پاکستان کی فتح٬ بغاوت کا مقدمہ واپس

بھارتی ریاست اتر پردیش کے مغربی شہر میرٹھ میں واقع ایک نجی یونیورسٹی کے کشمیری طلبہ پر عائد الزامات میں سے بغاوت کا الزام واپس لے لیا گیا ہے۔

بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ ابتدائی تفتیش میں ایسے کوئی ثبوت نہیں ملے جن پر ان طلبہ کے خلاف بغاوت کے سنگین الزام کے تحت مقدمہ قائم کیا جا سکے۔
 

image


میرٹھ کی سوامی وویک آنند سبھارتي یونیورسٹی کے 60 سے زائد طلبہ کو گذشتہ اتوار کو ایشیا کپ کرکٹ ٹورنامنٹ میں بھارت اور پاکستان کے میچ کے بعد مبینہ طور پر پاکستان کی جیت کا جشن منانے، پاکستان کے حق میں نعرے بازی کرنے، دیگر طلبہ سے بحث کرنے اور ہاسٹل کی املاک کو نقصان پہنچانے پر معطل کر دیا گیا تھا۔

سینیئر پولیس اہلکار اومكار سنگھ کا کہنا تھا کہ سوامی وویک آنند سبھارتي یونیورسٹی کے رجسٹرار پی گرگ کے خط پر بغاوت، مذہب کی بنیاد پر تعصب کو فروغ دینے اور نقب زنی کے الزامات کے تحت نامعلوم طالب علموں پر مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

پولیس سپرنٹینڈنٹ نے یہ بھی کہا تھا کہ حقائق اور ثبوتوں کی بنیاد پر ہی مزید کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ طلبہ کی معطلی میں انتظامیہ اور پولیس کا کوئی کردار نہیں تھا۔

میرٹھ کے ضلعی مجسٹریٹ پنکج یادو کا کہنا ہے کہ پولیس کی تفتیش میں تعزیرات ہند کی دفعہ 124 اے میں طالب علموں کے خلاف کسی طرح کا کوئی ثبوت نہیں پایا گیا اس لیے پولیس مقدمے سے یہ الزام حذف کر دے گی۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ طالب علموں کے خلاف دوسرے معاملات میں مقدمہ جاری رہے گا۔

یونیورسٹی کے وائس چانسلر محفوظ احمد نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’ہم نے اس واقعے کے دن خط لکھ کر اتر پردیش حکومت کے اعلیٰ حکام کو پورے معاملے سمیت طالب علموں کو معطل کرنے کی بھی اطلاع دی تھی اور اسی خط کو بنیاد بنا کر پولیس نے ایف آئی آر درج کی ہے۔‘

اس معاملے پر اظہار خیال کرتے ہوئے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے وزیراعلی عمر عبداللہ نے کہا تھا کہ ’کشمیری طالب علموں کے خلاف غداری کا معاملہ ایک ناقابل قبول اور سخت سزا ہے جو ان کا مستقبل ختم کر دے گی۔‘

ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں انہوں نے کہا کہ ’مجھے یقین ہے کہ صورتحال کو کنٹرول میں کرنے کے لیے یونیورسٹی نے جو ضروری سمجھا، اس نے وہ کیا لیکن یوپی حکومت کی یہ کارروائی ناپسندیدہ ہے اور اسے واپس لیا جانا چاہیے۔‘
 

image

عمر عبد اللہ نے ٹوئٹر پر یہ بھی لکھا تھا کہ انھوں نے اتر پردیش کے وزیراعلی اکھلیش یادو سے بات کر کے غداری کا مقدمہ خارج کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور انھوں نے کہا ہے کہ وہ معاملے کا جائزہ لیں گے۔

خیال رہے کہ یونیورسٹی کے 67 کشمیری طالب علموں کو معطل کیے جانے کے بعد ریاستی حکومت نے بدھ کو پورے معاملے کی عدالتی تفتیش بھی شروع کر دی تھی۔

میرٹھ کے ضلع افسر پنکج یادو کا کہنا تھا کہ معاملے کی تفتیش اضافی سٹی مجسٹریٹ کو سونپی گئی ہے جو 15 دنوں کے اندر اپنی رپورٹ پیش کریں گے۔

کشمیر سے بی بی سی کے نامہ نگار ریاض مسرور نے بتایا کہ بانڈی پورہ کے بلال احمد اس یونیورسٹی میں بی ٹیک کی ڈگری کے لیے گئے تھے۔ ان کا کہنا ہے ’سب لوگ باہر ٹی وی پر میچ دیکھ رہے تھے۔ آخری اووروں کے دوران جب ہوسٹل وارڈن نے ہندو طلبہ کی شرارتوں کا مشاہدہ کیا تو انہوں نے ٹی وی بند کرنا چاہا، لیکن طلبہ نے ٹی وی پر ہی قبضہ جما لیا۔ بعد میں انہوں نے کشمیریوں پر کُرسیاں پھینکی، گالیاں دیں اور ہمیں پاکستانی دہشت گرد کہا۔ لیکن ہمارے سینیئرز ہمیں ضبط سے کام لینے کی تلقین کرتے رہے۔‘

بلال کا کہنا ہے کہ ہندو طلبہ رات بھر ہوسٹل پر پتھراؤ کرتے رہے، اور دوسرے روز حکام نے 60 سے زیادہ کشمیری طلبہ کو تین روز تک یونیورسٹی سے معطل کیے جانے کا نوٹس دے دیا۔

اکثر طلبہ کا کہنا ہے کہ انہیں پولیس کی تحویل میں نئی دلّی کے ریلوے سٹیشن پہنچایا گیا اور سفر کے خرچ کے لیے اصرار کے باوجود کوئی پیسے نہیں دیے گئے۔ دلّی میں مقیم بعض دوستوں کی مدد سے وہ جموں کے لیے ٹرین پکڑ سکے، لیکن وہاں سے انہیں سرینگر پہنچانے کے لیے ایک سیاسی تنظیم کے کارکنوں نے ان کی مدد کی ہے۔

علیحدگی پسند رہنماؤں سید علی اور گیلانی اور میرواعظ عمرفاروق نے اس صورتحال کو جرمنی کے نازی طرز عمل سے تعبیر کیا ہے۔ انہوں نے الگ الگ بیانات میں کہا ہے کہ بھارت کے تعلیمی اداروں میں بھی فرقہ وارانہ سوچ کارفرما ہے۔

قابل ذکر ہے کہ ان طلبہ میں سے بیشتر کو حکومت ہند کے وزیراعظم سکالرشپ پروگرام کے تحت داخلہ ملا ہے۔ یہ پروگرام 2010 میں یہاں چلنے والی احتجاجی تحریک کے بعد کشمیریوں کا دل جیتنے کی کوششوں کے تحت شروع کیا گیا تھا۔
 

image

پاکستان نے اس واقعے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان کے تعلیمی اداروں کے دروازے کشمیری طلبہ پر کھلے ہیں اور جن طلبہ کو بھارتی حکومت نے یونیورسٹی سے نکالا ہے انھیں پاکستان اپنی یونیورسٹیوں میں داخلہ دینے کے لیے تیار ہے۔

پاکستان کی دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے اپنی ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی بھارت کے خلاف فتح پر خوشی منانے کی پاداش میں کشمیری طلبہ کو یونیورسٹی سے نکال دینے کا واقعہ انتہائی افسوس ناک ہے۔

انھوں نے کہا کہ اگر یہ طلبہ پاکستان میں اپنی تعلیم مکمل کرنا چاہیں تو پاکستان کے تعلیمی اداروں کے دروازے ان پر کھلے ہیں۔
 
YOU MAY ALSO LIKE:

The Uttar Pradesh government has decided to withdraw the sedition case against Kashmiri students for allegedly celebrating Pakistan’s victory over India in a cricket match on March 1. Uttar Pradesh government had earlier filed a sedition case against these students from Kashmir under Section 124a, 153a and 427 of the Indian Penal Code.