ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل اور کشمیر

حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ اپنی تصنیف حیات الصحابہؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت سفینہؓ فرماتے ہیں ایک مرتبہ حضورؐ نے ہم میں بیان فرمایا اور ارشاد فرمایا مجھ سے پہلے ہر نبی نے اپنی امت کو دجال سے ڈرایا ہے اس کی بائیں آنکھ کانی ہے اور اس کی دائیں آنکھ میں ناک کی طرف والے گوشہ میں گوشت کا ایک موٹا سا ٹکڑا ہو گا جو آنکھ کی سیاہی پر چڑھا ہوا ہو گا اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کافر لکھا ہو گا اس کے ساتھ دو فرشتے ہونگے جو انبیاءؑ میں سے دو نبیوں کے مشابہ ہونگے ایک فرشتہ دجال کے دائیں طرف ہو گا اور دوسرا بائیں اور اس میں لوگوں کی آزمائش ہو گی دجال کہے گا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں میں مارتا ہوں اور زندہ کرتا ہوں؟ اس پر ایک فرشتہ کہے گا تو غلط کہتا ہے اس جملہ کو اس کاساتھی فرشتہ سن سکے گا اور کوئی نہیں سنے گا دوسرا فرشتہ پہلے فرشتے کو جواب میں کہے گا تم نے ٹھیک کہا اس جملہ کو تمام لوگ سن لیں گے اس سے لوگ یہ سمجھیں گے کہ یہ فرشتہ اس دجال کی تصدیق کر رہا ہے یہ بھی آزمائش کی ایک صورت ہو گی پھر وہ دجال چلے گا اور چلتے چلتے مدینہ پہنچ جائے گا لیکن اسے مدینہ کے اندر جانے کی اجازت نہیں ہو گی پھر وہ کہے گا یہ تو اس عظیم ہستی (یعنی حضرت محمدؐ ) کی بستی ہے پھر وہ وہاں سے چل کر ملک شام پہنچے گا اور افیق مقام کی گھاٹی کے پاس اﷲ اسے ہلاک کریں گے۔

قارئین! ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم کو ہم انتہائی شوق سے سنا کرتے تھے ڈاکٹر اسرار احمد اپنے مختلف لیکچرز میں قرآن، حدیث اور کلام اقبالؒ کے ذریعے جس طرح کسی بھی موضوع پر ایک منطقی استدلال کے ساتھ بات کرتے ہوئے نتائج کی جانب بڑھتے تھے اس سے نہ صرف روح کو تسکین ملتی تھی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ حجت باز ذہن کو بھی تمام جواب مل جاتے تھے ڈاکٹر اسرار کے وہ لیکچر یقینا آپ کو یاد ہونگے کہ جن میں دجال کے متعلق انہوں نے مختلف صورتیں پیش کی تھیں ڈاکٹر اسرار احمد نے اس خیال پر بھی تفصیلی بحث کی تھی کہ علمائے کرام کا ایک بہت بڑا طبقہ اس بات کا قائل ہے کہ انکل سام یعنی امریکہ بھی دجال ہو سکتا ہے علامتی انداز میں امریکی کرنسی ڈالر کے کرنسی نوٹ پر ایک آنکھ بھی بنی ہوئی ہے اس حوالے سے ہمارے قریبی دوست اور محسن برطانوی کشمیری بزنس مین رافع سلیم جو آزاد کشمیر میں اپنی ذاتی آمدن سے کروڑوں روپے خرچ کر کے کشمیر انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی بنانے والی سماجی شخصیت حاجی محمد سلیم کے فرزند ہیں انہوں نے بھی گفتگو کے دوران اس تصور کی تائید کی کہ امریکہ اس دور کا دجال دکھائی دیتا ہے دجال کی دیگر علامتوں میں سے ایک علامت یہ بھی ہے کہ اس کے پاس دنیا کی ہر طاقت ہو گی وہ پلک جھپکتے ہی دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے میں پہنچ جایا کرے گا وہ پانی کی طرح انسانوں کا خون بہائے گا اور جو بھی اس کا حکم تسلیم کرنے سے انکار کرے گا وہ اسے مار ڈالے گا اور وہ اپنے حکم نہ ماننے والوں کو شدید ترین تکلیفیں دے گا یہ تمام تر علامتیں امریکہ میں دیکھنے میں آتی ہیں امریکہ کے پاس دنیا کی ہر طاقت موجود ہے امریکہ دنیا کے معاشی اور سیاسی نظام کو کنٹرول کر رہا ہے امریکہ ایسی سائنسی ایجادات کاحامل ملک ہے کہ دنیا کی کوئی دوسری طاقت فی الحال امریکہ سے ٹکر لینے کا نہیں سوچ سکتی مختلف پیشن گوئیوں میں یہ پیش گوئی بھی تحریر ہے کہ پاکستان، افغانستان اور ان علاقوں سے مسلم مجاہدین دجال کے خلاف جہاد کا آغاز کریں گے اور اس کے بعد یہ جہاد آگے بڑھے گا اور دجال کا خاتمہ ہو گا ظاہری طور پر یہ دکھائی دے رہا ہے کہ پاکستان کے قبائلی علاقہ جات اور افغانستان کے طالبان وہی مجاہدین ہیں جو موجودہ دور کے دجال امریکہ کے خلاف جہاد کا آغاز کر چکے ہیں اب یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ امریکہ ہی دجال ہے یا یہ ایک چھوٹا دجال ہے اور اصل دجال کا ظہور مستقبل میں ہو گا۔

قارئین! آج کے موضوع کی مناسب سے ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ گزشتہ روز آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل حمیدگل میرپور میں تشریف لائے چوہدری مظہر حسین جن کا تعلق میرپور کے نواحی علاقے کھڑی شریف چھابڑیاں گجراں سے ہے انہوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ یورپ کے مختلف ممالک اور فرانس میں گزارا چوہدری مظہر حسین چھ کتابوں کے مصنف ہیں ان کی تین کتابوں کی تقریب رونمائی گزشتہ روز میرپور میں ہوئی اور یہ فریضہ جنرل حمید گل نے انجام دیا راقم نے ان کی آمد کا فائدہ اٹھا کر استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان کے ہمراہ آزاد کشمیر کے نجی ٹی وی نیوز چینل کشمیر نیوز ڈاٹ ٹی وی کے مقبول ترین پروگرام ’’لائیو ٹاک ود جنید انصاری اینڈ راجہ حبیب اﷲ خان‘‘میں جنرل حمید گل اور چوہدری مظہر حسین کا ایک تاریخ انٹرویو ریکارڈ کیا گفتگو کے دوران سابق ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی جنرل حمید گل نے کہا کہ کشمیر کو آزاد کروانے کی خاطر اگر پاکستان کو پچاس جنگیں بھی لڑنا پڑیں تو ہم اس کے لئے بھی تیار ہیں کشمیر کی خاطر پاکستان نے تین جنگیں بھی بھارت کے ساتھ لڑیں یہ کشمیر ہی کا فیض ہے کہ آج پاکستان پوری دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی طاقت ہے کشمیر کی خاطر سٹینڈ لینے کی وجہ سے ہی پاکستان کے دوٹکڑے کیے گئے کشمیر پاکستانیوں کے جسم میں خون بن کر دوڑتا ہے امریکہ اپنے مفادات کی خاطر بھارت جیسے دہشتگرد ملک کی پشت پناہی کر رہا ہے اپنے ایمان کی روشنی میں کہتا ہوں کہ کشمیر کی آزادی کا وقت قریب آچکا ہے چناب فارمولہ مسٹر ڈکسن نے پیش کیا تھا اور اس فارمولے کی رو سے یہ تجویز کیا گیا تھا کہ دریائے چناب کے ایک طرف کا کشمیر بھارت کو دیدیا جائے اور دوسری طرف کا کشمیر پاکستان کا حصہ بنا دیا جائے لیکن یہ منصوبہ صرف منصوبے کی حد تک رہا کیونکہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کا ضلع ڈوڈہ اور دیگر علاقے جو بھارت کو دینے کا پلان تھا وہ سب مسلم اکثریتی علاقے تھے اور اگر یہ فارمولہ اپلائی کر دیا جاتا تو گورکھے بھی درمیان میں پس کر رہ جاتے پاکستان کے مختلف حلقوں کی جانب سے آزاد کشمیر کو صوبہ بنانے کی باتیں انتہائی نامناسب اور بچگانہ ہیں ان کی شدید مخالفت کرتا ہوں اور یہ سمجھتا ہوں کہ ایسی باتیں کرنے والے لوگ کشمیر کیس کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ اس موقع پر چوہدری مظہر حسین، مسلم کانفرنس کے رہنما راجہ ظفر معروف، انجمن تاجراں کے رہنما واجد رسول میر، چوہدری اختر حسین، میجر خضر ، میجر کامران اور دیگر بھی موجود تھے جنرل حمید گل نے کہا کہ پاکستان کا قیام بھی ایک دیوانے کا خواب تھا آج اگر ہم پاکستان کی سٹریٹیجک گہرائی کی بات کرتے ہیں اور علاقے کے تمام اسلامی ممالک کے اتحاد پر مبنی ایک اسلامی قوت کو سامنے لانے کی بات کرتے ہیں تو یہ بھی ایک ایسا خواب ہے جسے شرمندہ تعبیر کیا جا سکتا ہے اور اس سلسلے کی سب سے پہلی کڑی کشمیر کا آزاد ہو کر پاکستان میں شامل ہونا ہو گا۔ جنرل حمید گل نے کہا کہ پاکستان نے ایٹم بم نمائش کرنے کیلئے نہیں بنایا اور نہ ہی یہ بم کسی مزار میں دفن کر کے کتبہ لگا کر ہم نے اس پر پھول چڑھانے ہیں ضرورت پڑی تو ایٹم بم استعمال کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ کشمیر کے دریاؤں سے آنیوالا پانی لاکھوں کشمیری شہداء کے خون سے رنگین ہے اور یہی پانی پاکستان کی فصلوں کو سیراب کرتا ہے اور اسی پانی سے پیدا ہونے والی گندم ہر پاکستانی کھاتا ہے کشمیر سے محبت ہر پاکستانی کے ایمان کا حصہ ہے پاکستان کو ایک سازش کے تحت مشرقی اور مغربی سرحدوں میں الجھا دیا گیا ہے یہ محسود اور وزیر قبائل کے مجاہدین ہی تھے کہ جنہوں نے قائد اعظم محمد علی جناحؒ کے حکم پر عمل کرتے ہوئے کشمیر کی آزادی کیلئے جہاد شروع کیا تھا آج سری نگر ایئرپورٹ کے ارد گرد انہی قبائلی شہداء کی قبریں گواہی دے رہی ہیں کہ کشمیر سے پاکستان کا کیا رشتہ ہے کشمیر کی ماؤں بہنوں کی آہ وبکا پاکستانیوں کے دل چیر دیتی ہے ہم اپنی ہر شے قربان کرک دینگے لیکن کشمیر پر کسی بھی قسم کا سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ کشمیر پر سٹینڈ لینے کی سزا کے طور پر پاکستان کو دو لخت کیا گیا تھا اور کشمیر ہی کی خاطر پاکستان کو اعزاز ملا کہ وہ اسلامی دنیا کی واحد جوہری قوت بنا پاکستان کی تمام پالیسی ساز قوتیں اور فوج کشمیر پر کسی کو بھی کمپرومائز نہیں کرنے دینگے چناب فارمولے کے ذریعے تقسیم کشمیر کی کوشش صرف باتوں کی حد تک محدود رہی ہے اور اسی طرح آزاد کشمیر کو پاکستان کا صوبہ بنانے کی آوازیں بھی محض آوازیں ہیں کشمیر کی تاریخ ایک ہزار سال پرانی ہے اورکشمیری ایک قوم کی حیثیت رکھتے ہیں بھارتی حکمران کشمیر کیس خود اقوام متحدہ میں لے کر گئے اور میں بھارت اور امریکہ سمیت پوری دنیا سے سوال کرتا ہوں کہ کشمیریوں کا جرم کیا ہے کیا حق رائے دہی اور حق خود ارادیت کی بات کرنا ایسا جرم ہے کہ اس پر لاکھوں انسانوں کو شہید کر دیا جائے جنرل حمیدگل نے کہا کہ آنے والا وقت پاکستان اور کشمیر کیلئے بہتر ہو گا اور بہت جلد کشمیر آزاد ہو کر پاکستان کا حصہ بن جائے گا۔

قارئین!چند حیرت انگیز باتیں یہاں ہم آپ کے سامنے پیش کرنا انتہائی ضروری سمجھتے ہیں۔ چناب فارمولہ بیک ڈور ڈپلومیسی کے نتیجے میں سابق جنرل مشرف کے دور میں سامنے آیا تھا اور اس منصوبے کے مطابق کشمیر کے سات حصے بخرے کر کے اس قضیے کو ہمیشہ کے لئے حل کرنے پر تمام قوتیں بظاہر رضا مند ہو چکی تھیں اس منصوبے کے مطابق دریائے چناب کے دونوں جانب کشمیر کے مختلف علاقوں کو بھارت پاکستان، چین میں تقسیم کرتے ہوئے ایک خود مختار کشمیری ریاست بھی قائم کرنے پر اتفاق ہو چکا تھا جنرل حمید گل نے گزشتہ روز یہ خوفناک انکشاف بھی کیا کہ امریکہ باوجود شدید کوشش کے ابھی تک دنیا کی دوسری بڑی طاقت چین کو کنٹرول کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا چین کے ایٹمی اثاثے صحرائے گوبی کے انتہائی دور دراز مقام پر محفوظ ہیں اور کوئی بھی امریکی میزائل یہ صلاحیت نہیں رکھتا کہ چین کے ایٹمی اثاثوں کو نشانہ بنا سکے جنرل حمید گل نے بتایا کہ جب وہ آئی ایس آئی کے سربراہ تھے تو امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے بڑے بڑے لوگ پاکستان آکر ان سے فرمائش کرتے کہ انہیں کشمیر ہی کے علاقوں ناردرن ایریاز کی سیر کروائی جائے ہم ان کی اس فرمائش کے اصل مقصد کو اچھی طرح سمجھتے تھے اس دنیا کی چھت کی حیثیت رکھنے والے دیوسائی میدان کا 35 میل کا علاقہ سی آئی اے کے ان ایجنٹس کے لئے کشش رکھتا تھا امریکہ ان علاقوں کو خود مختار کشمیر کی حیثیت دے کر یہاں اپنے اڈے قائم کرنا چاہتا ہے کیونکہ یہاں بیٹھ کر انتہائی آرام سے چین کے اندر ہر علاقے کو مانیٹر بھی کیا جاسکتا ہے اور کسی بھی علاقے کو نشانہ بھی بنایا جا سکتا ہے یہاں ہم یہ بھی عرض کرتے چلیں کہ کچھ عرصہ سے آزاد کشمیر اور پاکستان کے مختلف پے رولز پر کام کرنے والے نام نہاد دانشور کشمیر کو پاکستان کا صوبہ بنانے کی بات کر رہے ہیں افسوسناک ترین واقعہ آزاد جموں وکشمیر سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس منظور حسین گیلانی کی طرف سے عجیب وغریب انداز میں ان تجاویز پر بات کرنا تھا ان کی ان تجاویز پر آزاد کشمیر کے چیف سیکرٹری خضر حیات گوندل اور انسپکٹر جنرل پولیس ملک خدا بخش اعوان سے حال ہی میں ’’ٹوئنٹی ٹوئنٹی میچ‘‘ کھیلنے والے وزیراعظم آزاد کشمیر چوہدری عبدالمجید نے نعرہ مستانہ بلند کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ ’’ہماری لاشوں پر سے گزر کر ہی کشمیر کو صوبہ بنایا جا سکتا ہے‘‘ان کے اس اعلان پر جہاں کشمیر کے دیگر غیور شہری خوش ہوئے وہاں انصار نامہ کا یہ مصنف جنید انصاری بھی چوہدری عبدالمجیدکو خراج تحسین پیش کرنے پر مجبور ہو گیا اور ہم نے بھی یہ اعلان کیا کہ وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے کشمیر کیس کو تباہ کرنے والے اس منصوبے کی سختی سے مخالفت کر کے نہ صرف تمام کشمیریوں کے دل جیت لیے ہیں بلکہ ہمیں بھی اپنا مداح بنا لیا ہے اس کے برعکس آزاد کشمیر کے انتہائی غیرت مند اور کھری بات کرنے والے مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کے صدر سابق وزیراعظم راجہ فاروق حیدر نے جسٹس گیلانی کی ان تجاویز کو ایک آپشن قرار دیتے ہوئے اس پر ڈسکشن کرنے کا موقف پیش کیا تو ہم حیران رہ گئے کہ کم از کم ہم راجہ فاروق حیدر جیسے جرات مند انسان سے اس انتہائی زہریلے منصوبے کی حمایت کی توقع نہیں رکھتے تھے راجہ فاروق حیدر خان کا یہ ’’ڈھیلا ڈھالا موقف‘‘ظاہر کر رہا ہے کہ دال میں بہت کچھ کالا ہے کیوں کہ پاکستان میں ان کی جماعت مسلم لیگ ن کی حکومت ہے، تجویز بھی مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کے نظریاتی حامی جسٹس منظور گیلانی کی طرف سے آئی ہے اور اس کی بظاہر حمایت بھی مسلم لیگ آزاد کشمیر کے صدر راجہ فاروق حیدر نے کی ہے گویا کشمیر پر کمپرومائز کرتے ہوئے چناب فارمولہ پر عملدرآمد کی راہیں ہموار کی جا رہی ہیں لیکن اس سب کے باوجود سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل حمید گل نے مسئلہ کشمیر کے ساتھ افواج پاکستان اور پاکستان کی پالیسی ساز قوتوں کی اٹل کمٹمنٹ پر بات کر کے کم از کم ہمارے خدشات دور کر دیئے ہیں کہ کشمیر پر کسی قسم کا سمجھوتہ ہونے جا رہا ہے کشمیری خانہ کعبہ کے بعد پاکستان کی سرزمین کو مقدس ترین جگہ سمجھتے ہیں کلمے کی بنیاد پر پاکستان سے اپنے نظریاتی رشتے استوار کرنے والے کشمیری یہ سوچ بھی نہیں سکتے کہ جس پاکستان کی خاطر کشمیریوں نے لاکھوں شہداء کی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں وہ پاکستان عہد حاضر کے دجال امریکہ کے اشاروں پر ناچتے ہوئے کشمیر پر کوئی سودے بازی کر سکتا ہے کشمیر یوں کی حسرتوں اور تمناؤں کو اگر ہم چچا غالب کی زبان میں بیان کریں تو شاید کچھ یوں ہو گا
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
ترے وعدے پر جیے ہم، تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے نہ مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا
تری ناز کی سے جانا، کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تونہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا
کوئی میرے دل سے پوچھے تیرے تیرِ نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی جو جگر کے پار ہوتا
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست ناصح
کوئی چارہ ساز ہوتا کوئی غمگسار ہوتا
رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو یہ اگر شرارہو تا
غم اگرچہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غمِ عشق گر نہ ہوتا، غمِ روزگار ہوتا
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے ، شبِ غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بارہوتا
ہوئے ہم جو مرکے رسوا، ہوئے کیوں نہ غرقِ دریا
نہ کبھی جنازہ اٹھتا، نہ کہیں مزار ہوتا
یہ مسائلِ تصوف! یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے یہ نہ بادہ خوار ہوتا

قارئین! کشمیر کی خاطر پاکستان کی بہادر افواج نے تین باقاعدہ روایتی جنگیں لڑی ہیں کشمیر کی خاطر لاکھوں پاکستانی فوجی مشرقی سرحدوں پر گزشتہ چھیاسٹھ سالوں سے ان گنت جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں کشمیر کی خاطر پاکستان کو دو لخت ہونے کے صدمے سے بھی گزرنا پڑا اور یہ کشمیر ہی سے محبت کا فیض ہے کہ آج پاکستان پوری دنیا کی واحد اسلامی ایٹمی قوت ہے ۔ جنرل حمید گل نے نائن الیون کے بعد یہ تاریخی جملہ کہا تھا کہ ’’نائن الیون بہانہ ہے، افغانستان ٹھکانہ ہے اور پاکستان اصل نشانہ ہے‘‘گزشتہ دنوں ہم نے اپنے محسن دوست ڈاکٹر معید پیرزادہ کی دعوت پر اسلام آباد میں افغانستان میں امن کے قیام کے لئے دنیا بھر کے سفارتکاروں کی کانفرنس میں استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان کے ہمراہ شرکت کی تھی اور بھارتی جنرل اشوک مہتہ کی طرف سے کشمیریوں کو دہشتگرد کہنے پر ان سے سوال کیا تھا کہ بھارت اور پوری عالمی برادری یہ خطرہ ظاہر کر رہی ہے کہ افغانستان سے ایساف اور امریکن فورسز کے انخلاء کے بعدطالبان اپنے کشمیری بھائیوں کی مدد کے لئے بھارت کا رخ کرینگے تو آپ اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق کشمیریوں کو حق خود ارادیت دے کر اس مسئلے کو ہمیشہ کے لئے حل کیوں نہیں کر دیتے اس پر جنرل مہتہ ’’آئیں بائیں شائیں ‘‘کرنے کے سوا کوئی بھی مناسب جواب دینے سے قاصر رہے اور سیشن ختم ہونے کے بعد پشاور کے سابق کور کمانڈر جنرل مسعود نے ہمیں گلے لگا کر یہ زبردست سوال کرنے پر ہماری پیٹھ ٹھونکی تھی جنرل مسعود سوات آپریشن کرنے والے عظیم منصوبہ ساز ہیں اور جنرل مسعود وہ عظیم انسان ہیں کہ جن کے اکلوتے بیٹے کو راولپنڈی پریڈ لائن میں تحریک طالبان نے دیگر فوجی افسران کے ہمراہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے دوران شہید کر دیا تھا جنرل مسعود نے استاد محترم راجہ حبیب اﷲ خان اور راقم کو اس موقع پر بتایا تھا کہ امریکہ کے افغانستان میں آنے کے تین بڑے مقاصد تھے امریکہ القاعدہ کو تباہ کرناچاہتا تھا یہ مقصد وہ حاصل کر چکا ہے امریکہ طالبان کی طاقت ختم کرنا چاہتا ہے یہ مشن بھی پورا ہوچکا ہے لیکن امریکہ کا اصل مشن اور اصل نشانہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کو تباہ کرنا یا انہیں اغواء کرنا ہے اﷲ کی مہربانی سے امریکہ ابھی تک اس مقصد کو حاصل نہیں کر سکا۔

قارئین! یہاں ہم آج کے کالم کی وساطت سے بشرطِ زندگی آزاد کشمیر کے مستقبل کے وزیراعظم مسلم لیگ ن آزاد کشمیر کے صدر راجہ فاروق حیدر خان سے مودبانہ گزارش کرتے ہیں کہ آپ تو وہ شخص ہیں جنہوں نے اپنی تمام سیاسی زندگی میں کشمیری قوم کی عزت، غیرت، وقار اور سربلندی کی باتیں کی ہیں آپ کو کیا ہو گیا ہے کیا صرف وزارت عظمیٰ جیسی عارضی اور ایک عام سی کرسی حاصل کرنے کے لئے راجہ حیدر خان مرحوم جیسے جرات مند، غیرت مند اور آزاد فطرت رکھنے والے مجاہد راجپوت کا بیٹا فاروق حیدر صرف اقتدار کیلئے کشمیر کیس ’’ٹھپ‘‘کرنے پر رضا مند ہو چکا ہے ہم یہ بات تسلیم نہیں کرتے یقینا راجہ فاروق حیدر خان پر کچھ قوتوں کی طرف سے دباؤ ڈالا گیا ہے راجہ فاروق حیدر خان اٹھیے اور اسی زبان میں بات کیجیے جس زبان میں آپ نے ساری سیاسی زندگی کے دوران گفتگو کی ہے اقتدار آنی جانی شے ہے اصل چیز کردار ہے اسے داغ دار نہ ہونے دیجیے گا اﷲ کشمیری قوم کے حال پر رحم کرے آمین۔

آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے
کسی نے ملا نصیر الدین کو بتایا کہ تمہاری بیوی دریا پرپانی بھر رہی تھی اس کا پاؤں پھسلا ہے اور وہ دریا میں گر گئی ہے جلدی پہنچو
ملا بھاگم بھاگ دریا پرپہنچے اور دریا کے بہاؤ کے مخالف سمت دوڑ لگا دی اس پر کسی نے روکا اور پوچھا
’’ملا جی دریا کے بہاؤ کی طرف جانے کی بجائے الٹی کی طرف کیوں جا رہے ہیں ‘‘؟
ملا نصیر الدین نے تاریخی جواب دیا
’’میری بیوی ساری زندگی الٹے کام ہی کرتی تھی مجھے یقین ہے کہ دریا میں مرتے ہوئے بھی وہ اپنی عادت نہیں بھولی ہو گی‘‘۔

قارئین! وزیراعظم چوہدری عبدالمجید نے تو دریا کے طغیانی کیساتھ بہنے کی بجائے کشمیری قوم کے وقار اور کشمیر کیس کوبچانے کے لئے دریا کے بہاؤ کے مخالف سمت دیوانہ وار تیرنا شروع کردیا ہے دیکھنے کی بات یہ ہو گی کہ کشمیری قوم کے وقار کی بات کرنیوالے چیمپئن یہاں دیوانگی کا مظاہرہ کرتے ہیں یا وقتی فائدے اور اقتدار کے لئے سمجھوتے پر مجبور ہو جاتے ہیں کوئی کتنے بھی سمجھوتے کر لے ہمارا ایمان ہے کہ انشاء اﷲ تعالیٰ لاکھوں کشمیری شہداء کے خون کی برکت سے کشمیر آزاد ہو کر رہے گا۔

Junaid Ansari
About the Author: Junaid Ansari Read More Articles by Junaid Ansari: 425 Articles with 375011 views Belong to Mirpur AJ&K
Anchor @ JK News TV & FM 93 Radio AJ&K
.. View More