مغرب اور ہم

جغرافیائی اور علاقائی لحاظ سے دنیا بھر کے ممالک مختلف بلاکس یا ٹکڑوں میں تقسیم ہیں۔ اس جغرافیا ئی حلقہ بندی کی اہمیت اپنی جگہ مسلم، مگرحقیقت یہ ہے آج دنیا فقط دو بلاکس میں تقسیم ہے۔۔۔۔مسلمان ممالک اور غیر مسلمان ممالک۔ خاص طور پر9/11 کے بعد یہ تقسیم مزید نمایاں ہو گئی ۔ اس واقعہ کے بعد خواہ یہودی ہوں، عیسائی یا ہندو، سب کی جارحیت کا رخ مسلمانوں کی طرف مڑ گیا۔ مسلمانوں کے معاشی، سیاسی اور مذہبی استحصال کے حوالے سے واقعات آئے روزرونما ہونے لگے۔ اسلام مخالف پروپیگنڈا ہو یاعراق ، افغانستان سمیت دیگر مسلم ممالک میں ہونے والے مظالم ،مغرب کی نام نہاد غیر جانبداری ، انصاف پسندی اور حق گوئی کا علمبردار ہونے کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے ۔

درحقیقت یہ مسلمانوں کی اپنی کمزوری ہے کہ ۴۹ ممالک کی کثیر تعداد میں ہونے کے باوجودوہ کبھی بھی دنیا کو اپنی قوت باور کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔مسلمان ممالک کے مابین پائے جانے والے جھگڑے ان کے اتحاد اور ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے رہے۔آج بھی وہ اسلام کی بنیادی روح کو فراموش کیے فقہی و فروعی مسائل اور دیگر تنازعات میں الجھے انتشار کا شکار ہیں ۔ماضی میں غیر مسلموں کی جانب سے توہین آمیز خاکوں کی اشاعت اور قرآن کریم کی شہادت جیسے توہین آمیز واقعات سامنے آنے پر بھی کوئی متفقہ حکمت عملی اختیار کرنا تو دور کی بات، مسلمان ممالک عالمی سطح پر منظم اور مشترکہ احتجاج تک ریکارڈ کروا نے سے قاصر رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے بعد دنیا کے سب سے زیادہ ممالک کی نمائندہ جماعت OIC جیسے پلیٹ فارم کو بھی موثر طور پر استعمال نہیں کیا گیا۔آج بھی وقتا فوقتا مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح کرنے کے اقدامات سامنے آتے رہتے ہیں۔ مگر ۴۹ ممالک آج تک دنیا کو کسی قانون سازی کے لئے مجبور نہیں کر سکے۔ ہر بار مسلمانوں کی طرف سے چند روز واویلا کرنے کے بعد معاملہ ختم کر دیا جاتا ہے۔ کسی منظم اور با قیادت احتجا ج کی بجائے اشتعال کی راہ اپنائی جاتی ہے۔ جس کا نتیجہ اپنی ہی املاک کی توڑ پھوڑ، جلاؤ گھیراؤ اور اپنے ہی ہم وطنوں کی ماردھاڑ اور ہلاکت کی صورت میں سامنے آتا ہے۔نتیجتا مظلوم ہونے کے باوجود ہمیں مغربی زرائع ابلاغ میں انتہا پسندبنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ ابھی حال ہی میں سامنے آنے والی گستاخانہ فلم پر بھی ہمارا طرز عمل یہی رہا اور ہم عالمی سطح پراپنا مشترکہ احتجاج ریکارڈ کروانے میں ناکام رہے۔کہیں امریکی سفیر کو ہلاک کر کے غیر سفارتی حرکت کے مرتکب ہوئے اور کہیں یوم عشق رسول کے نام پر اپنی ہی معیشت کو سوا کھرب کے نقصان کا باعث بنے۔

مسلمانوں کا یہی بے حکمت طرز عمل اور باہمی انتشار مذہبی استحصال کے ساتھ ساتھ انکے معاشی استحصال کا باعث بھی ہے ۔ مغرب اپنے سرمایہ درانہ نظام کے ذریعے پوری دنیا کے تقریبا تمام مسلمان ممالک کو اپنا محکوم بنائے ہوئے ہے۔ مسلمان ممالک تمام قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں۔مگر اپنی کمزوریوں کے باعث مغرب پر انحصار کئے، اسکے دست نگر بنے بیٹھے ہیں ۔ دنیا کے ۷۰ فیصد تیل کے ذخائر مسلم دنیا میں موجودہیں ۔ فقط عراق کے تیل کے ذخائر امریکہ سے پانچ گنا زیادہ ہیں۔۴۹ فیصد قدرتی گیس ہویا ۲۷ فیصد یورینیم کی پیداواری صلاحیت ، یہ سب مسلمان ممالک کی سر زمین پر پائے جانے والے بیش بہا خزانے ہیں۔ ۱۹۹۹ میں سعودی عرب نے خام تیل اور پٹرولیم مصنوعات پر 43.2بلین ڈالر کا ریونیو اکٹھا کر کے دنیا کو حیران کر دیا تھا۔۱۹۹۶ میں اسلامی ترقیاتی بنک نے ایک دلچسپ رپورٹ شائع کی جس کے مطابق اس کے ممبر مسلمان ممالک مغرب کے 618.8 بلین ڈالر کے مقروض تھے۔ جبکہ اس وقت بھی مغربی بینکوں میں مسلمانوں کے تقریبا ایک ہزار بلین ڈالرکے اثاثے موجود تھے ۔ یہ صورتحال اب بھی کم و بیش یونہی ہے۔ یعنی یہ مسلمان ممالک کا ہی پیسہ ہے جو مغربی ممالک انہیں اپنی شرائط پر بھیک کی طرح قرض دیتے ہیں اور بعد میں کئی گنا سود کے ساتھ وصول کرتے ہیں ۔ ساتھ ہی ساتھ ان ملکوں کی سیاست میں دخیل ہو کر معاشی پالیسیوں پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ اگر یہ ۴۹ ممالک اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے باہمی اشتراک عمل اختیار کریں تو دنیا کی سب سے بڑی مقروض معیشت ہونے کے باوجود سپر پاوربنا امریکہ بھی ان کے سامنے کمزور نظر آنے لگے۔ فقط باہمی تجارت ، لین دین،ا مداد کی فراہمی اور قر ضوں کا نظام وضع کرلیا جائے تویہ ممالک نا صرف مغرب کے سر مایہ دارانہ نظام کو بری طرح متاثر کر کے اس کی اجارہ داری ختم کرنے کا باعث بن سکتے ہیں بلکہ دنیا کی سب سے مضبوط معیشت بن کر ابھر سکتے ہیں۔

تمام اہم ہوائی ، سمندری اور زمینی راستے بھی مسلمان ممالک کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ مگر یہ ممالک امریکہ کی فوجی چھاونیاں بنے بیٹھے ہیں اورانکے عسکری وسائل سپر پاور کے مذموم مقاصد کے لئے استعمال ہوتے ہیں۔حالانکہ ۴۹ مسلمان ممالک بیرونی جارحیت کے خلاف مشترکہ دفاعی اور عسکری نظام وضع کر کے خود کو مضبوط بنا سکتے ہیں۔ قدرتی وسائل اور دولت کے ساتھ ساتھ مسلمان ممالک میں افرادی قوت کی بھی کمی نہیں۔ان ممالک میں نوجوان آبادی کا تناسب یورپ اور دیگر ملکوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔مگر مسلم دنیا تعلیمی لحاظ سے بے حد پسماندہ ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ آج دنیا کی پانچ سو بڑی جامعات میں سے ایک بھی ہماری میراث نہیں ۔تعلیمی میدان میں سرمایہ کاری کر کے اور مسلم نوجوانوں کو تعلیم کی جانب راغب اور ٹیکنالوجی سے آشنا کر کے مسلمان ممالک اپنا مستقبل محفوظ کر سکتے ہیں۔ جیسا کہ چین نے کیا اور آج چین کی ترقی ہمارے سامنے ہے۔

آج مغربی دنیا اپنے زرائع ابلاغ پرسالانہ کئی ملین ڈالر مسلمانوں اور اسلام کا برا تصور پیش کرنے کے لئے خرچ کرتا ہے ۔ اس کے باوجود اسلام دنیا بھر میں اور خاص طور پر امریکہ میں سب سے تیزی سے پھیلنے والا مذہب ہے۔ یہ مسلمانوں کی قوت نہیں تو اور کیا ہے کہ نہتے کشمیری ہوں یا مفلوک الحال طالبان یا پتھروں سے اسرائیل کے جدید اسلحے کا مقابلہ کرتے فلسطینی،کئی سالوں سے سپر پاور اور اس کے گماشتوں کے سامنے ڈٹے انہیں پسپائی پر مجبور کئے ہوئے ہیں۔

آج بھی مسلمان ممالک بطور قوم اپنی تمام تر صلاحیتوں اور وسائل کو بروئے کارلا کر مغرب کے استحصال اور اجارہ داری سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ یہ ممالک نہ صرف خود کو بطور مسلمان بہترین قوم ثابت کر سکتے ہیں بلکہ ماضی کی طرح ایک بار پھر پوری دنیا پر حکومت کر سکتے ہیں مگر اس کے لیے ا نہیں ا پنی باہمی کمزوریوں اور عداوتوں پر قابو پا کر باہمی اتحاد اور تعاون کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔
Lubna Zaheer
About the Author: Lubna Zaheer Read More Articles by Lubna Zaheer: 40 Articles with 25575 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.