قرآن و سنت کی تعلیم اور مغر بی یلغار

خود بدلتے نہیں، قرآں بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقہیان حرم بے توفیق؟
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب!
کہ سکھاتی نہیں مومن کوغلامی کے طریق؟

مسلمان بحثیت مجموعی اس ا ہم حقیقت کو فراموش کر چکے ہیں کہ اسلام محض ایک مہذب نہیں دین ہے جو پورے نظامِ اجتماعی ہر اپنا غلبہ و اقتدر چاہتا ہے۔ اِقوام مغرب کی غلامی نے ہمیں اس درجے پست ہمت اور کوتاہِ فکر بنا دیا کہ ہم اپنے ذاتی،نماز، روذے،پر ہی قانع ہو کر رہ گے ہیں اور اسی کو کل اسلام سمجھ بیٹھے ہیں(تکبیرِرب)جیسے ولولہ انگیز انقلابی تصور کو تسبیح وؤظا ٰئف تک محدود کر دیا (بقول قلندرِ لاہور) جو بڑے زوردار انداز میں دین ومذ ہب کے اس محدو د تصور پر ضرب لگاتے ہیں جو نہا یت دلنشین پیرائے میں دین کی عکاسی کرتا ہے
یاوسعت ِافلاک میں تکبیرِمسلسل،یا خاک کے آغوش میں تسبیح و مناجات
وہ مذ ہب مردانِ خود آگاہ وخدا مست،یہ مذہب ملاّو جماداتِ،نباتات

حاکمِ حقیقی صرف اللّہ تعالیٰ ہی کی ذاتِ مقّدس ہے جو رب الّعالمین ہے۔لہٰذا حکم اور اختیار کا سزا وار بھی وہ ہی ہے جیسا کہ قرآن کا فرمان ہے،ترجمہ:دیکھو!سب مخلوق بھی اسی کی ہے اور حکم بھی اسی کا ہے‘‘الا عراف(54) ’’اللّہ جیسا چاہتا ہے حکم دیتا ہے‘‘المائدہ،10)
’’حکم(یعنی فیصلہ سنانا اور قانون) بنانا اللّہ کے اختیار میں ہے․وہ حق بات بیان فرماتاہے اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنیوالا ہے․‘‘(الانعام
(57ا للّہ کے سوا کسی کی حکومت نہیں ہے․اس نے ارشاد فرمایا ہے کہ اسکے سوا کسی کی عبادت نہ کرو‘‘(یوسف(40)

محترم قار ئین!جب حاکم صرف اللّہ ہی ذات ہے تو پھر اسلامی جمہوریہِ پاکستان کی پارلیمنٹ میں قانون سازی قرآن و سنت کے مطابق ہی ہونی چاہیے ․عدالتوں کو اپنا کام اِسی حکمِ متین کے مطابق آزادی سے کرنے دینا چاہیے کوئی حکومتی رغنہ اندازی آڑے نہیں آنا چاہیے․ کیونکہ یہ اسلامی جمہوریہ ہے کوئی کمیونسٹ یا سیکولرازم نظام ماننے والوں کا ملک نہیں اِسی لحا ظ سے اللّہ کا مسلما نوں سے یہی تقاضا ہے
’’اور تم جس بات میں اختلاف کرتے ہو اسکا فیصلہ اللّہ کی طرف لوٹایا جائے گا(شوریٰ10 ( جب اللّہ کے دین کی بات کی جا تی ہے تو ہمارے ناقدین کہتے ہیں فلاں ملک کیا کر رہا ہے․وہ سیکولرازم، کمیونزم طرز کا ہے وہ تو سرے عام بدکاری کرنے،ڈانس پارٹیاں رکھنے یا ان کا انعقاد کرنے پر کچھ نہیں کہتے تو جناب وہ اسلامی جمہوریہ بھی نہیں کہلاتے․اگر آپ اسلام کی اساس پر قائم ہوئے ہوتو پھر قانون بھی دین کے خالِقِ وحد کا نافذ ہونا چاہیے۔تو پھر رنگ سیکولر،یا کیمونسٹ کیوں؟ ترجمہ اور جو اللّہ کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دیں تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں‘‘(المائدہ 48) اس کی پچھلی دو ،تین آیات اِسی بات پر زور دیتی ہیں ان واضع احکامات کے برخلاف اس اسلامی جمہوریہ میں بے شمار قوانین بنائے اور نافذ کریے کی بہودہ ترکیبیں لائی جاتی رہی جس کی چیدہ مثال تو حقوقِ نسواں بل میں بھی موجود ہے جو احکامِ خداوندی کی کھلی اور واضح گستا خی اور پاکستان کی بنیادی تعمیری اساس کی توہین ہے۔مغربی یلغار بھی اس قدر ہمارے اندر رِس گئی ہے ۔اب تو مغربیِ ذرائع ابلاغ میں یہ بات باقاعدہ موضوع ہے کہ مسلم ممالک میں عورت کو قیدِ حبس بے جامیں رکھا ہوا ہے ․ عورت کو مردوں کے برابر حقوق نہیں دیے جاتے اور خود مغربیِ معاشرے میں سب سے زیادہ قابلِ رحم عورت ہے․اس بیچاری کو جس بری طرح بے وقوف بنا کر اسکے ساتھ جو فراڈ کھیلا گیا ہے اسکا اندازہ آپ میں بہت سوں کو ہو گامگر اب تو اسکی زاروزبوں حالت پہلے سے کہیں زیادہ واضح ہو گئی ہے کہنے کو تو یہ کہا گیاکہ ہم عورتوں کو مردوں کے دوش بدوش لانا چاہتے ہیں لیکن!عملاً ہوا یہ کہ معاشرے میں جتنے نچلے درجے کے کام ہیں وہ تمام تر نہ سہی تو بیشتر ضرور عورت کے حوالے ہیں،اس زبوں حالی کااندازہ بھی بڑا عجیب ہے کہ ہوٹلوں میں مردوں کی جگہ عورت سارے فرائض سر انجام دیتی ہے۔سودا بیچنے کا کام،ہوٹلوں کے ڈیسک پر،جہاز کا پائیلٹ یا کیپٹن تو مرد ہو گا لیکن مسافروں کی خدمت عورتیں کریں گئی․دنیا کی کسی چیز کا اشتہار عورت کے بغیر نا ممکن سا ہے․اِسی پر اکتفا نہیں ہوتا باہر تو باہر گھر کا سارا کام بھی عورت سے ہی لیا جاتا ہے یہ نہیں کہ چلو باہر کام کرتی ہے اس کو (اسکے اصل کام امورِخانہ داری) سے رخصت مل جائے نا یہ سب بھی عورت ہی کرے گئی۔

خلاصہ یہ ہے کہ مغربیِ لوگ عورت سے قدم قدم پر لطف اندوز بھی ہونا چاہتے ہیں․اسکے ذریعے اپنی تجارت بھی چمکانا چاہتا ہے،لیکن کوئی اس کی ذمہ داری اٹھانے کیلئے کوئی تیار نہیں اور اس خود غرضا نہ مشن بالا کو جوازِسند دینے کیلئے اس کا نام(تحریکِ آزادیِ نسواں) دے کر بل پاس کرارکھا ہے۔ دعویٰ تو یہ کیا گیا کہ ہم عورت کو مرد کے دوش بدوش کھڑا کرنا چاہتے ہیں اور اسے اعلیٰ مناصب تک لے جانا چا ہتے ہیں لیکن عملاً ہوا یہ کہ معاشرے کے تیسرے درجے کے کام عورت کے حوالے ہیں،اور اعلیٰ منا صب پر بدستور مرد ہی کا تسلّط ہے۔مغربیِ ممالک کا ایک سرسری جائزہ لے کر ہی دیکھ لیجئے کہ وہاں کتنی عورتیں صدر،وزیرِاعظم یا سربرائے مملکت کا عہدہ حاصل کر سکیں یا ان کو یہاں تک لایا گیا ہو؟ کابینہ میں عورتوں کا تناسب کیا ہے؟سینٹ میں مردوں کے مقابلے میں کتنی عورتیں ممبر بنی ہیں؟کسی بھی مغربیِ ممالک میں اعلیٰ مناصب پر فائز عورتیں کی تعداد شائد پچس!انتیس سے زائد نہ ہوگئی یہ مغربیِ ممالک کا اصلی چہرہ ہے جن کا یہ راگ ہے عورت غلامی میں پِس رہی ہے مغربی معاشرے میں عورت کی اس ہمہ جہتی تذلیل کا خوبصورت نام ’’آزادیِ نسواں‘‘ہے۔ یہ سندِجواز ہی نہیں بلکہ عورت کو یہ باور کرایا کہ صرف مغرب ہی انکے حقوق کا علمبردار ہے اپنے وطن کی اس مغربی نقالی کو کیا کہوں․․․․․․․․․․!
طفل میں بو آئے کیا ماں باپ کے اطوار کی
دودھ ہے ڈبے کا اور تعلیم ہے سرکار کی
aasi aqeel kiyani
About the Author: aasi aqeel kiyani Read More Articles by aasi aqeel kiyani: 2 Articles with 1459 views i'm loving and caring person.. View More