰ مثال قائم کے ہے جس کے ذریعے یہ محکمے صارفین سے اربوں روپئے ماہانہ وصول کررہے ہیں ۔جاوید بھائی آپ کس کس کو روئیں گے یقین جانیے طالبان کے اس سارے ظلم کے باوجود لوگ یہی کہتے ہیں کہ "ہمیں تو بس طالبان چاہیے"۔جلسہ سیرت ختم ہو چکا تھا اور مولانا صاحب دعائیں مانگ رہے تھے،ہم آمین کہہ رہے تھے ان کی دعاؤں میں ایک دعا یہ بھی تھی کہ اے اﷲ تو اس ملک کے لوگوں کو اس بات کی توفیق دے کہ وہ ایسے لوگوں کو ووٹ دے کر کامیاب بنائیں جو تیری شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں۔آمین
Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 80 Articles with 50333 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.