اقبال نے اسکاچ مشن اسکول‘ سیال کوٹ سے‘ مشرقی و مغربی
طرز پر ایف اے کیا۔ مزید تعلیم کے لیے لاہور آئے۔ یہاں بیک وقت تین تعلیمی
و فکری دھارے بہتے تھے۔
١-ا سر سید کے حوالہ سے‘ مغربی اطوار و نظریات معتارف کرانے کی کوشش کی جا
رہی تھی۔
ب گورنمنٹ کالج‘ لاہور میں‘ پروفیسر آرنلڈ کے حوالہ سے‘ طلبا مغرب سے
بالواسطہ معتارف ہو رہے تھے۔
٢- علوم شرقیہ سے متعلق مختلف اسکول مشرقی فکر عام کرنے میں مصروف تھے۔
٣- ایک طبقہ مخلوط نظریات پھیلا رہا تھا۔
اقبال کے پروفیسر آرنلڈ سے‘ خصوصی تعلق خاطر کا اندازہ‘ اس امر سے لگایا جا
سکتا ہے کہ جب وہ ١٩٠٤ میں‘ انگلستان واپس گیے‘ تو اقبال نے ان کے رخصت
ہونے پر نظم۔۔۔۔نالہءفراق۔۔۔۔۔ قلم بند کی۔ اس نظم کے مندرجات سے‘ اقبال کی
آرنلڈ سے قلبی وابستگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اقبال نے اس نظم میں
موصوف کو کلیم‘ خورشید آشنا‘ ابر رحمت‘ موج نفس باد نشاط وغیرہ ایسے
القابات سے ملقوب کیا۔
ان دنوں گورنمنٹ کالج‘ لاہور بانجھ نہ تھا اور ناہی کبھی رہا ہے۔ اسے ہر
دور میں‘ سعادت سعید اور تبسم کاشمیری سے بےبدل عالم فاضل‘ میسر رہے ہیں۔
آرنلڈ ہی سے کیوں یہ رشتہءالفت استوار ہوا۔ اس سوالیے کا جواب نظم کے اندر
موجود ہے۔
کھول دے گا دشت وحشت عقدہء تقدیر کو
توڑ کر پہنچوں گا میں پنجاب کی زنجیر کو
اقبال زبردست نباض تھے۔ مغرب کو بھی نمائندوں کی ضرورت تھی۔ اپنی دھرتی
زنجیر نہیں ہوتی۔ اپنی دھرتی کو زنجیر کہنے والا اپنی دھرتی سے کتنا مخلص
ہو سکتا ہے اس کا اندازہ لگانا کوئی پچیدہ عمل نہیں۔
اقبال نے گورنمنٹ کالج‘ لاہور میں تدریسی فرائض بھی انجام دئیے۔ جس سے‘
ناصرف سوچ کو فراخی میسر آئی‘ بلکہ نظریات کو بھی ایک سمت‘ دستیاب ہوئی۔
لاہور میں رہتے ہوئے‘ انھوں نے مختلف مشاعروں میں شرکت کی۔ مختلف نظریات کے
شعرا سے مل بیٹھنے کا موقع بھی ہاتھ لگا۔ اس سے ان کا شعری شعور پختہ ہوا۔
١٩٠٥ تک انھوں نے مشرق کی اقدار سے وقفیت حاصل کی۔
ستمبر ١٩٠٥ کو‘ ٧
عازم انگلستان ہوئے۔ ابتدا ہی میں‘ ان کی ملات میگ ٹیگارٹ سے ہوئی جو ہیگل
کا پیرو تھا۔ اس کے علاوہ آکسفررڈ یونیورسٹی میں پروفیسر براؤن اور پروفیسر
وارڈ سارلے سے خصوصی طور پر علمی و فکری استفادے کا موقع ملا۔ پروفیسر
سارلے کے حوالہ سے لفظ کی حقیقی قدر اور حرمت سے آگاہی حاصل کی۔
انگلستان میں رہتے ہوئے‘ ڈاکٹر نکلسن کی ایما پر فارسی ادبیات کا مطالعہ
کیا۔ حافظ شیرازی کے نظریہءوحدت الوجود کے تناظر یا کانٹ کے۔۔۔۔وجود کی
تلاش۔۔۔۔ اور فشٹے کے نظریہ انا یعنی ایگو کے تناظر میں حافظ شیرازی کا
مطالعہ کیا۔ پھر وہ فلسفہءخودی کے موجد قرار پاءے۔
کلیسا اخلاقی اقدار کا سرچشمہ رہا ہے۔ اپنی اہمیت کھو بیٹھا تھا۔ سیاست اور
مذہب‘ دو الگ الگ شعبے قرار پا گیے تھے۔ مذہب‘ کلیسا کی چار دیواری کے
اندر‘ محض دعاؤں کا مجموعہ ہو کر رہ گیا تھا۔ سیاست کے علمبرداروں نے‘ اپنے
الگ سے سیاسی اصول وضع کر لیے تھے۔ اس طرح انھیں‘ سماجی اور معاشرتی رویوں
پر گرفت حاصل ہو گئی تھی۔
کارل مارکس نے‘ سسکتی حیات‘ معاشرتی جبر‘ سیاسی حیلہ سازیوں اور معاشی قتل
عام کے ردعمل میں‘ اپنا نظریہء معیشت پیش کیا۔ انقلاب فرانس اور امریکہ کی
جنگ آزادی بھی‘ اسی عدم مساوات اور معاشی ناہمواریوں کا نتیجہ تھی۔ فرد کی
حیثیت‘ مشین کے کسی کل پرزے سے زیادہ نہ رہی تھی۔ نطشے نے‘ انسان کے وجود
کو‘ استحقام دینے کے لیے‘ فوق البشر یعنی سپرمین کا نظریہ دیا۔ کارل مارکس
اور لینن نے مذہب کو افیون قرار دیا۔
نطشے‘ جمہوریت اور اشتراکیت کو بھی‘ عوام اور اقوام کو غلام بنانے کی سازش
قرار دیتا ہے۔ وہ خدا کے وجود کا منکر ہے۔ وہ مغربی استعمار اور مسیحی
فلسفہءاخلاق پر چوٹ کرتا ہے۔ اس لیے‘ کسی غیر مسیحی کو‘ اس کا خوش آنا فطری
سی بات ہے۔ سپرمین کے حوالہ سے‘ جو باتیں سامنے آتی ہیں‘ ان میں سے اکثر
اقبال کے۔۔۔۔۔ مرد کامل۔۔۔۔۔ میں بھی ملتی ہیں‘ تاہم اسے اس کا بےلگام ہونا
کھٹکتا ہے۔
اقبال نے جس مرد کامل کا نظریہ دیا‘ جہاں وہ ذات پرست‘ ذات پسند اور دوسروں
کے لیے کچھ نہیں‘ وہاں اس کا خصوصی وصف یہ بھی ہے‘ کہ وہ کائناتی ہے۔
کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہیں آفاق
اقبال کا مرد کامل بہت سے حوالوں سے نطشے کے سپرمین سے الگ ہے۔
ہو حلقہءیاراں تو ہے ابریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
اقبال نے مرد کامل میں چار صفات کی نشان دہی کی ہے۔
قہاری و جباری و قددسی و جبروت
یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان
یہاں مرد کامل کے لیے مسلمان ہونے کی شرط عائد کر دی ہے۔ اقبال کے محقیقن
نے‘ مرد کامل کے لیے اس شعر کو بھی حوالہ بنایا ہے۔ گویا سلمان ہونے کی
صورت میں ہی‘ مرد کامل کے اعزاز سے سرفراز ہو سکتا ہے۔
اس شعر کے حوالہ سے اس کا مخاطب انسان نہیں بلکہ اسلامی برادری سے متعلق
شخص ہی کامل ہو سکتا ہے۔ دوسری طرف ان عناص سے محروم مسلمان ہی نہیں۔
اقبال اس پیمانے ہر مسلمان فاتح بیٹھے گا۔ مسلمان دل تسخیر کرتا ہے۔ پتھر
اینٹ برسانے والوں کے لیے دعا کے لیے ہاتھ اٹھاتا ہے۔ دشمن کی بھی مدد کرتا
ہے۔ بانٹ میں کسی قسم کی تخصیص روا نہیں رکھتا۔
مہربان اور سراپا عطا والا ہوتا ہے۔ قہار اور جبار کو دیسی معنوں میں
استعمال کیا گیا ہے۔ نطشے کے متعلق اقبال کا کہنا ہے۔
تیرے سینے میں نہیں شمع یقین
اس لیے تاریک یہ کاشانہ ہے
کس طرح پاءے سراغ آشنا
تو کہ اپنے آپ سے بیگانہ ہے
جو بھی سہی‘ اقبال کے فلسفہءخودی میں نطشے کے کہے کی بازگشت موجود ہے۔ مرد
کامل میں سپرمین کی پرچھائیں موجود ہے۔
کارل مارکس‘ درحقیقت مغرب کے مظوم‘ مفلس اور پس ماندہ لوگوں کا نمائندہ ہے۔
اس نے مادہ پرستی کے ماحول و حالات میں رہ کر‘ اپنا نظرہءمعیشت پیش کیا ہے۔
اس کے نظریے کے پس منظر میں‘ کلیسا کا استحصالی رویہ‘ جمہوریت کے خوش نما
لباس میں جمہوریت کا منفی طرزعمل‘ مساوات کے پردے میں توہین آدمیت جیسے
قبیع فعل تھے۔ ملوکیت اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کے خلاف اس نے نعرہ بلند
کیا۔ اقبال کو اس کا درس مساوات اور اس کا محنت کشوں سے ہمدردی کا رویہ‘
پسند آیا۔ اقبال نے اس کے اس رویے کو پسند کیا ہے لیکن اسے اس کی مادہ
پرستی اور مادہ پسندی خوش نہیں آتی۔ جو بھی سہی‘ مارکس کی مغربی تہذیب پر
ضرب‘ اقبال کو اچھی لگی۔
اقبال نے مسیولینی سے بھی ملاقات کی۔ وہ اس کی شخصیت سے متاثر ہوئے۔ اس کی
شخصیت میں تاثیر تھی۔ اس عہد کے مشاہیر عالم اس کی دل آویز شخصیت کے مداح
تھے۔ اقبال کو اس کا نظم و ضبط پسند آیا۔ اس ذیل میں اقبال کا یہ شعر
ملاحظہ ہو۔
فیض یہ کس کی نظر کا ہے‘ کرامت کس کی ہے
وہ کہ ہے جس کی نگہ مثل شعاع آفتاب
جرمن شاعر گوئٹے کے فکری رویے سے بھی اقبال نے اثرات قبول کیے۔ اس کے دیوان
کے جواب میں
۔۔۔۔ پیام مشرق۔۔۔۔۔ وجود میں آئی۔
ڈاکٹر اقبال‘ ہیگل کے نظریات کو روح سے خالی قرار دیتا ہے۔ اقبال کے خیال
میں اگر ہیگل کے نظریات میں اسلامی روح کارفرما ہوتی تو وہ بلاشبہ انسانی
سرفرازی کے لیے مثال ہوتے۔
اقبال برگساں کے نظریہء زمان سے بھی اثر لیتے ہیں۔ برگساں کے نزدیک‘ زندگی
تغیر اور تخلیق ہے۔ زندگی کے جن پہلوؤں میں تقلید اور ثبات نظر آتا ہے وہاں
زندگی موج بےتاب نہیں۔ اقبال کے نزیک بھی زندگی متحرک اور تغیر پذیر ہے۔
اور ہر لمحہ تخلیقی مراحل سے گزرتی ہے۔ ان کے نزدیک چلتے رہنا زندگی‘ جب کہ
ٹھہرنا موت ہے۔
برگساں نے زمان و مکآن میں وجود کی حیثیت محض جبلی قرار دی ہے۔ اقبال کے
خیال میں‘ زمان عمل تخیلق سے پیدا ہوتا ہے‘ ایک غیر متواتر حرکت‘ تغیر پر
مبنی ہے۔
سلسلہءروز وشب نقش گر حادثات
سلسلہءروز وشب اصل حیات و ممات
ایک دوسری جگہ کہتے ہیں
فریب نظر ہے سکون و ثبات
تڑپتا ہے ہر زرہء کائنات
ٹھہرتا نہیں کاروان وجود
کہ ہر لحظہ ہے تازہ شان وجود
اقبال کسی ایک منزل پر ٹھہر جانے کے قائل نہیں ہیں۔ وہ متحرک زندگی کو
زندگی مانتے ہیں۔ جوں جوں خودی ارتقا کی منازل طے کرے گی زمانہ تخلیق ہوتا
چلا جائے گا۔ کہتے ہیں۔
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
اسی روز و شب میں الجھ کر نہ رہ جا
کہ تیرے زمان و مکاں اور بھی ہیں
قناعت نہ کر عالم رنگ و بو پر
چمن اور بھی آشیاں اور بھی ہیں
اقبال شعرائے مغرب کی شعریت سے بھی متاثر تھے۔ ورڈزورتھ کی فطرت نگاری‘
انھیں پسند تھی۔ اقبال نے اس کا رنگ اپنی نظموں میں اختیار کیا۔ نظم۔۔۔۔
ایک شام۔۔۔۔۔ سے بطور نمونہ دو شعر ملاحظہ ہوں۔
خاموش ہے چاندنی قمر کی
شاخیں ہیں خموش ہر شجر کی
وادی کے نوا فروش خاموش
کہسار کے سبزپوش خاموش
شیلے اور کیٹس کی رنگین مزاجی اور ٹی ایس کولرج کا زندگی سے گلہ شکوہ بھی‘
اسے اچھا لگتا ہے۔ اقبال کے ہاں حسن‘ عشق اور محبت جہاں نئے نئے رنگ لیے
ہوئے ہیں‘ تو وہاں روایت کا دامن بھی نہیں چھوڑتے۔ شیلے اجزائے عالم کی
باہمی وابستگی کو محبت سے تعبیر کرتا ہے اور محبت کے بغیر کائنات کا وجود
ناممکن خیال کرتا ہے۔
شیشہء دہر میں ماند ہے ناب ہے عشق
روح خورشید ہے خون رگ مہتاب ہے عشق
اقبال کی حسن سے لطف اندوزی کا ذوق ملاحظہ ہو۔
ہوئی ہے رنگ تغیر سے جب سے نمود اس کی
وہی حسین ہے حقیقت زوال ہے جس کی
اقبال شیکسپیئر کے لب و لہجہ سے بھی متاثر ہے اور اسے ان الفاظ میں خراج
عقیدت پیش کرتا ہے۔
تجھ کو جب دیدہءدیدار طلب نے ڈھونڈا
تاب خورشید میں خورشید کو پنہاں دیکھا
چشم عالم سے تو ہستی رہی مستور تری
اور عالم کو تری آنکھ نے عریاں دیکھا
حفظ اسرار کافطرت کو ہے سودا ایسا
رازداں پھر نہ کرے گی کوئی پیدا ایسا
اقبال نے برصغیر میں رہتے ہوئے‘ مغرب کو سنی سنائی کے حوالہ سے‘ جانا
پہچانا۔ ستمبر ١٩٠٥ سے جولائی ١٩٠٨ تک‘ وہ مغرب میں قیام پذیر رہے۔ اس عرصہ
میں‘ انھوں نے مختلف مفکرین سے ملاقات کی‘ انھیں پڑھا۔ مغرب کے سماجی حلقوں
اور اداروں سے تعلق رکھا۔ لوگوں کو اور ان کے رہن سہن کو‘ اپنی آنکھوں سے
دیکھا۔ مغرب کے معاشی نظام کا مشاہدہ کیا۔ مغرب کی سیاست کا تنقیدی زاویوں
سے مطالعہ کیا۔ مغرب کے تعلیمی نظام کا مشاہدہ کیا۔ گویا سب اپنی آنکھوں سے
دیکھا۔ ان تمام امور سے‘ جو منفی یا مثبت اثرات لیے‘ ان کے اثرات ان کی
شاعری میں نظر آتے ہیں۔
اس مضمون کی تیاری میں درج ذیل کتب سے معاونت حاصل کی گئی۔
١- نیرنگ خیال‘ لاہور‘ اقبال نمبر‘ شمارہ ستمبر‘ اکتوبر‘ ١٩٣٢
٢- مقام اقبال‘ اشفاق حسین‘ ادارہ اشاعت اردو‘ حیدرآباد دکن ١٩٤٥
٣- مقالات اقبال‘ مرتبہ انٹر کالجیٹ مسلم برادرزہڈ‘ قومی کتب خانہ‘ لاہور‘
١٩٤٨
٤- اقبال کامل‘ عبدالام ندوی‘ مطبع معارف‘ اعظم گڑھ‘ ١٩٤٨
٥- اقبالیات کا تنقیدی جائزہ‘ احمد میاں قاضی جونا گڑھی‘ اقبال اکادمی‘
لاہور‘ ١٩٦٥
٦- اقبال کا تنقیدی مطالعہ‘ اے جی نیازی‘ عشرت پبلشنگ ہاؤس‘ لاہور‘ ١٩٦٥
٧- تصورات اقبال ج-١‘ مولوی صلاح الدین احمد‘ مقبول پبلی کیشنز‘ لاہور‘
١٩٦٩
٨- مطالعہءاقبال کے چند نئے رخ‘ ڈاکٹر سید محمد عبدالله‘ بزم اقبال‘ لاہور‘
١٩٨٤
٩- اقبال اور ثقافت‘ ڈاکٹر مظفر حسن‘ اقبال اکادمی‘ لاہور‘ ١٩٨٦
١٠- ڈاکٹر محمد اقبال‘ کلیات اقبال- اردو‘ المسلم پبلیشرز‘ کراچی ‘ ١٩٩٤ |