دنیا کی بڑی بڑی ڈکیتیاں

کیا آپ نے کبھی سوچا ہے کہ کچھ سینہ زور لوگ سب کے سامنے چوری، ڈکیتی اور راہزنی کی وارداتیں کر کے دندناتے ہوئے بھاگ جاتے ہیں۔ ان کی دیدہ دلیری کی کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ وہ اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر بہادری دکھاتے ہوئے واردات کر جاتے ہیں۔ یہ ماسٹر مائنڈ لوگ آخر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ ایک طرف کوئی صبح سے شام تک کولہو کے بیل کی طرح محنت کر کے روپیہ کماتا ہے اور اپنی زندگی کو پرتعیش بنانے اور تسکین پانے کیلئے مختلف اشیاء اور گرانقدر چیزیں خریدتا ہے تو کوئی ان اشیاء کو چرانے اور آپ کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی منصوبہ بندی کرتا ہے۔ متاثرہ لوگوں اور چوروں میں یہ منصوبہ بندی کی جنگ جاری ہے اور رہے گی۔ لوگ اپنی اشیاء کو محفوظ بنانے کے جتن کرتے رہیں گے جبکہ چور اس منصوبہ بندی کا توڑ نکالتے رہیں گے۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ چوروں نے کس طرح سے بڑی بڑی وارداتیں کر ڈالیں، ان میں چند ایک کا ذکر قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔کچھ وارداتیں اس قدر حیران کن ہیں کہ ان کی کامیابی پر حیرت کا گماں ہوتا ہے۔
 

سنٹرل بینک آف عراق 2003
یقین کریں کہ یہ واردات بینک ڈکیتی کی تاریخ کی سب سے بڑی واردات ہے اور اس کا ماسٹر مائنڈ کوئی اور نہیں بلکہ اس وقت کا حاکمِ وقت تھا جس نے نہ صرف اپنے ملک کو جنگ کی آگ میں جھونکا بلکہ پورے ملک کا خانہ خراب کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ یہ مارچ 2003ء کا واقعہ ہے جب سنٹرل بینک آف عراق سے ایک ملین ڈالر چرائے گئے۔ یہ واردات عراق پر اتحادی فوجوں کی گولہ باری سے صرف ایک دن قبل کی گئی۔ صدر نے اپنے بیٹے قصی کو چند افراد کے ہمراہ بینک بھجوایا۔ قصی کے پاس اپنے والد کے ہاتھ کا لکھا ایک نوٹ تھا جس کے مطابق بینک گورنر کو حکم دیا گیا کہ وہ قصی کو 920 ملین ڈالر کی خطیر رقم دے دے۔ لیکن قصی نے جب نوٹوں سے بھرا کمرہ دیکھا تو اس نے اپنی نگرانی میں پانچ گھنٹے کے آپریشن میں سارا کیش ٹرک پر لدوایا اور لے گیا۔ اس منظر کا خاتمہ جلد ہی ہوگیا۔ آمر کا یہ بیٹا اتحادی فوجیوں کی گولی کا نشانہ بنا اور چند دنوں بعد معزول آمر اور صدر ایک زیرزمین خفیہ بنکر سے تلاش کرلیا گیا۔ اس مورچے سے 650 ملین ڈالر کی رقم بھی برآمد ہوئی۔ باقی 350 ملین ڈالر کا کیا ہوا یہ ابھی تک صیغہ راز ہے۔

image


ہیری ونسٹنٹ واردات 2008
یہ حیران کن واردات 2008ء میں کی گئی جس میں 4 چوروں نے حصہ لیا ان میں سے 3 خواتین کے لباس میں ملبوس تھے۔یہ لوگ مارکیٹ کی سب سے بڑی جیولری شاپ میں اس وقت داخل ہوئے جب مارکیٹ کے بند ہونے میں تھوڑا سا وقت باقی تھا۔ چور 108 ملین ڈالر مالیت کے ہیرے لے اڑے اور سکیورٹی نظام کو منہ چڑاتے ہوئے فرار ہو گئے۔ عینی شاہدین کے مطابق یہ لوگ بڑے اطمینان سے شاپ میں داخل ہوئے ۔ عملے اور گاہکوں کو ایک کونے میں لے جا کر پوری تسلی سے اپنے سوٹ کیس ہیروں اور جواہرات سے بھرے اور بغیر کوئی گولی چلائے اتنی بڑی واردات کر کے فرار ہوگئے۔ اس جیولری شاپ کا نام ہیری وکٹسن سٹور ہے جس کی سیل اس واردات کے بعد 9 فیصد خسارے کا شکار ہوئی۔ شواہد کی کمی کی وجہ سے کوئی بھی مجرم گرفتار نہ ہوسکا۔ پولیس نے چوروں کو پنک پینتھر کا نام دیا۔ زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا آج تک یہ چاروں ذہین چور لاپتہ ہیں۔

image


گارڈنر میوزیم میں واردات 1990
18 مارچ 1990 کو ایڈیبل سٹورٹ گارڈنر میوزیم میں دو چور پولیس آفیسر کی وردی میں داخل ہوئے۔ انہوں نے سکیورٹی گارڈز کو جل دیا اور اندر چلے گئے۔ ان کے داخلے کے چند ہی منٹوں بعد سکیورٹی گارڈ کو اندازہ ہوگیا کہ ان سے بھول ہوگئی ہے۔ یہ اصلی پولیس والے نہیں ہیں اس انکشاف پر تہہ خانے والا حصہ لاک کر دیا گیا۔ خطرے کے سائرن بجائے گئے اور تمام سکیورٹی اہلکاروں کو ہائی الرٹ کر دیا گیا۔ اسلحہ بردار محافظوں نے پوزیشن سنبھال لیں لیکن جعلی پولیس افسروں نے اسی اثنا میں دنیا کے 12 نادر آرٹ کے شاہکار اور کچھ تاریخی تصاویر چرالیں۔ ان سب کی کل مالیت 5 سو ملین امریکی ڈالر بنتی ہے۔ ان دونوں چوروں نے سکیورٹی کیمروں کو خراب کر کے سارے وہ مناظر فیڈ کر دیئے جو حقیقت میں تھے ہی نہیں۔ سکیورٹی اہلکاروں جاسوس جانوروں کی طرح سونگھتے رہے ۔ ان کا سارا انحصار کیمروں کی فوٹیج پر تھا لیکن چور ان سے بھی ذہین اور ہوشیار تھے انہوں نے کیمروں میں کوئی اور فلم فیڈ کردی اورموقع واردات سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ واردات آج بھی ایک معمہ ہے۔

image


دی نائٹس برج سکیورٹی ڈیپازٹ واردات 1987ء
یہ واردات نائٹس برج انگلینڈ میں 12 جولائی 1987ء کو ہوئی تھی۔ پولیس کو انتہائی مطلوب بوم ویلیو روویکائی اپنے چند ساتھیوں سمیت اس مالیاتی ادارے میں گیا اور ایک لاکر کے اکائونٹ کھولنے کا کہا۔ اکاؤنٹ کھولنے کے تمام مراحل کے بعد جیسے ہی انہیں لاکر نمبر اور چابی دی گئی تو انہوں نے فوراً بندوقیں نکال لیں اور منیجر اور سکیورٹی گارڈز کو قابو کرلیا۔ اسی اثناء میں بینک کے صدر دروازے پر’’ ناگزیر وجوہ کی بنا کربینک عارضی طور پر بند ہے‘‘ کا ٹیگ لٹکا دیا گیا اور ویکائی نے اپنے دیگر ساتھیوں کو بھی اندر داخل کرلیا۔ ان لوگوں نے 174 ملین ڈالر کا کیش لیا۔ چوروں کے بھاگنے سے قبل ایک سکیورٹی گارڈ ان کے چنگل سے فرار ہونے میں کامیاب ہوا اوراس نے پولیس کو اطلاع دی ۔ بینک کی عمارت کو گھیرے میں لے لیا گیا لیکن یہ لوگ اندھا دھند فائرنگ کرتے ہوئے فرار ہوگئے۔ فنگر پرنٹس کی مدد سے ویکائی مجرم ٹھہرایا گیا لیکن گرفتار نہ ہوسکا۔ بہت عرصہ بعد جب وہ مہنگی گاڑی فراری سپورٹس کار خریدنے آیا تو اسے گرفتار کرلیا گیا اور22 سال کیلئے جیل بھیج دیا گیا۔ -

image


اینٹورپ ڈائمنڈز کی واردات 2003
مارکیٹ میں آنے سے قبل دنیا میں 80 فیصد ہیروں کی کانٹ چھانٹ بلجیم کے شہراینٹورپ میں ہوتی ہے۔ اس شہر میں ہیروں کی چوری کی بہت سی وارداتیں ہوئی ہیں لیکن 15 اور 16 فروری 2003ء کی درمیانی شب کو ہونے والی یہ واردات اپنی نوعیت کی سب سے بڑی واردات تصور ہوتی ہے۔ اسے صدی کی واردات کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ تقریباً 100 ملین ڈالر کے ہیرے جواہرات اور سونا چرایا گیا۔ چوروں نے 160 سٹیل کے لاکرز میں سے تقریباً 123 لاکرز کو توڑا اور کھولا۔ اس کیلئے ماسٹر چابی کا استعمال کیا گیا۔ 30 سالہ لیونارڈ نوٹاربار ٹولو نامی چور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ایک ہیرے کے سوداگر کے روپ میں یہاں آیا اور اس شہر میں تین سال تک ایک دفتر چلایا جہاں ہیرے کی بابت کاروبار کیا جاتا رہا۔ اس نے مارکیٹ میں اپنا اعتماد بنایا اور لین دین میں ایمانداری کی ایک مثال قائم کی۔ واردات سے قبل اس نے ویڈیو کیمرہ میں جعلی فلمیں فیڈ کیں۔ لیونارڈ کی گرفتاری اس کے ایک ساتھی کے پکڑے جانے پر عمل میں لائی گئی۔ بقول چور کے انہوں نے اس مارکیٹ سے تقریباً 20 ملین ڈالر کے ہیرے اور سونا چرایا تھا۔ لیکن چوری تو سو ملین ڈالر کی ہوئی تھی تو کیا چوروں میں سے بھی ایک چور نے اپنے ہی گروہ میں نقب لگائی؟ اس سوال کا جواب ہنوز تشنہ ہے۔

image


گریٹ ٹرین واردات 1963ء
انگلینڈ میں واقع بریگو ریلوے برج پر 8 اگست 1963 کو ریلوے کی تاریخ کی ایک بڑی واردات ہوئی جس میں اس پوسٹ آفس ٹرین سے 2.3 ملین پاؤنڈ چرائے گئے۔ اس واردات کے ماسٹر مائنڈ کا نام بروس رینالڈز ہے۔ چوروں نے ایک جعلی سگنل لائٹ کا استعمال کر کے گاڑی رکوائی اور ایک لوہے کے راڈ سے ٹرین ڈرائیور کو زخمی کر کے بے ہوش کردیا۔واردات میں انہوں نے بندوق کے استعمال سے اجتناب برتا۔ اسی دوران آدھے میل تک گاڑی کو چلاتے رہے اور 120 مہربند بیگوں سے خطیر رقم نکال کر اپنے تھیلوں میں بھرلی گئی۔ اس واردات نے سکیورٹی کی قلعی کھول دی اور برطانیہ میں جیسے بھونچال آ گیا۔ پولیس نے دن رات ایک کر کے فنگر پرنٹس کی مدد سے 13 لوگوں کو گرفتار کیا۔ ان میں سے دو چور رونٹی بگز اور چارلی ولسن جیل توڑ کر فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ بعدازاں بگز میلبورن سے برازیل جاتے ہوئے پولیس مقابلے کی نذر ہوا لیکن ولسن کو چار سال بعد کینیڈا سے گرفتار کرلیا گیا۔

image


بانکو سنٹرلی واردات 2005
دنیا میں بینک ڈکیتی کی سب سے بڑی واردات کے طور پر سنٹرلی واردات کو یاد کیا جاتا ہے۔ یہ ڈکیتی 6 اگست 2005ء کو ہوئی۔ چوروں کے ایک گروہ نے اس کی منصوبہ بندی کی۔ منصوبہ بندی اس کمال کی تھی کہ چوروں کی ذہانت پر عش عش کرنے کو جی چاہے۔ ایسے واقعات صرف فلموں میں فلمائے جاتے ہیں لیکن یہاں تو حقیقت میں ایسا ہوا۔چوروں نے بینک کے قریب ایک گھر کرائے پر لیا اور 250 فٹ سرنگ کھودی جو کہ بینک کے سٹرانگ روم تک جا نکلی۔ اس کرائے کی عمارت کے باہر ایک بورڈ نصب تھا کہ یہ کمپنی پرانے مکانوں کو گرا کر ملبہ ٹھکانے لگانے کا کام سرانجام دیتی ہے۔ یہاں ملبہ اٹھانے کے اوزار اور ٹرک بھی کھڑے ملتے تھے۔ چوروں نے تین ماہ میں یہ سرنگ مکمل کی اور 70 ملین ڈالر کرنسی نوٹ 5 ٹرکوں میں لاد کر فرار ہوگئے۔ واردات سے قبل وہ بینک کے الارمنگ سنگلز اور سکیورٹی نظام کو ناکام کرنے میں کامیاب رہے۔ پولیس نے 28 ستمبر کو پانچ چوروں کو گرفتار کر کے 5.4 ملین ڈالر رقم برآمد کرلی۔ پھر پولیس کو 7 ملین ڈالر رقم اور ریکور کرنے کی کامیابی بھی ملی لیکن 63 ملین ڈالرز کہاں گئے اور کون لے اڑا ابھی تک سوالیہ نشان ہے۔

image


ڈی بی کو پر واردات 1971
امریکی تاریخ کی سب سے بڑی حل طلب واردات 24 نومبر 1971 کو ہوئی جب ایک نامعلوم شخص نے بوئنگ 727 طیارہ اغوا کیا اس نے اپنے نام کا کوڈ ڈی بی کوپر رکھا۔ جہاز سے اس نے بیس ہزار امریکی ڈالر چرائے اور پورٹ لینڈ اور سٹیل کے درمیان پیرا شوٹ کی مدد سے جہاز سے کود گیا۔ ایف بی آئی کو انتھک کوششوں کے بعد بھی یہ انوکھا اور جانباز چور کبھی نہیں ملا اور نہ ہی اس واردات کا سوراغ لگایا جا سکا۔ قیاس کیا جاتا ہے کہ وہ اس فضائی چھلانگ کے بعد جانبر نہ ہوسکا اور موت کا شکار ہوگیا۔ چرائی جانے والی رقم بھی اس کے ساتھ ہی کہیں دفن ہو چکی ہوگی۔

image


کینٹ سیکورٹاس ڈیپازٹ واردات 2006
یہ مجرمانہ ایکشن 22 فروری 2006ء کو انگلینڈ میں لیا گیا۔ اس میں 110 ملین کیش مالیاتی ادارے کینٹ سیکورٹاس ڈیپازٹ سے چرایا گیا۔ یہ ادارہ ٹن برج کینٹ میں واقع ہے۔ اس کے منیجر کولن نکلسن کو 21 فروری 2006ء کی رات کو اغوا کیا گیا۔ اسے اس کے گھر لایا گیا اور بیوی اور بچوں کو بھی یرغمال بنالیا گیا۔ نکلسن نے اپنے محافظوں کو ہتھیار ڈالنے کا حکم دیا ورنہ اسے لگ رہا تھا کہ چور اس کے خاندان کو قتل کرنے سے نہیں گریز کریںگے۔ اگلے دن 22 فروری کو منیجر ان دو چوروں کے ہمراہ اپنے دفتر آیا اور 110ملین کیش ان کے حوالے کردیا گیا۔تھوڑی دیر بعد گھر سے بھی مجرم بیوی بچوں کو رہا کر کے فرار ہوگئے۔ پولیس نے کچھ عرصہ بعد چوروں کو گرفتار کر کے چالیس ملین کیش کی برآمدگی کرلی۔

image

برنکس میٹ ویئر ہاؤس واردات 1983
26 نومبر1983ء کو چھ لٹیرے ہیتھرو ایئرپورٹ میں واقع برنکس مارٹ ویئر ہاؤس میں داخل ہوئے اور 3ملین کیش لوٹ کر فرار ہوئے حالانکہ ان کی منصوبہ بندی کے مطابق انہیں دس ٹن سونا جس کی مالیت 26 بلین ڈالر بنتی ہے چرانا تھی۔ واردات کے بعد پتہ چلا کہ لٹیروں نے اس واردات میں سکیورٹی گارڈ انتھونی بلیک کو اپنے ساتھ ملایا ہوا تھا جس نے انہیں مرکزی کمرے کی چابیاں دیں۔ اس واردات کا ماسٹر مائنڈ برائن رابنسن تھا جسے بعدازاں گرفتار کر کے 25 سال جیل بھجوا دیا گیا۔ بلیک کو بھی 6سال کی قید ہوئی۔

image
YOU MAY ALSO LIKE:

Have you ever thought why do people attempt heists by stealing money, jewelry or any valuables in front of the people itself. There are undoubtedly criminal masterminds behind such heists or robberies and there may be many reasons behind such brave attempts. You earn money and your valuables, and they are somewhere planning to steal them at once.