تمام مذاہب کے پیروکاروں سے دنیا بھری پڑی ہے ۔ان میں
ہندو بھی شامل ہیں۔عیسائی بھی بڑی تعداد میں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے
ہوئے آباد ہیں۔پارسی ،بدھ مت ،لادینی بھی کائینات کے رنگوں میں اپنا رنگ
جمائے بیٹھے ہیں۔یہودی بھی موجود ہیں۔ قصہ مختصر ان سب کے علاوہ اور بھی
عقیدوں اور نظریات کے ماننے والے قدرت کے اس نظام ہستی میں دکھائی دیتے ہیں……لیکن
دنیا کے کونے کونے میں اگر کوئی ظلم کا شکار بن رہا ہے یا بنایا جا رہا ہے
۔تووہ صرف مسلمانوں کا خون ہے جو پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔
فلسطین سے افریقہ تک……کشمیر سے یورپ جیسے تہذیب یافتہ خطے تک…… دنیا کے کسی
ایک کونے کی نشاندہی کی جا سکتی کہ جہاں مسلمانوں کے لہو کے ساتھ ․․ہولی․․نہ
کھیلی جا رہی ہو……جہاں مسلمانوں کے لیے عرصہ حیات تنگ نہ کیا جا رہا ہے……
فلسطین پر یہودیوں کا قبضہ سے لیکر آج تک مظلوم فلسطینیوں کو بربریت کا
نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ میانمار میں عرصہ دراز سے مسلمانوں کی نسل کشی کا
سلسلہ اپنے عروج پر ہے۔سرعام مسلمان بچوں کو جانوروں کی طرح ذبح کرکے انکی
گردنیں تن سے جدا کی جارہی ہیں۔میانمار حکومت بھی رونگیا کے مسلمانوں کا
قتل عام روکنے اور انہیں تحفظ فراہم کرنے کی بجائے ان کے خون کے پیاسوں کی
مکمل پشت پناہی کرتی ہے۔آج سے سولہ ماہ قبل اکتوبر کے مہینے میں ’’ آسیان
‘‘ کے سیکرٹری جنرل سوان پتسوان نے میانمار کی حکومت کو تجویز پیش کی تھی
کہ’’ آسیان ‘‘ اقوام متحدہ اور میانمار حکومت کے مابین مذاکرات کیے جائیں
تاکہ رونگیا کے مسلمانوں کی خونریزی کو روکا جا سکے‘‘ تاہم میانمار حکومت
نے آسیان کے سیکرٹری جنرل کی اس تجویز کو مسترد کر دیا تھا۔اور کہا کہ یہ
میانمار کا داخلی معاملہ ہے۔میانمار حکومت کی ہٹ دھرمی پر اس پر واضع کردیا
تھا کہ ’’اگر میانمار حکومت نے محتاط رویہ نہ اختیار کیا تو کل یہ ہمار
مسلہ بن سکتا ہے‘‘
میانمار میں مسلمان پچھلی کئی دہائیوں سے اپنے سیاسی اور جون 2012 میں
میانمار کے وسطی علاقے میں دس مسلمانوں کے سفاکانہ قتل کے خلاف جب مسلمانوں
نے اپنے اکثریتی صوبے میں احتجاج کیا تو میانمار کی پولیس نے مسلمان مظاہری
ن کے براہ راست سروں کے نشانے لیکر اندھا دھند فائرنگ کی جس سے موقع پر ہی
ہزاروں مسلمان شہید ہوگے اور بیشمار زخمی ہوئے۔اس سے بڑھ کر اور کیا ظلم
ہوگا کہ میانمار کے صدر نے تحقیقات کروانے کی بجائے مسلمانوں کے اکثریتی
صوبہ میں ایمر جنسی لگا دی اور فوج کو مسلمانوں کے قتل عام کی کھلی چھٹی
دیدی ۔ستم بالائے ستم یہ کہ ایمرجنسی لگا کرمسلمانوں کے ٹرکوں کے ٹرک بھر
کر نامعلوم مقامات کی جانب لیجائے گے اور انہیں زندہ جلایا گیا۔
کشمیر میں بھارتی فوجی بے گناہ کشمیری مسلمانوں کو اغوا ء کر کے لا جاتے
ہیں ۔پھر انہیں بڑی سفاکی سے قتل کر دیا جاتا ہے۔خواتین کی بے حرمتی جیسے
واقعات بھی عالمی میڈیا میں شائع ہو کر عالمی انسانی ضمیر کو جھنجوڑ تی
رہتے ہیں۔افغانستان ،لبیا ،یمن ہو یا شام ہو ہر طرف مسلمانوں کے گلے کٹتے
دکھائی دیتے ہیں۔حیرانگی ہوتی ہے کہ مسلمانوں کے خون کے پیاسے بدھوں کی
دیدہ دلیری پر کوئی ملک آواز بلند نہیں کرتا۔اور وں سے کیا امیدیں لگائی جا
سکتی ہیں ۔یہاں تو اپنے مسلمان ممالک کی برسر اقتدار حکومتیں بھی اپنے
ہونٹوں پر تالے لگائے اپنی موج مستی میں مست ہیں۔ حتیکہ پاکستان کی نہ تو
سابق حکومت نے کچھ کیا اور نہ ہی موجودہ حکومت کی جانب سے اس طرح مسلمانوں
کی نسل کشی کرنے پر صدائے احتجاج بلند کرنے کی ضرورت محسوس کیا ہے۔
مجھے انسانی حقوق کی علمبردار تنظیموں اور مہذب ہونے کے دعویدار ممالک کی
دوغلی پالیسی پر کہ ان میں سے کسی نے بھی دنیا بھر میں ظلم ،تشدد اور نسلی
کشی کا شکار مسلمانوں کے حق میں آواز اٹھانے میں مجرمانہ خاموشی کا شکار
ہوکر رہ گے ہیں۔یا پھر مصلحت پسندی کے باعث نفرت کی سیاست کے فروغ میں اپنا
اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔میانمار، فلسطین،افریقہ ، کشمیرسمیت دنیا بھر
میں مسلمانوں کے خلاف لگی آگ کو بجھانے کے لیے اقوام متحدہ کا کردار کسی
طور بھی قابل تحسین اور تعصب سے مبرا نہیں ہے۔ اقوام متحدہ کیونکر میانمار
کی فاسشٹ حکومت کے خلاف ’’ پابندیاں ‘‘ لگانے کے لیے آگے بڑھتی؟ کیا
اقتصادی اور معاشی پابندیاں صرف مسلمان ممالک کا مقدر ہیں؟ امریکہ ،یورپ
انسانی حقوق کے چارٹر کی خلاف ورزیوں کا کیونکر نوٹس نہیں لیتے ؟ اور
انسانی حقوق کے چارٹر پر عمل درآمد کرانے کیلیے کیوں حرکت میں نہیں آتے؟اگر
یہی صورت حال برقرار رہتی ہے ۔اور دنیا کے ٹھیکیدار مسلمانوں کی نسلی کشی
پر آنکھیں بند کیے بیٹھے رہے تو دنیا میں دہشت گردی کو ختم نہیں کیا جاسکے
گا۔دہشت گردی میں اضافہ ہی ہوتا جائیگا۔
اقوام متحدہ کے جنرل سکریٹری بان کی مون کو چاہئے کہ وہ دنیا کی واحد سپر
طاقت کی ناراضگی کے خوف سے آزاد ہوکر بنی نوع انسان کے تحفظ کے لیے اپنے
فرائض بلا خوف و خطر انجام دیں……انسانی حقوق کے چیمپین یورپ خصوصا برطانیہ
،اٹلی،جرمنی اور فرانس کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا چاہئے ورنہ امن
عالم خطرات کا شکار ہوجائیگا اس صورت میں ان ممالک کے جو نیک نامی کمائی
ہوئی ہے ۔وہ سب برباد ہو جائیگی ۔ان کی اس خاموشی اور مصلحت پسندی عالمی
امن کو خطرات کے بھنور میں پہنچادے گا
|