باغ دنیا میں پھولوں کے ساتھ
کانٹے بھی ہوتے ہیں کچھ پھولوں کے ساتھ زیادہ اور کچھ کے ساتھ کم لیکن یہ
کانٹے پھول کے حسن و خوبی کو ماند نہیں ہونے دیتے کہ ان کانٹوں کی وجہ سے
پھول کو رد کر دیا جائے یا کانٹوں سے لدے پھولوں کو دیکھ کر پیشانی و چہرے
پر نا پسندیدہ و ناگوار تاثر ابھر آئے بلکہ پھولوں کے خواہشمند کانٹوں سمیت
پھولوں کو قبول کرتے ہیں اور نہ ہی یہ کانٹے پھول پر نگاہ غلط انداز ڈالنے
کا مؤجب ہوا کرتے ہیں بالکل اسی طرح بعض اوقات خوبصورت تحریر لکھنے والے سے
بالاتفاق یا نادانستگی میں کوئی ایسی بات جو شاید بعض قارئین کے مزاج کی
تائید نہ کرتی ہو تحریر ہو جائے تو اسے بھی پھول کے ساتھ لگے چند کانٹیں
سمجھ کر نظر انداز کر دینے میں کوئی حرج نہیں بجائے یہ کہ خوبصورتی کو چھوڑ
کر اس نشان کا تذکرہ کیا جائے جو دانستہ و نادانستہ خوبصورتی کو نظر بد سے
بچانے کی تدبیر کے طور پر لگایا جاتا ہے
بلکہ ایسے مواقع پر کبھی کبھی درگزر سے کام لینا بھی قرین قیاس ہے ممکن ہے
کہ بعض اوقات قارئین کو کسی کی تحری یا سامع کو کسی کی گفتگو کا مفہوم
قارئین کے اپنے نظریات سے مطابقت رکھتا ہو جو ان کے اپنے پیش نظر وہ نہ ہو
جو اس وقت لکھنے والے کے تخیل میں ہے کہ ہر انسان کا طرز فکر و بیان بیشتر
معاملات میں ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے
راقم نے اپنے سابقہ مضامین میں موضوع ‘سجدہ‘ پر روشنی ڈالنے کی جسارت کی
اور کی جس پر چند محترم قارئین کی آراء سے معلوم ہوا کہ اس موضوع پر راقم
موضوع کے حسب حال وضاحت سے قاصر رہا ہے صاحبان! جہاں تک اس ناچیز کا تعلق
ہے تو خاکسار کوئی عالم و فاضل و خطیب نہیں ہے اور نہ ہی خاکسار کا مطالعہ
و مشاہدہ اس قدر وسیع ہے کہ محدود وقت میں سجدہ کی وضاحت کے متعلق تمام
حقائق و حوالوں اور حوالوں کو یکجا کر سکے
الحمدللہ خاکسار مسلمان ضرور ہے اور اتنی بات کا علم ہے کہ اگر آپ کو کسی
ایک بھی اچھی بات کا علم ہے تو اسے دوسروں تک پہنچا دو، دوسروں کے سلام اور
سوال کا حتی المقدور مناسب جواب دو
لہٰذا راقم نے ایک بہن کی درخواست پر ‘کہ سجدے کو آسان الفاظ میں بیان
کردیں‘ اس بات نے اس موضوع پر لکھنے کی تحریک دی سو بسم اللہ پڑھ کر خاکسار
کی عقل ناقص اور محدود احاطہ بصیرت میں سجدے سے متعلق جو الفاظ و خیالات
وارد ہوتے رہے احاطہ تحریر میں من و عن بیان کر دئیے جو کمی بیشی رہ گئی وہ
اس موضوع پر دیئے گئے تبصرے سے پوری ہو گئی اور ممکن ہے کہ جو اس موضوع پر
دئیے گئے تبصرے کی تحریر سے ہی محترمہ کو سجدے کی تسلی بخش وضاحت مل گئی
ہوگی
جبکہ بندہء ناچیز نے اس موضوع پر محض انسانی، مذہبی و اخلاقی فرض سمجھتے
ہوئے اور اللہ کے حضور دعا کے بعد قلم اٹھایا بہر حال اسی توسط سے جناب
شوکت حسین صاحب کا شکریہ کہ کچھ اپنی بھی مزید اصلاح ممکن ہوئی یقیناً آپ
نے بھی کہ جو بات حق سے متصادم نظر آئے اس سے ٹوک دو اسے وہیں روک دو کے
پیش نظر اپنی آرا کو حق بجانب سمجھتے ہوئے اظہار کیا ہے اللہ تعالیٰ آپ کی
نیک کاوشیں قبول فرمائے اور اگر اس ناچیز سے اس کوشش میں کوئی خطا سر زد
ہوئی ہے تو اس سے درگزر فرمائے
‘در گزر‘ اس‘رحمٰن‘ کی صفت خاص ہے کہ وہ اپنے بندوں کی ناصرف نادانستہ بلکہ
توبہ کرنے پر دانستہ خطائیں بھی معاف فرماتا ہے کہ ذات ربی بڑی ‘غفور
الرحیم ہے خطائیں تو ولیوں اور نبیوں سے بھی ہوتی رہی ہیں تو یہ ناچیز تو
پھر ان کے قدموں کی خاک بھی نہیں جو اپنے اعمال و افعال میں کامل ہو کہنے
والے کہتے ہیں کہ اللہ تو بندوں کو معاف کر دیتا ہے لیکن بندہ بندے کی غلطی
معاف نہیں کرتا مگر وہ لوگ جو ایمان کامل رکھتے ہیں اور اپنے رب کی صفات
خود میں پیدا کرنا چاہتے ہیں
اللہ تعالٰی ہم سب کو اعمال صالح پر چلنے اور اس پر کاربند رہنے کی توفیق
عطا فرمائے ہم سے دانستہ و نادانستہ سرزد ہونے والی خطاؤں سے درگزر فرماتے
ہوئے ہماری توبہ و عبادات قبول فرمائے (آمین) |