ماہ رمضان المبارک رحمتوں،
برکتوں اور نعمتوں کی برسات کا مہینہ ہے، اس ماہ مبارک میں اللہ ربّ العزت
کی رحمتوں، مغفرتوں اور جہنم سے نجات کے دروازے کھل جاتے ہیں، انوار و
تجلیات کی بارشیں ہوتی ہیں، رحمتوں کے خزانے لٹائے جاتے ہیں اور خوش نصیب
اہل ایمان اپنی اپنی جھولیاں بھرتے ہیں، سیرت طیبہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا
ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان المبارک سے قبل صحابہ
اکرام کو جمع فرما کراستقبال رمضان کے متعلق خطبہ دیتے تھے اور انہیں اس
ماہ مبارکہ کی عظمت، فضلیت اور اہمیت بتاتے ہوئے آپس میں صلہ رحمی، محبت و
مروت اور ایک دوسرے کے ساتھ رحمدلی کا برتاؤ کرنے کا درس دیتے تھے، جس پر
صحابہ کرام دل و جان سے عمل کرتے تھے، لیکن اس کے برخلاف آج کا مسلمان ماہ
رمضان المبارک میں ایک دوسرے کے ساتھ صلہ رحمی، محبت اور رحمدلی کا مظاہرہ
کرنے کے بجائے لوٹ کھسوٹ اور ناجائز منافع خوری کو اپنے لئے جائز سمجھ
بیٹھا ہے، حال یہ ہے کہ کپڑے اور جوتوں کے تاجر سے لے کر بیکری مالکان،
کریانہ سٹور والے، درزی حضرات، سبزی فروٹ فروش غرض کہ سب کے سب اس ماہ
مبارکہ میں بے رحم قصائی بن کر مہنگائی کی چھری سے قوم کی کھال اتارنے اور
ان کی جیبیں خالی کرنے کیلئے بے تاب ہیں۔
گو کہ تجارت پیشہ نبوی ہے اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
تجارت کی اور اسے پسند فرمایا، لیکن جو تجارت حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اور صحابہ کرام نے کی اس کی بنیاد دیانت، امانت اور ایمانداری پر تھی، اس
میں کسی قسم کی دھوکہ دہی، منافع خوری، جعلسازی یا ذخیرہ اندوزی کی کوئی
گنجائش نہیں تھی، لیکن اس کے برعکس آج کے تاجر ہر اس برائی میں مبتلا ہیں،
جن سے اسلام نے سختی سے منع فرمایا ہے، آج یہ حال ہے کہ ہمارے تاجروں نے
جھوٹ، دھوکہ، منافع خوری، ذخیرہ اندوزی اور جعلسازی کو اپنا وطیرہ بنالیا
ہے اور حج، عمرہ، نماز، روزے اور تسبیح کے دانے پھیرنے کے ساتھ ساتھ ایک کے
دو، دو کے چار اور چار کے آٹھ کرنے میں مصروف ہیں۔
یوں تو ماہ رمضان لمبارک کی آمد سے قبل ہی قیمتوں میں 35 سے 40 فیصد اضافہ
ہوچکا تھا لیکن رمضان میں ہونے والی ہوش ربا مہنگائی نے تو غریب عوام کی
کمر ہی توڑ کر رکھ دی ہے، روزمرہ ضروریات کی عام اشیاء جس خاص انداز میں
فروخت کی جارہی ہیں اسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ ماہ مبارکہ فقط
ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خور تاجروں کیلئے آسمان سے اترا ہے، غریب
روزہ دار جس طرح ان روزمرہ اشیاء کیلئے پریشان ہورہے ہیں، اس کا کوئی پرسان
حال نہیں ہے، اس ماہ مبارک میں غریب سے غریب مسلمان کی بھی یہ خواہش ہوتی
ہے کہ وہ کچھ بہتر خوراک کے ساتھ سحری کھائے اور افطاری کرے، لیکن آج اشیاء
خودرنی اور اشیاء ضروریات کی جو قیمتیں ہیں اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ
غریب عوام کو پیٹ پر پتھر باندھ کر سحر و افطار کرنے، روزے رکھنے اور عید
منانا ہوگی۔
پاکستان میں ہر سال رمضان المبارک کے موقع پر ناجائز منافع خوروں اور ذخیرہ
اندوزوں کی ملک کے سرمایہ داروں اور کارخانہ داروں کی ملی بھگت اور اعلیٰ
انتظامی حلقوں کے ساتھ گٹھ جوڑ کے نتیجے میں ایک سازش کے تحت اشیائے خوردنی
کی قیمتوں میں اضافہ کر کے ایک مصنوعی بحران پیدا کیا جاتا ہے اور اس بحران
کو جنم دینے والی قوتوں تو اس بحران کے نتیجے میں اربوں روپے کما لیتی ہیں
لیکن غریب عوام کو اس مقام پر لاکر کھڑا کردیا جاتا ہے، جہاں ان کے پاس دو
ہی راستے بچتے ہیں ایک یا تو وہ ان اشیاء کو ترس کر وقت گزاریں، دوسرے یا
پھر مخصوص مافیا کی طرف سے پیدا کردہ بحران کے نتیجے میں مہنگی اشیاء خرید
کر گزر بسر کریں، پاکستان میں یہ بحران ہر سال پیدا ہوتا ہے اور حکومت کی
آنکھوں کے سامنے ہوتا ہے، لیکن حکومت اور مختلف علاقوں کی انتظامیہ بے بس
ہوکر یا اپنا حصہ وصول کرکے خاموش تماشائی بنے رہتی ہے، ہر سال حکومت رمضان
میں عوام کو زیادہ سے زیادہ سہولتیں پہنچانے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن ان
دعوؤں اور بیانات کے باوجود غریب عوام گراں فروشوں کے ہاتھوں لٹتے رہتے ہیں
اور حکمران اور انتظامیہ ائیر کنڈیشنڈ دفاتر اور گھروں میں بیٹھ کر لوٹ
کھسوٹ سے ملنے والے حصے سے مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ اس رمضان المبارک سے قبل مہنگائی کی خوفناک لہر کے بدنما
اثرات نے حکومت کی ناصرف گڈ گورننس کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے بلکہ اس نے دنیا
کے سامنے ہمارے اخلاقی دیوالیہ پن کو بھی عریاں کردیا ہے کہ مسلمان تاجر
اور حکمران کلمے کی دولت سے سرفراز تو ضرور ہیں لیکن دیانت اور ایمانداری
کی صفات سے محروم ہیں، خود احتسابی کے اس مہینے سے قبل مہنگائی کا عفریت جس
طرح بے قابو ہوکر بوتل سے باہر نکل آیا ہے اور سوات و بونیر میں حکومتی رٹ
قائم کرنے والے غریب پروری کے دعویدار حکمران منافع خوروں اور ذخیرہ
اندوزوں کے سامنے جس طرح بے بس دکھائی دیتے ہیں، اس سے لگتا ہے کہ مہنگائی
کا طوفان شاید حکومت اور تاجروں کی کسی مفاہمت کا نتیجہ ہے، یا پھر حکومت
امریکہ کی طرح منافع خوروں کے ڈرون حملوں کے سامنے بے بس ہے۔
پاکستان دنیا کا وہ ملک ہے جہاں سب سے زیادہ محنت کش طبقہ آباد ہے، اعداد
وشمار کے مطابق پاکستان میں 7 کروڑ 90 لاکھ 75 ہزار لوگ محنت مزدوری کرتے
ہیں جبکہ غربت میں ہمارا 43 واں نمبر ہے، ایک حالیہ سروے رپورٹ کے مطابق
پاکستان میں غربت کی شرح 40فیصد سے زائد ہے،7کروڑ سے زائِد لوگ غربت کا
شکار ہیں جبکہ ہمارا شمار دنیا کے ان ممالک میں بھی ہوتا ہے جن میں مہنگائی
اپنی آخری حدوں کو چھو رہی ہے، پاکستان میں مہنگائی کی شرح 21فیصد ہے،
اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں 30فیصد اور ٹیکسوں میں 10فیصد اضافہ ہوچکا ہے،
جبکہ دوسری طرف صاحبان اقتدار شاہ خرچیوں میں مصروف عمل ہیں، حالیہ بجٹ میں
ایوان صدر کے اخراجات میں ڈیڑھ کروڑ روپے کا اضافہ کیا گیا ہے،اسی طرح
وزیراعظم ہاؤس، قومی اسمبلی کے اجلاسوں اور کابینہ کی مراعات میں بے تحاشہ
اضافہ کیا گیا، اگر اس ساری صورت حال کو سامنے رکھ کر دیکھا جائے تو ہم
تاریخ کے انتہائی نازک دور سے گزر رہے ہیں اور غربت، بیروزگاری، معاشی
بحران، دہشت گردی اور باہمی انتشار کا شکار ہیں، قومی، علاقائی اور لسانی
عصبیت نے ہمیں ٹکڑوں میں بکھیر دیا ہے، جس کی وجہ سے پورا ملک آتش فشاں کے
دھانے پر کھڑا ہے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ کیا طبقاتی نظام، تعلیم، جہالت یا بیرونی غلامی،
جمہوریت کا قتل اور آمریت کی پرورش یا اقتدار کی پوچا پاٹ نے ہمیں اندھے
چوراہے پر لاکھڑا کیا ہے یا پھر حکمرانوں کی بے حسی، خود غرضی اور اقتدار
پرستی ہمیں اس مقام تک لائی ہے؟ ہمارے خیال میں شاید یہ سب کچھ اس وجہ سے
ہورہا ہے کہ عوام اپنے ووٹوں سے ان نمائندوں کو منتخب کرتے ہیں جو اقتدار
کے ایوانوں میں پہنچ کر عوام سے کئے گئے وعدوں کو بھول جاتے ہیں اور اپنے
ذاتی مسائل اور مفاد کی دیکھ بھال اور حفاظت میں مصروف ہوجاتے ہیں، نتیجتاً
حکمران طبقہ تو عیش و عشرت کی زندگیاں گزارتا ہے لیکن غریب عوام یوٹیلیٹی
اسٹورز پر گرم چلچلاتی دھوپ میں لمبی لمبی قطاریں لگائے گھنٹوں آٹے، دالوں،
گھی، شکر اور دوسری ضروریات زندگی کے حصول کیلئے عذاب میں مبتلا رہتے ہیں
یا پھر فاقہ کشی انہیں خود کشی کرنے یا اپنے جسم کے اعضاءاور جگر کے ٹکڑے
بیچنے پر مجبور کردیتی ہے۔
اس وقت حال یہ ہے کہ ملک میں مجموعی طور پر چھ کروڑ 70لاکھ افراد غربت کی
لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں، پانچ کروڑ اسی لاکھ افراد کو پینے
کا صاف پانی میسر نہیں، چار کروڑ نوے لاکھ افراد صرف ایک کمرے کے گھر میں
رہائش پذیر ہیں، ہر آنے والے دن کے ساتھ غربت میں اضافہ ہورہا ہے، گزشتہ
سال پاکستان میں 24فیصد آبادی غربت کی نچلی سطح پر زندگی گزارنے پر مجبور
تھی جبکہ غربت کی شرح بڑھ کر 28 فیصد ہوگئی ہے، وطن عزیز کی 73 فیصد آبادی
روزانہ 2ڈالر سے کم کماتی ہے، عوام کو آنسو بہاتے، پیٹ پر پتھر باندھتے اور
جسم پر چیتھڑے لپیٹتے 62 سال گزر گئے ہیں، ہر آنے والے حکمران نے عوام کو
سبز باغ دکھائے، کسی نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرے لگایا تو کوئی قرض
اتارو ملک سنوارو کی نعرے لگاتا رہا اور کوئی خوشحال پاکستان کا فریب دے کر
عوام کو بے وقوف بناتا رہا، لیکن بیچارے عوام کے مسائل جوں کے توں ہی رہے،
واضح رہے کہ فورڈ سپورٹ پروگرام کا نام بے نظیرانکم سپورٹ رکھ دینے سے غربت
کا خاتمہ نہیں ہوسکتا ہے اور نہ ہی طبقاتی نظام کو دفن کیے بغیر ملک کے
عوام خوشحال ہو سکتے ہیں۔
یہ کتنی حیرت کی بات ہے کہ جس ملک کی اکثریت جہالت، بیماری، بے روزگاری اور
غربت کا شکار ہو، وہاں کے وزراء سولہ سولہ کروڑ کی گاڑیاں یوں میں گھومیں،
جس ملک کے لوگ روٹی پانی کے لیے اپنے گردے فروخت کررہے ہوں، اس ملک کے صدر
ہاؤس کے باغات کی دیکھ بھال کے لیے لاکھوں روپیے خرچ کیئے جائیں، غربت،
بھوک اور افلاس کے ہاتھوں مجبور ہو کر جس ملک کے عوام اپنے جگر کے ٹکڑوں کو
سر بازار نیلام کریں، اس ملک کے پی ایم ہاؤس کا خرچہ 54 کروڑ سے تجاوز
کرجائے، جس ملک میں غربت اور بھوک سے تنگ آکر لوگ اپنی اولادیں کو اپنے ہی
ہاتھوں ذبح کر رہے ہوں، اس ملک کے حاکموں کے جہازوں کی آرائش پر 58کروڑ
روپے خرچ کیے جائیں، جس ملک کی رعایا آلودہ پانی پینے کی وجہ سے موت کو گلے
لگا رہی ہو، اس ملک کے وزیراعظم غیرملکی دوروں پر17 کروڑ 60لاکھ روپے کی
خطیر رقم خرچ کردیں، جس ملک کے 31فیصد اسکولوں میں بجلی، پانی اور چھتیں نہ
ہوں، اس ملک کے ارباب اختیار کی اولادیں سرکاری خرچ پر امریکا اور انگلستان
میں تعلیم حاصل کریں۔
ہم ارباب اقتدار سے گزارش کریں گے کہ ذرا ٹھنڈے دل سے سوچیں، جب غریب و
مجبور عوام یہ دیکھتی ہے کہ اس تو سونے کیلئے فٹ پاتھ اور سر چھپانے کیلئے
چھت بھی میسر نہیں ہے جبکہ حکمرانوں کے عالی شان بنگلوں کے پھول بوٹوں کی
دیکھ بھال کے لیے بجٹ میں 74 لاکھ روپے خرچ کئے جائیں، جب ایک غریب کا بچہ
یہ دیکھتا ہے کہ میرے گھر میں پینے کے لیے پانی، کھانے کے لیے روٹی اور
بیماری کے لیے دوا نہیں اور حکمران عوامی ٹیکس سے حاصل ہونے والی کروڑوں کی
رقم سے بیرون ملک علاج کے نام پر عیاشیاں کررہے ہیں، تو ان کے سینوں میں
حکمرانوں کے خلاف ایک ایسا لاوا پکنا شروع ہوجاتا ہے، جو بعد ازاں خونیں
انقلاب کاپ یش خیمہ ثابت ہوتا ہے، یہ درست ہے کہ مہنگائی کے ڈرون حملے
روکنے کے لیے حکومتی جمع خرچ اور اُن تمام سرکاری دعوؤں کی قلعی کھل چکی ہے
کہ اگر منافع خور اور ذخیرہ اندوزوں نے اپنی روش نہ بدلی تو حکومت ان عناصر
کے ساتھ سختی سے نپٹے گی، حقیقت یہ ہے کہ بے لگام مہنگائی اور اس کے
کرداروں کو قانون کے دائرے میں لانے اور رمضان المبارک میں عوام کو آسانی
فراہم کرنے میں حکمرانوں کی بے بسی جمہوریت کے دعویداروں کیلئے نہ صرف ایک
سوالیہ نشان ہے بلکہ عوام یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ حکمران عوامی مشکلات و
پریشانیوں سے بے نیاز، کسی چوک پر نصب وہ بے فیض مجسمے ہیں، جن کے کان
سماعت اور آنکھ بصارت سے محروم ہیں۔ |