آجکل جدھر جاؤ ایک ہی موضوع زیر بحث ہے، امن مذاکرات
کامیاب ہونگے یا نہیں۔ کیونکہ دیکھنے میں آیا ہے، کہ پاکستان کی آبادی کا
ایک فیصد مراعات یافتہ طبقہ ان مذاکرات کا حامی نہیں۔ اور مخالفت پر اترا
ہوا ہے۔ اسمیں زیادہ تر وہ لوگ ہیں۔ جن کی مذہب میں دلچسپی صرف اس حد تک ہے۔
کہ شناختی کارڈ انکا پاکستانی شو کرتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں، جیہون نے کبھی
نماز نہیں پڑھی، اور نہ انہیں آتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں، جو امریکہ میں جاکر
سوئیپر سے لیکر ڈش کلینرز ، ٹیکسی ڈرائیونگ، ہاؤس کیپنگ جیسے کام کرکےفخر
محسوس کرتے ہیں۔ اور امریکن کہلانا اور ا مریکی پاسپورٹ حاصل کنے کے لئے ہر
اخلاقی حد سے گزر جانے کو تیار رہتے ہیں۔
ان میں ایک وہ پاکستانی نثاد برطانوی شہری بھی ہے ۔ جو گستاخ رسول ﷺ ہے۔
اور واجب ا لقتل ہے۔ لیکن برطانوی حکومت اسکا دفاع کر رہی ہے۔ اور ہمارے وہ
لیڈران بھی شامل ہیں۔ جنکے بچے امریکہ اور برطانیہ میں زیر تعلیم ہیں۔ یہ
وہ لوگ ہیں، جنہون نے اپنی عزت، غیرت اور دینی اساس کو گروی رکھ دیا ہے۔
اور پاکستانی کہلوانے پر شرمندگی، اور امریکن، یا برطانوی شہری کہلوانے پر
فخر محسوس کرتے ہیں۔ اسکے باوجود چند گھرانےایسے بھی ہیں، جو اپنی اسلامی
اقدار، وطن سے محبت، اور دین سے لگاؤ رکھتے ہیں۔ اور اس ماحول میں برقرار
رکھے ہوئے ہیں۔ ( اللہ پاک انکے دین اور ایمان کی حفاظت فرمائے) آمین۔
بات کر رہے تھے، امن مذاکرات کی اور اس مراعات یافتہ طبقے کی، جو اسکی
مخالفت میں حد سے گزر جانے کو تیار ہے۔ اور یہ اپنی پسندیدہ ایمپورٹیڈ
جمہوریت ، اور سیکولر ازم کی حمایت کرتا ہے۔ اور اس طرز کی حکومت کا حامی
ہے۔ اور ایسے لوگوں کی تعداد تو کم ہے، لیکن انکے ہاتھ لمبےاور اثر رسوخ
زیادہ ہے۔ یہ لوگ اپنے آپ کو لبرل اور روش خیال مسلمان کہتے ہیں۔ یہ لوگ
اسلام کو بھی مانتے ہیں، اللہ پاک اور نبی کریم ﷺ کا دم بھی بھرتے ہیں۔
لیکن یقین نہیں رکھتے۔ انکی حالت باکل ویسی ہی ہے جیسی کہ نبی کریم ﷺ سے
پہلے مشرکین ِ مکہ کی تھی۔ جو خانہ کعبہ کو اللہ پاک کا گھر بھی مانتے تھے،
طواف بھی کرتے تھے، لیکن شرک بھی کرتے تھے۔ اسی لئے 360 بت بناکر کعبہ میں
رکھ چھوڑے تھے۔ اور انہیں مانگنے کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ آجکلل یہی شرک ہم
بھی کر رہے ہیں۔ آج کے دور کے مسلمان نے اپنا " لات ، منات" امریکہ کو بنا
لیا ہے۔ اور ہر معاملے میں ہمیں وہی نظرآتا ہے۔ آج ہمارے دلوں میں اتنا ڈر
یا خوف اللہ کا نہیں جتنا امریکہ کا ہے۔ اگر ہم نے یہ حکم نہ مانا تو
امریکہ یہ کر دے گا ۔ اگر ہم نے مخالفت کو تو ہماری امداد بند ہوجائے گی،
ہماری تجارت بند ہوجائے گی، اقتصادی پابندیان عائد ہوجائین گی۔ ہم پر حملہ
کردیگا۔ ملک تباہ ہوجائے گا۔ بچے بھوکے مر جائیں گے۔
امریکہ کےایجنٹ پاکستان کے شہریون کو قتل کردے، تو وہ آزاد کردیا جائے،
امریکہ اگر ہمارے ہی مسلمان بھائیون پر فضائی ھملے کرنے لے لئے ائیر بیس
مانگے، تو حاضر، امریکہ جب چاہے جس پر چاہے، دہشت گردی کا الزام لگائے اور
جب چاہے ، گرفتار کرکے لے جائے، ہم خاموش ، جب چاہے، ہمارے علاقون پر ڈرون
اٹیک کرے، آبادیون پر بم گرائے، اوربستیون کا تباہ وہ برباد کردے ، بچون ،
بوڑھون ، نوجوانون ، کی لاشیں گرادے ہم حاضر۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی، معصؤم اور
بے گناہ ہو اسے بچون سمیٹ گرفتار کرکے لے جائے، اور ایک غلط الزام میں تو
ہم خاموش، ہم مجبور ہیں، اگر ہم حکم نہیں مانیں گے تو ہمارا خدا(امریکہ) ہم
سے ناراض ہوجائے گا۔ ہم پر اقتصآدی پابندیان عائد کردے گا، ہماری امداد بند
ہوجائے گی۔ امریکہ کہے بپٹرول مہنگا کردو، لو جی کردیا، بجلی کا ریٹ بڑھادو
، لوجی کردی، گیس کی سپلائی بند کردو، تاکہ ، صنعت کا پہیہ نہ چلے، لو جی
کردیا۔ عوام کی زندگی حرام کردو، لوجی کردی۔
الیکشن کا وقت آئے، تمام لیڈران، اپنے ان داتا امریکہ سے منظوری لیکر آئین،
جی میں آپ کی خاطر وہ سارے کام کرونگا جو آپ کہیں گے۔ بس پانچ سال کے لئے
مجھے موقعہ دے دین۔ آپ میرے مالک ، ہیں خالق ہیں، ہمیں بنانے والے ہیں، ہم
بھی آپ کے غلام ہیں اور ہمارے بچے بھی آپ کے غلام رہینگے۔ ہمارا سب کچھ
یہاں ہے۔ بچے، بیوی، جائیداد، کاروبار، اور پیسہ، ہم آپ کے خلاف کیسے
ہوسکتے ہیں۔ بس اس دفعہ لاٹری ہمارے نام نکال دین۔
یہ ہے ، وہ 5٪ طبقہ جنکا آقا امریکہ ہے۔ جو آزاد خیال، لبرل ہے۔ اور امریکہ
کے آشیرباد سے حکومت کر رہا ہے، او ر 18 کروڑ عوام کا خون چوس رہا ہے کسی
جونک کی طرح۔ اور قوم کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ اپنی کرپٹ سیاسی جماعتون کے
بے ضمیر بدمعاشون ، کرپٹ پولیس افسران، آوارہ ، اوباش غنڈون کے ذریعے، یہ
لوگ بظاہر کو ایک دوسرے کے دشمن ہیں، لیکن سب اندر سے ایک ہیں۔ جب دیکھتے
ہیں، کہیں سکون ہے، عوام آرام کا سانس لینے لگے ، یہ ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکے
کروا کر پھر لوگون کا امن سکون برباد کر دیتے ہیں۔ اور خود پرسکون نیند سو
جاتے ہیں۔
دوسری طرف ایک طبقہ اور ہے۔ جسے ہم بنیاد پرست کہتے ہیں۔ جو ایک خدا ئے
بزرگ و برتر پر یقین رکھتا ہے۔ بے شک اسکا ایمان میری طرح کمزور ہو، لیکن
ایمان کے کم درجے کے باوجود وہ جانتا ہے۔ میرا اللہ ہی میرا خالق، مالک ،
اور رازق ہے۔ اور اپنے کمزور، ناتوان وسائل کے باوجود ان امریکی خدا پرستون
سے نفرت کرتا ہے۔ اور ان سے بر سرِ پیکار ہے۔ اور انشاء اللہ اسوقت تک رہے
گا ، جب تک اس پاک سر زمین جو پاکستان کے نام سے پہچانی جاتی ہے، اور جسکا
قیام ہی صرف ایک کلمہ بنا تھا۔ جسکی خاطر ہمارے بزرگون نے آگ اور خون کا
دریا پار کیا تھا۔ کو ایک اللہ کی حاکمیت قائیم نہیں کرلیتا۔ اور نبی کریم
ﷺ کی امت کے ٹکڑے کرنے والون کو نیست و نابود نہیں کرلیتا۔
تاریخ اسبات کی گواہ رہی ہے۔ کہ مسلمانون نے جب بھی کوئی جنگ جیتی ہے۔ حق
کی خاطر جیتی ہے، اور اللہ پاک کی لنصرت اور مدد سے جیتی ہے۔ چاہے وہ بدر
کا معرکہ ہو یا غزوہ احد، مسلمانون نے کوئی بھی جنگ اپنی افرادی قوت،
زوربازو، یا اسلحہ کی فراوانی سے نہیں جیتی۔ بلکہ جذبہء ایمانی سے جیتی ہے۔
اسکی تازہ ترین مثال ۔ روس اور افغانستان کی جنگ کی ہے۔ اور وہ مجاہدین آج
بھی ایک ایسی طاقت کو مقابلہ جو دنیا کی سپر پاور اور ہمارے حکمرانون کے
خدا کے بت کو پاش پاش کر ہے ہیں۔ یہی وہ اللہ کے سپاہی ہیں، جو بے
سروسامانی ، کے عالم میں، بھوک اور پیاس کی حالت میں اپنے بچے کچے خاندانون
سے دور ، روس جیسی سپر پاور کے ٹکڑے اڑاتے رہے، اور پتھرون سے روسی ٹینکون
کو تباہ کرتے رہے۔ اور بلا آخر 13 سال کی چھاپہ مار کاروائیون کے بعد روس
کو نیست و نابود کرنے میں کامیاب ہوگئے۔
شاید انہی کے لئے حضرت علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھا۔۔
این سعادت بزور باز و نیست۔
تا نہ بخشند خدائے بخشندہ
کیا واقعی یہ جنگ مجاہدین افغانستان نے اپنے زورِ بازو ، افرادی قوت، اسلحہ
کی فروانی کے بل پر جیتی تھی ، یا پھر قوت ایمانی، اللہ پاک کی ذات پر کامل
یقین، اور شوقِ شہادت اور اسلام کی سر بلندی کو اپنا مقصد بناکر جیتی تھی۔
آئیے ہم ان چند پیش آنے والے واقعات کا مطالعہ کرتے ہیں، جو دوران جنگ
مجاہدین افغانستان کے ساتھ پیش آئے، اور انکی ایمانی قوت، شوق شہادت کا
باعث بنتے گئے، تو دوسری طرف کافر روسی فوجیون کو حیران اورخوف کا باعث
بنتے چلے گئے۔
ان واقعات کی صداقت کے بارے میں ہونے والی تحقیق مستند ہے۔ جیسا کہ حضرت
مفتی رفیع عثمانی دامت برکاتتہم ۔ فرماتے ہیں۔ "واقعات کے بیان میں کڑی
احتیاط کی خاطر میں نے ان امور کی پابندی کی:۔
(الف) واقعہ جس مجاہد کے ساتھ یا جس کے سامنے پیش آیا حتیالامکان میں نے اس
سے وہ خود سناہے۔ اور واقعات بار بار سن کر اسی وقت قلم بند کئےہیں۔ اور
دوسرے متعلقہ مجاہدین سے بھی اس کی امکانی تحقیق کی ہے۔ جب تک ان مجاہدین
سے خود مل کر واقعہ کی صداقت مجھ پر روز روشن کی طرح واضح نہ ہوگئی۔ تحریر
نہیں کیا۔
(ب) کچھ واقعات میں نے پاکستانی مجایدین کی تنظیم حرکتہ المجہاد الاسلامی
کے ماہنامہ الاشاد کے حوالے سے لکھے ہیں۔ لیکن ان واقعات کی تحقیق بھی میں
نے ان مجاہدین سے خود مل کر کی ہے(یہ تیرے پراسرار بندے۔ص۔7)
شہید کا جسم نہ متغیر ہوتا ہے۔ اور نہ ہی اسکو درندے کھاتے ہیں:
مولانا نصر اللہ منصور کے گھر میں مجاہد عمر حنیف نے بتایا " میں نے ایک
شہید کو بھی ایسا نہیں دیکھا جس کے جسم کی حالت متغیر ہوگئی ہو یا اس کے
جسم سے بدبو آنے لگی ہو۔ میں نے ایک شہید بھی ایسا نہیں دیکھا جس کے جسم کو
کتون نے چھوا ہو۔ جبکہ کیمونسٹون کو کتے اور دوسرے درندے بھنبوڑتے رہتے
تھے۔ میں نے بعض شہداء کو انکےشہید ہونے کے ایک سال کے بعد دیکھا، ان کے
زخم نہ صرف تازہ تھے بلکہ ان سے خون بھی جاری تھا"۔
شہادت پر مبارکباد کا اثر:
لوگر کے شہید برکی برک کے کمانڈر مصطفیٰ بدر نے ہمیں بتایا کہ ربانی نامی
مجاہد ایک معرکہ میں شہید ہوگیا، شہادت کے بعد ہم نے دیکھا اس نے اپنی
کلاشنکوف سینے سے چمٹا رکھی تھی، اور اسے مضبوطی سے تھام رکھا تھا۔ جب
مجاہدین اس کے پاس آئے اور اس سے کلاشنکوف لینے کی کوشش کی تو ناکام رہے۔
کلاشنکوف اس کے ہاتھون سے نہ چھڑا سکے پھر میں آیا، میں نے اسے شہادت پر
مبارکباد دی اور اس سے کلاشنکوف لے لی۔
شہید کا نعرہء مستانہ:۔
حاجی ارسلان کے معاون کمانڈر عبدلحمید نے مجھے بتایا کہ جنوری 1986ء میں
مجاہدین کی ایک گاڑی شاہی کوٹ ضلع زرمت پکتیا کی طرف سے آرہی کلتھی، یہ
قصبہ پاکستانی سرحد کے قریب واقع ہے۔ اچانک فضاء میں 12 ہیلی کاپٹر نمودار
ہوئے اور گاڑی کے گرد گھیرا ڈالے ہوئے مختلف جگہون پر اتر گئے ، اور وہان
سے ہماری گاڑی پر فائیرنگ شروع کردی جس سے اا مجاہد ین شہید ہوگئے ۔ غلام
محمد بھی ان شہیدون میں شامل تھا۔ وہ رت 8 بجے شہید ہوا۔ اگلی صبح 10 بجے
مولوی نصرالدین میدان میں آئے اور جیسے ہی شہید غلام محمد کے پاس پہنچے ۔
ان نے ہاتھ بلیند کر کے تعرہ لگایا۔ اس کا ہاتھ اسوقت تک فضاء میں بلند
رہا، جب تک مولوی نصرالدین نے فاتحہ ختم کہ کرلی ۔ پھر اس سے کہا کہ شہید
ہاتھ نیچے کرلو تو شہید نےہاتھ نیچے کرلیا۔
اللہ اکبر ، اللہ اکبر ۔ ایسے ہزارون واقعات ہیں جو ان مجاہدین میں ایمان
کی کیفیت کو غیر متذلزل کردیتا ہے۔ یہ وہ سعادت ہے ، جو چاہت کرنے اور طلب
کرنے پر نصیب ہوتی ہے۔
ملائکہ کی طرف سے مدد:
اللہ پاک قرآن میں فرماتے ہیں۔(ترجمعہ) بلکہ اگر تم صبرکرو اور خدا سے ڈرو
تو انکے چڑھ آتے ہی ۔ تمھارا رب پانچ ہزار طے شدہ فرشتون سے تمہاری مدد کرے
گا۔ (آل عمران۔25)
وہ شہسوار کہان ہیں جو گھوڑون پر سوار تھے؛۔
میر قیمہ خان نے بتایا۔ کہ روسیون کے 70 ٹینک اور گاڑیون نے ہم 8 مجاہدین
پر حملہ کردیا، اس وقت ہمارے پاس صرف ایک راکٹ لانچر(آر پی جی 7)اور گیارہ
راکٹ تھے۔ ہم نے ایک راکٹ فائر کیا اور ایک ٹینک جلا دیا، دوسرا فائر کرنا
دچاہا تو پتہ چلا کہ ان کے اگنیشنز تو ہیں ہی نہیں یعنی باقی 10 راکٹ فائر
کے قابل ہی نہیں تھے۔ اب ہم پریشان ہوئے، دیکھا کہ ۓٹینک پسپا ہورہے ہیں،
اس معرکے میں پانچ کیمونسٹون نے اپنے آپ کو ہمارے حوالے کردیا، اور ہم سے
پوچھا وہ شہسوار کہان ہیں جو گھوڑون پر سوار کئی ہزار کی تعداد میں میدان
میں پھیلے ہوئے تھے۔ ؟ ہم نے ان سے کہا کہ ہم تو صرف آٹھ ہی تھے، لیکن
انہون نے ہماری بات پر یقین نہیں کیا۔ یہ واقعہ شیخ سیاف کے سامنے بیان کیا
گیا۔
بیس مجاہدین اور ایک ہزار اجنبی:۔
جاجی کے ڈرائیور نے بتایا کہ ہم دشمن سے لڑے تو اس وقت ہم بیس مجاہد تھے،
اور دشمن کی تعداد بہت زیادہ تھی، جب ہم ان لسے لڑ رہے تھے، تو ہم نے دیکھا
لوگون کی ایک بڑی تعداد (تقریبا 1000 افراد) ہمارے ساتھ دشمن سے لڑرہی تھی،
معرکہ ختم ہونے کے بعد ہم نے ان کو نہیں دیکھا۔
سبحان اللہ۔ حضرت علامہ اقبال نے کیا خوب فرمایاہے۔
فضائے بدر پیدا کر فرشتے تیری نصرت کو۔
اتر سکتے ہیں گردون سے قطار اندر قطار اب بھی۔
(یہ تمام واقعات فضائے بدر سے ماخوذ ہیں۔ مصنف مفتی عبدُاللہ َمسعود )
مندرجہ بالا واقعات، زیادہ پرانے نہیں، کہ ہم یہ کہہ سکیں، اب وہ مسلمان
کہاں، ہمارے اسلاف کے واقعات گزر گئے، اب نیا دور ہے، ترقی یافتہ دور، اب
سائینسی دور ہے، ایٹم بم کا دور ہے، ایک منٹ میں ایک بٹن دباتے ہی دنیا میں
تباہی آسکتی ہے۔ ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ اس زمانے میں یہ سب نہیں تھا، اتنی
ترقی نہیں تھی، ہوائی جہاز نہیں تھے، کمپیوٹر نہیں تھا، ٹیکنالوجی نہیں
تھی۔ یہ باتیں پرانی ہیں، دقیانوسی۔ آج کا انسان چاند پر قدم رکھ رہا ہے۔
بنیاد پرست، لوگون کہ یہی رونا ہے۔
لیکن اللہ پاک آج بھی وہہی ہیں، روس ختم ہوگیا، امریکہ جنگ ہار گیا، اسی
بنیاد پرستی کی طاقت کی وجہ سے، اسی یقین اور ایمان کی طاقت کی وجہ سے۔ آج
کا یہودی، اور عیسائی، ہم سے خوف زدہ نہیں بلکہ ہماری اسی بنیاد پرستی اور
ایمانی قوت کی وجہ سے۔ کیا ہم یہ سمجھتے ہیں، کہ یہ جنگ دہشت گردی کے خلاف
لڑی جارہی ہے، نہیں یہ بات سمجھ لیں یہ جنگ اسلام کے خلاف ہے ،اللہ کے دین
اور اسکے نام لیوا لوگون کے خلاف ہے۔ یہ اسلام اور کفر کی جنگ ہے۔ یہ ایمان
اور یقین کی جنگ ہے۔ یہ جنگ اللہ کے نظام کے خلاف جنگ ہے۔
کفر، اس مرتبہ بھی مٹنے کے لئے آیا ہے، اور انشاء اللہ مٹے گا۔ آج کا
مسلمان کمزور صرف اسلئےہوگیا ہے۔ کہ اس نے اپنی حیثیت کو اپنی تعلیمات، کو
اپنے بنیاد پرستی کو، اپنے قرآن، اللہ اور رسول ﷺ کو فراموش کردیا ہے۔
مجھے نبی کریم ﷺ کی وہ حدیث یاد آتی ہے، کہ مجھے مشرق سے ٹھنڈی ہوائیں آتی
ہیں، یہ وہ ہوائیں ہیں ، جو اللہ کے دین کو لیکر پوری دنیا میں پھیل
جائینگی، اور شیطانی قوتون، وحشت، بربریت، بے حیائی، اورکفر کی آگ کو ٹھنڈا
کردین گی۔
اس موقعہ کی مناسبت سےحضرت علامہ اقبال کا ایک شعر:
فطرت کے مقاصد کی کرتا ہے نگہبانی
اک بندئے صحرائی یا مردِ کوہستانی
آج آپ بھی دیکھ رہے ہیں۔ کہ اللہ پاک نے ہمیں کتنی بڑی سعادت سے نوازا ہے۔
کہ ہم نےدنیا کی دو بڑی طاقتون کو زخم چاٹنے پر مجبور کردیا ہے۔ اور اب وہ
اپنی ذلت کا بدلہ پوری دنیا کے مسلمانون سے لے رہا ہے۔افریقہ، برما، شام،
عراق، مصر، ہندوستان، میں خانہ جنگی کروا کر، اسلامی حکومتون کو ختم کرکے
رافضی، اور بے دین لوگون کو پیسہ اور ہتھیار دے کر۔ اور اپنے سب سے بڑے
ساتھی اور دہشت گردی میں شامل دوست پاکستان کے ساتھ، بھائی اور بھائی کو
آپس میں لڑا کر، خانہ جنگی کراکر۔ میڈیا کے ذایعہ بے حیائی، پھیلاکر، اور
اسلام کے خلاف، ایک پر یشدد معاشرہ دیکھا کر۔ ویلنٹاین ڈے جئسے پروگرام
کرواکر، ہماری معیشت کی پیٹھ میں خنجر گھونپ کر۔ پاکستان کو اور اس میں
رہنے والی پوری قوم کو پوری دنیا میں بدترین قوم ثابت کرکے۔ اور ہمارا پورا
میڈیا اس کام کو پورے زور شور سے کر رہا ہے۔
اور حکومت کے ادارے، خاموش ہیں۔ حکمران اس ملک کو لوٹنے اور برباد کرنے پر
تلے ہوئے ہیں۔
ہم اٹھارہ کروڑ عوام کب تک خاموشی ہے ، یہ تماشہ دیکھتے رہیں گے۔ ہمارے
تمام دکھون کا حل ہماری آسمانی کتاب میں موجود ہے۔ قرآن اور سنت، یہی وہ
راستے ہیں۔ کہ ہم اسکے احکامات کو دل سے مانیں ، اسلامی قوانین کو ملک میں
نافذ کرین۔کیونکہ اب ہمیں ملا کی آذان کی نہیں مجاہد کی آذان کی ضرورت ہے۔
اور یہی وہ وقت ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے ہے حق آزاں کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے)
تھریر: فاروق سعید قریشی: |