انوکھے گھر٬ کہیں پہاڑ اپنا تو کہیں ریل اپنی

شوق اور ضرورت سے انسان بڑے بڑے کام کر گزرتا ہے۔ اچھی خوراک اور منفرد لباس کی طرح بعض اہل ذوق کو منفرد عمارتیں بنوانے کا بھی شوق ہوتا ہے اور یہ بھی انسانوں کے قدیم ترین ’’مشاغل‘‘ میں سے ایک ہے۔ دنیا میگزین نے ذوقِ تعمیر کے ایسے ہی چند نمونوں پر مبنی دلچسپ رپورٹ پیش کی جن میں ضرورت، منفرد نظر آنے کے شوق یا دولت و ثروت کے اظہار نے انوکھی عمارتوں کا روپ دھار لیا ہے یہ رپورٹ ہماری ویب کے قارئین کے لیے بھی پیشِ خدمت ہے۔
 

گھر، جس میں ریل چلتی ہے
امریکی ریاست اوریگون کے علاقہ پورٹ لینڈ کو حیرت انگیز رہایشی منصوبوں کا گڑھ قرار دیا جاتا ہے۔ بڑے بڑے محلات نما گھروں کے درمیان اس علاقے میں ایک ایسا ’’مکان‘‘ بھی ہے جس میں ذاتی ریلوے کا نظام ہے۔ پانچ ہزار مربع فیٹ پر پھیلی اس جاگیر میں خوب صورت تعمیرات، باغات، اجناس کا گودام اور ایک دکان بھی ہے۔ لیکن اسٹیم انجن سے چلنے والی ذاتی ریل اس کی منفرد خوبی ہے۔ یہ سب کچھ ٹاڈ ملر نامی شخص کی ملکیت ہے جس نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ بیس ایکڑ پر پھیلی اپنی اراضی میں ریلوے کا نظام بنانے میں صرف کیا۔ 11ہزار فٹ طویل اس ریلوے ٹریک میں 4 سو فٹ کی ایک سرنگ بھی آتی ہے۔ 18055کے نام سے مشہور اس کمپاؤنڈ کی قیمت 35لاکھ امریکی ڈالر ہے۔ ملر بتاتے ہیں کہ انھوں نے اپنے ’’گھر‘‘ میں ریل کا نظام صرف اس لیے بنایا کہ انھیں ملک میں ریل کے آنے بعد ہونے والی تبدیلیوں نے ہمیشہ بہت متاثر کیا اور یہی وجہ ہے کہ وہ اس جاگیر کی صورت میں یہ پورا تصور محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔ تو فرق صرف اتنا ہے کہ ملر نے اپنے گھر میں ریل گاڑی چلائی ہے اور ہم نے جہاں ریل گاڑیاں چلتی تھیں اپنے آنگن کی دیواریں ان پٹریوں تو بڑھا دی ہیں۔ تاریخ دونوں صورتوں میں ’’محفوظ‘‘ ہورہی ہے۔

image


بونا گھر
مہنگائی جہاں عام آدمی کی زندگی دوبھر کردیتی ہے وہیں اس سے مقابلہ کرنے والے افراد نت نئے راستے بھی تلاش کرلیتے ہیں۔ برطانیہ میں ایک ریٹائرڈ آرٹ ٹیچر نے گھروں کی بڑھتی ہوئی قیمت اور رہائش کے مسئلے کا حل ’’ہابٹ ہاؤس‘‘ یعنی ’’بونوں کے گھر‘‘ کی صورت میں نکالا۔ 59 سالہ مائیکل بَک نے صرف ڈیڑھ سو پاؤنڈ کی مالیت سے اپنے گھر کے گارڈن میں ایک ایسا مکان بنایا ہے۔ یہ مکان بنانے کے لیے بَک نے دو سال تک لکڑیاں، بھوسا اور پرانی اشیا جمع کیں اور آٹھ ماہ اسے تعمیر کرنے میں صرف کیے۔ یہ مکان مسٹر بک نے کوئی اوزار استعمال کیے بغیر اپنے ہاتھوں سے بنایا۔ اس مکان کی بنیاد ڈالنے کے لیے انھوں نے قدیم ترین طریقہ آزمایا جس میں مٹی، تنکے اور پانی کا آمیزہ تیار کر کے اسے پتھروں کی بنائی گئی بنیادوں پر پھیلا دیا گیا اور اس کے اوپر ایک خاص بیل پھیلا دی گئی، اس قدیم ترین طریقے کو "Cobing"بھی کہا جاتا ہے۔ تین سو مربع فٹ کے فرش کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال شدہ رسیوں کا استعمال کیا۔ ایک پرانی بس کی ونڈ اسکرین کو کھڑکی بنایا۔ دیواروں کے رنگ و روغن کے لیے چاک اور درختوں سے حاصل ہونے والی گوند سے کام لیا اور اپنے گھر کے آس پاس سے جمع کی گئی لکڑیوں اور جھاڑیوں کی چھت تیار کی۔ اس گھر کو تیار کرتے ہوئے مسٹر ہک نے تھوڑی بہت ہی خریداری کی جس میں کیلیں اور کچھ بھوسے کی خریدار شامل ہے۔ اس گھر میں بجلی، پانی اور گیس کا کوئی کنکشن نہیں، مسٹر ہک کہتے ہیں کہ ان سب کے متبادل دست یاب ہیں۔ ’’پانی قریب کے تالاب سے لاسکتے ہیں، کھانا لکڑیوں پر پک سکتا ہے، اس گھر میں دن کے وقت روشنی دھوپ سے ہوجاتی ہے اور رات کو موم بتیاں جلائی جاسکتی ہیں۔‘‘

image


چین میں یورپ
لیوژانگ یو چین کے ایک نودولتیے ہیں اور کثیر سرمایہ اپنے نرالے شوق کی تسکین کے لیے صرف کررہے ہیں۔ وہ چین کے شہر Chongqing میں یورپی قلعوں کی ’’نقل‘‘ تیار کرنے کے لیے لاکھوں ڈالر خرچ کر رہے ہیں۔ لیو کے پاس یورپ کے قلعوں کی ایک البم ہے جو وہ ہمیشہ اپنے ساتھ رکھتے ہیں اور اس میں شامل تصویروں کے نمونے پر قلعے تیار کرواتے ہیں۔اس سلسلے میں وہ اپنی منفرد تعمیر اور شاہی خاندان کی پسندیدگی کے باعث مشہور، برک شائر برطانیہ کے شاہی قلعے ونڈسور کی نقل تیار کروا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ لیو، ڈزنی موویز کی معروف کارٹون سیریز ’’الہ دین‘‘ میں دکھائے گئے محل کی نقل بھی تعمیر کرنے پر لاکھوں ڈالر صرف کر چکے ہیں۔ لیو کا کہنا ہے ’’میں جب بچپن میں شہزادوں اور ان کے قلعوں اور محلوں کی کہانیاں سنتا تھا ، اس وقت سے یہ میرا خواب تھا کہ میں انھیں حقیقت کا روپ دوں گا۔‘‘ لیو اب تک ایسے چھے قلعے اور محلات تیار کروا چکے ہیں، انھیں مقامی انتظامیہ اور چینی حکومت کی جانب سے مخالفت کا سامنا ہے لیکن وہ اپنے شوق کی تکمیل کے لیے کچھ بھی کرنے کے لیے تیار ہیں، ان کا منصوبہ ہے کہ وہ ایسے سو قلعے تیار کروائیں۔ وہ کہتے ہیں’’میں ایسی عمارتیں بنوانا چاہتا ہوں جو دیکھنے والوں کو حیرت زدہ کردیں، لیکن مجھے مقامی انتظامیہ کی جانب سے دھمکیوں کا بھی سامنا ہے، دیکھیے میں سینچری مکمل کرنے میں کام یاب ہوتا بھی ہوں یا نہیں؟‘‘

image


مکان بنانا بس میں نہیں تو ’’بس‘‘ میں ہی مکان سہی!
اسرائیل ایک قابض ریاست ہے، اس نے فلسطینی سر زمین پر ناجائز قبضہ جما کر پوری ایک ریاست قائم کر رکھی ہے اور اسرائیلی حکومت شاید دنیا کی واحد حکومت ہے کہ زمین پر ناجائز قبضہ جس کی ریاستی پالیسی کا حصہ ہے۔ اس ’’بد معاشی‘‘ کے باوجود اسرائیل میں مکانات کی تعمیر اور اراضی کا حصول ایک مشکل ترین مرحلہ ہے۔ اسرائیل میں بسنے والی دو سہیلیوں نے اس مسئلے کا حل کچھ یوں نکالا کہ ایک پرانی ٹرانسپورٹ بس ہی کو گھر میں تبدیل کر ڈالا۔ تألی سہول پیشے کے اعتبار سے سائیکو تھیراپسٹ ہیں اور ہاگت موایوسکی واٹر ٹریٹمنٹ اسپیشلسٹ، ان دونوں کے بچے ساتھ ساتھ کھیلا کرتے تھے اور یہیں سے ان کی دوستی کا بھی آغاز ہوا۔ یہ دونوں خواتین کسی اچھوتے بزنس آئیڈیا کی تلاش میں تھیں۔ اسی دوران انھوں نے متبادل رہائشی انتظامات کے بارے میں پڑھنا شروع کیا جس میں کنٹینرز اور خیموں کے بارے میں بھی معلومات اکٹھا کیں۔ اس آئیڈیا پر کام کرتے ہوئے ان کے ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ کسی پرانی ٹرانسپورٹ بس کو رہائش گاہ میں تبدیل کردیا جائے؟ سو انھوں نے ایک پرانی بس خریدی اس کی نشستیں نکال باہر کیں اور اسے ایک گھر میں تبدیل کردیا۔ دو میٹر چوڑائی اور 12 فٹ لمبائی کی بس کو رہائش گاہ میں تبدیل کرنا کسی چیلنج سے کم نہ تھا۔ لیکن انھوں نے مسلسل محنت سے یہ کر دکھایا۔ بس کی کھڑکیاں اور دروازے تبدیل نہیں کیے گئے اور اس کی بنیادی ساخت کو قائم رکھتے ہوئے پورا ’’مکان‘‘ ڈیزائن کیا۔ اس ’’بس ہوم‘‘ میں تمام ہی بنیادی سہولتیں دست یاب ہیں، اور اسے دیکھ کر یہ کہاوت ذہن میں آتی ہے’’ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔‘‘

image


26 منزلہ عمارت اور اس کے اوپر پہاڑ
زانگ بیژنگ، جو خود کو پروفیسر زانگ کہلوانا پسند کرتے ہیں، قدیم چینی طرز علاج کے ایک ماہر ہیں۔ لیکن یہ ان کی وجہ شہرت نہیں۔ پوری زندگی قدیم علاج کے طریقوں کو آزمانے والے یہ صاحب جب ایک کام یاب بزنس مین بن گئے تو انھیں بھی اپنے بچپن کا ایک خواب پورا کرنے کا شوق ہوا۔ ان کا خواب تھا کہ قدیم بادشاہوں کی طرح کسی پہاڑ کی چوٹی پر ان کا بھی ایک محل ہو۔ اس خواب کو پورا کرنے کے لیے انھوں نے انوکھا طریقہ اپنایا، دور دراز کسی پہاڑی علاقے میں اپنا محل بنانے کے بہ جائے پروفیسر زانگ نے بیجنگ جیسے بڑے شہر کی ایک چھبیس منزلہ عمارت پر پہلے تو پہاڑ ’’تعمیر‘‘ کروایا او اس پر اپنا محل ۔ عمارت کی چھت پر بنائے گئے اس پہاڑ کو حقیقت سے قریب دکھانے کے لیے اس پر درخت بھی اگائے اور گھاٹیوں میں اترتے راستے بھی بنائے گئے ۔ عمارت کے ’’سر‘‘ پر پہاڑ بننے کے بعد یہ ایک ہیبت ناک منظر پیش کرنے لگا اور آس پڑوس میں رہنے والے اس خوف کا شکار ہوئے کہ کہیں یہ ان کے سروں پر نہ آ گرے۔ اس منصوبے کی تکمیل تک تعمیرات پر کنٹرول کرنے والے ادارے بے خبر رہے، اخبارت میں شائع ہونے والی خبروں اور علاقہ مکینوں کی شکایات کے بعد انتظامیہ حرکت میں آئی لیکن پروفیسر بہت سخت حریف ثابت ہوا۔ زانگ نے اپنے خلاف شکایات کرنے والوں کو زدوکوب کیا اور انتظامیہ سے قانونی جنگ بھی لڑی۔ آخری اطلاعات آنے تک زانگ کو مقامی انتظامیہ کی جانب سے پندرہ دن کے اندر اندر اس پہاڑ کو ختم کرنے کا نوٹس موصول ہو چکا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ اپنے ارادے پر چٹان کے مانند جما پروفیسر زانگ یہ پہاڑ ’’سمیٹتا‘‘ ہے کہ نہیں!

image


’’میرا گھر ہے سب سے الگ!‘‘
سائنس فکشن سیریز اسٹار ٹریک کی شہرت سے کون انکار کرسکتا ہے۔ پوری دنیا میں اس کے بے شمار مداح موجود ہیں، اسٹیو نائٹ ایگل بھی انہی میں سے ایک ہے۔ ساٹھ سالہ نائٹ ایگل دوسروں سے ممتاز نظر آنے کے شوقین ہیں اور وہ چاہتے تھے کہ ان کی رہائش گاہ بھی ’’سب سے الگ اور سب سے جدا‘‘ ہو۔ اس شوق کو پورا کرنے کے لیے نائٹ ایگل نے اپنے پانچ کمروں کے اپارٹمنٹ کو اسٹار ٹریک سیریز کی طرز پر ڈیزائن کیا۔ اس کام میں انھیں چار برس لگے۔ اپنے مکان کے تمام گوشوں کو اسٹار ٹریک کی طرز پر ڈیزائن کرنے کے ساتھ ساتھ نائٹ ایگل نے سیریز میں دکھایا گیا، فیڈریشن روم بھی بنایا ہے جو ان کے خاص استعمال کا کمرہ ہے۔ وہ کہتے ہیں ’’میں اپنے ماضی سے بہت اکتا چکا تھا اور اب میں ایک ایسے گھر میں رہتا ہوں جو 23ویں صدی کا جدید ترین مکان ہے، سو میں بہت خوش ہوں۔‘‘

image
YOU MAY ALSO LIKE:

The design of a home can truly represent the people living in it. Everyone of you has different ideas in your mind that how your home sweet home should look like. Depending on your choice it can be big or small, dark or bright, wild and bizarre, because everyone perceives differently about comfort and functionality of the home. Some people want to give strange and weird look to their homes to stand out from others.