ماہ رمضان جاری ہے اور اس ماہ
مبارک میں ہر بندہ مومن و مسلمان زیادہ سے زیادہ نیکیاں سمیٹنے کی کوشش و
جدوجہد میں رہتا ہے کہ اس ماہ میں کی گئی نیکیوں کا اجر و ثواب عام دنوں
میں کی گئی نیکیوں کے مقابلے میں ستر گنا زیادہ ہو جاتا ہے تو پھر کوئی
کیوں نہ چاہے گا کہ اس سنہری موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے جس قدر نیکیاں سمیٹ
سکتا ہے سمیٹ لے یہی وجہ ہے کہ اس ماہ مبارک کی برکت سے چہار سو رونق چہل
پہل مسرت و شادمانی کی سی کیفیت اور امن و محبت کی فضا نظر أتی ہے اتفاق و
اتحاد اور جذبہ ہمدردی عام دنوں کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی دکھائی دیتا ہے
ہر ایک کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ دروازے پر آیا کوئی بھی سوالی خالی ہاتھ نہ
جائے کسی کا سوال رد نہ کیا جائے
صاحب حیثیت افراد ہوں یا متوسط گھرانوں سے تعلق رکھنے والے افراد سب کے گھر
سے غربا و مساکین کے لئے سحر و افطار کے انتطامات میں اپنے اپنے حسب حال
بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اس کے علاوہ بیشتر مخیر حضرات مخصوص رقوم اس مقصد
کے لئے مختص کردیتے ہیں تاکہ غریب گھرانوں کے افراد بھی ماہ رمضان کی
روحانی فضیلتوں کے ساتھ ساتھ مادی لطف و فوائد سے بھی خاطر خواہ فیض پا
سکیں اس طرح خاص طور پر افطار کے وقت ہمارے گھرانوں میں افطاری کا جس طرح
سے انتظام ہوتا ہے اس سے بچوں میں روزہ رکھنے کا شوق خود بخود بہت پروان
چڑھنے لگتا ہے یہاں تک کے بچے اپنے والدین سے بڑے لاڈ سے روزہ رکھنے کی
خواہش کا اظہار کرتے بلکہ ضد کرکے روزہ رکھتے ہیں جن بچوں کا دل بچپن سے ہی
روزہ رکھنے کی طرف مائل ہو جائے تو پھر ان پر روزہ رکھوانے کے لئے جبری حکم
صادر کرنے یا سختی سے روزہ رکھوانے کے لئے قائل کروانے کی ضرورت نہیں پڑتی
بلکہ بچہ اپنے شوق اور خوشی سے روزہ رکھتے ہوئے سن بلوغ تک پہنچتے پہنچتے
روزہ کی افادیت اہمیت اور فضیلتوں رحمتوں اور برکتوں سے بتدریج آگاہ ہونے
لگتا ہے اور اس طرح باقاعدگی سے بلا جبر روزہ رکھنے کا عادی ہو جاتا ہے
ایک گزارش خاص طور پر ضرورت سے زیادہ سخت مزاج والدین کے لئے کہ کبھی بھی
بچے پر اس ضمن میں سختی یا جبر سے کام نہ لیں کہ محبت اور نرمی سے مائل
کرنا سختی و جبر سے قائل کرنے سے بدرجہا بہتر ہے بلکہ سختی و جبر بعض اوقات
بچے کے دل میں اس عمل کے لئے سرکشی و بغاوت پیدا کرنے کے مؤجب بن جاتی ہے
جس کے لئے اسے والدین کے سختی ڈانٹ یا مار سہنا پڑے اور یہی جبر بچے کے ذہن
و دل میں بیٹھ جائے تو یہ بچے کے مستقبل اور شخصیت پر بری طرح متاثر ہوتا
ہے کہ پھر اسے راہ ہدایت پر لانا بہت مشکل ہو جاتا ہے لہٰذا اس سلسلے میں
ممکنہ خدشات سے سے بچنے کے لئے کوشش کیجیئیے کہ بچوں کو نماز روزہ اور قرآن
یا دیگر مذہبی فرائض کی ادائیگی و نیکی کی طرف پیار اور محبت سے مائل کریں
اگرچہ ایسی صورت حال کا سامنا بہت کم گھرانوں میں ہوتا ہے لیکن پھر بھی
بدقسمتی سے کچھ گھرانے ایسے بھی ہیں جہاں محبت و نرمی کی فضا کا رجحان نہیں
اور یہی رجحان بڑھتے ہوئے بچوں میں بعض اوقات اس طرح بگاڑ کی صورت پیدا کر
دیتا ہے کہ بچے کی ذہنی جسمانی مذہبی و اخلاقی نشونما کے ساتھ ساتھ اس کا
مستقبل بھی داؤ پر لگ جاتا ہے جو کسی بھی گھر خاندان یا معاشرے کے لئے
مناسب نہیں ایک بچے کا مستقبل قوم کے مستقبل پر بالکل اسی طرح اثر
انداز ہو سکتا ہے اور یہ سربراہ خاندان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے گھر کا
ماحول پرسکون بناتا ہے اگر گھر کا سربراہ ہی وحشیانہ حدتک سخت رویہ رکھنے
والا ہوگا تو اس کے بچے ڈر اور خوف کی فضا میں کسی بھی طور مناسب نشوو نما
پانے سے محروم رہ جاتے ہیں سو اپنے بچوں کی ذہنی و جسمانی مذہبی و اخلاقی
تربیت کے لئے ایسا ماحول قائم کریں جو بچوں میں بخوشی رغبت مذہبی و اخلاقی
فرائض کی ادائیگی کا رجحان پیدا کرے نہ کے انہیں متضاد سمت میں دھکلینے کا
باعث بن جائے
رہی بات ماہ رمضان میں روزہ کشائی کروانے کی صدقات و خیرات بڑھانے کی تو
اپنے خاص حلقہ احباب کے علاوہ ان لوگوں کو بھی یاد رکھیں جو قلیل آمدن اس
پر مہنگائی کے باعث روزہ افطار کے لئے دیگر مخیر و ساحب استطاعت افراد کی
طرح انتظامات کے قابل نہیں ہو پاتے
نیز صدقات و خیرات بھی انہیں دیں جو واقعتاً مستحق ہیں دکھاوے کے لئے کچھ
نہ کریں جو کریں نیک نیتی سے اور محض اللہ کی رضا کے لئے کریں اور اللہ کے
ایسے بندوں کی بہتری میں صرف کریں جو واقعی أپ کے تعاون کے حقدار ہیں
کسی کی جھولی میں ایک دو یا پانچ دس روپیہ روز روز ڈال کر مستقل سوالی بن
جانے کی ترغیب دینے سے بہتر ہے کہ کسی کی اس طرح مدد کی جائے کہ وہ خود
کفیل ہو سکے اور ہمیشہ کے لئے سوال کرنے کی پشیمانی سے محفوظ رہ سکے اور اس
طرح دوسروں کا تعاون کریں کہ جس کا تعاون مقصود ہے اس کی عزت نفس مجروح نہ
ہو اپنا فرض اور ذمہ داری سمجھ کر دوسروں کا حق ادا کریں کے اللہ تعالیٰ نے
مخیر حضرات کی دولت میں غربا و مساکین نادار اور محتاج لوگوں کا حصہ رکھا
ہے سو کسی کا کسی پر کوئی احسان نہیں جو مدد کرتا ہے اس پر بھی اللہ کا
احسان ہے کہ اللہ نے اسے اس قابل بنایا ہے کہ وہ محتاجوں اور ناداروں کی
داد رسی کرنے کے قابل ہے سو ایسے افراد کو تکبر کی بجائے رب کا شکر ادا
کرتے ہوئے رب کی بڑائی بیان کرتے رہنا چاہئیے اور اپنے مال سے حقداروں کا
پورا پورا حق نکالنا چاہئیے جیسا کہ اسلامی قوانین کے مطابق بیان کیا گیا
ہے کہ اسلام کا معاشی نظام دنیا کا بہترین معاشی نظام ہے اگر یہ نظام صحیح
معنوں میں رائج ہو جائے تو کوئی غریب نہ رہے کوئی بھوکا نہ رہے کوئی سوالی
نہ رہے اس طرح سےمستحقین کے لئے مال نکالنے والوں کے مال میں برکت بھی ہوگی
اور رب بھی اس سے راضی رہے گا
بدنیتی اچھے سے اچھے عمل کو بھی چھوٹا بنا دیتی ہے جبکہ اخلاص اور نیک نیتی
چھوٹے سے چھوٹے اعمال کو بھی بڑھا دیتی ہے جو کرو نیک نیتی سے کرو دکھاوے
کے لئے نہیں بلکہ صرف اللہ کی رضا و خوشنودی کے لئے کرو اپنی نیکیوں کو ماہ
رمضان کے علاوہ بھی جاری رکھیں تو یہ ہمارے ملک و قوم کے استحکام و ترقی کے
حق میں بہترین ہے
اللہ تعالیٰ ہم سب کو اعمال صالح پر کاربند رہنے کی توفیق عطا فرمائے اور
ہماری نیکیوں کو اپنی بارگاہ عظیم میں قبول فرمائے ﴿آمین﴾ |