فکر و نظریاتی جنگ کی تعریف

میری گذشتہ تحریر ( فکری اور معاشرتی یلغار اور عالم اسلام) میں عاجز نے یہ بتانے کو کوشش کی تھی، جنگ کے دوپہلو ہوتے ہیں، ایک عسکری اور دوسرا نظریاتی یا فکری۔ عسکری جنگ میں افرادی قوت، وسائل، کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے۔ اور شکست کے امکانات بھی ہوتے ہیں۔ جیسا کہ موجودہ افغان اور امریکہ کی جنگ میں نظر آتے ہیں۔ جسمیں لاکھون پاکستانی، افغانی شہری اور فوجی شہید ہوئے ہیں۔ نتیجہ امریکہ کی عسکری شکست کی صورت میں نظر آرہا ہے۔

جبکہ اگر ہم اس جنگ کے فکری اور نظریاتی پہلو کی طرف نظر ڈالیں، تو ہمیں شکست نظر آتی ہے۔ جو اس جنگ کا سب سے خطرناک پہلو ہے۔ اور نقصانات بھی زیادہ ہیں۔ اور جس طرف ہم دیکھنا بھی نہیں چاہتے۔ اور نہ اسے تسلیم کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن آج ہم اسکے چند پہلؤن پر روشنی ڈالیں گے۔ کیونکہ ہمیں یہ تو پتہ چلنا ہی چائیے کہ اس صدی کی دو پڑی سپر ُ پاروز کو ذلت آمیز شکست دینے کے باوجود ہم یہ جنگ کیون ہار رہے ہیں۔

حق و باطل کے درمیان عسکری جنگ کی بہ نسبت نظریاتی جنگ کی تاریخ زیادہ قدیم ہے۔ اسکی ابتداء اسی دن ہوگئی تھی، جس دن حضرت آدم علیہ السلام اور ابلیس کے درمیان دشمنی کی ابتداء ہوئی، ابلیس باطل قوتون کا علمبردار ہے۔ اس نے آدم علیہ السلام کو مغلوب کرنے کے لئے نظریاتی وسائل کا استعمال کیا، اور اپنے آپ کو خیرخواہ کی شکل میں ظاہر کیا۔ اور جھوٹی سچی قسمیں کھا کر انکے دل میں وسوسہ ڈالا اور اللہ پاک کی حکم عدولی پر مجبور کیا اور انہیں اور انکی بیوی کو جنت سے نکلوادیا۔ اللہ پاک نے قرآن پاک مین انکے درمیان نظریاتی جنگ کا تذکرہ سورۃ اعراف کی ان آیات میں کیا۔ (ترجمہ)

" اور ہم نے تمہیں پیدا کیا پھر تمہاری صورت بنائی پھر فرشتون سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو، چنانچہ سب نے سجدہ کیا، سوائے ابلیس کے کہ وہ سجدہ کرنے والون میں شامل نہ ہوا (11) اللہ تعالیٰ نے فرمایا جب میں نے تجھے سجدہ کرنے کا حکم دیا ، تجھے کس چیز نے روکا ؟ تو وہ بولا میں اس سے بہتر ہوں ، تو نے مجھے آگ سے پیدا کیااور اس کو مٹی سے پیدا کیا(12) اللہ تعالیٰ نے فرمایا یہان سے نیچے اتر جاؤ، کیونکہ تجھے یہ حق نہیں پہنچتا کہ یہان تکبر کرے۔ اب نکل جا یقینناُ تو ذلیلون میں سے ہے (13) اس نے کہا مجھے اس دن تک زندہ رہنے دے ۔ کہ جس دن لوگون کو قبر سے زندہ کر کے اُٹھایا جائے گا۔ (14) اللہ پاک نے فرمایا تجھے مہلت دے دی گئی۔ (15) کہنے لگا اب چونکہ تو نے مجھے گمراہ کہا اس لیے میں (بھی) قسم کھاتا ہوں کہ ان (انسانون) کی گھات لگا کر تیرے سیدھے راستےپر بیٹھا رہون گا ۔(16) پھر میں انپر ( چاروں طرف ) سے حملے کرونگا، انکے سامنے سے بھی ، پیچھے سے بھی دائیں اور بائیں سے بھی۔ اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہیں پائے گا۔ (17) اللہ پاک نے فرمایا نکل جا ییہان سے مردور اور ذلیل ہوکر۔ ان میں سے جو تیرے پیچھے چلے گا( وہ تیرا ساتھی ہوگا) اور میں تم سب سے جہنم کو بھردونگا۔ (18) اور ائے آدم' تم اور تمھاری بیوی دونون جنگ میں رہو اور جہان سے جو چیز چاہو کھاؤ ۔ البتہ اس درخت کے قریب مت جانا، ورنہ تم زیادتی کرنے والون میں شامل ہوجاؤ گے۔(19) پھر یہ ہوا کہ شیطان نے ان دونو ں کے دل میں وسوسہ ڈالا، تاکہ ان کی شرم کی جگہیں جو ان سے چھپائی گئی ہیں ، ایک دوسرے کے سامنے کھولدین۔ کہنے لگا کہ تمھاری پروردگار نے تمہیں اس درخت سے کسی اور وجہ سے نہیں بلکہ اس وجہ سے روکا تھا۔ کہ کہین تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تمہیں ہمیشہ کی زندگی نہ حاصل ہوجائے۔ (20) اور ان دونون کے سامنے قسمیں کھا گیا، کہ یقین جانو کہ میں تمہارے خیر خواہون میں سے ہون۔ (21)"

مذکورہ بالا آیات سے ہمیں پتہ چلتا ہے۔ کہ نظریاتی جنگ کا پہلا ہتھیار، نرم گفتارر، دشمن کا اعتماد حاصل کرنا، چاپلوسی، اور ہمدردیان حاصل کرنا ہے۔ کہ اگلا آپ کی ہر بات کو تسلیم کرنے لگے، اور یہی ابلیس نے حضرت آدم کے ساتھ کیا، اور ٹھوکر کھائی، اور جنت سے نکالے گئے۔ اور آج کے ترقی یافتہ دور میں نظریاتی جنگ کے بنیادی وسائل ہیں۔ بالکل اسی طرح تاریخ کے طول عرض میں باطل کے اتحادیون نے ہمیشہ انبیاء کے بارے میں بیہودہ اورلغو الزانات کا چرچا کیا کرتے تھے۔ اور کبھی انہیں پاگل، ناقص العقل ، اور جادوگر کے نام سے پکارتے اور کبھی لوگون کی طرح طرح کی باتین کرکے انبیاء کے خلاق صف آراء کیا کرتے تھے۔

مثلا جب قریش نے دیکھا کہ قرآن لوگون ہر اظر انداز ہورہا ہے اور حق کی دعوت ان کے دل و دماغ میں جا اترتی ہے۔ اور لوگ ایمان کی دعوت قبول کر رہے ہیں ۔ تو انہون نے سوچا کہ اگر اس سلسلہ کو روکا نہ گیا، اور مزاحمت نہ کی گئی تو ایک دن پورا قبیلہ قریش مسلمان ہوجائے گا۔ لہٰذا نہون نے فیصلہ کیا کہ قرآن کے مقابلہ میں لغو باتون اور قصہ کہانیون کی مجلسین کی جائیں، اور قرآن کی تلاوت کی مجالس کے دوران شعر گوئی ، اور قدیم بادشاہون کی من گھڑت داستانون کی مجالس آراستہ کی جائیں۔ اور اس مقصد کو حاصل کرنے کے لئے ، باقاعدہ کعبہ میں اعلانات کئے جاتے تھے۔ ( قریش کے ایک سردار مالک بن نصر کا یہی وطیرہ تھا) اس بارے میں قرآن میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں (ترجمہ)" اور کافر لوگ کہتے ہیں کہ اس قرآن کو نہ سنو(جسے محمدﷺپڑھتے ہیں) اور شور غل مچاؤ، تاکہ دوسرے لوگ اسے نہ سن پائیں۔ "

یہ سب وہ غیر فوجی وسائل اور طریقے تھے، جو قرآنی پیغام کی نشر و اشاعت کی روک تھام کیلئے برؤئے کار لائے گئے۔ آج بھی حق کی دعوت اور آوار کے مقابلے میں باطل کی تبلیغ کرنے والی کربناک آوازین اسی طرح شور مچارہی ہیں ، تاکہ لوگ حق کی آواز نہ سن سکیں۔ بس فرق صرف اتنا ہے۔ آج ذرایع ابلاغ کے تمام جدید ذرایع موجود ہین۔ ، مثلا ریڈیو، ٹیلی ویثرن، سیٹلائیٹ ، انٹرنیٹ، پریس اور کم قیمت میں آسانی سے ملنے والا لڑریچر، یہ سب وہ وسائل ہیں، جو لوگون کو حق کی آواز اور دعوت کو سننے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔

رسول ﷺ کے زمانے میں بھی اہل مدینہ یہودی علماء کو عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے، کیونکہ انکے پاس آسمانی مذہب کا علم تھا ، انکا وحی اور انبیاء سے تعلق تھا، اور وہ گزشتہ پیغمبرون کے علم کے وارث تھے۔ ان یہودی علماء کی کوشش تھی کہ مدینہ کے عربون کے اس اعتقاد اور حس ظن سے فائیدہ اٹھائیں، اور اسلام کے بارے میں شکوک شبہات میں ڈالیں، جس کے لئے وہ مختلف طریقے آزماتے تھے، مثلا ، صبح وہ ایمان لے آتے، اور شام میں دوبارہ یہودیت میں آجائیں۔ تاکہ اہل مدینہ کو گمان ہو ۔ کہ یہود تو آسمانی دین، وحی، نبوت کی پہچان رکھتے ہیں۔ وہ اپنے دین میں واپس آگئےہیں ۔ تو لگتا ہے کہ اسلام وہ حق دین نہیں۔ جو ہم سمجھتے ہیں۔ یہ اسوقت کا طریقہ کار تھا یہودیون کا اسلام کے خلاف ، جو آج بھی اسی زور شور سے جاری ہے۔ فرق صرف یہ ہے، آج اسلام کے خلاف مختلف شکلون میں کام کر رہا ہے، اسلامی دنیا میں دشمن کی ذہنی غلامون کا ایک بڑا لشکر اساتذہ، پروفیسرز، فلاسفہ ، ڈاکٹرز، تجزیہ نگارون، مضمون نگارون، شاعرون ، صنعت کارون، صحافیون کی شکل میں موجود ہے ۔ جو مختلف طریقون ، اور مختلف وسائل کے ذریعہ مسلمانون کو اسلام سے متعلق شکوک و شبہات میں ڈال رہا ہے۔اور لوگون کے سامنے اسلام کا تعارف ، دہشتگردی، ظالم اور رجعت پسند مذہب کے طور پر کروارہا ہے۔ اور انہیں اسلامی عقاید اور احکامات کے بارے میں شکوک و شبہات میں ڈال رہا ہے۔ ۔ یہ لوگ دن کے وقت تو لوگون کے سامنے اپنے آپ کو ( دھوکہ باز یہودیون کی طرح) مسلمان بتاتے ہیں۔ لیکن در پردہ اسلام کے خلاف یہود و نصارا کے فرنٹ لائین الائیز یا ( ہراول دستہ) کا کام کرتے ہیں۔ تاکہ مسلمانون کو عسکری جنگ کی بجائے نظریاتی لڑائی سے مغلوب کیا جائے۔ مختلف زمانوں میں یہ جنگ مختلف جماعتون کی شکل میں مختلف نامون سے جاری رہی۔ کبھی زنادقہ، کبھی روافض ، کی شکل میں ، اور دور حاضر میں مرزائی، قادیانی، کی شکل میں۔ دراصل مسلمانون سے عیسائیون نے مسلسل عسکری جنگون میں شکست کھانے کے بعد مسلمانون کے خلاف نظریاتی جنگ کا منصوبہ فرانس کے بادشاہ "لوئیس" نے تیار کیا۔ یہ شخص 1250 میں مصر ، میں منصورہ ، کی لڑائی میں فرانسیسی لشکر کی تباہی اور شکست کے بعد قید ہوا ، اور بطور فدیہ ایک خطیر رقم ادا کرکے رہا ہوا۔ یہ بادشاہ ایام اسیری میں اس بات پر مسلسل غور کرتا رہا ، کہ مادی، اور عسکری وسائل کی کمی کے باوجود مسلمان اپنے سے طاقت ور دشمن پر غلبہ کیون پا لیتے ہیں۔ مسلسل سوچ بچار کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچا کہ مسلمانون کی قوت کا سرچشمہ مادی وسائل نہیں۔ بلکہ انکا اپنے دین پر پکا ایمان، پختہ عقیدہ، اخلاق، اور وہ معنوی صفات ہیں جو ان کے مذہب نے انہیں عطاء کی ہیں۔ لہٰذا جب تک یہ چیزیں ان میں برقرار رہیں گی اس وقت تک وہ اپنے مد مقابل پر غالب رہیں گے۔
رہائی کے بعد وہ فرانس پہنچا ، اس نے فرانس کے فوجی، سیاسی، مذہبی، اکابرین کو جمع کیا اور اپنی تقریر کے دوران ان سے کہا۔ " اگر تم چاہتے ہو کہ مسلمانون کو شکست دو تو صرف اسلحہ کی جنگ پر اکتفا نہ کرنا ، کیونکہ اس میں ہم نے ہر دفعہ شکست کھائی ہے۔ تمہیں ان کئے عقیدے کے خلاف ، نظریات کے خلاف، لڑنا ہوگا۔ کیونکہ ان کی قوت کا راز ان کے عقیدے میں ہے" اس کے بعد یورپ کی سیاسی، نظریاتی اور فوجی قیادت نے فیصلہ کیا کہ اب آئیندہ کے لئے مسلمانون کے خلاف فوجی جنگ کے ساتھ ساتھ نظریاتی جنگ بھی شروع کر دی جائے۔ اور اس لڑائی کیلئے انہون نے یورپ کے کلیساؤن تعلیمی ، سیاسی، اور سفارتی مراکز میں اسلام ، اسلامی فکر اور اسلامی تمدن سیکھنے اور ان پر تحقیق کرنے کے ادارے کھول دئیے۔ یہ مراکز بعد میں استثراقی علوم اور تبلیغ کی شکل میں منظر عام پر آئے۔ ان مراکز میں منظم طریقے سے اسلامی دنیا کی فکر اور تہذیب کی بناوٹ پر توجہ دی گئی، اور مسلمانون کی نئی نسل میں اپنی فکر کی تاثیر منتقل کرنے کا کام شروع کیا گیا۔ اس نظریاتی انقلاب کو برپا کرنے کے نمایا ن مراکز میں ہمارے سامنے تعلیمی ادارے، مثلا اسکول ، کالجز، مغربی برز کی مسلمان بچون کی تربیت گاہیں۔ میڈیا کا موجودہ سیلاب، یورپ کی سیاسی سرگرمیان، اور سیاسی جماعتیں ہیں۔ ان تمام مراکز اور تعلیمی ادارون کی کوشش کے نتیجے میں ایسی ایک نسل تیار ہوگئی، جن کے نام تو اسلامی ہیں، لیکن ان کی زندگی کے تمام سیاسی، نظریاتی، اخلاقی، معاشرتی، عسکری، اقتصادی، اور ادبی طور طریقے مغربی تصورات اور ترجیحات کی بنیادون پر قائم ہیں۔ اور ان کی ساری توجہ اس پر ہے کہ کسی طریقے سے اسلامی دنیا اور مسلمان امت کو مغربی خواہشات کے مطابق بنایا جائے، اگرچہ اس مقصد کے حاصل ہونے میں لاکھون مسلمانون کا خون بہانے کی ضرورت ہی کیون نہ پیش آجائے۔

نظریاتی جنگ کی تعریف:
نظریاتی جنگ وہ جنگ ہے، جو کفار غیر فوجی وسائل کے ذریعے مسلمانون کو مسخر کرنے اور ان کے عقائد، فکر، رسم و رواج ، اخلاق، اور زندگی گزارنے کے اسلامی ڈھانچے کو یکسر بدلنے کیلئے لڑتے ہیں۔ تاکہ مسلمان اپنے انفرادی تشص سے محروم ہوجائیں، اور انہیں زندگی کے تمام شعبون میں مغرب کی تقلید کرنا پڑے ۔ نیز کفار کے خلاف کسی مسلمان کے ڈہن میں عسکری جنگ کا تصور باقی نہ رہے۔

نظریاتی جنگ میں مسلمانون کے ظاہری وجود کو نشانہ نہین بنایا جاتا، بلکہ ان کے دین، سوچ، فکر، معاشرتی رسم و رواج اور اخلاق کا ہدف بناکر ان پر کاری ضرب لگائی جاتی ہے۔ کیونکہ یہی کلوہ باطنی عوامل ہیں۔ جو کسی قوم کے افراد کو اپنے ظاہری اور معنوی وجود بچانے اور حملہ آوروں کا مقابلہ کرنے کے لئے جنگ کی صف اول میں کھڑا کرتے ہیں۔ چنانچہ جب بھی ان باطنی قوتوں کو اہستہ آہستہ منظم طریقے سے ختم کیا جاتا ہے تو دشمن کے ساتھ ظاہری لڑائی کا تصور خودبخود ختم ہوجاتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں فاتح قوم یعنی دشمن ہر قسم کے مالی اور جانی نقصان سے محفوظ رہتا ہے۔ اور بغیر لڑائی کے اسے اپنا مقصود بھی ہاتھ آجاتا ہے۔

نظریاتی جنگ کے وسائل:
نظریاتی جنگ میں احداف فکری ہوتے ہیں، اور ان میں جو وسائل بروئے کار لائے جاتے ہیں ، وہ بھی نظریاتی اور فکری ہوتے ہیں۔ مثلا، استاد، کتاب، درسگاہ، اسکول، کالج، علمی تحقیقات، کتب خانے، اخبارات، رسائل، جرنلیزم، ادبی لیٹریچر، معاشرتی علوم، علاج معالجہ کے ادارے، شفاخانے، ہسپتال، سیروتفریح کے مقامات، پارک، کلب، نائیٹ کلب، ہوٹلز، ساحل سمندر، میڈیا، ریڈیو ٹیلی ویثرن، سینماگھر، تھیٹر، فلمین بنانے والی کمپنیان، سیاسی شخصیات، سیاسی ھماعتین، جنسی خواہشات کی تکمیل کے مواقعے اور انکی تشہیر، فیشن، اور عریان اشتہارات، اور ہر وہ چیز جس میں عورت کا استعمال ہو ۔ اور اسی قسم کے دیگر ذرائع جن کے پیچھے ماہر اور تربییت یافتہ لوگون کا ایک گروہ ہوتا ہے، جن کا کام ہی، نظریاتی اور فکری احداف کو اپنی مرضی کے مطابق مندرجہ بالا ء ذرائع کے زریعے پھیلا کر عام لوگون کی فکری اور نظریاتی اساس کو تبدیل کرنا ہوتا ہے۔ اسلام اور مسلمان کے خلاف نظریاتی جنگ کا میدان اتنا وسیع ہے کہ انسانی زندگی کے تمام شعبون کا احاطہ کرتی ہے آج اگر ہم اپنے چارون طرف نظر ڈالیں ، تو ہمیں ہر طرف ، ہر شعبہء زندگی میں ایک ہی فکر نظر آتی ہے۔ اور جس کے ہم عادی ہوچکے ہیں۔ جبکہ ہمارا دشمن دن رات صرف ایک ہی جنگ جیتنے میں میں مصروف نظر آتا ہے۔ اسے اب آج کے مسلمان سے کوئی خطرہ نہیں، بلکہ اسکی فکری اساس، اور نظریاتی پہچان یعنی اسلام سے خطرہ ہے۔

ان سب نامساعد حالات کے باوجود، آج بھی اسلام کے شیدائی اور پروانے، ایک بڑی تعداد میں مصروف عمل ہیں۔ اور اللہ پاک کی نصرت اور غیبی مدد انکے ہمرکاب ہے، بے شک محدود پیمانے پر سہی لیکن ہر محاذ پر نعرہء حق بلند کر رہے ہیں۔ اور ہر محاذ پر صیہونی طاقتون کو منہ توڑ جواب دے رہے ہیں۔ یہی تو ہیں ، جو اپنے لہو سے اسلام کی کھیتی کو سیراب کر رہے ہیں۔ اور حق کی اس شمع کی پروانون کی طرح حفاظت کر رہے ہیں۔ ہان ہان یہی وہ پراسرار بندے ہیں ، جنہیں اللہ نے ذوق خدائی بخشاء ہے۔ میں سوچتا ہون۔ کیسے ہیں، اور کیسے ہونگے، یہ اللہ کے سپاہی ۔ نہ مال کی فکر، نہ جان کی پرواہ، نہ شوق جہان داری، نہ سونے کے لئے بستر، نہ آرام کے لئے کشادہ چھت، نہ کھانے کے لئے روٹی، پھر بھی دنیا کے امیر ترین قومیں ان فقیرون سے پریشان ہے۔ اور ایک ہم ہیں، جو اپنی ہستیون کو مٹانے والون کے سامنے ہاتھ باند کر کھڑے ہیں۔ اپنی ضرورتون کے غلام، اپنی خواہشون ، گرم بسترون، ٹی وی پروگرامون ، فلمون، کے غلام ۔۔ اور کہلاتے ہیں مسلمان، اور دم بھرتے ہیں محمد ﷺ کی غلامی کا ، صرف نعتین گانے والے، رنگ برنگی پگٹیان باندھ کر جھنڈے ہاتھ میں پکڑ کر منہ میں پان چبا کر یا رسول اللہ ﷺ کے جلوس نکالنے والے۔
حضرت علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں: ۔
قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس نہیں۔
کچھ بھی پیغامِ محمدﷺ کا تمہیں پاس نہیں۔

فاروق سعید قریشی
About the Author: فاروق سعید قریشی Read More Articles by فاروق سعید قریشی: 20 Articles with 21618 views میں 1951 میں پیدا ہوا، میرے والد ڈاکٹر تھے، 1965 میں میٹرک کیا، اور جنگ کے دوران سول ڈیفنش وارڈن کی ٹریننگ کی، 1970/71 میں سندھ یونیورسٹی سے کامرس می.. View More