پشاور میں ایک طالب علم سلیمان نے ایک روبوٹ بنایا ہے جس
کے بارے میں اس کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی طرح کے بم کو ناکارہ بنا سکتا ہے۔
سلیمان نے پشاور یورنیورسٹی کے انسٹیٹیوٹ آف فزکس اینڈ الیکٹرانکس سے ایم
ایس سی (MSc)کی ڈگری حاصل کی ہے۔انہوں نے اپنے فائنل ایئر کے پراجیکٹ میں
ایک ایسا روبوٹ بنانے کی کوشش کی ہے جس کی مدد سے کسی بھی قسم کے بم کو
ناکارہ بنایا جا سکتا ہے۔
سلیمان کا کہنا ہے موجودہ حالات کو نظر میں رکھتے ہوئے انہوں نے یہ روبوٹ
بنانے کی ٹھانی تھی کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس ایجاد کے بعد ناصرف دہشت
گردی کے واقعات میں کمی آسکتی ہے بلکہ یہ ملک وقوم کی خدمت کرنے کا ایک
موقع بھی ہے۔
|
|
سلیمان کہتے ہیں کہ ’’یہ ایک پروٹو ٹائپ روبوٹ ہے، اس میں حرکت کرتی ہوئی
ایک اسمبلی ہے جس میں پہیوں کی جگہ ٹریکس لگائے ہوئے ہیں، یہ ٹریکس اس لیے
لگائے ہیں کیونکہ اگر جگہ ٹھیک نہ ہو اور پتھر وغیرہ ہو تو یہ آسانی کے
ساتھ اس پر چل سکے۔
یہ بالکل ٹینک کے ٹریک کی طرح ہیں، اور دوسرا اس کے اوپر ایک آرم (ہاتھ)
لگا ہوا ہے جو چاروں اطراف حرکت کر سکتا ہے انسانی ہاتھ کی طرح اور پھر
دیکھنے کے لیے اس میں ایک کیمرہ بھی لگا ہوا ہے۔ ہم کنٹرول لیور کے ذریعے
اسے کہیں بھی بھیج سکتے ہیں اور لیپ ٹاپ یا ٹیلی ویژن کے ذریعے ہم دیکھ
سکتے ہیں اور اس کی گرپ (پنجہ) کی مدد سے ہم ڈیٹونیٹر یا وائر کاٹ سکتے ہیں۔‘‘
|
|
سلیمان کے بقول اگر بم بہت پیچیدہ بھی ہو اور اسے ڈیفیوز کرنا آسان نہ ہو
تو بھی اس روبوٹ میں یہ قابلیت موجود ہے کہ وہ اکیس(21) کلو تک وزنی بم کو
اٹھا کر کسی دور علاقے تک پہنچاسکتا ہے تاکہ لوگ اس کی تباہ کاری سے محفوظ
رہیں۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ انہیں یہ خیال ایک انگریزی
فلم "The Hurt Locker" کے دیکھنے کے بعد آیا۔ اس فلم کے مرکزی کردار کو
بموں کو ناکارہ بناتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بیٹری سے چلنے
والے اس روبوٹ کی وجہ سے بم ڈسپوزل اسکواڈ کے اہلکاروں کی قیمتی جانیں ضائع
ہونے سے بچ سکتی ہیں۔
سلیمان کے اس پراجیکٹ کے سپروائزر اسسٹنٹ پروفیسر فلک ناز خلیل کا کہنا ہے
کہ ہر سال ان کے سٹوڈنٹ کوئی نا کوئی نئی ایجاد کرتے رہتے ہیں اور انہیں اس
سے بہت خوشی ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سلیمان کا یہ روبوٹ قابل ستائش ہے۔ ان
کا مزید کہنا ہے کہ یہ بم ڈسپوزل روبوٹ کم وقت میں صرف ڈگری کے حصول کے لیے
بنایا گیا تھا۔ اسے ایک ماڈل کہا جاسکتا ہے اور اس میں جو ہارڈ ویئر
استعمال کیا گیا ہے وہ اتنا بھروسہ مند نہیں ہے جتنا ایک پرفیشنل ہارڈ ویئر
ہوتا ہے، اور ابھی اس کا فیلڈ ٹیسٹ بھی نہیں ہوا۔
|
|
پروفیسر فلک ناز کا مزید کہنا ہے ’’ اگر مکمل وسائل موجود ہوں اور اسے پورا
وقت دیتے ہوئے ڈیزائن کیا جائے تو اسے مزید بہتر بنایا جاسکتا ہے، لیکن پھر
بھی لیب ٹیسٹ کے بعد اس کو فیلڈ ٹیسٹ سے گزارنا ہوگا۔ فیلڈ میں ہی اس کی
خامیوں کا پتہ چلے گا‘‘۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ سلیمان نے اس ایجاد پر بہت محنت کی ہے۔ اگر ان کو
وسائل مہیا کیے جائیں اور درست رہنمائی کی جائے تو وہ اسے اور بھی بہتر بنا
سکتے ہیں۔ تاہم سلیمان کا اس بارے میں کہنا ہے ’’ ابھی یہ پہلا قدم ہے اس
میں مزید بہتری لانا ہے اور میں اپنی پوری کوشش کررہا ہوں۔ اگر حکومت اس
میں تعاون فراہم کرے تو ہم اس روبوٹ کو بین الاقوامی سطح پر بھی متعارف
کراسکتے ہیں‘‘۔
سلیمان کے شعبے کے دیگر طالب علموں کا کہنا ہے کہ اس ایجاد سے تمام طلبہ کی
حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور ان کو سلیمان پر فخر ہے کہ انہوں نے اتنے کم
وسائل میں اتنی بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔
|
|
ہیڈ آف بم سکوارڈ یونٹ ، اے آئی جی شفقت ملک کا کہنا ہے کہ اگر ایسی کوئی
ایجاد ہے تو یہ خوشی کی بات ہے اور ان کے سکوارڈ کے پاس بھی کچھ روبوٹ
موجود ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک روبوٹ زیادہ سے زیادہ بم کی تصاویر لے سکتا
ہے۔ شفقت ملک کے بقول آج کل استعمال کئے جانے والے بم بہت پیچیدہ ہوتے ہیں
ان کو ناکارہ بنانا کسی روبوٹ کا کام نہیں ہے۔ ’’میں پھر بھی سفارش کرتا
ہوں کہ ان کے لیے کچھ فنڈنگ کی جائے تاکہ ہم اس کو مقامی سطح پر بنائیں
اوریقیناً یہ ایک اچھی ابتدا ہوگی‘‘۔
شفقت ملک کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے گزشتہ روز پشاور کے علاقے یونیورسٹی
ٹاؤن میں ایک بہت ہی پیچیدہ تقریبا پچاس کلو وزنی بم کو ناکارہ بنایا تھا
اور یہ کام کوئی روبوٹ نہیں کر سکتا۔ لیکن پھر بھی وہ سلیمان کی ایجاد کو
قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ |