ڈراموں میں رشتوں کے احترام کا قتل عام

تحریر: نذر حسین چودھری

پرائیویٹ چینلز ہو یا سرکار کا ٹی وی ان چینلز پر دیکھائے جانے والے ڈراموں میں میں کہانی صرف اور صرف محبوب اور محبوبہ کے پیارکے گرد ہی گھومتی نظرآتی ہے ۔اکثر ڈراموں میں شادی کے بعد لڑکے کی ماں کو ظلم ڈھاتے دیکھایا جاتا ہے جس کے معاشرے میں بد ترین اثرات بآسانی محسوس کئے جا سکتے ہیں۔ناظرین کی اکثریت چونکہ خواتین ناظرین کی ہوتی ہے ۔لہذا یہ خواتین خود بھی اور اپنے بچوں کو بھی لڑکے کے ماں باپ سے نہ صرف دور رکھتی ہیں بلکہ جہاں تک ممکن ہو سکے بچوں کے دل میں اپنی دادی ماں کیخلاف نفرت پیدا کر دیتی ہیں ۔یوں نفرت کے بوئے جانے والے یہ بیج وقت کے ساتھ ساتھ پنپتے رہتے ہیں ۔مکافات عمل کے قدرتی نظام سے بے خبر اِن کو اس بات کی خبر نہیں ہوتی کہ کل ایسا وقت اُن پر بھی آئے گا ۔ایسے ہی ایک سچا اور آنکھوں دیکھا سرگودھا کے ایک دوست نے سنایا ۔واقعہ کے بارے میں سوچا آپ سے بھی شیئر کر لوں ۔یہ ایک خاندان کی سچی کہانی ہے اور تازہ ترین ہے ۔بیٹاشادی شدہ ہے ۔باپ فوت ہو چکا ہے اور اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا ہے ۔تاہم بیوی اور بچوں کی وجہ سے دو دن سے زیادہ اپنی ماں کو گھر میں نہیں رہنے دیتا ۔مجبوراً ماں اپنے رشتہ داروں کے پاس چلی جاتی ہے ۔ماں جب کبھی اپنے بیٹے کے گھر ہوتی ہے تو دیگر پابندیوں کے ساتھ ساتھ اُس کی بہو کا حکم ہوتا ہے کہ خبردار کچن کا رخ نہ کر نا ۔وقت گزرتا رہتا ہے ۔ایک روز اُس کی ماں کو کسی بات پر اُس کی پوتی (دادی) کے منہ پرتھپڑسے مارتی ہے ۔زمین کیا پھٹتی اور آسمان کیا گرتا ۔سگے بیٹے نے بات ہنسی مذاق میں ٹال دی ۔ کچھ وقت گزرا ایک دن وہی پوتی کھانا بنا رہی تھی کہ پریشر کُکر دھماکہ سے پھٹ گیا جس نے چہرے کو جلا ڈالا ۔مکافات عمل سے بے خبر اس خاندان کو پھر بھی عقل نہ آئی ماں پر ظلم و ستم برابر جاری رہا ۔ماں کبھی اپنے بیٹے تو کبھی اپنے رشتہ داروں کے گھر اپنا وقت گزارتی رہی ۔ماں تو پھر ماں ہے جب کبھی اپنے بیٹے کے گھر کیلئے روانہ ہوتی تو اُن کے لئے جتنا ہو سکتا ۔کھانے پینے کی اشیاء ساتھ لیکر جاتی ۔تاہم دوسری جانب نفرت اپنے عروج پر رہی ۔پھر ایک روز جب سب گھر والے سو رہے تھے ۔ماں حسب معمول رشتہ داروں کے گھر تھی ۔کہ بہو اپنے گھر کے کچن میں گئی جی ہاں اُسی کچن میں جہاں اُس نے اپنی ساس پر پابندی لگائی تھی کہ وہ اِدھر کا رخ بھی نہ کیا کرے ۔کچن میں جا کر چولہا جلانے کے لئے جیسے ہی اُس نے ماچس کی تیلی جلائی اچانک ایک زور داردھماکہ ہوا ۔کچن میں رات کو گیس کھلی رہ گئی تھی ۔جس کے باعث دھماکا ہوا ۔کچن کے دروازے ،کھڑکیاں کئی فٹ دور جا گریں ۔بہو بری طرح جھلس گئی ۔ ہسپتال پہنچایا گیا ۔کئی روز ہسپتال رہنے کے بعد گھر واپس آگئی ۔اُس کی حالت ابھی بھی خراب ہے ۔ اب اُس کی شکل و صورت بھی پہلے جیسی نہیں رہی ۔ کیا ان حادثات سے اس خاندان نے کوئی سبق سیکھا ؟؟ نہیں نہیں اُن کا رویہ اب بھی ویسا ہی ہے ۔ایک صحابی ؓ نے اﷲ کے حبیب ﷺ سے پوچھا قیامت کب آئے گی ۔فرمایا اﷲ بہتر جانتے ہیں ۔پوچھا گیا کوئی نشانی ہی بتا دیں ۔تو اﷲ کے پیارے نبی ﷺ نے فرمایا جس کا مفہوم یہ ہے کہ جب ماؤں کو ذلیل کیا جانے لگے تو سمجھ لینا کہ قیامت آنے کو ہے ۔

ایک انگریز کی ڈائری نظروں سے گزری جو اپنی ماں سے نفرت کرتا تھا!!وہ لکھتا ہے کہ میں اور میری ماں ایک متوسط سے گھر میں رہتے تھے۔۔ میرے والد فوت ہو چکے تھے۔لہذا زندگی کی گاڑی چلانے کے لئے میری ماں کو سکول کی کینٹین میں صبح سے لیکر سکول بند ہونے تک سخت کام کرنا پڑتا تھا۔ میری ماں کے کپڑے بھی کوئی اتنے اچھے نہ ہوتے تھے۔ یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں تھی۔ کیونکہ مجھے اپنی ماں سے کسی اور بات پر سخت نفرت تھی ۔وہ یہ کہ میری ماں کی ایک آنکھ نہیں تھی۔ جس سے مجھے میری ماں بالکل بھی اچھی نہیں لگتی تھی۔ اور دوسری طرف سکول کے بچے بھی مجھے اکثر کہتے تمہاری ماں ایک آنکھ سے کانی ہے۔ جس سے میری نفرت میں اور اضافہ ہوتا۔ جبکہ میری ماں مجھ سے بیحد پیار کرتی اور پڑھائی کے معاملے میں ہر وہ سہولت مہیا کرتی جو دوسرے بچوں کو حاصل تھیں۔ مگر میں نے اپنی ماں سے ہمیشہ نفرت کی۔ خیر میں تعلیم حاصل کرتا گیا۔ ایک وقت آیا کہ میں کالج کے بعد یونیورسٹی اور پھر کورس کے لئے سنگاپور چلا گیا۔اور میری ماں جیسے تیسے میر ا خرچہ برداشت کرتی رہی۔ لیکن میری نفرت باقاعدہ برقرار رہی۔ وقت گزرتا گیا میں تعلیم مکمل کر کے واپس آیا مجھے بہت اچھی جاب مل گئی اور پھر جیسے ہی میں معاشی طور پر آزاد ہوا۔ اپنی ماں سے بالکل قطعہ تعلق ہوگیا۔ جس کا میری ماں کو رنج ہوا۔ مگر مجھے پروا نہیں تھی۔پھر میں نے شادی کر لی اور میرے دو بچے بھی ہوگئے۔ میں نے اپنا ذاتی گھر بھی خرید لیا۔ایک دن اچانک میرے گھر کی گھنٹی بجی۔ دروازہ کھولا تو سامنے ماں کھڑی تھی۔ میری بیوی اور بچے تجسس سے میرے پیچھے کھڑے ہو کر بولے یہ کون ہیں۔۔؟؟ جبکہ مجھے بے حد غصہ آیا۔ میں نے ماں کو کہا کہ تو یہاں کیوں آئی ہو۔۔ کیوں میرے بچوں کو ڈرانا چاہتی ہو ان کو کیوں ڈسٹرب کیا ہے۔ میری ماں نے کوئی لفظ نہ کہا اور انہی قدموں سے واپس چلی گئی۔تھورا وقت گزار۔ پتہ نہیں کیوں میں ایک دن جاب سے واپسی پر اپنی ماں کے گھر کی طرف چلا گیا۔ ماں گھر نہیں تھی۔ ہمسایوں سے دریافت کرنے پر معلوم پڑا کہ ماں کچھ دن پہلے فوت ہوگئی ہے۔۔لیکن ہمسائے نے کہا اچھا ہوا تم آگئے تمہاری ماں تمہارے لئے ایک خط چھوڑ گئی ہے۔ میں نے لیا اور پڑھنا شروع کیا
پیارے بیٹے ہمیشہ سلامت اور خوش رہو
مجھے پتہ ہے تم مجھ سے میری آنکھ کی وجہ سے ساری زندگی نفرت کرتے رہے۔۔
لیکن بیٹا سنو۔۔ تم بہت چھوٹے تھے کہ تمہارا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔ تمہاری ایک آنکھ بالکل ضائع ہو گئی۔ جس سے میرا دن رات کا سکون چھن گیا۔ میں تمہیں اس طرح نہیں دیکھ سکتی تھی۔ڈاکٹرز نے کہا کہ آنکھ بحال ہو سکتی اگر کوئی اپنی آنکھ عطیہ کرے۔ میں نے اپنی ایک آنکھ تم کو دے دی۔۔ تاکہ میرا لال دونوں آنکھوں سے دیکھ سکے۔۔ اگر یہ میرا جرم تھا تو بیٹا مجھے معاف کر دینا۔۔ اور میں معافی چاہتی ہوں کہ تم کو اور تمہارے بچوں کو ڈسٹرب کیا تھا
فقط تمہاری ماں

مجھے ایسا لگا میری دنیا تباہ و برباد ہو گئی۔ دل چاہتا تھا کہ زمین پھٹے اور میں اس میں غرق ہوجاؤں۔
ڈرامہ نگار ہو یاکوئی دوسرا سب اپنے اﷲ کو جواب دہ ہیں معاشرے میں ان مقدس رشتوں کیخلاف نفرت پھیلانے پر یقیناقبل گرفت ہونگے۔ کاش مکافات عمل کے ان واقعات سے کوئی سبق سیکھے تاکہ رشتوں کا احترام قائم رہ سکے ۔
Mumtaz Awan
About the Author: Mumtaz Awan Read More Articles by Mumtaz Awan: 267 Articles with 197177 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.