پانچ سال گزر گئے، ممبئی حملوں کا خوف نہ گیا

بھارت نے ممبئی کی طرز پر دہشت گردانہ حملوں سے بچاؤ کے لئے ا ربن کاوئنٹر ٹیرارزم ٹریننگ سنٹر (یو سی ٹی ٹی سی ) قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو مہاراشٹر سبربن کے علاقہ گورے گاؤں میں بنایا جائے گا ۔ یہ سنٹر کوئیک ریسپانس ٹیم کی حیثیت سے کام کرے گااور کمانڈوز کو تربیت بھی فراہم کرے گا۔ ٹریننگ سنٹر مغربی مضافاتی علاقہ میں آر اے کالونی میں98.6ایکڑ اراضی پر قائم کیا جائے گا ۔ممبئی،نوی ممبئی، پونے،تھانے،ناسک،ناگپور اور دیگر بڑے شہروں میں دہشت گردی میں اضافہ کے تناظر میں یہ سنٹر قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔کاوئنٹر ٹیرارزم ٹریننگ سنٹر کمانڈوز کو ٹریننگ بھی دے گا۔اور کوئیک رسپانس ٹیم کی حیثیت سے بھی کام کرے گا۔26/11ممبئی حملوں کے بعد ممبئی شہر کی حفاظت کے لئے قائم کی گئی خصوصی پولیس فورس جسے فورس ون کا نام دیا گیا ہے انہیں بھی اسی مرکز میں تربیت دی جائے گی۔اس مرکز کا سربراہ اے ایس پی عہدہ کا افسر ہو گا اور وہ اسپیشل انسپکٹر جنرل آف پولیس کے ماتحت کام کرے گا۔ جدید ہتھیاروں کا علم رکھنے اور دھماکا خیز اشیاء سے نمٹنے کی صلاحیت رکھنے والے افسروں کو اس مرکز میں تعینات کیا جائے گا ۔اسکے علاوہ نیشنل سیکورٹی گارڈ ،فوج،کمانڈو،ریاستی پولیس اور ایس آر پی سے افسروں کو اس مرکز کے لئے ڈیپوٹیشن پر مقرر کیا جائے گا۔دوسری طرف انڈین کوسٹ گارڈ کے کمانڈنگ آفیسر کے پی آر او وی کے سنگھ نے کہا ہے کہ 11 / 26کے واقعے کے بعد ساحلی تحفظ کو مضبوط کرنے کے لئے زیادہ کوششیں کی جارہی ہیں۔ اسی مقصد کے لئے کوسٹ گارڈ کی فہرست میں مختلف قسم کے کئی نئے جہاز اور ہوائی جہاززیر تعمیر ہیں۔کرناٹک میں بھی انڈین کوسٹ گارڈ نے ساحلی تحفظ کوقوی تر بنانے کے لئے پورے ساحلی علاقے میں کئی اقدامات کئے ہیں۔جہاز رانی کے فن والے اور خبر رسانی کے آلات سے لیس تیز رفتار نئے جہاز کوسٹ گارڈ کے بیڑے میں شامل ہوئے ہیں۔سمندری گشت مین بھی اضافہ کیاگیا ہے معاملات سے نمٹنے کی تیاری کی جانچ کرنے کے لئے باقاعدہ طور پر ساحلی تحفظ کی مشقیں کی جا رہی ہیں۔کرناٹک کے ساحلی علاقہ میں ساحلی تحفظ کو مزید قوی تر بنانے کے لئے انڈین کوسٹ گارڈ 14 /فروری سے کرناٹک کے ساحل میں ہوائی تکیہ والی گاڑی /ACVH-194شامل کر دیا ہے۔21،میٹر لمبی ACVمیں 31ٹن وزن لے جانے والی اور 45KONTSکی انتہائی رفتار سے ملنے کی صلاحیت ہے۔ اس ACVمیں مختلف کام جیسے نگرانی ،تلاش اور بچاوکرنا اور سمندر میں پھنسی کشتیوں کی مدد کرنے کی صلاحیت ہے۔ ACVکی کمان کمانڈنٹ سندیپ سفایا کے ہاتھوں ہے جس میں کل 13،افراد پر مشتمل عملہ سے جن میں دوآفیسر ز اور باقی 11،دوسرے مدارج ہیں۔بھارتی سکیورٹی ادارے سلامتی کے سوال پر ضرورت سے زیادہ حساس ہیں گذشتہ دنوں بھارت نے سیاحت کو فروغ دینے کے لیے 180 ملکوں کے شہریوں کے لیے ویزا ان ارائیول کی سہولیات شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان ممالک کے شہریوں کو اب ویزا کے لیے اپنے اپنے ملکوں میں بھارتی سفارتخانے نہیں جانا ہوگا۔انہیں صرف آن لائن درخواست دینی ہوگی اور پانچ دن کے اندر انہیں ایک رسید ملے گی اور وہ اس رسید کی بنیاد پر بھارت پرواز کر سکیں گے۔ بھارت پہنچنے پر ہوائی اڈے پر ہی انہیں ویزا مل جائے گا۔سیاحت کو فرغ دینے کی غرض سے یہ سہولیات سری لنکا ، تھائی لینڈ ، متحدہ عرب امارات اور جنوب ایشیائی خطے کے متعدد ملکوں نے کافی پہلے سے شروع کر رکھی ہیں۔ اور ان کے ہاں جانے سے پہلے ویزا کے لیے کوئی درخواست بھی نہیں دینی پڑتی۔بھارتی حکومت بھی یہ سہولیات بہت پہلے شروع کرنا چاہتی تھی۔ لیکن خفیہ ایجنسیاں اور سکیورٹی کے ادارے اس کی مخالفت کر رہے تھے۔سکیورٹی ایجنسیاں ویزا آن ارائیول کے ضابطوں میں کچھ شرطیں جوڑنے کے بعد اس کے لیے تیار تو ہو گئیں۔ لیکن انہوں نے پاکستان ، افغانستان سری لنکا ، ایران۔ عراق ، سوڈان ، صومالیہ اور نائجیریا کو ’حساس بتا کر اس سے الگ رکھا ہے۔پاکستانی حکمران جو بھارت کے ساتھ یکطرفہ دوستی چاہتے ہیں۔وزیراعلیٰ پنجاب سمیت دیگر انڈیا کے دورے کرتے ہیں،کبڈی کے میچ کھیلے جاتے ہیں اور پھر بجلی خریدنے کے معاہدے بھی کئے جاتے ہیں وہ بجلی جو انڈیا پاکستان کی طرف آنے والے دریاؤں پر ڈیم تعمیر کر کے بنا رہا ہے،ان حکمرانوں کو انڈیا کے ساتھ دوستی کا ثبوت مل چکا ہے۔تازہ ثبوت سیالکوٹ میں آنے والے شوکت کی لاش ہے جسکی بھارتی جیل میں لاش ملی۔کیا اب بھی حکمران انڈیا کے ساتھ دوستی کا راگ الاپیں گے؟بھارت میں گذشتہ تین عشروں میں سینکڑوں چھوٹے بڑے دہشت گردانہ حملے ہوئے لیکن ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ کوئی دہشت گرد کبھی ویزا لے کر بھارت آیا ہو۔پچھلے کچھ برسوں میں بھارت میں زندگی کے ہر پہلو پر سکیورٹی ایجینسیوں کی گرفت بڑھی ہے۔ ہوائی اڈوں، سڑکوں، ریلوے اسٹیشنوں، بازاروں، ہر جگہ نیم فوجی دستوں اور پولیس کے اہلکار وں کی بھیڑ نظر آتی ہے۔سڑکوں پر جگہ جگہ پولیس بیریکیڈ لگے ہوئے ہیں جہاں پولیس آئے دن گاڑیوں کی نگرانی کرتی ہے۔ عدم تحفظ کا احساس اتنا زیادہ ہے کہ ہوائی اڈوں پر بورڈنگ پاس چھہ چھہ بار چک کیے جاتے ہیں۔ کئی ہوائی اڈون پر تو طیارے سے نکلتے وقت بھی بورڈنگ پاس دکھانا پڑتا ہے۔دہلی سے ملنے والی ریاستوں کی سرحدوں پر بڑی تعداد میں ریت کی بوریوں کے بنکروں اور بکتر بند گاڑیوں کے ساتھ اتنی بڑی تعداد میں پولیس کے اہلکار کھڑے ہوتے ہیں کہ پورا علاقہ کوئی جنگ زدہ سرحد کی طرح نظر آتا ہے۔بڑے بڑے بازاروں میں پولیس کے رکارڈ ٹیپ ہر وقت بجتے رہتے ہیں جس میں ہر وقت دہشت گردی کے حملوں سے ہوشیار کیا جاتا ہے۔ ریڈیو پر پولیس کے اشتہار چلتے ہیں جن میں ہوٹل کے ملازمین اور مالکانِ مکانات سے اپنے مہمانوں، کرائے داروں اور نام نہاد مشتبہ دیکھنے والے لوگوں پر نظر رکھنے اور ان کی باتیں سننے کے لیے کہا جاتا ہے۔ بھارتی بحریہ نے کہا ہے کہ چین اور پاکستان کی جانب سے ملک کو کئی خطرات لاحق ہیں تاہم ائرفورس کسی بھی چیلنج کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہے۔ بھارتی وزیر دفاع اے کے انٹونی کی سربراہی میں نئی دہلی میں ایک اہم میٹنگ منعقد ہوئی جس میں قومی سلامتی کے مشیر شیو شنکر مینن ، دفاعی سیکرٹری آر کے ماتھر کے علاوہ فوج کی تینوں شاخوں کے سربراہوں نے شرکت کی۔ بھارتی اخبار کے مطابق وزیر دفاع نے فوج کو اس بات سے آگاہ کیا کہ خفیہ اداروں نے باضابطہ طور پر اطلاعات فراہم کی ہیں کہ آنے والے دنوں کے دوران ریاست میں دراندازی کے واقعات میں اضافہ ہو سکتا ہے جس کے لیے فوج کو پہلے سے ہی تیار رہنا چاہیے۔ بھارتی وزیر دفاع نے آرمی چیف بکرم سنگھ پر زوردیا کہ سرحدوں پر فوج کی تعداد میں اضافہ کرنے اور فوج کو جدید اسلحہ سے لیس کرنے کے سلسلے میں فوری طور پر کارروائی عمل میں لانی چاہیے تاکہ عسکریت پسندوں کے ارادوں کو خاک میں ملایا جائے۔ سرحدوں پر عسکریت پسندوں کی دراندازی کو روکنے کیلیے مناسب اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے جس کے لیے فوج کو بھی تیاری کی حالت میں رہنا چاہیے۔بھارتی بحریہ کہہ رہی ہے کہ پاکستان سے خطرات لاحق ہیں اور پاکستان کہتا ہے کہ انڈیا سے تجارت کریں گے۔حکمران اب تو ہوش میں آئیں انڈیا نے کبھی پاکستان کا وجود تسلیم نہیں کیا۔وطن عزیز میں ہونے والی دہشت گردی و بم دھماکوں میں بھی انڈیا کے ملوث ہونے کے ثبوت مل چکے ہیں توپھر اب بھی دوستی کیسے ممکن ہے؟
Mumtaz Awan
About the Author: Mumtaz Awan Read More Articles by Mumtaz Awan: 267 Articles with 197754 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.