ایک بچوں کی کہانیوں کی کتاب میں کبھی ایک خرگوش کی کہانی
پڑھی تھی ۔ وہ کہانی لکھی تو بچوں کیلئے گئی تھی مگر اس میں جو سبق دیا گیا
تھا وہ بچوں سے زیادہ بڑوں کیلئے مفید ہے۔ میاں خرگوش بڑے اداس تھے کیونکہ
ان کا بیٹا کہیں شادی کرنے کو تیار نہیں تھا۔ ایک دن میاں خرگوش نے اپنے
بیٹے کو بلایا اور کہا بیٹا میں بہت اداس ہوں کیونکہ تم کہیں شادی نہیں
کرتے ہو۔ مجھے اس بات کا بے حد دکھ ہے‘ تم بن بیاہے پھرتے ہو۔ بیٹے نے جواب
دیا ابا جان میں نے اس مسئلے پر بے حد غور کیا ہے اور میں آپ کو یقین دلاتا
ہوں کہ میں ایک نہ ایک دن ضرور شادی کر لوں گا۔ مگر فی الحال ممکن نہیں۔
خرگوش نے کہا کیوں ممکن نہیں ۔ بیٹے نے جواب دیا اس لئے کہ مجھے اپنی پسند
کی بیوی نہیں ملتی۔ خرگوش نے پوچھا وہ کیسے؟ بیٹے نے جواب دیا پہلے میں نے
سوچا تھا کہ کچھوے کی بیٹی سے شادی کر لوں۔ وہ بہت عقلمند ہے وہ اچھی طرح
گھر چلائے گی۔ مگر پھر مجھے معلوم ہوا وہ تو جھوٹ بولا کرتی ہے اس لئے اس
کا خیال چھوڑ دیا۔ خرگوش نے کہا ہوں۔ بیٹے نے کہا پھر مجھے خیال آیا کہ
سانپ کی بیٹی سے شادی کر لوں و ہ لہرا لہرا کر چلتی ہے ‘ دل کو بھاتی ہے
مگر پھر مجھے معلوم ہوا کہ وہ تو آئے دن نئے نئے کپڑے بدلتی ہے ۔ ایک کپڑا
ذرا پرانا ہوا تو جھٹ اتار پھینکا اور دوسرا جوڑا پہن لیا۔ اگر میں اس سے
شادی کر لیتا تو وہ ہر روز نئے نئے کپڑوں کا مطالبہ کرتی رہتی چنانچہ میں
نے اس کا خیال بھی جانے دیا۔ خرگوش نے کہا ہوں۔ بیٹا بولا پھر میں نے سوچا
کہ چیتے کی بیٹی سے شادی کر لوں مگر پھر مجھے معلوم ہوا وہ تو بے حد غصیلی
ہے چنانچہ میں نے اس کا خیال بھی چھوڑ دیا۔ خرگوش نے کہا اچھا‘ بیٹا بولا
پھر میں نے سوچا دریائی گھوڑے کی بیٹی سے شادی کر لوں وہ بہت مہربان نظر
آتی ہے۔ وہ ایک اچھی بیوی ثابت ہو گی مگر بعد میں مجھے پتہ چلا وہ تو بے
وقوف ہے بس میں نے اس کا خیال بھی چھوڑ دیا۔ خرگوش نے کہا پھر‘ بیٹا بولا
پھر میں نے سوچا کہ لگڑ بگڑ کی بیٹی سے شادی کر لوں وہ بہت چالاک ہے اور
چلتی پھرتی اچھی لگتی ہے۔ مگر مجھے پتہ چلا وہ تو بے حد مکار ہے ۔ بس میں
نے اس پر بھی صبر کر لیا۔ خرگوش نے کہا پھر ‘ بیٹا بولا بس یہی وجہ ہے کہ
میں آج تک شادی نہ کر سکا۔ اب میں اس انتظار میں ہوں کہ مجھے کوئی ایسی
بیوی مل جائے جو عقلمند بھی ہو‘ خوبصورت بھی ہو‘ چست و چالاک بھی ہو ‘
مہربان طبیعت بھی رکھتی ہو گھر بھی اچھی طرح چلائے‘ مکاری بھی نہ کرے‘ جھوٹ
بھی نہ بولے‘ غصے میں بھی نہ آئے اور نئے نئے کپڑے بھی نہ مانگا کرے۔ خرگوش
نے کہا میرے بیٹے پھر بس صبر کر کے بیٹھ جاﺅ کیونکہ تم کبھی بیاہے نہیں جا
سکو گے۔ ہماری سوسائٹی میں آج کل رشتے کرنے کے معاملے میں معیار عموماً
اتنا اونچا رکھا جاتا ہے کہ خرگوش کے اس باریک بین بیٹے کی طرح بہت سا
نوجوان طبقہ بن بیاہے بیٹھا رہتا ہے۔ یہاں تک کہ مناسب عمریں گزر جاتی ہیں
اور اپنے پیچھے بے شمار پیچیدگیاں چھوڑ جاتی ہیں۔ لڑکیاں خود اور ان کے
والدین رشتہ کرتے ہوئے لڑکوں کے بارے میں معیار اتنا اونچا رکھے ہیں کہ اس
معیار کے لڑکے ملنا محال ہو جاتے ہیں اور دوسری طرف خود لڑکے اور لڑکوں کے
والدین لڑکیوں کے معاملے میں اس قدر باریک بین ہو جاتے ہیں کہ کوئی لڑکی ان
کی نگاہ میں جچتی ہی نہیں۔ اس چھان بین کی وجہ سے وقت گزرتا چلا جاتا ہے
یہاں تک کہ شادی کی مناسب عمریں گزر جاتی ہیں اور عمریں زیادہ ہو جانے کے
باعث اچھا رشتہ ملنا اور بھی زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ بالکل
درست ہے کہ اولاد بے حد عزیز ہوتی ہے کہ سب والدین یہی چاہتے ہیں کہ بہتر
سے بہتر رشتہ ملے۔ مگر خدا نے عقل بھی اسی لئے دی ہے کہ اس سے کام لیا جائے۔
اولاد کی شادی کے سلسلے میں معیار کو بہت زیادہ بڑھا لینا بعض اوقات خود
اولاد کیلئے مضر ثابت ہوتا ہے۔ معیاری رشتے تلاش کرتے کرتے اعلیٰ رشتے بھی
ہاتھ سے نکل جاتے ہی اوروقت گنوا کے پھر معمولی رشتے پہ قناعت کرنا پڑتی ہے۔
ایسی بہت ساری مائیں آپ کو ملیںگی جو اس غم میں گھلی جارہی ہیں کہ ان کی
بیٹیوں کے رشتے نہیں ہو رہے مگر کسی صورت میں اپنے معیار کو کم کرنے کو
تیار نہیں ہیں۔ لڑکے پڑھے لکھے ہوں۔ اعلیٰ عہدوں پر بھی فائز ہوں۔ اخلاق و
عادات کے بھی اچھے ہوں۔ طور طریقے بھی عمدہ رکھتے ہوں۔ شکل و صورت بھی غیر
معمولی ہو۔ اچھے خاندانوں سے بھی تعلق رکھتے ہوں ‘ وغیرہ وغیرہ۔ اب ظاہر ہے
ایسے بہت کم انسان ہوں گے جن میں یہ تمام صفات جمع ہوں ۔ شادی کو خدا نے
اخلاق اور ایمان کی حفاظت کا ذریعہ بنایا ہے۔ اس لئے اس کو بھاری بھرکم اور
مشکل بنانے کی بجائے آسان بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ الٹی سیدھی ہندﺅوانہ
رسوم کی پابندی کرنا اور رشتے کے معیار کو بہت زیادہ بڑھا لیتے ہیں ہر کام
مشکل سے مشکل ہوتا چلا جا رہا ہے۔ جتنا یہ مشکل ہوتا جارہا ہے اتنے ہی طبقے
کے اخلاق اور ایمان کے خطرے میں پڑنے کے امکانات بھی بڑھتے جارہے ہیں۔
بشکریہ عبقری میگزین |