ڈرون یا بغیر پائلٹ کے جہاز کے
لیے امریکی فوج میں انگریزی زبان کا لفظ ’میِل‘ استعمال کیا جاتا ہے۔ اصل
میں میل مخفف ہے ’میڈیم ایلٹیٹوڈ لانگ اینڈورینس‘ کا۔ ایک ڈرون سسٹم میں 4
جہاز شامل ہوتے ہیں۔ ابتداء میں بغیر پائلٹ کے جہاز یا ’پریڈیٹر‘ کو دشمن
کے علاقے میں فضائی جاسوسی یا نگرانی کرنے کے مقصد سے بنایا گیا تھا لیکن
بعد میں اس پر اے جی ایم ہیل فائر میزائل بھی نصب کر دیئے گئے۔
1995 سے امریکی فوج کے زیر استعمال یہ ڈرون افغانستان اور پاکستان کے
قبائلی علاقوں سے پہلے بوسنیا، سربیا، عراق اور یمن میں بھی استعمال کیے جا
چکے ہیں۔
ڈرون صرف ایک جہاز ہی نہیں بلکہ یہ ایک پورا نظام ہے۔ اس پورے نظام میں 4
جہاز، ایک زمینی کنٹرول سٹشین اور اس کو سیٹلائٹ سے منسلک کرنے والا حصہ
ہوتا ہے۔ اس نظام کو چلانے کے لیے 55 افراد کا عملہ درکار ہوتا ہے۔
پینٹاگون اور سی آئی اے1980 کی دہائی کے اوائل سے جاسوسی کے لیے ڈرون
طیاروں کے تجربات کر رہے تھے۔
1990 میں سی آئی اے کو ابراہم کیرم کے بنائے ہوئے ڈرون میں دلچسپی پیدا
ہوئی۔ ابراہم کیرم اسرائیلی فضائیہ کا چیف ڈیزائنر تھا جو بعد میں امریکہ
منتقل ہو گیا۔
ڈرون 1990 کی دہائی میں مختلف تجرباتی مراحل سے گزرتا رہا اور1995 میں پہلی
مرتبہ اسے بلقان میں استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
ڈرون کی خصوصیات
ڈرون طیاورں کا بنیادی کام جاسوسی اور اہداف کو نشانہ بنانا ہے، جنرل
اٹامکس ایئروناٹیکل سسٹم انکارپویٹڈ انجن: روٹیکس 914 ایف 4
ان میں سلنڈر کی قوت 115ہارس پاورہوتی ہے، پروں کا پھیلاؤ48.7 فٹ ہوتی ہے،
طیارے کی لمبائی27 فٹ جبکہ اونچائی6.9 فٹ جبکہ وزن1ہزار103 پاؤنڈ ، طیارے
کی اڑان کا وزن 2 ہزار250پاؤنڈ ہوتا ہے۔ ڈرون طیارے میں ایندھن کی
گنجائش665 پاؤنڈ جبکہ اس کی رفتار84 میل فی گھنٹہ سے135 میل فی گھنٹہ ہے
اور یہ445میل تک مار کر سکتا ہے۔ طیارے کی پرواز کی بلندی25 ہزار فٹ ہے۔ اس
میں دو لیزر گائیڈڈ میزائل نصب ہوتے ہیں۔
گزشتہ سالوں میںپاکستان میں ہونے والے ڈرون حملوں کی تفصیل
2004
18جون کو افغانستان سے اڑنے والے MQ-9ڈرون طیارے کے جنوبی وزیرستان کے
علاقے وانا پرمیزائل حملے میں نیک محمد وزیر سمیت5افراد ہلاک ہوگئے۔
2005
14مئی کو شمالی وزیرستان کے علاقے میں افغان بارڈر کے قریب ڈرون حملے میں
حاتم ال یمینی ہلاک ہو گیا۔
30نومبر کو شمالی وزیرستان کے شہر میران شاہ کے قریب آسورے(Asoray)میں
امریکی ڈرون حملے میں القاعدہ کا لیڈر ابو حمزہ ربیعہ مارا گیا۔
2006
13جنوری کو باجوڑ کے علاقے ڈاماڈولا میں میزائل حملے سے8افراد ہلاک ہوگئے
لیکن ایمن الزواہری اس حملے میں بچ گئے۔
2007
26اپریل کوشاملی وزیرستان کے علاقے سید گئی میں ڈرون حملے سے4افراد ہلاک
ہوگئے۔
19جون کو شمالی وزیرستان کے علاقے مامی روگا میں ڈرون حملے میں20افراد ہلاک
ہوگئے۔
2نومبرکو شمالی وزیرستان میں ایک مدرسے پر میزائل حملے میں5افراد ہلاک
ہوگئے۔
2008 میں پاکستان میں ہونے والے ڈرون حملے
جنوری
۔۔2008میں میزائل حملے کا پہلا واقعہ 29 جنوری کو پیش آیا جب شمالی
وزیرستان کی تحصیل میر علی کے گاؤں خوشحالی میں ستار نامی شخص کے مکان پر
ایک میزائل لگا جس کے نتیجہ میں مقامی حکام کے مطابق بارہ افراد ہلاک اور
دو زخمی ہوگئے۔ ہلاک ہونے والوں میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ یہ
اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ اس حملے میں ہلاک ہونے والوں میں القاعدہ کے
رہنما بھی شامل تھے۔
فروری
دوسرا حملہ28 فروری کو جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا سے قریباً 10
کلومیٹر مغرب کی جانب افغان سرحد کے قریب اعظم ورسک کے علاقے کالوشہ میں
ہوا اور اس میں 8 طالبان ہلاک ہوگئے۔مقامی ذرائع کے مطابق ہلاک ہونے والوں
میں ترکمان، عرب اور پنجابی طالبان شامل تھے۔
مارچ
قریباً دو ہفتے بعد18 مارچ کو جنوبی وزیرستان کا گاؤں شاہ نواز کوٹ میزائل
حملے کا نشانہ بنا۔ حملے میں18 افراد ہلاک جبکہ 7 زخمی ہوئے۔ پاکستانی حکام
کے مطابق اس کارروائی میں ہلاک ہونے والوں میں عرب نڑاد غیر ملکیوں کے
علاوہ کراچی کے کور کمانڈر پر حملے کی منصوبہ بندی کے الزام میں مطلوب
ڈاکٹر وحید ارشد بھی شامل تھے۔
مئی
14مئی کو باجوڑ کے علاقہ ڈمہ ڈولہ کے گاؤں پوی کلی میں جاسوس طیاروں کے
حملے کا تیسرا واقعہ پیش آیا۔ اس حملے میں طیاروں سے عبیداللہ نامی شخص کے
گھر پر دوگائیڈڈ میزائل داغے گئے جن سے 3 بچوں سمیت 7 افراد ہلاک اور 6
زخمی ہو گئے۔ ہلاک ہونے والے 4 افراد کا تعلق تحریک طالبان سے بتایا گیا۔
جون
11جون کو امریکہ کی جانب سے پاکستانی حدود میں کارروائی کا ایک اور واقعہ
پیش آیا جب امریکی طیاروں نے پاکستان کے قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں
پاکستانی سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے ایک ٹھکانے پر بمباری کر دی جس کے
نتیجہ میں11 اہلکاروں سمیت19 افراد ہلاک ہوگئے۔
جولائی
جولائی کے آخر میں28تاریخ کو جنوبی وزیرستان کے علاقے اعظم ورسک میں ایک
میزائل حملے میں 7 افراد ہلاک ہوئے جن میں اطلاعات کے مطابق القاعدہ کے اہم
رہنما اور بم بنانے کے ماہر مدحت مصری المعروف ابوخباب المصری بھی شامل
تھے۔
اگست
28 جولائی کا حملہ مبینہ طور پر امریکہ کی جانب سے سرحد پار پاکستانی علاقے
میں کارروائیوں میں آنے والی حالیہ تیزی کا نقطہ آغاز ثابت ہوا اور13 اگست
کو وانا سے تیس کلومیٹر دور افغان سرحد کے قریب علاقہ باغڑ میں ایک مکان پر
4 میزائل گرے جس سے ایک درجن سے زیادہ لوگ ہلاک ہوگئے۔مقامی انتظامیہ کے
مطابق اس مکان میں ملا نذیر گروپ کے مقامی طالبان جنگجو رہائش پذیر تھے جو
حملے کا نشانہ بنے۔
7 دن کے بعد20 اگست کو جنوبی وزیرستان میں ہی افغانستان سے داغے گئے دو
میزائل زیڑی نور میں یعقوب مغل خیل وزیر نامی قبائلی کے مکان پر گرے جس سے
کم از کم 6 لوگ ہلاک ہو گئے۔ مقامی لوگوں کے مطابق ہلاک ہونے والوں میں
پنجابی طالبان اور غیر ملکی عرب شامل تھے۔
ماہِ اگست کے آخری دن شمالی وزیرستان کے صدر مقام میرانشاہ سے قریباً پندرہ
کلومیٹر مشرق کی جانب علاقہ تپئی میں داوڑ قبیلے کے ایک رکن سوار خان داوڑ
کے مکان پر میزائل حملہ ہوا جس کے نتیجہ میں 4 افراد ہلاک جبکہ دو زخمی
ہوگئے۔
ستمبر
3 ستمبر کو امریکی فوج نے جنوبی وزیرستان میں موسی نیکہ کے علاقے میں زمینی
کارروائی کی جس میں قریباً بیس مقامی افراد مارے گئے۔ ہلاک ہونے والوں میں
عورتیں اور بچے بھی شامل تھے۔
اگلے ہی دن 4 ستمبر کو شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ کے علاقہ
چارخیل میں رحمن والی خان اور فرمان نامی افراد کے مکان پر 3 میزائل گرے،
جس کے نتیجہ میں 5 افراد ہلاک اور 4 زخمی ہوگئے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ
مقامی طالبان نے لاشوں کو نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا اس لیے یہ معلوم
نہیں ہوسکا کہ ہلاک ہونے والے مقامی ہیں یا ان میں غیر ملکی بھی شامل ہیں۔
8 ستمبر کو جاسوس طیاروں نے شمالی وزیرستان میں ڈانڈے درپہ خیل میں واقع
طالبان کمانڈر جلال الدین حقانی کے گھر اور مدرسے کو 7 میزائلوں سے نشانہ
بنایا۔ اس حملے میں کم از کم 20 افراد ہلاک ہوئے۔ اسی دوران امریکہ کے
چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی مائیک مولن نے امریکی کانگریس کی ایک
کمیٹی کے سامنے بیان دیا کہ امریکہ طالبان سے متعلق اپنی حکمتِ عملی تبدیل
کر رہا ہے جس کے تحت اب سرحد پار کر کے پاکستان کے اندر طالبان پر بھی حملے
ہو سکتے ہیں اور پھر امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کی یہ رپورٹ بھی منظرِ عام
پر آئی جس میں کہا گیا کہ امریکی صدر بش نے جولائی میں پاکستانی حکومت کو
مطلع کیے بغیر پاکستان کی حدود میں کارروائی کی خفیہ اجازت دی تھی۔
تاہم ان رپورٹوں کی اشاعت اور پاکستانی حکام کی جانب سے ان پر سخت ردعمل کے
باوجود میزائل حملوں کا سلسلہ تھما نہیں اور جمعہ 12 ستمبر کو پاکستان کے
قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں افغان سرحد کے قریب امریکی جاسوس طیاروں
نے ایک مکان اور پرائمری سکول کو میزائلوں سے نشانہ بنایا ہے جس کے نتیجے
میں 12 افراد ہلاک ہوگئے۔ ہلاک ہونے والوں میں زیادہ تر مقامی طالبان بتائے
جاتے ہیں۔
پندرہ ستمبر کو انگور اڈہ کے قریب افغانستان کے علاقے میں امریکی گن شپ
ہیلی کاپٹروں اور جہازوں کی آمد پر پاکستانی فوجیوں نے ہوائی فائرنگ کی
تھی۔ انگور اڈہ باغاڑ چینا سے صرف دو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ مقامی لوگوں
کے مطابق امریکی جہازوں کے اترنے کے بعد قریبی پہاڑی سلسلوں میں موجود
پاکستانی فوج کے ٹھکانوں سے بگل بجائے گئے اور فائرنگ بھی کی گئی۔
17ستمبر کی شام امریکی جاسوس طیارے نے 4 میزائل داغے جس سے 5 افراد ہلاک
اور 3 زخمی ہوئے۔
حکام نے بی بی سی بات کرتے ہوئے کہا کہ جنوبی وزیرستان کے باغاڑ چینا علاقے
میں 4 میزائل داغے گئے جن میں سے دو ایک گھر پرگرے اور دو پہاڑیوں پر لگے۔
اگلے روز حکومتِ پاکستان نے کہا کہ امریکہ نے اسے میزائل حملے کی پیشگی
اطلاع نہیں دی تھی اور اس طرح کے یک طرفہ حملوں سے حالات میں بہتری آنے میں
مدد نہیں ملے گی۔
اکتوبر
۔۔31اکتوبر کو وزیرستان میں 4میزائل حملوں میں20افراد ہلاک ہوگئے جن میں
القاعدہ رہنما ابو آکاش اور محمد حسن خلیل ال حکیم بھی شامل تھے۔
نومبر
14نومبر کو میران شاہ کے قریب میزائل حملے میں12افراد ہلاک ہوگئے۔
19نومبرکو بنوں میں میزائل حملے میں عبداللہ اعظم السعودی مارے گئے۔
22نومبر کو شامی وزیرستان میں میزائل حملے میں العدہ کے اہم رہنما راشد رؤف
اور ابو زبیر المصری سمیت5افراد ہلاک ہوگئے۔
دسمبر
22دسمبر کو جنوبی وزیرستان میںمیزائل حملے میں8افراد ہلاک ہوگئے۔
پاکستان میں سال 2009 میں اب تک ہونے والے ڈرون حملے
جنوری
2009 کا پہلا ڈرون حملہ سال کے پہلے ہی دن جنوبی وزیرستان میں وانا سے
تقریباً 10 کلومیٹر جنوب کی جانب غواخوہ کے علاقے شوکائی نارائی میں ہوا
جہاں امریکی جاسوس طیارے نے ایک گاڑی کو نشانہ بنایا۔ اس حملے میں گاڑی میں
سوار 3 افراد موقع ہی پر ہلاک ہوگئے۔
2 جنوری کو جنوبی وزیرستان کے سب ڈویڑن لدھا سے 3 کلومیٹر دور مغرب کی جانب
میدان نارائی کے علاقے سلطانہ میں امریکی جاسوس طیاروں سے دو میزائل فائر
کیے گئے جو ایک سرکاری پرائمری سکول پر گرے۔ اس حملے میں کم از کم 3 افراد
ہلاک ہوگئے ہیں جو کہ مقامی اور ’پنجابی‘ طالبان تھے۔
فروری
14 فروری کو جنوبی وزیرستان کے لدھا سب ڈویژن کے علاقے نصر خیل میں مبینہ
امریکی جاسوس طیارے نے روشان محسود نامی ایک شخص کے مکان پر دو میزائل داغے
جس سے مکان مکمل طورپر تباہ ہوگیا اور اس میں موجود اٹھائیس افراد ہلاک اور
متعدد زخمی ہوگئے۔ ہلاک ہونے والوں میں ازبک اور افغان جنگجو بھی شامل تھے۔
مارچ
12مارچ کو کرم ایجنسی ڈرون حملے کا نشانہ بنی اور اس بار یہ حملہ مبینہ طور
پر سینٹرل کرم میں برجو کے علاقے میں واقع طالبان کے ایک کیمپ پر کیا گیا
جس میں ابتدائی اطلاعات کے مطابق کم از کم 6 افراد ہلاک اور30 زخمی ہوئے۔
اپریل
یکم اپریل کو پہلی مرتبہ ڈرون طیاروں نے اورکزئی ایجنسی کو نشانہ بنایا اور
اس حملے میں کم از کم 8 طالبان ہلاک ہوئے۔ یہ حملہ اپر اورکزئی کے خادیزئی
علاقے میں کیا گیا۔ ہلاک ہونے والے زیادہ تر افراد کا تعلق اوکزئی ایجنسی
سے ہی تھا۔
4 اپریل کو شمالی وزیرستان میں امریکی جاسوس طیاروں نے طالبان کے ایک مشتبہ
ٹھکانے کو نشانہ بنایا۔ اس حملے میں 13 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔یہ
حملہ رات تقریباً 3 بجے ہوا جس میں جاسوس طیاروں نے شمالی وزیرستان کی
تحصیل دتہ خیل کے ڈانڈہ علاقے میں ایک مقامی شخص طارق کے مکان کو نشانہ
بنایا۔ مقامی ذرائع کے مطابق اس حملے میں ہلاک ہونے والوں میں سے بعض غیر
ملکی تھے تاہم سرکاری طور پر اس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔
8 اپریل کو جنوبی وزیرستان میں ایک مبینہ امریکی میزائل حملے میں 4 طالبان
ہلاک اور 4 زخمی ہوئے۔ ہلاک ہونے والے افراد کا تعلق پنجابی طالبان سے تھا۔
یہ واقعہ وانا سے تقریباً 4 کلومیٹر دور گنجی خیل کے علاقے میں پیش آیا
جہاں ڈرون طیارے نے ایک گاڑی میں سفر کرنے والے افراد کو نشانہ بنایا۔
19 اپریل کو جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا سے کوئی 3 کلومیٹر دور مغرب
کی جانب علاقہ زیڑی نور میں ایک مقامی قبائل دائم خان گنگی خیل کے مکان پر
امریکی جاسوس طیاروں سے ایک میزائل فائر کیا گیا۔ اس میزائل حملے میں ایک
مکان اور وہاں موجود گاڑی مکمل طورپر تباہ ہوگئی ہے۔ تاہم کوئی جانی نقصان
نہیں ہوا۔
ڈرون حملوں کے خلاف ملک میں مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری رہا
29اپریل کو جنوبی وزیرستان کے سب ڈویژن لدھا سے 10 کلومیٹر دور جنوب کی
جانب کانیگرم کے علاقے اسمان منزہ میں امریکی جاسوس طیارے نے ایک گاڑی کو
نشانہ بنایا جس سے اس گاڑی میں سوار 6 افراد مارے گئے۔ مقامی انتظامیہ نے
دعوٰی کیا کہ ہلاک ہونے والوں کا تعلق بیت اللہ گروپ سے تھا اور وہ مقامی
طالبان تھے۔
مئی
۔۔9مئی کو جنوبی وزیرستان میں امریکی جاسوسی طیارے سےداغے گئے 4 میزائل
حملوں کے نتیجے میں 6 افراد ہلاک ہوگئے۔ یہ حملے جنوبی وزیرستان کی تحصیل
سراروغہ سے قریباً پندرہ کلومیٹر شمال کی جانب علاقہ کچکائی میں مقامی
لوگوں کے مکانوں پر ہوئے۔ ان حملوں میں دو مکان مکمل طور پر تباہ ہوگئے۔
16 مئی کو شمالی وزیرستان کی تحصیل میر علی سے پچیس کلومیٹر دور جنوب کی
جانب خیسور کے علاقے میں امریکی جاسوس طیارے سے دو میزائل داغے گئے جس کے
نتیجہ میں 25 افراد ہلاک جبکہ 6زخمی ہوگئے۔ حکام کے مطابق ایک میزائل حملے
میں ایک گاڑی اور دوسرے میں ایک مدرسے کو نشانہ بنایا ہے۔ مقامی انتظامیہ
کا کہنا ہے کہ گاڑی بھی مدرسے کے قریب موجود تھی۔مقامی ذرائع کے مطابق اکیس
مقامی طالبان اور 4 غیر ملکی جنگجواس حملے میں ہلاک ہوئے۔
جون
جمعرات 18جون کو جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا سے بارہ کلومیٹر دور مغرب
کی جانب شاہ عالم کے علاقے غورلامہ میں واقع ایک مکان پر امریکی جاسوس
طیارے سے دو میزائل فائر کیے گئے جس کے نتیجے میں 9افراد ہلاک ہوگئے۔ مقامی
انتظامیہ کے مطابق ہلاک ہونے والے طالبان کا تعلق ملا نذیر گروپ سے تھا
تاہم ان میں کوئی اہم شخصیت شامل نہیں تھی۔
23 جون کو جنوبی وزیرستان میں امریکی جاسوس طیاروں نے ایک دن میں دو میزائل
حملے کیے۔ پہلا حملہ لدھا کے علاقے میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کے
سربراہ بیت اللہ محسود کے ساتھیوں کے ایک ٹھکانے پر ہوا جس میں متعدد افراد
مارے گئے۔ ان افراد کی نمازِ جنازہ کے لیے جمع ہونے والے افراد پر ایک اور
میزائل حملہ کیا گیا۔ مقامی انتظامیہ کے مطابق ان دونوں حملوں میں کم از
کم50 افراد ہلاک ہوئے۔
جولائی
جولائی کے مہینے میں پہلا حملہ 3 تاریخ کو سروکئی سب ڈویژن کے ایک دور
افتادہ علاقے موچی خیل میں اس وقت ہوا جب بیت اللہ محسود گروپ کے طالبان کے
ایک ٹھکانے پر مبینہ امریکی جاسوس طیارے سے 3میزائل فائر کیے گئے۔ اس حملے
میں کم از کم 8 افراد ہلاک ہوئے۔
7جولائی کی صبح جنوبی وزیرستان میں امریکی جاسوس طیارے سے دو میزائل فائر
کیے گئے جو سب ڈویژن لدھا سے پندرہ کلومیٹر دور شمال مشرق کی جانب شوبی خیل
کے علاقے زنگڑہ میں طالبان کے ایک ٹھکانے پر لگے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے
کہ حملے میں بیت اللہ گروپ کے 12 مقامی جنگجو ہلاک ہوئے۔
8 جولائی کو دو مرتبہ جنوبی وزیرستان کا علاقہ ڈرون حملوں کا نشانہ بنا۔
پہلے حملے میں ڈرون طیارے سے داغے جانے والے میزائلوں کا نشانہ جنوبی
وزیرستان کے سب ڈویژن لدھا کے پہاڑی علاقے کاروان منزہ میں واقع طالبان کا
تربیتی مرکز بنا۔ بیت اللہ گروپ کے اس ٹھکانے پر ہونے والے حملے میں 8
مقامی جنگجو مارے گئے۔ یہ جنوبی وزیرستان میں دن دو میں ہونے والا دوسرا
ڈرون حملہ تھا۔ بعد ازاں اسی شام لدھا سے سراروغہ جانے والے شدت پسندوں کی
5گاڑیوں پر3 ڈرون طیاروں نے 5 میزائل داغے۔ مقامی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ
ان حملوں میں 50 کے قریب شدت پسند ہلاک ہوئے ہیں جبکہ مقامی لوگوں کا کہنا
ہے کہ حملے میں 40جنگجو مارے گئے۔
17 جولائی کو شمالی وزیرستان کے صدر مقام میرانشاہ سے تقریباً تیس کلومیٹر
دور بہادر کلے پر ڈرون حملہ کیا گیا جس میں 4افراد ہلاک ہوئے۔
اگست
۔۔5اگست کو جنوبی وزیرستان کے سب ڈویژن لدھا سے پندرہ کلومیٹر دور شمال
مشرق کی جانب شوبی خیل کے علاقے زنگڑہ میں ڈرون طیاروں نے بیت اللہ محسود
کے سسر ملک اکرام الدین کے گھر کو نشانہ بنایا۔ ابتدائی طور پر اس حملے میں
صرف بیت اللہ محسود کی اہلیہ کی ہلاکت کی تصدیق کی گئی تاہم دو دن بعد
پاکستانی حکام نے انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے اسی حملے میں خود بیت اللہ
محسود کے مارے جانے کی بھی تصدیق کر دی۔
11اگست کو جنوبی وزیرستان کے علاقے لدھامیں ڈرون حملے میں10افراد ہلاک
ہوگئے۔
21اگست کو شمالی وزیرستان کے گاؤں درپہ خیل میں میزائل حملے میں 21افراد
ہلاک ہوگئے۔ حملے میں سراجالدین حقانی کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
۔۔27اگست کو جنوبی وزیرستان کے ضلع کنی گرام کے گاؤں تپر گھئی میں میزائل
حملے سے6افراد ہلاک ہوگئے۔ |