بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
آج گیارہویں پارے سے بارہویں پارے کے ایک چوتھائی تک کی تلاوت کی جائے گی۔
شروع میں سورہ توبہ کے بقیہ ساڑھے پانچ رکوع پڑھے گئے جن میں جنگ تبوک کے
موقع پر منافقین نے جو طرز عمل اختیار کیا اور بعض ایسے مسلمانوں کا جو تھے
تو مخلص مگر سستی اور کاہلی کی بناء پر جنگ میں شرکت سے پیچھے رہ گئے، ان
سب کا ذکر کیا ہے۔ پہلے یہ بیان کیا گیا کہ جب تم تبوک کے سفر سے واپس لوٹو
گے تو یہ منافقین اپنے رویہ کے بارے میں تمہیں مطمئین کرنے کے لئے گھڑے
ہوئے عذر پیش کریں گے -ان سے صاف کہہ دینا کہ ہم تمہارے یہ من گھڑت بہانے
ماننے والے نہیں -اب اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہارے
عمل کو دیکھیں گے- تم اپنے عمل سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کرو کہ تم واقعی
اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان رکھتے ہو- ابھی تو اسلام
سے انکی بدخواہی کا یہ حال ہے کہ اول تو یہ اس کے راستے میں کچھ خرچ ہی
نہیں کرتے اور اگر حالات سے مجبور ہوکر کچھ کرنا بھی پڑے تو اسے اپنے اوپر
زبردستی کا جرمانہ سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ مسلمانوں پر ایسی کوئی گردش
آجائے کہ جس سے ان کی جان ان سے چھوٹ جائے حالانکہ حقیقت میں گردش خود ان
پر ہے اور گردش بھی بہت بری ( یعنی آخرت میں نجات سے محرومی )
کچھ دوسرے لوگ تھے جنہوں نے اپنے گناہ کا اعتراف کرلیا تھا، فرمایا ان کی
نیکیاں اور برائیاں دونوں طرح کی کمائی ہے امید ہے کہ اللہ اپنی رحمت
فرمائے گا- اے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم! آپ ان سے صدقہ لیکر انہیں پاک
بنا دیجئے اور ان کے لیے دعا کیجئے- آپ کی دعا ان کے لیے تسکین کا سامان
بنے گی- اور ان سے یہ بھی کہہ دیجئے اب اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم اور مومنین تمہارے طرز عمل کو دیکھیں گے اور بہر حال تم عنقریب اللہ
کے حضور پیش کئے جانے والے ہو۔
منافقوں میں وہ بھی ہیں جنہوں نے ایک مسجد بنائی ہے اسلام کو نقصان پہنچانے،
اہل ایمان میں پھوٹ ڈالنے اور ان لوگوں کے لیے ایک خفیہ اڈا فراہم کرنے کے
لیے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پہلے جنگ کرچکے ہیں
آپ اس میں کبھی کھڑے نہ ہوں -آپ ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے کھڑے ہونے
کے لئے وہ مسجد زیادہ حق دار ہے جس کی بنیاد اول دن سے تقویٰ پر رکھی گئی
ہے۔
نفاق پر بنائی ہوئی عمارت کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے سمندر میں نکلی ہوئی
گگر پر عمارت بنائی ہوئی ہو اور وہ کسی بھی وقت اپنے رہنے والوں سمیت دوزخ
میں گر جائے گی۔
بے شک اللہ نے اہل ایمان سے ان کے جان و مال جنت کے بدلے میں خرید لئے ہیں
وہ اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہوئے مارتے بھی ہیں اور مارے بھی جاتے ہیں،
جنت کا وعدہ اللہ کے ذمہ ایک سچا وعدہ ہے توریت میں بھی، انجیل میں بھی اور
اب قرآن میں بھی- اللہ سے جنت کا یہ سودا کرنے والے دراصل ہمیشہ توبہ کرتے
رہنے والے، عبادت گزار، شکر گزار، اپنی اصلاح اور دین کا علم حاصل کرنے کے
لئے گھروں سے نکلنے والے، اللہ کے آگے جھکنے والے، نیکی کا حکم دینے والے
اور برائی سے روکنے والے اور اللہ کی حدود کی حفاظت کرنے والے لوگ ہیں- یہی
سچے مومن ہیں ایسے مومنوں کو خوشخبری سنا دیجئے۔
سورہ ختم کرتے وقت مسلمانوں کو بعض اہم ہدایات دی گئی ہیں پہلی یہ ہدایت
فرمائی کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور اہل ایمان کے لیے جائز نہیں کہ
وہ مشرکین کے لیے اللہ سے مغفرت کی دعا مانگیں۔ چاہے وہ ان کے رشتہ دار ہی
کیوں نہ ہوں- اس ہدایت کا مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو شرک کے ہر شائبہ سے
پاک کر کے صرف اللہ کے لیے جینے اور اللہ کے لیے مرنے کے مقصد پر قائم
کردیا جائے اور حق کے سوا اور کسی طبع کی حمیت کا شائبہ بھی ان میں باقی نہ
رہنے دیا جائے، کیوں کہ صرف رشتہ داری اور تعلق کی بناء پر جو حمایت ہوتی
ہے اسی میں نفاق اور کفر کی راہیں کھلتی ہیں- جن مسلمانوں کا سستی اور
کاہلی کے سبب جو جنگ تبوک میں پیچھے رہ جانے پر بائیکاٹ کیا گیا تھا ان کی
توبہ کی قبولیت کی بشارت سنائی گئی اور اہل مدینہ اور بدوؤں میں سے جو تائب
ہوگئے ان کو نصیحت کی کہ ہمیشہ سچ اور حق کے لیے جینے والوں سے خود کو
وابستہ رکھو تاکہ انکی صحبت میں رہ کر تمہاری کمزوریوں کی اصلاح ہوسکے-
سورہ یونس میں قریش کی اس حالت پر افسوس کا اظہار کیا کہ اللہ نے انہی میں
سے ایک شخص پر یہ کتاب حکمت اتاری، چاہئے تو یہ تھا کہ وہ اس کی قدر کرتے
اور ایمان لاتے، اللہ سرکش لوگوں کو ڈھیل دیتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ
رحمت کرنے میں جلدی کرتا ہے لیکن قہر کرنے میں جلدی نہیں کرتا- وہ ایسے
لوگوں کو موقع دیتا ہے کہ وہ سرکشی میں اچھی طرح بھٹک لیں تاکہ کوئی حسرت
باقی نہ رہ جائے اور اللہ کی حجت تمام ہوجائے ورنہ وہ جب چاہے انکا قصہ پاک
کردے- یہ پچھلی امتوں کےانجام سے سبق کیوں نہیں لیتے؟
قریش کا ایک مطالبہ یہ تھا کہ اس قرآن کے علاوہ کوئی دوسرا قرآن لاؤ جس میں
کچھ ہماری باتیں بھی مانی جائیں یا اب ترمیم کرلو اور کچھ دو اور کچھ لو کے
اصول پر معاملہ کرلو-اس کا جواب دیا گیا کہ “ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
بتا دیجئے کہ مجھے ترمیم یا تبدیلی کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ یہ تو اللہ کے
احکام ہیں جن کی تعمیل کے لیے میں آیا ہوں اگر اللہ کا حکم نہ ہوتا تو میں
ہرگز اسے پیش نہ کرتا۔
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسلی دی کہ جن کے اندر صلاحیت ہے وہ اس
کتاب پر ایمان لارہے ہیں -رہے وہ لوگ جو اندھے اور بہرے بن چکے ہیں تو یہ
خود اپنے اعمال کی بدولت اس حال کو پہنچے ہیں اللہ نے ان کے ساتھ کوئی نا
انصافی نہیں کی- جس عذاب اور آخرت کی ان کو دھمکی دی جارہی ہے اس کے لیے
مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ جلدی کیوں نہیں آجاتی؟ حالانکہ جب وہ آجائے گی تو
محسوس کریں گے کہ ایک گھڑی سے زیادہ ہم نے دنیا میں وقت نہیں گزارا حقیقت
یہ ہے کہ ہر امت کے لیے ایک پیمانہ مقرر ہے، جب وہ پیمانہ بھر جائے گا تو
اس کو ایک منٹ کی بھی مہلت نہیں ملے گی- اگر یہ اتنی جلدی مچائے ہوئے ہیں
تو ان سے پوچھو کہ اللہ کے عذاب کا مقابلہ کرنے کے لیے انہوں نے کیا سامان
تیار کر رکھا ہے، اس وقت تو ان کا ایمان لانا بھی بیکار ہوگا- یہ لوگ آخر
اپنی شامت کیوں بلارہے۔ اللہ کی اس عظیم نعمت اور رحمت کو کیوں نہیں اختیار
کرتے جو قرآن کی شکل میں نازل ہوئی ہے اور جس کے آگے دنیا کے خزانے ہیچ ہیں۔
سورہ ہود کے چار رکوع پڑھے گئے ان میں بطور تمہید قرآن کی یہ خصوصیت بیان
کی گئی کہ لوگوں کو تعلیم و تربیت کے لیے اللہ نے اس کو اس شکل میں اتارا
ہے کہ پہلے صرف اصول اور بنیادی باتیں جچے تلے انداز میں بیان کی گئیں،یعنی
ابتدائی مکمل سورتیں پھر بتدریج تفصیلات بیان ہوئیں
تمہیدی جملوں کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک سےاس
پیغام کی وضاحت کی گئی کہ یہ اللہ واحد کی بندگی اور توبہ استغفار کی دعوت
ہے اور میں اللہ کی طرف سے بشیر و نذیر بنا کر بھیجا گیا ہوں جو لوگ
استغفار کرکے اللہ واحد کی طرف رجوع کرلیں گے اللہ ایک مقررہ مدت تک ان کو
زندگی کی نعمتوں اور اپنے فضل سےمالا مال کرے گا اور جو لوگ اس سے منہ
موڑیں گے ان کے لیے بڑے عذاب کا دن سامنے ہے- دنیا میں بھی اور آخرت میں
بھی ( دنیا میں عذاب سے مراد اسلام کے مقابلے میں شکست کی پیش گوئی ہے )
جزا اور سزا کے منکرین کو اور عذاب کا مزاق اڑانے والوں کو تنبیہہ کی کہ یہ
دنیا بچوں کا کھیل نہیں ہے اللہ نے اسے اس لئے بنایا ہےکہ وہ دیکھے کہ لوگ
کیسا عمل کرتے ہیں -
انسان کا عجیب حال ہے کہ جب اللہ کی پکڑ میں آجاتا ہے کہ تو بالکل مایوس
اور دل شکستہ ہوجاتا ہے لیکن جب اللہ ڈھیل دیتا ہے تو وہ اکڑنے لگتا ہے اور
شیخی بگھارنےلگتا ہے- تھوڑے ہی لوگ ایسے نکلتے ہیں جو مصیبت میں صبر اور
نعمت میں شکر کی روش اختیار کرتے ہیں- ایسے ہی لوگوں کے لئے اللہ کے ہاں
مغفرت اور اجر عظیم ہے۔
بتایا گیا کہ ایمان کی توفیق صرف ان لوگوں کو ملے گی جن کی فطرت مسخ نہیں
ہوئی اور وہ قرآن کو اپنے دل کی آواز سمجھیں گے- رہے وہ لوگ جن کی فطرت کا
نور بجھ گیا ہے تو وہ دوزخ کو دیکھ کر ہی قائل ہونگے- ان دونوں گروہوں کی
مثال ایسی ہے کہ جیسے ایک گروہ اندھوں اور بہروں کا ہو اور دوسرا گروہ
آنکھیں اور کان رکھنے والوں کا، کیا یہ دونوں گروہ برابر ہوسکتے ہیں؟
حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کی سرگزست سنائی جس میں محمد صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کوبتایا گیا کہ نوح علیہ السلام کو بھی ان ہی کی طرح قوم کی
طرف بھیجا گیا تھا اور ان کی قوم نے بھی وہی کیا تھا جو آپ کی قوم آپ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کررہی ہے بالآخر ان پر اللہ کا عذاب آیا اور
وہ سب طوفان میں غرق کردیئے گئے-اگر یہ لوگ باز نہ آئے تو ان کا انجام بھی
انہیں جیسا ہوگا۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نہ گھبرائیں اللہ آپ کو اور آپ
کے ساتھیوں کو سرخرو کرے گا شرط یہی ہے کہ ساری مخالفتوں کا باوجود سیدھے
راستے پر جمے رہیں۔( حضرت نوح علیہ السلام کتنے زمانے یعنی ٩٥٠ برس تک صبر
کرتے رہے۔)
آج کی تراویح کا بیان ختم ہوا۔ اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہمیں قرآن پڑھنے اس
کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین - اللہ اس قرآن کی
برکتوں سے ہمارے ملک اور شہر کے حالات بہتر بنائے آمین
تحریر: مولانا محی الدین ایوبی |