دسویں تراویح

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
آج بارہویں پارے کی چوتھائی سے تیرہویں پارے کے آدھے تک کی تلاوت کی جائے گی۔

نوح علیہ السلام کی قوم کا انجام بیان کرنے کے بعد اب ہود علیہ السلام کی قوم عاد اور صالح علیہ السلام کی قوم ثمود کے عبرت انگیز انجام کو بتایا تاکہ قریش کو عبرت اور قیامت تک آنے والے سرکش لوگوں کو نصیحت ہو۔ پھر لوط علیہ السلام کی قوم کا ذکر کیا اس مناسبت سے کہ قریش فرشتوں کے اتارے جانے کا مطالبہ کررہے تھے بتایا کہ فرشتوں کا آنا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہوتا وہ جب کافر قوموں کے مطالبہ پر آتے ہیں تو اپنے ساتھ عذاب لاتے ہیں پھر حضرت شعیب علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے واقعات کا ذکر کرتے ہوئے ان قصوں کو بیان کرنے کا موقعہ ان لفظوں میں واضح کیا-

“ یہ بستیوں کے کچھ حالات ہیں جو ہم تمہیں سنا رہے ہیں ان میں کچھ ابھی قائم ہیں اور کچھ مٹ چکی ہیں ہم نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ انہوں نے خود اپنے اوپر ظلم کیا تو ان کے بناوٹی خدا جن کو وہ اللہ کے سوا پکارتے تھے تیرے رب کا عذاب آنے پر ان کے کچھ کام نہ آئے، تیرے رب کی پکڑ جب وہ بستیوں کو ان کے ظلم میں پکڑتا ہے تو اسی طرح ہوتی ہے بے شک اس کی پکڑ بڑی ہی درد ناک اور سخت ہے “ ہم رسولوں کی سرگزشتوں میں سے ایک تم کو سنارہے ہیں تاکہ تمہارے دل کو تقویت ہو اور ان کے حالات کا صحیح علم ہوسکے اور مومنوں کے لئے ان میں نصیحت اور یاد دہانی ہے۔

اب سورہ یوسف شروع ہوتی ہے -اس کے نزول کا سبب یہ ہوا کہ قریش حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کرنے یا جلا وطن کرنے یا قید کرنے کے متعلق بڑی سنجیدگی سے سوچ رہے تھے کہ مدینہ کے یہودیوں نے انہیں پٹی پڑھائی کہ ان سے یہ پوچھو کہ بنی اسرائیل تو شام میں رہتے تھے وہ مصر کیسے چلے گئے کہ حضرت موسٰی علیہ السلام کا سارا قصہ مصر سے تعلق رکھتا ہے۔ ان کے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کسی نہ کسی طور یہودیوں سے رابطہ کر کے یہ بات معلوم کرنےکی کوشش کرتے تو گویا سارا پول کھل جاتا اور قریش کو سزا دینے کا موقع مل جاتا مگر اللہ تعالیٰ نے فوراً ہی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے حضرت یوسف علیہ السلام کا قصہ سنا دیا اور ساتھ ہی اسے قریش پر چسپاں بھی کردیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو کچھ بھی بیان کرتے ہیں وہ اللہ کی بتائی ہوئی باتیں ہیں اس طرح گویا انہیں متنبہ بھی کردیا کہ یہی انجام تمہارا بھی ہونے والا ہے کہ تم ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے رحم و کرم پر ہوگے-

اسی واقعہ میں اللہ نے اسلام کی دعوت کو پیش کرتے ہوئے واضح کردیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام، اور حضرت یوسف علیہ السلام کا دین بھی وہی تھا جو محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ہے اور وہ سب بھی اسی طریق زندگی کی دعوت دیتے تھے جس کی دعوت محمد صلی اللہ علیہ وسلم دے رہے ہیں۔ اللہ نے اس قصہ میں ایک طرف حضرت یعقوب علیہ السلام، اور حضرت یوسف علیہ السلام کا کردار پیش کیا ہے تو دوسری جانب عزیز مصر، اس کی بیوی، مصر کے دوسری بڑے گھرانوں کی بیگمات، اور حکام مصر کا کردار پیش کیا ہے اور دونوں میں مقابلہ کر کے دکھایا ہے کہ “ ایک طرح کا کردار وہ ہے جو اسلام قبول کرکے بنتا ہے اور دوسرا کردار وہ ہے جو دنیا پرستی اور آخرت سے بے خوفی سے پیدا ہوتا ہے، اب تم خود اپنے ضمیر سے پوچھ لو کہ کون سا کردار بہتر ہے“- پھر اللہ تعالیٰ نے یہ بات بھی سامنے رکھ دی کہ دراصل اللہ تعالیٰ جو کچھ کرنا چاہتا ہے وہ پورا ہوکر رہتا ہے انسان اپنی تدبیروں سے اس کے منصوبوں کو روکنے میں کبھی کامیاب نہیں ہوسکتا بلکہ انسان اپنے منصوبہ کے لئے تدبیر اختیار کرتا ہے اللہ چاہتا ہے تو اس کی تدبیر کے ذریعے اپنا منصوبہ پورا کرلیتا ہے۔ یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے حضرت یوسف کو اپنے راستے سے ہٹانے کے لئے کنوئیں میں پھینک دیا مگر یہ کنواں ان کےعروج کا سبب بن گیا۔

اسی طرح عزیز مصر کی بیوی زلیخا نے حضرت یوسف علیہ السلام کو قید خانہ بھجوا کر اس بات کا انتقام لیا کہ انہوں نے غلام ہونے کے باوجود اس کی خواہش کو پورا کرنے سے انکار کردیا تھا، مگر یہ قید خانہ انکے تخت سلطنت پر بیٹھنے کا ذریعہ بن گیا اور اسے علی الاعلان ایک دن اپنی بے حیائی اور جرم کا اعتراف کرنا پڑا، یہ اور اسی طرح کے بےشمار تاریخی واقعات اس حقیقت کا اعلان کرتے ہیں کہ اللہ جسے اٹھانا چاہاتا ہے اسے ساری دنیا مل کر بھی نہیں گرا سکتی، اسی طرح اللہ جسے گرانا چاہے اسے ساری دنیا مل کر بھی نہیں اٹھا سکتی۔

سورہ یوسف سے پہلا سبق انسان کو یہ ملتا ہے کہ اسے اپنے مقاصد اور تدبیر دونوں میں اللہ کی مقرر کردہ حدود سے آگے نہیں بڑھنا چاہئے، کامیابی اور ناکامی دراصل اللہ کے ہاتھ میں ہے جو شخص پاک مقصد کے لئے سیدھی سیدھی جائز تدبیریں اختیار کرے گا اگر وہ یہاں کامیاب نہ بھی ہو تو کسی رسوائی سے دوچار نہیں ہوگا، لیکن جو شخص ناپاک مقصد کے لیے اور ٹیڑھی تدبیر کرے گا وہ آخرت میں یقیناً رسوائی سے دوچار ہوگا۔

دوسرا سبق اس قصہ سے یہ ملتا ہے کہ اللہ پر پورا بھروسہ رکھو اور اپنے آپ کو اس کے سپرد کردو جو لوگ حق اور سچائی کے لئے کوشش کرتے ہیں چاہے دنیا انہیں مٹانے پر تل جائے تب بھی وہ اس بات کو سامنے رکھتے ہیں کہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے اس یقین سے انہیں غیر معمولی تسکین ملتی ہے اور وہ تمام مشکلات اور رکاوٹوں کے مقابلہ میں اپنا کام برابر کرتے چلے جاتے ہیں۔

سب سے بڑا سبق اس قصہ سے یہ ملتا ہے کہ ایک مومن اگر حقیقی اسلامی سیرت اور کردار رکھتا ہو اور حکمت کی صفت بھی اس میں ہو تو وہ تنہا بھی سارے ملک کو فتح کرسکتا ہے۔ یوسف علیہ السلام کو دیکھئے ١٧ برس کی عمر تن تنہا، بے سروسامان، اجنبی ملک اور پھر کمزوری کی انتہا یہ کہ غلام بنا کر بیچے گئے، اس پر مزید ظلم یہ کہ ایک انتہائی گھناؤنے اخلاقی جرم کا الزام لگا کر جیل میں بند کردیا گیا جس کی کوئی میعاد بھی نہیں تھی، اس حالت تک گرا دیے جانے کے باوجود وہ محض اپنے ایمان اور اخلاق کے بل پر اٹھتے ہیں اور سارے ملک کا اقتدار سنبھال لیتے ہیں۔

جب حضرت یوسف علیہ السلام کے خواب کی تعبیر پوری ہوتی ہے تو ماں باپ مصر پہنچ جاتے ہیں اور وہ ماں باپ کو اٹھا کر اپنے ساتھ تخت پر بٹھاتے ہیں اور تمام لوگ جن میں ان کے بھائی بھی شامل ہیں،تعظیماَ ان کے سامنے جھک جاتےہیں تو حضرت یوسف علیہ السلام کو اپنا خواب یاد آجاتا ہے اور وہ اپنے والد سے کہتے ہیں کہ “ ابا جان یہ ہے میرے اس خواب کی تعبیر جس میں مَیں نے سورج، چاند، اور گیارہ ستاروں کو سجدہ کرتے دیکھا تھا۔

اس پر بھی کسی فخر یا بڑائی کو ظاہر کرنے کے بجائے اللہ کے آگےعاجزی اور شکر کا اظہار کرتے ہیں، فرماتے ہیں “ اے میرے رب ! حکومت بھی تو نے ہی عطا فرمائی اور خوابوں کی تعمیر کا علم بھی تو نے بخشا اے آسمانوں اور زمین کے خالق ! دنیا اور آخرت دونوں میں میرا کارساز اور مددگار تو ہی ہے۔ مجھے اسلام پر وفات دینا اور مجے صالحین کے زمرے میں داخل کرنا“

سورہ یوسف کے بعد سورہ رعد کے دو رکوع میں بتایا گیا کہ یہ کتاب الہٰی کی آیات ہیں ہوائی باتیں نہیں ہیں کہ ان کی ہر بات ایک حقیقت ہے اور جن باتوں کی خبر دی جاری ہے وہ ایک ایک کر کے پوری ہوکر رہیں گے لیکن اکثر لوگ ضد پر اڑے ہوئے ہیں ایسے لوگ ایمان نہیں لائیں گے- پھر کائنات کی ان نشانیوں کی طرف توجہ دلائی جو قرآن کی بیان کردہ حقیقتوں کو واضح کرنے والی ہیں اور یہ ایمان دلانے کے لئے کافی ہیں کہ ایک روز اس کے سامنے پیش ہونا ہے، ہر کھلی اور ڈھکی چیز سے وہ واقف ہے ہر شخص کے آگے اور پیچھے اس کے مقرر کئے ہوئے نگران لگے ہوئے ہیں جو اللہ کے حکم سے اس کی دیکھ بھال کر رہے ہیں۔

قوموں کی تبدیلی کے بارے میں حقیقت ہے کہ اللہ کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا، جب تک وہ اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی اور جب اللہ کسی قوم کی شامت لانے کا فیصلہ کرلے تو پھر کسی کے ٹالے نہیں ٹل سکتی کیا اللہ کے مقابلہ میں کوئی کسی کا مددگار ہوسکتا ہے؟ حق و باطل کی کشکمش کو عجیب مثال سے سمجھایا کہ اللہ نے ششآسمان سے پانی برسایا اور ندی نالے اپنے ظرف کےمطابق اسے لیکر چل نکلے پھر جب سیلاب اٹھا تو سطح پر جھاگ بھی آگئے اور ایسے ہی جھاگ ان دھاتوں پر بھی اٹھتے ہیں جنہیں زیور اور برتن بنانے کےلئے پگھلایا کرتے ہیں جو جھاگ ہے یعنی باطل وہ آخر اڑ جایا کرتا ہے اور جو چیز انسان کے لیے نفع بخش ہے یعنی حق وہ زمین میں ٹہر جاتی ہے اس طرح اللہ مثالوں سے اپنی بات سمجھاتا ہے۔
آج کی تراویح کا بیان ختم ہوا۔دعا ہےکہ اللہ ہمیں قرآن پڑھنے،اس کو سمجھنے،اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین- اللہ اس قرآن کی برکت سے ہمارے ملک اور شہر حالات بہتر بنائے آمین
تحریر : مولانا محی الدین ایوبی
Saleem Ullah Shaikh
About the Author: Saleem Ullah Shaikh Read More Articles by Saleem Ullah Shaikh: 535 Articles with 1521261 views سادہ انسان ، سادہ سوچ، سادہ مشن
رب کی دھرتی پر رب کا نظام
.. View More