کاٹا کیک، نکلا چُوہا

فی زمانہ تقریباً ہر خرابی اور ’’عجیب المفہوم‘‘ بات کا تعلق امریکا سے ہے۔ یا ثابت کیا جاسکتا ہے! امریکا کے ڈسے ہوئے بہت سے ایسے بھی ہیں جو اب اُس کی طرف سے آنے والی کسی بھی خرابی کو حیرت سے نہیں دیکھتے۔ ع
رنج سے خوگر ہوا اِنساں تو مِٹ جاتا ہے رنج

نیو یارک کے نزدیک لانگ آئی لینڈ پر سالگرہ کی ایک تقریب کے لیے منگوائے جانے والے خصوصی کیک کو جب کاٹا گیا تو کیک کاٹنے والوں کے دِلوں پر بھی چُھری چل گئی! کیوں نہ چلتی؟ جس طور بِلّی تھیلے سے باہر آ جایا کرتی ہے بالکل اُسی طرح کیک کا پیٹ چاک کئے جانے پر چُوہا نکل آیا! قصہ یہ ہے کہ 96 سال کا ہونے پر انکل جو کی سالگرہ منائی جارہی تھی۔ جرمن ایپل رِنگ کیک اُنہیں بہت پسند ہے اِس لیے اُسی کا آرڈر دیا گیا۔ جب انکل جو نے کیک کے دو تین ٹکڑے کھائے تو ذائقہ کچھ عجیب سا لگا۔ جب غور سے دیکھا تو اُنہیں کیک کے وسطی حِصّے میں چُوہے کی دُم دِکھائی دی۔ مزید غور سے دیکھنے پر کان کے علاوہ سَر کا کچھ اجزاء کے بھی درشن ہوئے۔ آن کی آن میں ہاہا کار مچ گیا۔ ’’تم جیو ہزاروں سال‘‘ کے شور کی جگہ ’’اوہ مائی گاڈ‘‘ کی دَبی دَبی آوازیں پردۂ سماعت سے ٹکرانے لگیں!

انکل جو کے بھتیجے نیل گولڈ نے بیکری کے خلاف غفلت برتنے کے الزام پر مبنی تحریری شکایت مقامی انتظامیہ کو دی ہے۔ چُوہے والا کیک کھانے سے انکل جو کی حالت تھوڑی سی بگڑی مگر پھر سنبھل گئی۔ کیوں نہ سنبھلتی؟ گزرتے ہوئے اَچّھے زمانوں کا کھایا ہوا خالص مال کام آگیا۔

اِس خبر کو پڑھتے ہی ہمارے ذہن میں سب سے پہلے یہ خیال بجلی کی طرح کوندا کہ شاید امریکیوں نے انتہائی مُعمّر اور کسی طور مرنے کا نام نہ لینے والے شہریوں سے گلوخلاصی کا کوئی طریقہ وضع کیا ہے! کیک میں سے چُوہے کے اجزاء برآمد ہوتے دیکھ کر انکل جو پر جو بیت گئی سو بیت گئی مگر کبھی اُنہوں نے اِس نُکتے پر غور نہیں کیا کہ وہ جو بے فِکری سے جئے ہی جارہے ہیں اُس سے لوگوں پر کیا بیت رہی ہے! چُوہے سے مُزیّن کیک کھانے پر انکل جو نے شاید یہ سوچا ہو کہ 96 سال کی عمر میں کیا کیا دیکھنا پڑ رہا ہے۔ وہ اپنی غلطی بھی تو مانیں کہ اُن کی اِتنی طویل عمر دوسروں کو کیا کیا دِکھا رہی ہے۔ جب کوئی دُنیا سے جانے پر آمادہ ہی نہ ہو تو لوگ چُوہے والے کیک اور اِسی قبیل کی دُوسری اشیاء ہی کو تو زحمت دیں گے!

96 سالہ بزرگ کے لیے چُوہے والے کیک کا تحفہ کوئی حیرت انگیز بات نہیں کیونکہ امریکیوں کو گزرے ہوئے زمانوں کی اقدار اور گزرتے ہوئے ادوار کے لوگوں سے کچھ خاص دلچسپی نہیں۔ بلکہ یوں کہیے کہ چِِڑ ہے۔ ہر معاملے میں جِدّت طرازی امریکیوں کا شعار ہے۔ ممکن ہے انکل جو کے معاملے میں بھی جِدّت کی راہ نکالی گئی ہو۔ کام ہوگیا تو ٹھیک ورنہ اسٹور کے خلاف مقدمہ دائر کی گنجائش تو ہے ہی! یعنی یہ کہ داؤ چل جائے تو بُزرگ سے گلو خلاصی ہوجائے اور اگر نہ چل سکے تو ہرجانے کی مَد میں معقول رقم ہاتھ لگے! امریکیوں کے لیے کوئی بھی معاملہ خسارے کا سَودا نہیں۔

کیک سے چُوہا نکلنے سے زیادہ حیرت ہمیں اِس بات پر ہے کہ فوڈ ٹیکنالوجی کے ماہرین نے اب تک متعلقہ اسٹور پر مقدمہ دائر نہیں کیا۔ بات یہ ہے صاحب کہ اِس نوعیت کے تجربے کرنا فوڈ ٹیکنالوجی کے ماہرین کا خاصہ ہے! وہ رات دن نئے فوڈ آئٹمز متعارف کرانے کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں۔ اپنی سوچ کو عملی شکل دینے کے لیے وہ انتہائی متضاد صفات والی اشیاء کو اُسی طرح یکجا کرتے ہیں جس طور گن پوائنٹ پر نکاح کرایا جاتا ہے! فوڈ ٹیکنالوجی کے ماہرین کا دَم غنیمت ہے کہ اُن کی کاوشوں کے طفیل ’’غیر روایتی‘‘ ڈِشوں کی تیاری کے نام پر مختلف خطوں کے درمیان ’’ہم آہنگی‘‘ بڑھتی ہے اور اہلِ جہاں کو مختلف النوع حشرت الارض کی افادیت کے نئے پہلوؤں سے رُو شناس ہونے کا موقع ملتا ہے! فوڈ ٹیکنالوجی کے ماہرین کو یقیناً اِس بات پر جُزبُز ہونا چاہیے کہ اُن کے میدان میں بیکری کے معمولی کاری گروں نے قدم رکھ دیا۔ اگر اِس معیار کے تحت پرکھا جائے تو ہمارے ہاں بیشتر کاری گر صفِ اوّل کے ماہرین ثابت ہوں گے! ہمیں اُن کے ’’کمالات‘‘ دِکھائی نہیں دیتے؟ کیونکر دِکھائی دیں؟ بے ذوقی نے بصارت کا ’’حُسن‘‘ زائل کردیا ہے۔ ’’دیکھنے والا دیدۂ بینا‘‘ میسر ہو تو کچھ دِکھائی دے نا! ہم کھاتے وقت مقدار کے ایسے دیوانے ہوجاتے ہیں کہ معیار کو طاقِ نِسیاں پر رکھ دیتے ہیں۔

شریف امروہوی نے جب امریکی کیک والی خبر پڑھی تو حیران ہوئے کہ امریکا میں بھی فوڈ آئٹمز کی تیاری میں غفلت اِس حد تک بڑھ گئی ہے۔ مگر پھر اُنہیں تھوڑا سا سُکونِ قلب بھی میسر ہوا کہ فوڈ آئٹمز تیار کرنے والے امریکی اور اُن کے پاکستانی ’’ہم منصب‘‘ اب ایک ہی ’’پیج‘‘ پر ہیں!

شریف امروہوی خوب پَکی ہوئی اشیاء کھانا پسند کرتے ہیں۔ اُنہیں مغرب اور مشرقِ وُسطیٰ کی کوکنگ پسند نہیں جس میں چیزوں کو اُبالنے کے مرحلے سے گزارنے کے فوراً بعد گارنش کرکے دستر خوان کی زینت بنادیا جاتا ہے۔ اُن کی نظر میں کوکنگ کا یہ طریقہ خطرناک ہے کیونکہ جو اِضافی اجزاء یا مخلوق پتیلی میں گِر جاتی ہے وہ دیگر اجزاء میں پوری طرح شیر و شکر نہیں ہو پاتی اور پکانے والے کا بھونڈا پن ظاہر ہو جاتا ہے! ہمارے ہاں، خیر سے، پکانے کا ڈھنگ ایسا پَکّا ہے کہ لوگ کھاتے وقت اُنگلیاں چاٹتے تو رہ جاتے ہیں مگر یہ اندازہ نہیں لگا پاتے کہ چولھے پر چڑھانے سے پہلے پتیلی میں کیا کیا ڈالا گیا تھا! ع
تیری سَرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے!

بصارت سے محرومی کے معاملے میں تو خیر امریکی بھی ہمارے ہم پَلّہ ہیں۔ اُنہیں اپنے فوڈ آئٹمز میں جانوروں کے اجزاء یا بال وغیرہ تو نظر آ جاتے ہیں مگر دُنیا بھر میں غصب کئے جانے والے بُنیادی حقوق کے ریزے دِکھائی نہیں دیتے! امریکی فوجیوں کے ہاتھوں بہنے والے مظلوموں کے خُون اور زیرِ دست معاشروں میں بکھرے ہوئے گوشت کے لوتھڑوں پر بھی اُن کی نظر نہیں پڑتی!

انکل جو کے لیے سالگرہ کا کیک تیار کرنے والی بیکری ہمیں تو امریکی محکمۂ خارجہ کا ذیلی ادارہ معلوم ہوتی ہے کیونکہ آج تک امریکی خارجہ پالیسی بھی چُوہے والے کیک تیار کرنے کے اُصول کی بُنیاد پر وضع کی جاتی رہی ہے۔ جن ممالک سے امریکا کی نہیں بنتی اُنہیں اپنی شرائط پر دی جانے والی امداد کے پردے میں ایسے ہی غیر معیاری کیک کِھلائے جاتے رہے ہیں! اور جس کسی کی مَت ماری جاتی ہے وہ ہرجانے کی بات کربیٹھتا ہے۔ ہرجانہ تو کیا مِلنا ہے، پھر گھٹیا کیک کا آسرا بھی ختم ہو جاتا ہے!

M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 524686 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More