دوستی ایک خوبصورت اور انمول رشتہ

“ میرا نام مہرین ہے- میں سیکنڈ ائیر کی طالبہ ہوں- مجھے اپنی دوست نازش سے محبت ہے- ہماری دوست دو یا تین سال پر محیط ہے- مجھے لگتا ہے کہ میں اس سے بہت زیادہ محبت کرتی ہوں- ہر وقت اس کے ساتھ رہنا٬ اس کی توجہ کا مرکز بن کر رہنا میری اولین خواہش ہے- جس دن وہ نہیں آتی میں روتی ہوں- چڑچڑے پن کا شکار ہوجاتی ہوں اور پڑھائی نہیں ہوتی-

ایک بار وہ تین دن نہیں آئی مجھے زندگی مشکل لگنے لگی- میں نے بلیڈ سے اپنا بازو زخمی کردیا- مجھ سے اس کی ناراضگی تو بالکل برداشت نہیں ہوتی- میں اسے اپنے گھر والوں پر ترجیح دیتی ہوں- اس کی خوشی کی خاطر سب کچھ بھول جاتی ہوں حتیٰ کہ اپنے منگیتر کو بھی- لیکن اب میں محسوس کرتی ہوں کہ لڑکیاں مجھے سائیکی کہتی ہیں اور میرا منگیتر بھی مجھ سے خفا رہتا ہے کیا میں غلط ہوں؟“

ماہر نفسیات ہونے کے باعث مختلف افراد کے مسائل سے واسطہ پڑتا ہے- اکثر افراد خطوط کے ذریعے اپنے مسائل ڈسکس کرتے ہیں- یہ بھی ایک ایسا ہی خط ہے جو میں نے آپ سے شئیر کیا ہے-

اپنے اردگرد نظر دوڑائیے تو آپ کو ایسے مسائل سے گھرے دو چار افراد نظر آئیں گے جو اپنے دوستوں کے لیے اس قدر جذباتی ہوجاتے ہیں کہ انہیں ہر رشتے پر ترجیح دیتے ہیں- حتیٰ کہ ماں باپ٬ بہن بھائی اکثر تو خود کو بھول جاتے ہیں- ان کی خاطر ڈپریشن کا شکار ہونا٬ خود کو نقصان پہنچا٬ رونا دھونا عام ہے- صنفِ مخالف کے لیے ایسے جذبات کا پیدا ہونا اس قدر حیران کن بات نہیں ہے- لیکن اپنی ہی جنس کے لیے ایسے احساسات رکھنا یقیناً حیرت کی بات ہے بلکہ کسی قدر افسوس کی بھی-

ایسا کیوں ہوتا ہے؟
اس کی وجہ کیا ہوتی ہے؟
اور ان باتوں کا تدارک کیسے ممکن ہے؟

یقیناً ایسی کیفیات سے دوچار افراد نفسیاتی مسائل میں جکڑے ہوتے ہیں- جذباتی لحاظ سے انہیں وہ توجہ ملتی نہیں جو ان کی عمر کا تقاضا ہے- احساس تنہائی سے دوچار ہوتے ہیں- سب سے بڑھ کر احساسِ کمتری جو انہیں زندگی کے کسی بھی شعبے میں آگے بڑھنے سے روکتا ہے- اور وہ اپنے سے بہتر پر اعتماد ساتھی سے متاثر ہوتے ہیں اور یہ متاثر ہونا اس قدر بڑھ جاتا ہے کہ انسان اپنے جذبات پر قابوں نہیں رکھ سکتا- بلکہ بعض اوقات تو نوبت بے راہ روی تک پہنچ جاتی ہے کیونکہ اعتدال و توازن ہر شعبے٬ رشتے اور جذبے میں ضروری ہے-

اور اسلام تو ہے ہی اعتدال و توازن کا مذہب- اخلاقی اقدار کی طہارت اس کی اساس ہے- اگر آپ کے اردگرد کوئی فر ان احساسات سے دوچار ہے تو اسے سائیکی یا گمرہ قرار دینے کے بجائے اس کی مدد کریں تاکہ وہ ان پراگندہ اور منشر سوچوں سے نکل سکے-

ایسے میں والدین٬ گھر کے افراد اور ٹیچرز بہتر کردار ادا کرسکتے ہیں- اخلاقی اقدار٬ حوصلہ افزائی٬ جذباتی تسلی ان کی اسباق کی ابتدا گھر سے ہونی چاہیے- اور اس کی مزید آبیاری سکولز اور کالجز میں ہونی چاہیے- قرآنی درس کی کلاسز کا انعقاد کرنا چاہیے جن میں اسلامی احکامات٬ اقدار کو مؤثر سے پیش کیا جائے-

سب سے بڑھ کر ایسے افراد کو انفانسی یا تحلیل نفسی سے کام لینا چاہیے- خود کو سمجھانا چاہیے کہ ہر رشتے کا اپنا مقام ہوتا ہے- احترام ہوتا ہے- ہر رشتہ آپ سے الگ الگ حقوق کا متقاضی ہوتا ہے- والدین محبت و احترام چاہتے ہیں-بہن بھائی کا رشتہ خلوص و بے تکلفی کا تقاضا کرتا ہے- میاں بیوی کا رشتہ محبت و اعتماد پر قائم ہوتا ہے- اولاد کا رشتہ توجہ٬ محبت اور رہنمائی پر چاہتا ہے- لیکن دوستی کا رشتہ٬ یہ واحد رشتہ ہے جس میں ہر رنگ ہے-ہر آہنگ ہے- محبت بھی ہے٬ بےتکلفی بھی٬ اعتماد بھی اور توجہ بھی-

لیکن زیادتی کسی شے کی بھی ٹھیک نہیں- آپ ایک رشتے کو تمام لوگونں کے حصے کی محبت اور توجہ نہیں دے سکتے- یہ تو باقی رشتوں کی حق تلفی ہوگی- اور اس رشتے کا حسن بھی گہنا جائے گا- اور رشتے یا چیزیں اپنے مرکز سے ہٹ جائیں تبھی خرابی پیدا ہوتی ہے-

دوستی ایک خوبصورت اور انمول رشتہ ہے- جو کائنات کے رنگ سمیٹے ہوئے ہے- شوخی ٬ شرارت٬ خلوص٬ محبت٬ اعتبار٬ بھروسہ٬ بےتکلقی٬ احترام سب ہی کچھ-

اسے معاشرتی٬ اخلاقی اور مذہبی حدود میں رکھیے- اور اس رشتے کو بے اعتدالی اور زیادتی کے پہلو سے بچایا جائے- تب ہی اس کی خوبصورتی کو چار چاند لگتے ہیں-

Andleeb Zuhra
About the Author: Andleeb Zuhra Read More Articles by Andleeb Zuhra: 9 Articles with 20758 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.