عام انتخابات سے کچھ عرصہ قبل تک گوجرانوالہ میں تحریک
انصاف کا نام تو تھا مگر مقام نہیں ،چند لوگوں پر مشتمل ایک گروپ کئی سالوں
سے رکے ہوئے پانی میں چپو مار رہا تھا مگر تحریک انصاف کی کشتی ایک ہی
بھنور میں گھوم رہی تھی پھر ایک شخص جسے لوگ رانا نعیم الرحمن کے نام سے
جانتے ہیں نے دبنگ انداز سے تحریک انصاف میں شمولیت کی اورکو ایک نئی راہ
پر ڈال دیا ۔رانا نعیم الرحمن کی زیر صدارت گوجرا نوالہ لیاقت باغ میں
ہونیوالا جلسہ تحریک انصاف کی کامیابی کا پیش خیمہ ثابت ہوا اور دیکھتے ہی
دیکھتے ملک بھر میں عمران خاں اور تحریک انصاف کا گراف مسلسل بلند ہو تا
گیا اور نوبت یہاں تک آپہنچی کہ مخدوم جاوید ہاشمی سمیت کئی اراکین اسمبلی
نے اسمبلی رکنیت سے مستعفی ہو کر تحریک انصاف میں شمولیت اختیا ر کی ۔انتخابات
کا بگل بجا تو دوسری پارٹیوں کی طرح تحریک انصاف میں ٹکٹوں کے حصول کیلئے
بھاگ دوڑ شروع ہوگئی اور کئی پرانے اورنئے چہروں نے اپنا اپنا مقدر آزمانے
کیلئے پاتھ پاؤں مارے۔رانا نعیم الرحمن خان نے اپنا صدارتی استحقاق استعمال
کرتے ہوئے گوجرانوالہ میں ٹکٹیں جاری کیں اور ان کی اس تقسیم کے نتیجے میں
پارٹی کے سابق ضلعی صدر اظہر محمود چیمہ ،سابق سٹی صدر عقیل ڈار ،فرید
اقبال اعوان ،شیخ نعیم احمد ہاشمی ،خضر حیات ڈوگر سمیت کئی پارٹی عہدیداران
نے ان کے فیصلے سے بغاوت کرتے ہوئے آزادحیثیت سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا
۔مگر بعدازاں اظہر چیمہ اور عقیل ڈار نے ہتھیار ڈال دیئے جبکہ دیگر لوگ اور
ان کے کئی حمایتی اپنے مؤقف پر ڈٹے رہے اور باقاعدہ الیکشن لڑا۔جس کی بناء
پرانتخابات کے بعد رانا نعیم الرحمن نے ایک بار پھر صدارتی اختیار استعمال
کرتے ہوئے پارٹی سے ہٹ کر چلنے والوں اور پارٹی امیدواروں کی مخالفت
کرنیوالوں کو نوٹس جاری کئے ۔جو پارٹی اختلاف کی دوسری وجہ بنے جس پر ناراض
لوگوں نے خوب لے دے کی اور کئی ایک نے استعفوں کی بھی دھمکی دی اور بعض
لوگوں کی طرح سے رانا نعیم الرحمن کے خلاف عدم اعتماد کی بھی آوازیں گونجیں
مگر پارٹی پالیسی آڑے آگئی کیونکہ تحریک انصاف کے ذرائع کے مطابق انٹر
پارٹی الیکشن کے بعد چھ ماہ تک کسی بھی منتخب پارٹی صدر کے خلاف عدم اعتماد
نہیں ہو سکتا ۔یوں اختلافات کی آگ سلگتی رہی ۔اب تحریک انصاف کے اختلافات
کھل کر سامنے آچکے ہیں۔ایک دھڑے کی سر پرستی ٹکٹ ہولڈر این اے 95کے علی
اشرف مغل کررہے ہیں اور فاروق عالم انصاری ،خالد عزیز لون ،ایس ایے حمید
اور احور طفیل وڑائچ ان کے معاونین ہونے کی خبریں گردش کررہے ہیں اور اس
گروپ رانا نعیم الرحمن کے خلاف باقاعدہ تحریک انصاف عدم اعتماد پیش کردی ہے
اس کی کامیابی کے دعویدار بھی ہے۔جبکہ رانا نعیم الرحمن کے حلیف تحریک عدم
اعتماد کو دیوانے کا خواب قرار دے رہے ہیں ان کے مطابق تحریک انصاف کے آئین
میں عدم اعتماد کا کوئی تصور نہیں ہے اس لیے قرار فضول اوربے آئینی ہے اور
رانا نعیم الرحمن قرار داد پیش کرنیوالوں کی رکنیت کے فاتح کی بات کررہے
ہیں جبکہ قرار داد پیش کرنے والوں کا دعویٰ ہے کہ ضلع کے تیس میں سے سولہ
ووٹ ان کے ساتھ ہیں اور قرار داد صوبائی اور مرکزی قیادت کے پاس پہنچ چکی
ہے۔اس لیے پتہ چل جائے گا کہ جاگتے میں خواب کون دیکھ رہاہے ۔ان تمام حقائق
کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ گوجرانوالہ میں تحریک انصاف کے بھپرے
سونامی کی لہریں بکھر رہی ہیں اور جو لوگ دعوے کررہے ہیں کہ آنیوالا کل
تحریک انصاف وہ صرف خوابوں کی دنیا میں رہ رہے ہیں کیونکہ مقامی قیادت جس
ڈگر پر چل رہی ہے اس راہ میں مایوسی ہی مایوسی اور شرمندگی ہی شرمندگی ہے ۔تازہ
اطلاعات کے مطابق رانانعیم الرحمن کا جادو سر چڑ کر بول رہا ہے اور صوبائی
قیادت کے پارٹی اختلافات پر ایکشن لیتے ہوئے علی اشر ف مغل کی پارٹی رکنیت
منسوخ کی جانے کی خبریں شہر میں گردش کررہی ہیں حقیقت جلد ہی منظر عام پر
آجائے گی ۔ |