ہمارے انتہائی متحرک خادمِ اعلیٰ کا ’’کَکھ‘‘ پتہ نہیں چلتا کہ وہ کَب کہاں
ہونگے ۔اُن کی بے چین روح کو ایک پَل بھی قرار نہیں۔یہ بجا کہ پاکستان میں
توانائی کا بحران ہے لیکن ہمارے خادمِ اعلیٰ کے اندر بجلیاں ہی بجلیاں بھری
ہیں۔ہماری حکومت ’’ایویں خوامخواہ‘‘ توانائی کے لیے غیروں کے ’’ مِنتیں
تَرلے‘‘ کرتی رہتی ہے ، اگرخادمِ اعلیٰ کے اندر بھری ’’بجلیوں‘‘ سے استفادے
کی کوئی سبیل نکل سکے تو پورے ملک کے جگمگا اُٹھنے کی گارنٹی ہم دیتے ہیں۔
خادمِ اعلیٰ میاں شہباز شریف اور صدرِ پاکستان سیّد ممنون حسین’’ چین
یاترا‘‘ کر بھی آئے اور ہمیں خبر ہی نہ ہوئی ۔سیّد ممنون حسین تو بس ’’ سیر
شَیر‘‘ ہی کرنے گئے تھے لیکن خادمِ اعلیٰ ایسے متحرک ہوئے کہ شہد سے میٹھے
چینی دوستوں نے اُن کا مُنہ چینی سے بھر دیا اورچینی حکومت نے نہ صرف سات
سالوں میں 30 ارب ڈالروں کے منصوبوں کی حامی بھر لی بلکہ چینی وزیرِ اعظم
صاحب نے ریپڈ بَس کی طرح کے لاہور میں ’’ریپڈ ٹرین‘‘ بھی پاکستان کو دینے
کا اعلان کرتے ہوئے یہ فرمایا کہ یہ پاکستانیوں کے لیے تحفہ ہے ۔اِس سے
پہلے خادمِ اعلیٰ نے تُرک حکومت سے دوستی گانٹھ رکھی تھی جِس کی واضح
نشانیاں لاہور میں جا بجا نظر آتی ہیں۔اگر خادمِ اعلیٰ اسی طرح چین اور
ترکی کے دَورے کرتے رہے اور اِن حکومتوں کی عنایاتِ خُسروانہ بھی جاری رہیں
تو اُمیدِ واثق ہے کہ بہت جلد تُرک اور چینی باشندے پاکستان میں نوکریاں
ڈھونڈتے نظر آئیں گے ۔چینی دَورے سے واپسی کے بعد خادمِ اعلیٰ میاں شہباز
شریف نے فرمایا ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ میں پہلا موقع ہے کہ چین کی
اعلیٰ قیادت نے معاشی تعاون کی اتنی بڑی کمٹمنٹ دی ہے ۔اُنہوں نے مزید
فرمایا ’’چین نے اپنا فرض ادا کر دیا اب ہمیں اپنا فرض ادا کرنا ہے ۔اگر ہم
نے کوتاہی دکھائی تو قوم ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی ‘‘۔ خادمِ اعلیٰ کے
اِس اُمید افزاء بیان کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ اگلے پانچ برسوں میں حکومت
ملک کی تقدیر بدلنے کی کوشش ضرور کرے گی ۔پچھلے پانچ برسوں میں خادمِ اعلیٰ
نے جِس جنّاتی طاقت سے لاہور کا نقشہ بدلا ہے و ہ بھی کسی عجوبے سے کم نہیں
۔ہم کم از کم دس بار اپنی گاڑی پر فیروز پور روڈ سے گزرے اور ہمیشہ راستہ
بھولے ۔اب ہم نے پختہ اراداہ باندھ لیا ہے کہ کسی وقت فیروز پور روڈ کی
بھول بھلیوں کو ’’پڑھنے‘‘ کے لیے نکل کھڑے ہونگے تاکہ گیارھویں مرتبہ نہ
بھولیں ۔خادمِ اعلیٰ صاحب کے کارنامے تو اتنے ہیں کہ اُن پر پورا تھیسز
لکھا جا سکتا ہے لیکن اُن کے نقاد اپنے ’’آقاؤں‘‘ کو خوش کرنے کے لیے ٹامک
ٹوئیاں مارتے رہتے ہیں لیکن ہمارے تو دِل سے دُعا نکلتی ہے کہ ’’اﷲ کرے
مرحلۂ شوق نہ ہو طے ‘‘کیونکہ لاریب
وہی ہے صاحبِ امروز جِس نے اپنی ہمت سے
زمانے کے سمندر سے نکالا گوہرِ فَردا
خادمِ اعلیٰ کی ارضِ پاکستان کے لیے لگن ، کَسک اور تڑپ کو دیکھ کر جی
چاہتا ہے کہ وہ ’’طالبانی مسلے‘‘ کو بھی اپنے ہاتھ میں لے لیں ۔ اگر خادمِ
اعلیٰ اپنی ’’انگشتِ شہادت ‘‘ ہلاتے میدان میں کود پڑے تو ہمیں یقین ہے کہ
عنقریب طالبان بھی اُن کا دَم بھرتے نظر آئیں گے۔خادمِ اعلیٰ تو جو کہتے
ہیں وہ کرگزرتے ہیں لیکن پاکستانی سیاست کے ’’سلطان راہی‘‘ جناب الطاف حسین
خالی خولی ’’بڑھکوں‘‘ سے کام نکالنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔اُن کی بڑھکوں
کا جنابِ آصف زرداری اور رحمٰن ملک پر تو بہت اثر ہوتا تھا لیکن میاں نواز
شریف صاحب اور چوہدری نثار احمد صاحب مسکرا کر ٹال جاتے ہیں۔شاید اسی لیے
نواز لیگ سے مایوس الطاف بھائی نے نہ صرف فوج کی طرف رجوع کر لیا ہے بلکہ
’’اندرکھاتے‘‘ سندھ حکومت میں شمولیت کے لیے گرین سگنل بھی دے دیا
ہے۔اُنہوں نے کراچی میں ایک دفعہ پھر ’’کھڑاک‘‘ کرتے ہوئے فرما یا’’ طالبان
کا جو یار ہے ، وہ ملک کا غدار ہے ‘‘۔افواجِ پاکستان سے اظہارِ یکجہتی کے
لیے نکالی گئی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے اُنہوں نے کہا کہ طالبان کے حامی
پاکستان کے دوست نہیں بلکہ منافق ہیں ۔اُن کی ’’کڑاکے دار‘‘ تقریر کا نشانہ
اب کی بار جماعتِ اسلامی اور تحریکِ انصاف بنی رہی ۔جماعتِ اسلامی کے تو
الطاف بھائی ازلی و ابدی دشمن ہیں اور جماعت اُن کے ’’گَنڈاسے‘‘ کا نشانہ
بنتی ہی رہتی ہے لیکن اب ’’نئی نویلی‘‘ تحریکِ انصاف کی بھی خیر نہیں۔گزشتہ
دنوں الطاف بھائی نے امیرِ جماعت اسلامی سیّد منّور حسن صاحب کو کڑی تنقید
کا نشانہ بنایااور ایم کیو ایم نے سندھ اسمبلی میں جماعتِ اسلامی پر پابندی
لگانے کا مطالبہ کر دیا ۔دَر جوابِ آں غزل ، جماعت اسلامی کے ترجمان نے کہا
کہ الطاف حسین نے سیّد منور حسن کی بات کو سیاق و سباق سے الگ کرکے غلط رنگ
دینے کی کوشش کی ۔ترجمان نے یہ بھی کہا ’’ لندن میں بیٹھ کر برطانوی حکومت
کو خط لکھ کر پاکستان کی آئی ایس آئی کو ’’نَتھ‘‘ ڈالنے کے لیے تعاون پیش
کرنے والے کِس مُنہ سے حب الوطنی کا دعویٰ کر رہے ہیں ۔ ایم کیو ایم دہشت
گردی اور بوری بند لاشوں کا کلچر پھیلانے والی جماعت ہے ‘‘۔ہم سمجھتے ہیں
کہ در اصل الطاف بھائی کو غصّہ’’ سکاٹ لینڈ یارڈ‘‘ پر ہے جس نے اُن کا جینا
حرام کر رکھا ہے لیکن وہ نکال جماعت اسلامی اور تحریکِ انصاف پر رہے ہیں
۔سبھی جانتے ہیں کہ قومی دھارے میں شامل دونوں جماعتیں محب وطن اور آئین کی
عملداری پر مکمل یقین رکھتی ہیں البتہ ایم کیو ایم پر بہت سے الزامات لگتے
رہے اور لگ رہے ہیں ۔جماعت اسلامی کے طالبانی کمیٹی کے رُکن پروفیسر
ابراہیم بار بار یہ کہہ چکے ہیں کہ مذاکرات صرف پاکستانی آئین کے تحت ہی ہو
سکتے ہیں اور امیرِ جماعت بھی پاکستانی آئین کے تحت ہی مذاکرات کے حامی ہیں
۔محترم عمران خاں صاحب تو مذاکرات سے تقریباََ توبہ کر ہی چکے ہیں۔ اُنہوں
نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ ہتھیار اٹھانے والے طالبان کے خلاف آپریشن
ہونا چاہیے البتہ جو مذاکرات کرنا چاہتے ہیں اُن کے ساتھ مذاکرات کیے جائیں
۔اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ طالبان کے خلاف آپریشن سے پہلے وہاں پر بسنے والے
لاکھوں لوگوں کا مناسب بندوبست ہونا چاہیے ۔خاں صاحب کے اِس بیان سے صاف
ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بھی ذہنی طور پر طالبان کے خلاف آپریشن کے لیے تیار ہیں
۔اُدھر طالبان کے ترجمان شاہد اﷲ شاہد بار بار کہہ رہے ہیں کہ وہ مذاکرات
میں ڈیڈ لاک ختم کرنے کے لیے تیار ہیں لیکن حکومت امن مذاکرات کے لیے
سنجیدہ نہیں ہے ۔مذاکرات کی یہ’’ دُہائی‘‘ کبھی تمام پاکستانی محبِ وطن
دینی اور سیاسی جماعتیں دیتی رہیں لیکن طالبان نے ’’میں نہ مانوں‘‘ کی رَٹ
لگائے رکھی ۔وہ اگر کبھی مذاکرات کے لیے آمادہ بھی ہوئے تو ایسی کڑی شرائط
کے ساتھ کہ جنہیں تسلیم کرنا حکومت کے بَس کا روگ نہیں تھا۔ اب جب کہ ’’تنگ
آمد ، بجنگ آمد‘‘ کے مصداق حکومت نے افواجِ پاکستان کو فری ہینڈ دے دیا ہے
تو طالبان مذاکرات کی دہائی دے رہے ہیں ۔اب جبکہ طالبان کے لیے نرم گوشہ
رکھنے والے بھی بیزار ہو چکے ہیں تو مجموعی عوامی تاثر بھی طالبان کو یہ
پیغام دیتا نظر آتا ہے کہ’’اب اُنہں ڈھونڈ ، چراغِ رُخ ِ زیبا لے کر‘‘ ۔
بعد اَز خرابیٔ بسیار ہی سہی لیکن ہم اب بھی یہی سمجھتے ہیں کہ طالبان
ہمارے اپنے ہیں ، ہم نے اسی دھرتی پر اکٹھے رہنا ہے اور ہمارا جینا مرنا
بھی سانجھا ہے اِس لیے مذاکرات میں ہی عافیت ہے البتہ جس طرح ٹیچر اصلاح کی
خاطرکچھ شرارتی بچوں کے کان مروڑ کر اُنہیں سیدھا کرتا ہے اُسی طرح فلاح کی
راہ پانے کے لیے ایسے طالبان کو سیدھا کرنا ضروری ہے جو کسی بھی صورت
مذاکرات کے لیے تیار نہیں ۔سچ کہہ گئے ہیں سیانے کہ ’’لاتوں کے بھوت ،
باتوں سے نہیں مانتے‘‘ ۔ |