آخر مونا لیزا بول پڑی

چند روز قبل ایک دوست کے دفتر میں کچھ ادبی شخصیات کی نشست میں شامل ہونے کا موقع ملا۔ شریک گفتگو حضرات میں زیادہ تر لوگ ماضی کی شخصیات تھیں اور گرما گرم بحث جاری تھی۔ گفتگو کا موضوع بھی دلچسپ معلوم ہو رہا تھا لہٰذا میں نے بھی شمولت اختیار کر لی۔

ایک صاحب جو کہ ایک مشہور شاعر ہیں اور ماضی کا حصہ بنتے جا رہے ہیں، گلہ شکوہ کر رہے تھے کہ دیکھو آج کل کے شعراء جو ہیں ان کو تو شعر کہنا بھی نہیں آتا مگر ہر جگہ ان کا چرچا ہوتا ہے، بے وزن شعر شاعری ہے مگر ان کا نام چلتا ہے۔ دوسرے صاحب فرما رہے تھے کہ نئے نئے لوگ آرہے ہیں آتا جاتا کچھ نہیں مگر چرچے دیکھو۔

سیاست پہ بات شروع ہوئی تو ایک صاحب بولے یار کون مخلص ہے اس وطن کا؟ جس کو دیکھو کھا رہا ہے اور قرضے معاف کروا رہا ہے مگر کوئی پوچھنے والا ہی نہیں، اور دوسرے صاحب بولے ڈئیر اب تو مل کر کھانے کا طریقہ کار چل رہا ہے یا پھر باری باری۔ ایک صاحب کا تو مؤقف یہ بھی تھا کہ پاکستان بھی تو نوابوں نے بنوایا تھا کہ ان کی جاگیریں محفوط رہیں وغیرہ وغیرہ۔ اور ایک صاحب ملائزم اور ہیپو کریسی پہ تبصرہ پیش کر رہے تھے جبکہ میزبان چائے صرف کرنے کے ساتھ ساتھ الفاظ کے لقمے بھی دے رہے تھے کہ گفتگو کا مزاج گرم رہے۔

آج مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ ہماری پیش رفت کن عوامل میں ہے، اور گم سم بیٹھا اس ادبی نشست میں اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا کہ اچانک میری نظر میزبان کی کرسی سے زرا اوپر دیوار پر پڑی جہاں مونا لیزا کی ایک بڑی سی تصویر آویزاں تھی۔ مونا لیزا کی مسکراہٹ مجھے شدید چبھتی محسوس ہوئی۔ میں تو یہی سوچ رہا تھا کہ میری جگہ پہ اب مونالیزا ہی بول پڑے گی کہ تم کیسی قوم ہو کہ صرف ٹانگیں کھنچنے اور وقت ضائع کرنے کے سوا کچھ نہیں آتا، انسانیت کی فلاح کیلئے کونسے کام کر رہے ہو؟ آج اگر ترقی یافتہ قومیں مسلمان ہو گئیں ( جو کہ حقیقت بھی نظر آرہی اسلام کا یورپ اور امریکہ میں تیزی سے پھیلاؤ) تو تمہارے قدریں Values کیا رہ جائیں گی؟

آج جب نیٹ پر نئی ٹیکنالوجی کا مشاہدہ کر رہا تھا کہ جہاں Interactive Art کی انقلابی پیش رفت کے باعث یہ ممکن ہوگیا ہے کہ 2D دو رخی شہہ پارے بھی محو گفتگو ہو سکیں گے اور ماڈل کے طور پر پہلی فلم میں مونا لیزا کو بولتے دیکھا تو مجھے اپنی قومی اوقات یاد آگئی اور خوف بھی کہ کہیں مونا لیزا ہماری حالت کو دیکھ کر رہ نہ سکی ہو کہ بس کرو اب مجھے بولنا ہے تم اس قابل نہیں کہ تمہاری بات سنی جائے۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر تصویریں بولیں گی اور ہم تماشائی بن کر سنتے رہیں گے ۔۔۔۔۔ شکر ہے مونا لیزا نے تو کسی اور ہی زبان میں بات کی تھی ورنہ اس نے کتنوں کے پول کھول دینے تھے ۔۔۔۔اگر آپ چاہیں تو میری فیس بک میں ملاحظہ کریں نئی ٹیکنالوجی اور گفتگو کرتی مونا لیزا کی تصویر۔۔۔ ہم کہاں کھڑے ہیں اور دنیا کہاں پہنچ چکی ہے؟

آئیے دیکھیں مونا لیزاکیا بول رہی ہے https://www.facebook.com/guhar

آج کا پیغام:

’’افکار تازہ ہمیشہ بہتے پانی کیطرح پاکیزہ اور آئینہ کیطرح شفاف ہوتے ہیں‘‘
 
Muhammad Altaf Gohar
About the Author: Muhammad Altaf Gohar Read More Articles by Muhammad Altaf Gohar: 95 Articles with 163843 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.