جامعہ سرگودھا میں میرے شب و روز

کچھ یادیں کچھ باتیں

زندہ دلوں کا گہوارہ ہے سرگودھا میرا شہر
سب کی آنکھوں کا تارہ ہے سرگودھا میرا شہر
ناصرؔ کاظمی
شاہینوں کے شہر سرگودھا تو رہے تا ابد آباد
تیرے حسین کھیتوں کی ہوا کھینچ لائی مجھے

میں ۲۵مارچ ۲۰۰۹ء کو گورنمنٹ کالج برائے طلباء، ناظم آباد کراچی سے ریٹائر ہوچکا تھا، ڈاکٹر محمد فاضل صاحب جامعہ سرگودھا کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنسز کے چیٔر مین تھے جن سے میرے مراسم کی نوعیت برادرانہ تھی، ان کے توسط سے میراتقرربہ حیثیت ایسو سی ایٹ پروفیسر کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس میں ہو گیا، یہ ڈاکٹر فاضل کی عنا یت اور مجھ سے محبت تھی، میں نے بھی سرگودھا جانے کا فیصلہ کرلیا۔مئی ۲۰۱۰ء کے ابتدائی دنوں میں مجھے سرگودھا یونیورسٹی کی جانب سے تقررنامہ موصول ہوا، اس کے لیے میں پہلے سے تیار تھا چناں چہ میں نے کراچی سے رختِ سفر باندھا، ۱۰ مئی کو شاہین ایر لائن سے لاہور کے لیے سیٹ ریزرو کرالی، یہ ایک بہت بڑا فیصلہ تھا لیکن ایک بڑے مقصد کے لیے کیا گیا تھا۔ کراچی کے تمام معاملات کو تیزی سے سمیٹا، گھروالوں کو اپنے اس فیصلے پر تیار کیا جس کے لیے مجھے کوئی خاص مشکل پیش نہیں آئی البتہ میری شریک سفر شہناز زیادہ فکر مند اور پریشان تھیں، لیکن اس بنا پر کہ مجھے جو یہ اعزاز حاصل ہوا ہے مجھے اس کو لبیک کہنا چاہیے وہ بھی خوشی سے مجھے خدا حافظ کہنے پر تیار ہوگئیں۔ میری بیٹی جو لاہورمیں کئی سالوں سے مقیم ہے اس خبر پر خوش تھی کیونکہ اس فیصلے پر عمل کی صورت میں اس کے والدین مستقبل میں اس کے نزدیک ہو رہے تھے۔پیر ۱۰ مئی نے دستک دی ، تیاری مکمل ہوئی، خوشی خوشی ایر پورٹ پہنچ گیا۔ شہناز، مہوش (میری بڑی بہو)،ڈاکٹر نبیل ،ڈاکٹر ثمرہ (میری چھوٹی بہو) میرا ہر دلعزیز پوتا صائم عدیل مجھے ائر پورٹ پر خدا حافظ کہنے میرے ساتھ تھے۔ بعد ازآں میرا بڑا بیٹا عدیل بھی اپنے آفس سے ایر پورٹ آگیا۔ جیسے جیسے اپنوں سے رخصت ہونے کا وقت قریب آرہا تھا، میں اندر ہی اندر اپنے آپ کو کمزور محسو س کررہا تھا۔جذبات کو قابو رکھنا مشکل ہورہا تھا، میں کسی سے کچھ بھی نہ کہہ سکا، محسو س ہوا جیسے میری آواز بند ہوگئی ہے، کوشش کی کہ کچھ بات کر سکوں مگر الفاظ نہ نکل سکے۔ مشکل سے آنسوؤں کو روک سکا پھر بھی انھوں نے میرا ساتھ نہ دیا ، بند گلے ، بھیگی آنکھوں اور افسردہ چہرے کے ساتھ خاموشی سے اپنوں کو ایک ایک کرکے گلے لگا یا، اپنے پوتے صائم کو ایک سے زیادہ بار پیا ر کیا،دل چاہ رہا تھا کہ اسے اپنے سینے سے جدا نہ کروں، مجھے سب سے زیادہ صائم سے بچھڑ نے کا افسوس تھااور رہے گا۔سامان کی ٹرالی کو دھکا دیتا ہوا، نیچی نگاہ کیے اپنی آئندہ منزل کی جانب چل دیا۔ بورڈنگ کارڈ لے کر لاؤنج کی جانب چلا ، دل بیٹھا جارہا تھا، سر بوجھل تھا، پھر بھی بھاری قدموں سے لاؤنج کی طرف بڑھا ، ایر پورٹ کے مرکزی دروازے کے ساتھ رنگین شیشے کے پیچھے لائن سے میرے جگر گوشے کھڑے مجھے دیکھ رہے تھے، میں نے بھی ان کی جانب دیکھا، لیکن نظر نیچے کرکے ہاتھ ہلا تا رہا ، مجھ میں انہیں دیکھنے کی تاب نہ تھی، میرا پوتا صائم اپنے ننھے ننھے ہاتھوں سے مجھے خدا حا فظ کر رہا تھا۔اس کی اس ادا نے مجھے اندر سے ہلا کر رکھ دیا ، میں نے سوچا کہ کہیں میں نے غلط فیصلہ تو نہیں کیا ، میں نے اپنے دل پر پتھر رکھ کر سب کو غور سے دیکھاایک ایک کرکے سب کو دعا دی، خدا حافظ کہا اور آگے کی جانب بڑھ گیا۔

جنت نگاہ شہر کراچی کہ جہاں میرا سنہرا بچپن گذرا ، رسیلی جوانی کی بہاریں پھلی پھولیں اور بڑھاپے کی دہلیز پر بھی اسی شہر میں قدم رکھا۔ اس کی رونقوں کو ، بہاروں اور محفلوں کو ، دوستوں کو، عزیزوں کو، پیاروں کو الغرض ہر ایک کو چھوڑنے پر آمادہ ہوگیا۔یوں محسوس ہوا کہ شہر سرگودھا میں کچھ خاص کشش تھی جس نے مجھے اتنے بڑے فیصلے پر آمادہ کرلیا ؂
ہے عجب کشش اے سرگودھا تیری شام و سحر میں
کہ میں کراچی کی حسین رنگینیوں کو چھوڑ آیا

جہاز میں اپنی سیٹ پر بیٹھا ، بیلٹ کسی ، موبائل پر ایک بار پھر شہناز کوخدا حافظ کہا، اسی دوران لاہور سے میری بیٹی فاہینہ کا بھی فون آیا اسے بھی اپنے پہنچنے کی اطلا ع دی۔ راستے میں فلائٹ نا ہموار ہوئی اور جہاز ڈولنے لگا، اس کیفیت کو میں نے الگ سے اپنی ایک تحریر’’میَں نے موت کو قریب سے دیکھا‘‘ کے عنوان سے قلم بند کیا ہے ، ہوائی سفر کے دوران میَں اپنے ذہن کو دوسری جانب مائل کرنے کے لیے مضامین کی پروف ریڈنگ میں مصروف ہوگیا، میرے اس عمل نے میرے خیالات کو مختلف سمت منتقل کر دیا، بیش تر وقت مضامین کی پروف ریڈنگ میں گزرگیا۔

ذہن میں بار بار تما م لوگوں کے افسر دہ چہرے آرہے تھے، آنکھوں میں آئے ہوئے آنسوؤں کو خاموشی سے پونچھتا رہا، اپنے آپ کو یہ تسلی دیتا رہا کہ یہ میرا اپنا فیصلہ ہے اور اپنی خوشی سے کیا ہے۔ یہ فیصلہ میں نے ایک عظیم مقصد کے لیے کیا،اس کے لیے میں اپنے بسے بسائے اور ہر طرح کی سہولتوں سے مزین گھر کو خیر باد کہہ رہا ہوں۔میرے پیش نظر ملازمت کا حصول یا اس سے ملنے والی رقم ہر گز ہرگز نہیں تھی۔ میں تمام زندگی قناعت پسند رہا ہوں اور اس اصول پر عمل پیرا بھی کہ انسان کو اتنے ہی پیر پھیلانے چاہیں جتنی بڑی چادر ہو۔ الحمدا ﷲ میری تمام زندگی بہت خوش گوار اورمطمئن رہی ۔ میں تو اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری کی لاج رکھنا چاہتا ہوں جو قدرت نے مجھے انتھک محنت اور کوششوں کے بعد عطا کی ہے۔میرا خیال ہے کہ ابھی مجھ میں اتنی ہمت اور حوصلہ ہے کہ میں اپنے علم سے دوسروں کو فیض یاب کرسکوں۔ جامعہ سر گودھا میں میرا بحیثیت ایسو سی ایٹ پروفیسر تقرر میرے لیے ایک اعزاز تھا، میں اس اعزاز کی ہر صورت میں تکریم چاہتا تھا۔باوجود اس کے کہ سرگودھا جو شاہینوں کا شہر کہلاتا ہے، عوام الناس کے لیے ایر پورٹ کی سہولت سے بھی محروم ہے۔جب کہ میں اپنی کمر کی تکلیف کے پیش نظر ریل یا بس کے ذریعے طویل سفر نہیں کرسکتا، یہ بات بھی میرے علم میں تھی کہ مجھے لاہور یا فیصل آباد تک ہوائی سفر، اس کے بعد بذریعہ بس (ڈیووDaewo ) تقریباً ڈھائی گھنٹے کا سفر اور بھی کرنا ہوگا۔ ان سب قباحتوں کے باوجود میں نے اس اعزاز کے حصول کو اپنا مقصد بنایا۔میں اپنی سیٹ پر بیٹھا کبھی افسر دہ ہوجاتا اور کبھی اپنے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرتا ۔میری آنکھیں بار بار آنسوؤں سے بھر جاتیں اور
میں رازداری سے انہیں پونچھ لیتا، بار بار آنسوؤں کو سمجھاتا رہا لیکن انھوں نے میری ایک نہ سنی۔بقول میر دردؔ ؂
کرتا رہا میں دیدہ ٔ گریہ کی احتیاط
پر ہوسکی نہ اشک کے طوفان کی احتیاط

۱۲ مئی کی خوش گوار صبح سر گودھا میں ہوئی۔ ڈیوو بس اسٹاپ پر سرگودہا یونیورسٹی کے شعبہ لائبریری و انفامیشن سائنسزکے چیر مین پروفیسر ڈاکٹر محمد فاضل اور شعبے کے ایک سینئر استاد میاں محمد اسلم بھٹی جو میرے ایم اے کے کلاس فیلو بھی تھے مجھے لینے آئے ہوئے تھے۔بس اسٹاپ سے جامعہ مشکل سے دس منٹ کے فاصلے پر ہے۔، فیصلہ ہوا کہ پہلے شیخ الجامعہ سے ملاقات کی جائے، چنانچہ ہم تینوں شیخ الجامعہ کے دفتر پہنچے، شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹرچودھری محمد اکرم سے ملاقات ہوئی،خوش ہوئے اور خوش اخلاقی سے ملے۔ فاضل صاحب کو میرے قیام کے بارے میں کچھ ہدایات دیں، پھرہم نے ایڈیشنل رجسٹرار چودھری اظہارالحق صاحب سے ملاقات کی ، انھیں جب یہ معلوم ہوا کہ میرا تعلق
پنجاب کے شہر میلسی سے ہے تو انہوں نے خوشی کا اظہار کیا، اس ملا قات کے بعد ہم اپنے شعبے میں آگئے اور دیگر ساتھیوں سے ملاقات ہوئی۔

۲۰۰۲ء میں سر گودھا گورنمنٹ کالج نے جامعہ سرگودھا کا روپ اختیار کیا،ایک سو ایکڑ سے زیادہ پر مشتمل ہے اس کا وسیع و عریض سر سبز و شاداب رقبہ جامعہ کے حسن کو دوبالا کرتا ہے۔گورنمنٹ کالج سرگودھا ایک قدیم تاریخی درس گاہ ہے۔ یہ پاکستان کے قیام سے قبل عمل میں آیا تھا۔سر گودھا شہر کی اہمیت اور وسعت کے پیش نظرحکومت نے اسے جامعہ کا درجہ دیا۔ اس کے اولین وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر ریاض الحق طارق تھے، ان کے بعد پروفیسر ڈاکٹرچودھری محمد اکرم شیخ الجامعہ کے منصب پر فائز ہوئے۔ جامعہ سرگودھا کی خوش قسمتی تھی کہ اُسے ڈاکٹر اکرم چودھری جیسا علم پرور، ادیب و محقق اور عربی زبان کے عالم کی سربراہی نصیب ہوئی ۔ آپ نے جامعہ سرگودھا کوبہت جلد پاکستان کی دیگر نامور جامعات کی صف میں لا کھڑا کیا۔ ایچ ای سی کی رپورٹ برائے سال ۲۰۱۰ء کے مطابق علم و تحقیق میں جامعہ سرگودھا پاکستان بھر کی تمام جامعات میں آٹھویں نمبر پر تھی۔ڈاکٹر چودھری محمد اکرم وہ ایک نفیس اور محنت پر یقین رکھنے والے انسان ہیں۔ بقول عطاء الحق قاسمی ’وہ صرف اسکالر ہی نہیں بلکہ نہایت خلیق اور منکسر المزاج انسان بھی ہیں۔

شعبہ لائبریری وانفارمیشن سائنسز کا قیام ۲۰۰۸ء میں عمل میں آیا۔پروفیسر ڈاکٹر محمد فاضل خان شعبہ کے اولین سربراہ تھے ، شعبہ جامعہ کی مرکزی لائبریری کی عمارت میں قائم ہوا ، چیَر مین کا آفس پہلی منزل پر ہے، اُس وقت کلاس تیسری منزل پر ہوا کرتی تھی، میری واپسی سے چار ماہ قبل میڈیکل کالج کے لائبریری بلڈنگ سے منتقل ہوجانے کے نتیجے میں شعبہ کُلی طور پر لائبریری کی زمینی منزل پر منتقل ہوگیا ، اساتذہ کے لیے علیحدہ کمرے، کشادہ کلاس روم، درجہ بندی و کیٹلاگ سازی کی لیب اور آفس پر مشتمل شعبہ ہر اعتبار سے کشادہ ، روشن اور دیدہ زیب ہوگیا۔اس وقت شعبہ میں صرف چار لوگ تھے، فاضل صاحب پروفیسر اور صدر شعبہ بھی تھے، میاں محمد اسلم بھٹی، ڈپٹی لائبریرین اور شعبے میں جزوقتی استاد تھے ، نور مصفطیٰ خان اور صفیہ کوکب لیکچرر تھی، میرا تقرر ایسو سی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے ہوا تھا۔مستقبل قریب میں ایم فل بھی شروع کرنے کا منصوبہ تھا ، میرے تقرر کی ایک وجہ بھی یہی تھی۔بد قسمتی سے میری موجود گی میں اس منصوبے پر عمل در آمد شروع نہ ہوسکا۔

پروفیسر ڈاکٹر محمد فاضل خان صاحب کی شخصیت تعارف کی محتاج نہیں، یہ دوستوں کے دوست ، یاروں کے یار ہیں۔لائبریرین شپ کے پیشے میں انھیں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتاہے۔ مجلسی آدمی ہیں، ان کی موجودگی میں کوئی دوسرا بول ہی نہیں سکتا، بات سے بات ، قصے سے قصہ، کہانی سے کہانی نکالنے کا فن انہیں خوب آتا ہے اورخوبصورت انداز سے سنانے کا ملکہ بھی حاصل ہے۔کھانے کے بہت شوقین ہیں، کھانا دل سے کھاتے ہیں،شروع شروع میں مجھے اکثر کھانے پر بلا لیا کرتے تھے ،دل کے مریض بھی ہیں،ان کے دل کی ایک شریان میں بھی ا سٹینٹ ڈلاہوا ہے۔کم لوگوں کے علم میں یہ بات ہوگی کہ یہ مرض انہیں کراچی میں اس وقت لگا تھاجب یہ جامعہ کراچی کے شعبہ لائبریری سائنس میں ایم اے کرنے گئے تھے، اس راز سے انہوں نے اس وقت پردہ اٹھا یا جب میں سرگودھا سے واپس کراچی چلا گیا اور دل کی تکلیف میں مبتلا ہوا ۔میرے دل کی تکلیف میں گرفتار ہونے کا قصہ کچھ اس طرح ہے کہ میَں یکم مارچ ۲۰۱۰ء کو جامعہ سرگودھا سے رخصت ہوکر واپس اپنے گھر کراچی چلا گیا، پروگرام کے مطا بق مجھے اپنے بیٹوں کے پاس سعودی عرب جانا تھا، میرا ویزا آچکا تھا۔ اپریل ۲۰۱۰ء کے پہلے ہفتے میں اچانک میرے الٹے ہاتھ میں درد ہوا، جس نے شدت اختیار کرلی، نوبت عام ڈاکٹر سے کارڈک سینٹر تک پہنچ گئی۔ ۱۲ اپریل کوانجو گرافی(Angiography) اور فوری طور پر انجو پلاسٹی (Angioplasty)بھی ہوئی اوردل کی ایک شریان Arteryمیں ا سٹینٹ(stent)ڈالا گیا، اس طرح آناً فاناً میں میَں عام انسان سے کارڈک پیشنٹ بن گیا۔اس بات کی اطلاع جب فاضل صاحب کو ہوئی تو انہوں نے میری مزاج پرسی کے لیے کراچی فون کیا اور تفصیل معلوم کی، اس وقت انھوں نے بتا یا کہ وہ بھی اس صورت حال سے دو چار ہوچکے ہیں ۔اب میں بہت اچھی طرح محسوس کرسکتا ہوں کہ وہ کس قدر حوصلہ مند اور زندہ دل انسان ہیں۔ ان کی قربت میں مجھے ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملاہے۔ اﷲ تعالیٰ ہمیں دنیاوی بیماریوں سے تو محفوظ ہی رکھے لیکن دل کی اِن تین بیماریوں سے ہمیشہ محفوظ رکھے جن کے بارے میں نبی آخری الزماں حضرت محمد صلی اﷲعلیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ ’’ اِن تین چیزوں سے بچو پہلی ایک دوسرے سے حسد نہ کرو ، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو اور ایک دوسرے سے پیٹھ نہ کرو یعنی ایک دوسرے سے منہ موڑ کر اِدھر ُادھر نہ ہوجاؤ۔

یہ راز مجھ پر سرگودھا آکر اَفشا ہوا کہ فاضل صاحب کے اندر ایک شاعربھی موجود ہے، جو اب تک دبکا بیٹھا تھا ،جب سے وہ سرگودھا آئے ہیں اس نے اٹھکھیلیاں شروع کردی ہیں، میَں جوں ہی کلاس لے کر انھیں سلام کرنے حاضر ہوتا ، یہ کھٹ سے اپنا تازہ کلام سنانے کی فرما ئش کیا کرتے ،مجھ سے پہلے یہ اپنے تازہ کلام پر میاں صاحب سے خوب خوب داد وصول کرچکے ہوتے تھے۔میَں بھی انہیں لمبی لمبی داد دیا کرتا تھا، ساتھ ہی یہ بھی کہا کرتا تھا کہ فاضل صاحب کسی استاد شاعر کو اپنا کلام دکھائیے، ہوسکے تو مشکل الفاظ کی جگہ سہل اور عام فہم الفاظ استعمال کیجیے۔انھوں نے پہلے پہل عشقیہ شاعری کی، ایک دو غزلیں بھی مجھے سنائیں،لیکن جلد تائب ہوگئے اور حمد، نعت اور مناجات کی جانب مائل ہوئے۔ میَں نے اپنے دوست پروفیسرڈاکٹر طاہر تونسوی صاحب جو میرے ہاسٹل کے ساتھی بھی تھے اور شعبہ اردو کے چیرٔ مین بھی ‘سے سفارش بھی کی کہ وہ فاضل صاحب کے کلام کو دیکھ لیں، فاضل صاحب نے از خود بھی تونسوی صاحب سے درخواست کی تھی لیکن وہ جامعہ سرگودھا سے جی سی یونیورسٹی فیصل آباد چلے گئے۔فاضل صاحب نے جب سے ہوش سنبھا لا پہلے توتعلیم پھر کسب معاش کے لیے گھر سے دور ضرور رہے لیکن غافل نہیں۔ماشاء اﷲ سات بیٹے اور ایک بیٹی ان کی زندگی کا اثاثہ ہیں، کرکٹ کی ٹیم کی خواہش تھی جو پوری نہ ہوسکی، ان کامستقل ٹھکانہ رحیم یار خان ہے لیکن یہ کراچی، بہاولپور، ملتان، اسلام آباد ہوتے ہوئے دو دریاؤں کے بیچ واقع سرگودھا پہنچ چکے ہیں، یہاں بھی انھیں قرار نہیں،اضطرابی کیفیت طاری ہے۔بس بلاوے کے منتظر ہیں، جامعات میں لائبریری و انفارمیشن سائنس شعبے کے قیام کی ہیٹرک کرچکے ہیں،انھیں ماہر’قیامِ شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس‘ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ میَں فاضل صاحب سے ایک عرصے سے واقف ہوں اور بغیر تکلف کے کھلے دل سے یہ کہہ سکتا ہوں کہ ان کی علمی گفتگو، ذوق سلیم،غیر معمولی حافظہ، تاریخی شعور قابل تعریف ہے۔ ان کی باغ و بہار شخصیت بے شمار خوبیوں سے مزین ہے۔ان کی زندگی لگے بندھے انداز سے نہیں گزری، نہ ہی یہ اکہرے اور سپاٹ لوگوں میں سے ہیں، ان کی زندگی کے بے شمار پہلو ہیں،کچھ حسین خواب پورے ہوچکے ،کچھ کے لیے امید سے ہیں،ان کی ہشت پہلو زندگی کسی بھی خاکہ نگارکا موضوع بن سکتی ہے، زندگی نے وفا کی تو انشاء اﷲ فاضل صاحب کا خاکہ قلم بند کروں گا۔ احمدفرازؔ کا خوبصورت شعر ؂
ہوا ہے تجھ سے بچھڑ نے کے بعد اب معلوم
کہ تو نہیں تھا ترے ساتھ ایک دنیا تھی

فاضل صاحب کویہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ جب سے اسلامیہ یونیورسٹی بہاوپور، شعبہ لائبریری وانفارمیشن سائنس کے سربراہ بنے اس وقت سے آج تک وہ مختلف جامعات میں بیک وقت صدر شعبہ اور یونیورسٹی لائبریری کے سربراہ بھی رہے، اسلامیہ یونیورسٹی، بہاولپور، بہاء الدین زکریا یو نیورسٹی ، ملتان اور جامعہ سرگودھا میں لائبریری و انفارمیشن سائنس کے شعبہ جات کھولنے کا اعزاز بھی انہیں حاصل ہے، بعض وجوہات کے باعث ملتان میں شعبہ بند ہوچکا ہے۔ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس اور مرکزی لائبریری کی سربراہی کا اعزاز بھی انھیں حاصل ہوچکا ہے۔سادگی ان کا شعار ہے،عاجزی وانکساری ان پر ختم ہے،ان کا ایک وصف جو میَں نے محسوس کیاکہ یہ بڑوں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ اپنوں سے چھوٹوں کے ساتھ بھی انکساری، عاجزی، عزت اور محبت سے ملا کر تے ہیں ایسا محسوسٖ ہوتا ہے کہ جیسے یہ زندہ ہی ان کے لیے ہوں، گھمبیر سے گھمبیر اور پیچیدہ سے بپیچیدہ مسائل کو خوبصورتی سے نمٹانا انہیں خوب آتا ہے ۔بشری کمزوریاں اور خامیاں کس انسان میں نہیں ۔ بہ قول الطاف حسین حالیؔ ؂
ہم نے ہر ادنیٰ کو اعلیٰ کردیا
خاک ساری اپنی کام آئی بہت

میاں محمد اسلم بھٹی نام ہے ایک باغ و بہار شخصیت کا، انہوں نے جامعہ کراچی سے ۱۹۷۱ء میں لائبریری سائنس میں ایم اے کیا تھا، امریکہ سے بھی ایک ایم اے کی سند حاصل کرچکے ہیں، ان کی زیادہ ملازمت پاکستان سے باہر کی ہے، یہ لائبریری میں اور شعبہ میں فاضل صاحب کے قریبی معاون ہیں، میاں صاحب کا تعلق سرگودھا سے ہے، یہ یہاں کے مقامی رہائشی ہیں، میاں صاحب کی پہلی شریک حیات انتقال کرگئی تھیں، آپ نے پشاور سے تعلق رکھنے والے ایک سینئر لائبریرین سر ور خان صاحب کی بیٹی سے عقد ثانی کیا، لگتا ہے سر ور خان صاحب کوان کے سفید بالوں پر ترس آگیاتھا۔زندہ دل، نیک، سادہ طبیعت، ہمدرد اور اخلاص کا مجموعہ، مناسب قد، بھاری جسم ، پُرو جا ہت ،کتا بی چہرہ ، کشادہ پیشانی، آنکھو ں میں چمک،لہجے میں معصو میت ، گورا رنگ ، سر پر بچے کچے بالوں میں سفیدی ، داڑھی مونچھوں میں چاندی، گھنی بھنویں،ستواں ناک، آنکھیں چھو ٹی، مضبوط ہاتھ پیر،گھر سے باہر شلوار قمیض ، گھر میں دھوتی اور کرتا ، سر پر ٹوپی،ان کی شخصیت شہر اور دیہات کی ملی جلی فضا لیے ہوئے ہے۔ دوسروں کی مدد کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں۔مجھ پر ان کی خصوصی عنایت تھی ، ان کے دیئے ہوئے بعض مفید مشورے میرے بہت کام آئے۔ان کی گفتگو میں مزا اوررچاؤ اس قدر رچا بسا ہوا ہے کہ یہ ہر بات کے جواب میں لطف کی آمیزش کرلیتے ہیں، ان کے شاگرد وں کا بھی یہی کہنا ہے کہ میاں صاحب لیکچر کے دوران بھی مزا سے بہت کام لیتے ہیں۔ فاضل صاحب انھیں ہر وقت اپنے ساتھ رکھا کرتے تھے، میاں صاحب انگریزی اچھی لکھتے ہیں۔ فاضل صاحب اس سے خوب خوب استفادہ کیا کرتے ہیں۔انگریزی فاضل صاحب کی بھی برُی نہیں، میاں صاحب فاضل صاحب کے ساتھ اور فاضل صاحب میاں صاحب کے ساتھ اس قدر رہا کرتے تھے کہ کچھ کچھ یاجوج و ماجوج والی کیفیت تھی ،ایک دن جب کہ وہ تنہا تھے کسی نے فاضل صاحب سے پوچھ ہی لیاکہ’ کیا یونیورسٹی نے آپ کو گاڑی اور ڈارئیور بھی دیا ہوا ہے؟ یہ بات فاضل صاحب نے ہی بتائی تھی۔ میاں صاحب اچھے اور نیک آدمی ہیں۔میرے سرگودھا پہنچنے کے بعد میری پہلی دعوت انھوں نے ہی اپنے گھر پر کی تھی اور میری واپسی پر بھی کھانے کا اہتمام کیا ۔ان کی بیگم بہت اچھے کھانے پکاتی ہیں، ہاتھ میں ذائقہ بھی ہے، مجھے تو حیرت ہوئی کہ پختون خواہ سے تعلق رکھنے والی خاتون دہلی اور یوپی والوں کے ذائقے دار کھانے پکا لیتی ہیں۔ میاں صاحب خوش نصیب ہیں کہ انہیں دوسری باربھی ایک سگھڑ اور سلیقہ مند خاتون ملیں۔ میاں صاحب کا گاؤں’’جھاوریاں‘‘ سر گودھا میں ’ رانجھے‘ کے گاؤں کے آس پاس ہی ہے، جی ہاں ہیر ‘والا رانجھا،میَں نے میاں صاحب سے کئی بار کہا کہ آپ تو رانجھے کے گاؤں’’تخت ہزارہ‘‘ سے اچھی طرح واقف ہیں، اس کے کچھ کچھ اثرات بھی آپ پرنظر آتے ہیں، مجھے بھی اس گاؤں کی زیارت کرادیں تاکہ میَں کراچی جاکر یہ کہہ سکوں کہ میَں نے ہیر والے رانجھے کا گاؤں تخت ہزارہ دیکھا ہے ، کہتے ہیں ہیر اور رانجھا جھنگ جاتے ہوئے لبِ سڑک ابدی نیند سو رہے ہیں۔ہیر جھنگ کے کسی گاؤں سے تعلق رکھتی تھی ، میاں صاحب اپنی صحت اور مصروفیات کے باعث اس پروگرام پر عمل نہ کرسکے اور میَں رانجھے کا گاؤں’تخت ہزارہ نہ دیکھ سکا۔

شعبہ میں نور مصطفی خان ایک کہنا مشق استاد تھے، اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور سے ایم کیا ، سندھ یونیورسٹی کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس سے ایم فل کررہے ہیں۔ نوجوان ہیں، فاضل صاحب کے ساتھ ہی شعبے سے منسلک ہوگئے تھے، میں نے محسوس کیا کہ شعبے کے زیادہ تر کام نور مصطفی ہی انجام دیتے ہیں، یہ فاضل صاحب کے داماد بھی ہیں ،یہ انفرادیت انھیں ممتاز کرتی ہے۔میَں تو کہا کرتا تھا کہ شعبے کو نور مصطفی نے اپنے کاندھوں پر اٹھا یا ہوا ہے۔،پڑھانے کے علاوہ یہ طلباء کی ہم نصابی سرگرمیوں کے انچارج بھی ہیں، داخلے کے مراحل کی نگرانی، امتحانات لینا، رزلٹ تر تیب دینا ، ٹائم ٹیبل بنا نا،میٹنگ کی روداد قلم بند کرنا، طلباء کے اسٹڈی ٹور ترتیب دینا، کھیلوں کے مقابلوں میں طلباء و طالبات کی شرکت کو یقینی بنا ناالغرض شعبے کا ہر کام نور مصطفی ہی کو کرنا ہوتا ہے۔ اس قدر کام کرنے والا ہر ایک کو خوش نہیں رکھ سکتا، یہی حال ان کا بھی ہے، کام بھی کرتے ہیں اور تنقید کا نشانہ بھی بنا یا جاتا ہے، فاضل صاحب سے رشتہ داری کا طعنہ بھی انہیں سننے کو ملا کرتا ہے۔

میَں شعبے سے منسلک ہوا تو صفیہ کوکب جزوقتی لیکچرر تھی، صفیہ نے ایک سال قبل ہی پنجاب یونیورسٹی سے لائبریری و انفارمیشن سائنس میں ایم اے کیا تھا۔ میَں نے ایک تقدس و پاکیزگی کا ہالہ اس کے گرد محسوس کیا، نقاب کیا کرتی تھی، اس کی بڑی بڑی روشن آنکھیں خوش بختی اور زندگی کا پتا دیتی تھیں۔صورت میں سیرت کا عکس نمایاں تھا،دیہات کی فضاء میں پروان چڑھی لیکن خود اعتمادی، مضبوط اعصاب اور مضبوط کردارنمایاں تھا، خوش مزاج، خوش گفتار،پر خلوص ، ملنسار، شائستہ اور مہذب تھی۔ اس کا رنگ روپ بتاتا تھا کہ یہ افسانے آسانی سے گھڑ سکتی ہے اور اچھی شاعرہ بھی ہوسکتی ہے۔شعبے میں اس کے لیے کمرہ تو کجا بیٹھنے کو میز کرسی بھی نہیں تھی، میاں صاحب اور نور مصطفی کے کمرے میں مہمانوں والی کرسیوں پر ہی بیٹھی رہا کرتی تھی۔اُس وقت میری کیفیت بھی کچھ ایسی ہی تھی، میَں نے لائبریری کے عملے کے ذریعے اسی کمرے میں اس کے لیے ایک چھوٹی سی میز اور کرسی کا بندو بست کرادیا، بعد میں میاں صاحب الگ کمرے میں چلے گئے اور مجھے میاں صاحب کی میز کرسی مل گئی۔ صفیہ کوکب اچھا پڑھاتی تھی ، طلباء بھی اس سے خوش تھے، اگر وہ شعبے میں اپنی ذمے داریاں جاری رکھتی تو اچھا تھا۔اس کے چلے جانے سے شعبہ ایک اچھی استاد سے محروم ہوگیا۔در اصل اس کی شادی ایک سال قبل ہی ہوئی تھی، شوہر‘ حیدر قائد اعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے منسلک تھے،اس طرح اس کا میکہ(والدین کا گھر) سرگودھا کی نواحی بستی ’سلاں والی‘ میں،شوہر اسلام آباد میں اور یہ خود جامعہ سرگودھا کے ہاسٹل میں اور شادی کو صرف ایک سال ہوا تھا، یقینا یہ ایک مشکل وقت تھا۔دونوں میاں بیوی نے مل کر اس مشکل کو آسان بنا دیا اور اس نے شعبہ کو خدا حافظ کہااور اسلام آباد کو مستقل آباد کرلیا جہاں اس کا شوہر حیدر اس کے انتظار میں فرش راہ کیے ہوئے تھا۔اب تواس کے آنگن میں ایک پھول کا اضافہ بھی ہو گیا ہے، خوشی کی بات ہے۔

شعبے میں دو نوجوان بھی تھے ایک عابد اور کامران، عابد خورشید کہنے کو تو آفس کلرک تھا لیکن اردو میں ماسٹر اور ایم فل بھی کررہا تھا، شاعر بھی اچھا تھا، چلتے چلتے اس نے مجھے اپنا شعری مجموعہ ’’ لمس ‘‘ دیا اور تبصرہ لکھنے کی فرمائش بھی کی، میَں نے کراچی جاکر اس پر تبصرہ لکھا اور اسے بھیج دیا ، یہاں اس کے بارے میں وہی باتیں نقل کررہا ہوں جومیَں نے تبصرہ میں لکھی تھیں۔’ میَں نے عابد خورشیدکو ۱۱ مئی ۲۰۱۰ء کو اس وقت دیکھا جب میں شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنسز، جامعہ سرگودھا میں بحیثیت ایسو سی ایٹ پروفیسر منسلک ہوا،شعبے سے منسلک ہوتے وقت جس کاغذی کاروائی کی ضرورت ہوتی ہے عابد خورشید نے اس میں نہ صرف میری مدد کی بلکہ بہت ہی خوش اسلوبی سے تمام کاروائی کو تکمیل تک پہنچایا۔ ایک اجنبی کے ساتھ جب کہ اس کے ساتھ صرف سلام دعا ہی ہوئی تھی مثالی کارکردگی کا اظہار قابل تعریف تھا ۔ اس کا یہ عمل ظاہر کررہا تھا کہ عابد خورشید ایک نیک ، سچا ، ہمدرد اوردوسروں کی مدد کرنے والا انسان ہے۔ عابد میرے شعبے میں میرا رفیق کار تھا۔مجھے یہ پہلی ہی نظر میں بھلا معلوم ہوا، تفصیلی تعارف نہیں ہوا تھا لیکن میرا گمان تھا جو بعد میں یقین میں بدل گیاکہ کسی بھلے خاندان کا ایک ایساثپوت ہے جس کی پرورش اس کی ماں نے بہت ہی احتیاط سے کی ہے۔یہی نہیں بلکہ اس کے اندر ایک ا یسا انسان موجود ہے جس میں دکھ بھی ہے سکھ بھی، خوشی بھی ہے غمی بھی، آنسو بھی ہیں تبسم بھی ، یہ ہنستا ہے تو اس کے دکھ کا سایہ بھی جھلک دکھا رہا ہوتاہے،جب یہ افسردہ ہوتا ہے تو اس کے چہرے پر ہلکی سی اداسی نمایاں ہوتی ہے۔عابد خورشید کا مجموعہ کلام ’لمس‘ اپنے تجربات و مشاہدات کی رعنائی کے اعتبار سے شاعر کے احساسات کا خوبصورت عکس ہے ہی نہیں بلکہ اس میں آپ بیتی کا حسن بھی جھلک رہا ہے۔ یہ رومانیت اور حقیقت پسندی کی خوبصورت کاوش ہے۔عابد خورشید کا تعلق شاہینوں کے شہر سرگودھا سے اور یہ نوجوان شاعر سرگودھا کے شعراء کے اس قبیل سے ہے جو مداحین ِڈاکٹر وزیر آغاہی نہیں بلکہ سرگودھا اسکول جس کے بانی ڈاکٹر وزیر آغا ہی تھے کا سرگرم کارکن ہے۔ ڈاکٹر وزیر آغا بلاشبہ اردوزبان کی ایک قدآور شخصیت کا نام ہے۔ آپ ان دانشوروں میں سے تھے جو بیک وقت ہفت پہلو یعنی شاعری، تحقیق، تنقید ، فلسفہ سائنس، تاریخ ،اساطیر اور اردو انشاپردازی کے شہسوار تصور کیے جاتے تھے۔ انھوں نے اردو انشائیہ کو عام کرنے میں جو کام کیا وہ نا قبل فراموش ہے۔وہ یقینا ہمارے عہد کی ایک اہم اور معتبر ادبی شخصیت تھے۔ عابد خورشیدؔ کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کے مجموعہ کلا ’لمس‘ کا فلیپ ڈاکٹر وزیر آ غا نے تحریرکیا۔ یہ تبصرہ پاکستان لائبریری و انفارمیشن
سائنس جرنل کی جلد ۴۲، شمارہ ۳ ستمبر ۲۰۱۱ء میں شائع ہوا۔ عابد خورشید کے اشعار دیکھیے ؂
کسی کی آنکھ کے بھیگے ہوئے منظر میں رہتے ہیں
ہمارا گھر نہیں ہے ہم کسی کے گھر میں رہتے ہیں
ہمارے دل میں آکر آپ سے دو دن نہیں نکلے
ہم اِ ک مدت سے اِس ٹوٹے ہوئے مندر میں رہتے ہیں

کامران رعنا بھولا بھالا اور سیدھا سادھا دیہاتی بابو ، یہ عابد خورشید کا نائب تھا، ہر ایک کے کام آنا اس کی عادت تھی،میَں کراچی سے سعودی عرب آگیا پر اس نے مجھ سے ناطہ قائم رکھا، پاکستان سے سعودی عرب فون کرنا ایک مہنگا سودا ہے پریہ اکثر فون کرتا ہے اور میری خیریت پوچھتا ہے۔ حسنین دفتری تھا لیکن مہذب اور شائستہ ، حافظ قرآن بھی ،میَں نے اسے بہت ترغیب دی کہ وہ میٹرک ضرور کر لے، مجھے جب کبھی کیمپس سے باہر جانا ہوتا حسنین مجھے اپنی موٹر بائیک پر لے جاتا،اس نے کبھی انکار نہیں کیا، سرگودھا شہر کی مرکزی سڑکوں اور شاپنگ سینٹرز کو میَں نے اِسی کے ہمراہ دیکھا۔ تابع دار اور نیک فرید ایک ایسا نوجوان تھا جو تھا تو نائب قاصد لیکن بڑوں بڑوں کو اپنے پیچھے لگائے رکھتاتھا، فاضل صاحب کے آفس کے باہرٹِک کر نہیں بیٹھتا تھا جب دیکھوں لائبریری کے مرکزی کاؤنٹر پر جھرمٹ میں گھِرا نظر آتا تھا۔خوش پوس و خوش لباس ، فاضل صاحب کا تابیدار، زرا زرا سی بات پر لڑنے کو تیار، میری عزت کیا کرتا تھا، اچھا نوجوان تھا۔

میَں جب شعبے سے رخصت ہورہا تھا تو شعبے کے لیے ایک بات بہت اچھی ہوئی وہ یہ کہ ڈاکٹر شمشاد احمد شعبہ سے بحیثیت اسسٹنٹ پروفیسر منسلک ہوگئے۔ ڈاکٹر شمشاد نے جامعہ کراچی سے لا ئبر یری و انفارمیشن سائنس میں پی ایچ ڈی کیا،ان کا تعلق سر گودھا کے شہر ’فاروقہ‘ سے ہے اس اعتبار سے ان کا شعبہ میں آجا ناشعبے کے لیے خوش گوار اضافہ تھا ۔ نوجوان، مستعد اور پرجوش استاد ہیں۔افسوس وہ بھی مختصر وقت ہی شعبے میں رہ سکے اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور چلے گئے۔ان سے جو اچھی امیدیں تھیں وہ پوری نہ ہوسکیں۔

میَں نے شعبے میں رہتے ہوئے اس بات کی کوشش کی کہ شعبے کے جونئیر اسا تذہ نور مصطفی خان اور صفیہ کوکب پڑھانے کے ساتھ ساتھ لکھنے کی جانب بھی توجہ دیں۔ ہم تینوں نے مشترکہ طور پر ایک مضمون انگریزی میں جامعہ سرگودھا کی مرکزی لائبریری پر تحریر کیا، یہ مضمون اپنے موضوع پر اولین کوشش تھی ، اس سے قبل سرگودھا یونیورسٹی لائبریری پر کوئی مضمون نہیں لکھا گیا تھا، ہم نے لائبریری کے بارے میں معلومات جمع کیں، اسٹاف ، طلباء اور عام قارئین سے انٹر ویو ز بھی کیے، یہ مضمون پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جرنل کی جلد ۴۱،شمارہ ۳، ستمبر ۲۰۱۰ء میں شائع ہوا۔اس کاوش کا بنیادی مقصد سرگودھا یونیورسٹی لائبریری کے بارے میں اعداد و شمار اور حقائق سامنے لانا تھااور اپنے دونوں جونئیر ساتھیوں کو لکھنے کی ترغیب دینابھی تھا۔میری خواہش اور کوشش تھی کہ پروفیشن سے منسلک ساتھیوں کو تصنیف و تالیف اور چھپنے کی سہولتیں زیادہ سے زیادہ میسر آئیں، میری سوچ یہ ہے کہ پاکستان کے تمام لائبریری اسکول اپنے اپنے طور پر تحقیقی جریدہ شائع کریں، اس کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی ہے، پاکستان میں صرف شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس ،جامعہ پنجاب لاہور واحد لائبریری اسکول ہے جو سالانہ بنیاد پر ایک تحقیقی جریدہ’ پاکستان جرنل آف لائبریری و انفارمیشن سائنس‘ شائع کررہا ہے، دوسرا جریدہ کراچی سے لائبریری پروموشن بیورو’پاکستان لائبریری و انفارمیشن سائنس جرنل‘ شائع کرتی ہے، یہ سہہ ماہی جریدہ ہے جو گزشتہ ۴۲ سال سے مستقل شائع ہورہا ہے۔ مجھے اس جریدہ کا چیف ایسو سی ایٹ ایڈیٹر ہونے کا اعزازحاصل ہے، میَں نے کوشش کی کہ سرگودھا میں قائم لائبریری اسکول سالانہ بنیاد پر ہی سہی ایک جریدہ شائع کرے۔فاضل صاحب کو جب یہ تجویز دی تو فوری تیار ہوگئے، میاں صاحب نے حسب عادت تحفظات کا اظہار کیا پھروہ بھی تیار گئے، نور مصطفی اور صفیہ کوکب نے اس تجویز کو لبیک کہا۔ شعبہ کے چیٔر مین کے توسط سے یہ تجویز شیخ الجامعہ پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری صاحب کو ارسال کی گئی، شیخ الجامعہ نے فاضل صاحب کو اس پر تبادلہ خیال کے بلایا،شاید وہ ان کی زبانی اس تجویز کی تفصیلات جاننا چاہتے تھے، انہوں نے بھی اس تجویز سے اتفاق کیا اوراس کی باقاعدہ منظوری دیدی، اس تجویز کے مطابق سر گودھا لائبریری اسکول سالانہ بنیاد پر ایک تحقیقی جریدہ شائع کرے گا، جریدہ کانام’’سرگودھا جرنل آف لائبریری و انفارمیشن سائنس‘‘تجویز کیا گیا تھا، سرپرست ِ عالیٰ شیخ الجامعہ اور سرپرست چیٔر مین شعبہ اور مجھے اس جریدہ کا چیف ایڈیٹر مقرر کیا گیا تھا،افسوس مجھے بعض مجبوریوں کے باعث شعبہ کو خیر باد کہنا پڑا، یہ تجویز شیخ الجامعہ سے
باقاعدہ منظور شدہ ہے، شعبہ کے ذمہ داران کو اس تجویز پر عمل کر نے کی سعی کرناچاہیے، میراتمام تر تعاون اب بھی ان کے ساتھ ہوگا۔

اس موقع پر سر گودھاجو ایک تاریخی شہر ہے‘ کے بارے میں بنیادی معلومات فراہم کر نا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا،سر گودھا کی تاریخ پر صاحبزادہ پروفیسرصاحبزادہ عبدالرسول صاحب نے ایک عمدہ کتاب بعنوان (History of Sargodha)تحریر کی ہے، مصنف کے مطابق’’سرگودھا کی بنیاد ۲۲ فروری ۱۹۰۳ء کو سر میلکوم ھیلے (Sir Malcolm Hailey) نے رکھی جو بعد میں پنجاب کا گورنر بنا۔سرگودھا دو دریاؤں چناب اور جہلم کے بیچ میں واقع ہے ۔ سرگودھا دولفظوں ’سر‘ اور’ گودھا‘کا مرکب ہے۔ ’سر‘ کا مطلب ہے ’’پول‘‘ (Pool or Pond) اورگودھا ایک ہندو جوگی کا نام تھا۔ ایک اور روایت کے مطابق جوگی کا اصل نام ’’لالو‘‘ تھا ، گودھا اس کے قبیلے کا نام تھا۔ یہ جوگی ‘ تالاب کے کنارے پر رہتا تھا۔ جب نیا شہر وجود میں آیا تو اس نے خود بخود سرگودھا کا نام اختیار کر لیا۔لفظ ’گودھا‘ سنسکرت زبان کے لفظ ’’یودھا‘‘(Yoddha)سے ماخوذ ہے جس کا مطلب ہے’’لڑنے والے‘‘ (Fighters) ۔۱۹۶۵ء اور ۱۹۷۱ء کی جنگ میں سرگودھا میں پاکستان ائر فورس نے دشمن کو جس بہادری اور دلیری سے پسپا کیا وہ تاریخ کا حصہ ہے۔ پاک فضائیہ کی بہادری کے نتیجے میں اس شہر کو ’’شاہینوں کا شہر‘‘(City of Eagle)کا خطاب دیا گیا۔آج یہ شہر اسی نام سے معروف ہے۔ سرگودھا شہر کی ایک خوبی اور انفرادیت یہ بھی ہے کہ یہاں کی زرعی زمین سنتروں اور کینو ؤ ں کی پیداوار کے حوالے سے دنیا میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ یہاں کے سرسبز کھیتوں میں کینوؤں کے بے انتہا درخت اپنا ثانی نہیں رکھتے، کینوؤں کے موسم میں یہ درخت جب کینوؤں سے لدے ہوئے ہوتے ہیں تو خوبصورت منظر پیش کرتے ہیں۔بہترین اقسام کے کینوؤں کی پیداروار کی وجہ سے اس شہر کو کینوؤں کا شہر (Kinoo Capital of the World)یا پاکستان کا کیلی فورنیا (California of Pakistan)بھی کہا جاتا ہے۔

سر گودھا ایک مردم خیز سرزمین ہے جس نے علمائے دین، صوفیا ئے اکرم ، اہل دانش ، شاعروں، سیاسی مدبروں کی ایک بڑی جماعت پیدا کی ، جن کے خیالات، خدمات اور تصنیفات سے ہمارے کتب خانے مالا مال ہیں ۔ان کی خدمات کو قومی اورعالمی سطح پر معتبر حیثیت حاصل ہے۔ان میں بعض احباب کے نام فخر سے لیے جاسکتے ہیں۔ فیروز خان نون معروف سیاست دان جو پاکستان کے وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہوئے۔معروف شاعر و دانش ور احمد ندیم قاسمی، ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر انور سدید، اور دیگر سرگودھا شہر سے تعلق رکھتے ہیں۔ عشق ، محبت اور قربانی کے لازوال کردار ہیر اور رانجھا کا تعلق بھی اسی سر زمین سے رہا، رانجھا کا گاؤں ’’تخت ہزارہ‘‘ سرگودھا شہر سے بارہ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے جب کہ ہیر جھنگ سے تعلق رکھتی تھی۔

ڈاکٹر وزیر آٖغا سرگودھا اسکول کے روح رواں تھے، ڈاکٹر انور سدید نے اس گروپ کو اور زیادہ پروان چڑھایا۔ ، بعض لکھنے والوں نے اسے ’’دبستان سرگودھا‘‘ اور بعض نے سرگودھا گروپ بھی کہا ہے۔ شاہد حنائی نے اپنی خاکوں کی کتاب ’چہرہ نما‘ میں عذرا اصغر کا خاکہ بعنوان ’’رنگ، خوشبو، روشنی‘‘ میں لکھا عذرا اصغر ابھی گروپ بندی کے خلاف ہے۔ تاہم تعلق خاطر کی بنا پر سرگودھا گروپ کی سرگرم کارکن ہے۔جب تک ڈاکٹر وزیر آغا اور ڈاکٹر انور سدید کی ڈاک نہ پہنچ جائے ’’تجدید نو‘‘ کی اشاعت میں تاخیر ممکن ہے۔ دونوں بزرگوں میں سے جو بھی اسلام آباد آئے ۔عذرا اصغر دعوت کا اہتما م ضرور کرے گی۔ خود اپنے افسانے بھی وزیر آغا گروپ کے رسائل کو ہی بھجوائے گی۔ ’’تجدید نو‘‘ میں چھپنے والوں کی اکثریت بھی اسی گروپ کی حامی ہے۔پروفیسر صابر لودھی نے اپنی خاکوں کی کتاب ’’بھلایا نہ جائے گا‘‘ میں ڈاکٹر وزیر آغا کا خاکہ بعنوان ’’وزیر آغا۔نظریہ ساز راوین‘‘ میں لکھا ’’وہ کسی گروہ سے وابستہ نہیں ، حالانکہ ان کے نکتہ چینوں نے ان کے ادبی جریدے ’’اوراق‘‘ میں لکھنے والوں کو ’’دبستان سرگودھا‘‘ کے ارکان کہا ہے اور وزیر آغا کو اس دبستان کا بانی قرار دیا ہے۔در اصل دانشوروں کا حلقہ ہی ان کا دبستان ہے‘‘۔

جامعہ میں کل وقتی پڑھانے کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا، اس سے قبل میں جامعہ کراچی کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس میں جذوقتی پڑھا چکا تھا، اس کے علاوہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے گریجویٹ پروگرام کے علاوہ ایم اے کا ٹیوٹر بھی رہ چکا تھا۔ میرے لیے پوسٹ گریجویٹ کلاس کو پڑھانا کوئی مشکل نہ تھا، مئی میں سیمسٹر اپنے اختتام پر تھا، پھر بھی میَں نے جونیئر اور سینئر کے دو دو مضامین کے باقی ماندہ کورس کو مکمل کرانے کی ذمہ داری لے لی۔ سینئر ز کا آخری سیمسٹر تھا انہیں دو مضامیں Archives Managementاور Human Resource Managementاسی طرح جونیئرز کی کلاس کو Applied Cataloguingکے کورسز مکمل کرائے۔ اس سیمسٹر کے اختتام کے بعد گرمیوں کی چھٹیاں ہوگئیں اور میَں کراچی آگیا،چھٹیوں کے بعد ایم اے سال اول کی نئی کلاس آئی،سیمسٹراول اور فائنل کی کلاس کا تیسراسیمسٹر شروع ہوا، اس سیمسٹرز میں مجھے دو دو مضامین پڑھانا تھے ان میں جونیئر کو Introduction to Classificationاور Bibliography: Theory & Practiceجب کے فائنل کلاس کو Marketing of Library and Information Servicesاور Literature on Social Sciences پڑھایا۔میَں نے بھی محنت کی اور میرے طلبہ و طالبات نے بھی میرے ساتھ محنت سے پڑھا، یہی وجہ تھی کہ جب میَں نے جامعہ سے رخصت ہونے کا فیصلہ کیا تو میرے طلبہ میرے اس فیصلہ پر سب سے زیادہ رنجیدہ اور پریشان تھے، ہر ایک نے فرداً فرداً مجھ سے اپنا فیصلہ واپس لینے کی درخواست کی،میَں اپنے طلبہ کی اس خواہش پر بار بار فیصلہ بدلنے کا سوچاکرتا تھا لیکن میری مجبوریاں میرے آڑے آجایا کرتیں اور میں اپنے فیصلہ پر قائم رہا۔ میرے طلبہ اب بھی فون پر مجھ سے پوچھتے ہیں کہ میں دوبارہ
سرگودھا کب آرہا ہوں۔ طلبہ کی مجھ سے اس قدر محبت اور عقیدت ہی میر ی زندگی کا حاصل ہے۔

پاکستان لائبریری ایسو سی ایشن ، فیڈرل برانچ نے اسلام آباد میں کانفرنس منعقد کی، سرگودھا سے فاضل صاحب، میاں اسلم، نور مصطفی اور اس ناچیز نے شرکت کی، کراچی سے ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری صاحب جو امریکہ سے آئے ہوئے تھے نے بطور خاص شریک ہوئے،صمد انصاری ان کے ساتھ تھے۔ کانفرنس کے اختتام کے بعد سبزواری صاحب کو شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنسز، جامعہ سرگودھا آنے کی دعوت دی گئی، طے پایا کہ وہ ہمارے ساتھ ہی سرگودھا چلیں،اس موقع پر میاں صاحب ہی ہمارے کام آئے،انہوں نے اپنے بھائی کی کار کا انتظام کر لیا ، اب ہم سب یعنی سبزواری صاحب، فاضل صاحب ، میاں صاحب، صمدانصا ری، نورمصطفی اور میَں سرگودھا کے لیے اسلام آباد سے روانہ ہوئے،رات گئے سرگودھا پہنچے، میاں صاحب نے سبزواری صاحب اور صمد انصاری صاحب کو اپنا مہمان بنا یا،میَں بھی ساتھ ہی تھا، گھر پہنچے کمرہ میں تین بستر لگے ہوئے تھے، گویا مہمانوں کے لیے پہلے سے اہتمام کیا جا چکا تھا ، میاں صاحب نے راستے ہی میں بیگم کو ہدایا ت جاری کردی تھیں، ناشتہ کے بعد شعبہ میں ڈاکٹر سبزواری صاحب کے اعزاز میں تقریب کا اہتمام تھا۔ طلبہ و طالبات نے مہمانوں کا استقبال کیا، تقریریں ہوئی، فاضل صاحب نے استقبالیہ کلمات کہے، سبزواری صاحب ، صمد صاحب اور میَں نے بھی تقریر کی۔ سبزواری صاحب نے اپنی تقریر میں کہا ’’لائبریری اور لائبریری سائنس کی تعلیم و تربیت کو دوام حاصل ہے، جدید انفارمیشن کے پھیلاؤ کے باوجود کتاب کی اہمیت مسلمہ ہے اور لائبریری کی اہمیت و ضرورت میں اور بھی اضافہ ہوگیا ہے، لائبریری سائنس کے طلبہ کے لیے ضروری ہے کہ وہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں اپنی صلاحیتوں کو زیادہ مضبوط و مستحکم کریں، کتب خانوں میں کمپیوٹر کا استعمال وقت کی اہم ضرورت ہے‘‘۔ اس موقع پرڈاکٹر فاضل خان صاحب نے فرمایا کہ ’’مجھے ڈاکٹر سبزواری کی شاگردگی پر فخر حاصل ہے، ڈاکٹر صاحب دنیائے لائبریرین شپ کا ایک ایس رخشندہ ستارہ ہیں کہ جن کی علمی خدمات آج بھی جا ری و ساری ہیں، آپ نے ڈاکٹر سبزواری کا شکریہ ادا کیا کہ انہوں ہماری دعوت قبول کرتے ہوئے سرگودھا تشریف لائے۔سبزواری صاحب اور صمد انصاری نے ایک رات ہاسٹل میں گزاری،کمرے میں دوہی بیڈ تھے، میَں نے ایک گدہ فرش پر ڈال لیا تھا خیال تھا کہ میَں اس پر سو جاؤں گا، سبزواری صاحب نے جب یہ دیکھا تو وہ بیڈسے اٹھ کر نیچے آگئے ،کہنے لگے میں نیچے لیٹوں گا،ہم دونوں نے بہت منت سماجت کی لیکن انہوں نے ایک نہ سنی، بڑائی تو دیکھئے کہ دونوں شاگرد ایک دائیں دوسرا بائیں بیڈپر اور استاد
درمیان میں زمین پر ، اس لمحہ شرمندگی تو دامن گیر تھی ہی لیکن استاد کی خواہش زیادہ مقدم تھی۔

طلبہ کی حوصلہ افزائی اور ان میں مقابلہ کا رجحان پیدا کرنے کے لیے تعلیمی اداروں میں طلبہ کو انعامات، اسکالر شپ، میڈل، شیلڈ اور نقد انعامات دئے جا نے کی روایت قدیم ہے، پاکستان کی مختلف جامعات کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس میں بھی بہتر تعلیمی کارکردگی کے حامل طلبہ کے لیے میڈل اور اسکالر شپ کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔سب سے پہلے جامعہ کراچی کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنس میں پوزیشن حاصل کرنے والے طالب علم کے لیے ’اسپل گولڈ میڈل‘(SPIL Gold Madel)جاری ہوا، انجمن فروغ و تر قی کتب خانہ جات، ’اسپل(Society for the Promotion & Improvement of Libraries, SPIL) ‘پاکستان میں کتب خانوں کے فروغ و ترقی کے لیے۱۹۶۰ء میں قائم کی گئی، کتاب اور کتب خانوں کا درد رکھنے والی معروف شخصیت حکیم محمد سعید شہید اس سوسائیٹی کے بانی صدر تھے جو اپنی شہادت تک اس کے صدر رہے۔ اسپل گولڈ میڈل کے لیے حکیم محمد سعید نے اس وقت مبلغ ایک لاکھ روپے جامعہ کراچی کو فراہم کیے تھے۔ اسپل گولڈ میڈل کے اجراء کے بعد لائبریری سائنس کے طلبہ و طالبات کی حوصلہ افزائی کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ دیگر اداروں میں بھی میڈل اور ایوارڈ جاری ہوئے، یہ ایوارڈ لائبریری سائنس کی معروف شخصیات کے ناموں سے منسلک نظر آتے ہیں۔ان میں ڈاکٹر عبدالمعید گولڈ میڈل، پروفیسر ڈاکٹر سید جلال الدین حیدر گولڈ میڈل اور ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری ایوارڈ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔اسپل گولڈ میڈل کے بعد دوسرا گولڈمیڈل ’’ڈاکٹر عبد المعید گولڈ میڈل‘‘ ۱۹۸۱ء میں پاکستان ببلوگرافیکل ورکنگ گروپ کے زیر اہتمام چلنے والے ادارے اسکول آف لائبریرین شپ میں جاری ہوا ، جو ہر سال لائبریری سائنس کے ہائر سرٹیفیکیٹ کورس میں اول پوزیشن حاصل کرنے والے طالب علم کا دیاجاتا ہے۔تیسرا گولڈ میڈل ’’پروفیسر ڈاکٹر سید جلال الدین حیدر گولڈ میڈل‘‘ شعبہ لائبریری و انفارمیشن ، جامعہ پنجاب ، لاہور میں جاری کیا گیا ۔ اس گولڈ میڈل کے لیے مبلغ ایک لاکھ روپے جامعہ پنجاب کو پروفیسر ڈاکٹر سید جلال الدین حیدر نے ہی فراہم کیے تھے۔’’ڈاکٹر غنی الاکرم سبزواری ایوارڈ‘‘ (Dr. Ghaniul Akram Sabzwari Award)۲۰۱۰ء میں شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنسز ، جامعہ سرگودھا میں جاری ہوا۔ یہ ایوارڈ پاکستان لائبریرین شپ کی معروف استاد ، مصنفہ و محققہ پروفیسر ڈاکٹر نسیم فاطمہ کی تحریک پر جامعہ سرگودھا میں جاری کیا گیا، اس مقصد کے لیے ڈاکٹر نسیم فاطمہ نے جامعہ سرگودھا کو پچاس ہزار روپے کی رقم فراہم کی۔یہ ہر سال اس طالب علم کو دیا جاتا ہے جس نے تحقیق کے میدان میں نمایاں کار کر دگی کا مظاہرہ کیاہو۔ جامعہ سرگودھا کے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائنسز میں ایم ایل آئی ایس کا پہلا سیشن مکمل ہو چکا تھا، آٹھ طلبہ وطالبات نے مقالات تحریر کیے تھے۔ صدر شعبہ ڈاکٹر محمد فاضل خان صاحب نے فیصلہ کیا کہ’ ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری ایوارڈ‘ شعبہ کے اس طالب علم کو دیا جائے گا جس کا تحقیقی مقالہ سب سے بہترین ہوگا۔ بہترین مقالہ کے انتخاب کی ذمہ داری صدر شعبہ نے مجھے سونپ دی، منصف کی حیثیت سے مجھے ان مقالات میں سے بہترین مقالہ کا انتخاب کرنا تھا، شعبہ کی ایک طالبہ آنسہ صائمہ روحی نے (College Libraries of Sargodha)کے عنوان سے مقالہ تحریر کیا تھا، میری رائے میں وہ دیگر مقالات میں بہتر تھا، چنانچہ ۲۰۱۰ء میں پہلے ’ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری ایوارڈ‘ کی حقدار صائمہ روحی قرار پائیں۔

شعبہ میں بہت اچھا وقت گزرا، شعبے اور لائبریری کے تمام ساتھی میرا بہت خیال کیا کرتے تھے، انہوں نے مجھے جو عزت دی میَں اسے کبھی بھلا نہیں سکوں گا ، لائبریری کے تمام ساتھی خاص طور پر ناصر گجر، محمد احمد شاہ، راجہ غلام مصطفی،آسیہ، آفس کے ساتھی عابد خورشید، کامران رانا، محمد حسنین، فرید اوردیگر جن کے نام مجھے اب یاد نہیں سب ہی میری بہت عزت کیا کرتے اور خلوص کے ساتھ پیش آیا کرتے تھے انہوں نے کبھی میرے کسی کام سے انکار نہیں کیا۔ ناصرگجر سینئر لائبریرین ، یہ ڈاکٹرخالد محمود کے کلاس فیلو بھی ہیں، اچھا اور نیک انسان ہے، میں نے کوشش کی کہ یہ شعبہ میں پڑھا نے پر آمادہ ہوجائے لیکن نہیں معلوم کیا مجبوری تھی کہ اس نے میری ایک نہ سنی، محمد احمدشاہ صاحب بھی سینئر لائبریرین ہیں، انٹر کے طلبہ کو لائبریری سائنس پڑھا تے ہیں، میرے بہت ہی مہرباں رہے، انہوں نے مجھے سرگودھا نہ چھوڑنے کی بہت ترغیب دی، مجھے کرایہ کا گھردلوانے کے لیے بھی بہت تگ و دوکی، اپنے گھر بھی لے گئے، کھانا بھی کھلایا، ان کی بیٹی میری شاگرد بھی رہی۔ ایک بچی آسیہ بھی تھی، ہنستی مسکراتی ہر وقت کام میں مصروف نظر آیا کرتی تھی، یہ اردو ٹائپ بھی جانتی تھی،تھی تو کلرک لیکن علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے لائبریری و انفارمیشن سائنس میں ایم اے کرچکی تھی،اﷲ تعالیٰ اس کا مستقبل اچھا کرے۔

ٖٓفاضل صاحب کے دو بیٹے سرگودھا میں اُن کے ساتھ تھے ایک حافظ صاحب اور دوسرا عمران ۔ عمران‘ فاضل صاحب کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا، شاید میٹرک کر رہا تھا، عمران میرا بہت خیال رکھتا تھا، جب بھی اپنے ہاسٹل سے نیچے اتر تا میرے پاس آکر پوچھا کرتا انکل کوئی کام تو نہیں۔ کبھی مجھے کچھ منگوانا ہوتا تو اس سے منگوالیا کرتا، اکثر میرے کمرہ میں آجاتا اِدھر اُدھر کی باتیں کیا کرتا، ایک موبائل ہاتھ میں اور ایک جیب میں ہوا کرتا تھا۔ اس کا ہم عمر لڑکا فاروق ہمارے ہاسٹل میں ہمارے کک کا اسسٹنٹ تھا، اسے ہاسٹل سیکریٹری ڈاکٹر شاہد راجپوت صاحب نے نذر حسین کی مدد کے لیے رکھ لیا تھا، یہ ہمارے کام بھی کردیا کرتا تھا۔اچھا لڑکا تھا، والدین بہت غریب تھے، سرگودھا کے کسی گاؤں میں رہا کرتے تھے۔ فاروق بھی میرا بہت خیال کیا کرتا تھا، ہم سب لوگ اس کی مدد کیا کرتے ، میرا کمرہ ڈائننگ روم کے برابر میں تھا، جس سے منسلک کچن تھا، اس وجہ سے بھی میرا تعلق ان سے زیادہ رہا کرتاتھا۔ عمران ویسے تو چھوٹا تھا، ابھی میٹرک بھی پاس نہیں کیا تھا، اسکول میں پڑھا کرتا تھا، بہت شوخ اور شرارتی ہونے کے ساتھ ساتھ مہذب، شائستہ اور عزت کرنے والوں میں سے تھا۔ موبائل کا تو آجکل بچوں کو کریز ہے، اسے بھی تھا۔ جیسا میَں نے کہا کہ ایک موبائل جیب میں اور ایک ہاتھ میں، سمیں ان کے علاوہ، موبائل میں اس قسم کا سافٹ ویئر بھی آتا ہے کہ جس کے ذریعہ آواز تبدیل ہوجاتی ہے، مرد کی آواز نسوانی ہی نہیں ہوتی بلکہ عمر کے اعتبار سے تبدیل کی جاسکتی ہے، جیسے ۱۶ سال کی لڑکی کی آواز، ۴۰ سال کی عورت کی آواز، مجھے کبھی اس کا تجربہ نہیں ہوا، یہ بات میں نے عمران کی زبانی ہی سنی تھی۔ فاروق عمران کا دوست بھی بن گیا تھا، کیونکہ یہ ہم عمر بھی تھے۔ عمران نے آواز بدلنے والا سافٹ ویئر ا ستعمال کرتے ہوئے فاروق کو لڑکی آواز میں فون کیا اور عشق و محبت کی باتیں بھی کیں، فاروق کم عمر ضرور تھا لیکن جوانی کا خمار آنا شروع ہوگیا تھا، پھر ہاسٹل کے سامنے سے دن بھر طالبات کاادھر سے ادھر آنا جانا، فاروق عمران کے بہکاوے میں آگیا، عمران اکثر رات میں آتا مجھ سے کہتا انکل جی دیکھیں ابھی فاروق موبائل کی آواز سنتے ہی ایک طرف کونے میں چلا جائے گا، واقعی ایسا ہی ہو ا بھی کرتا، اس طرح عمران نے فاروق کو بہت پریشان کیا، ابھی یہ تماشا چل ہی رہا تھا، کہ عمران نے سکیورٹی گارڈ کے ساتھ جھگڑا کر لیااور ایسا جھگڑا کیا کہ اس سیکیورٹی گارڈ کو جو اس سے عمر میں کافی بڑا بھی تھا ایک عدد تھپڑ رسید کردیا، بات فاضل صاحب تک پہنچی انہوں نے اسی میں عافیت جانی کے عمران کو واپس اپنے گھر رحیم یار خان بھیج دیا جائے اور عمران کو بہت اجلت میں گھر بھیج دیا گیا، وہ مجھے بہت عرصہ تک یاد آتا رہا، میَں نے فاضل صاحب سے اسے واپس بلوانے کو کہا بھی لیکن وہ واپس نہیں آیا، اﷲ اس بچے کو ہمیشہ خوش رکھے۔

شعبہ کے طلبہ نے مجھے جو عزت دی وہ میری زندگی کا قیمتی سرمایا ہے۔ میَں شعبہ سے منسلک ہوا تو فائنل سیمسٹر کے طلبہ کو مشکل سے دو ماہ ہی پڑھایا ہوگااس کے بعد وہ اس شعبہ سے فارغ ہونے گئے اور عملی زندگی میں مصروف عمل بھی، وہ تما م میرے ساتھ جس خلوص ، محبت اور اپنا ئیت سے پیش آیا کرتے قابل تعریف ہے، بعض طلبہ جن میں ذیشان راؤ، عبدالرحیم، صائمہ روحی ، سمیعہ روحی،سمیرا بانو ، سمعیہ جبار، اسما حسن،حافظہ ماریہ شیریں شامل تھے نے میرے اعزاز میں الوداعی دعوت کا اہتمام بھی کیا۔شعبہ کے اولین سیشن کے بعض طلبہ و طالبات اب بھی مجھ سے رابطے میں ہیں اور اکثر مجھے فون کر لیتے ہیں ان میں صائمہ روحی، سیمرا حیدر، شاہد، رحیم، عدیلہ وڑائچ اورماریہ شامل ہیں۔ دوسرے سیشن کے طلبہ کو میَں نے دو سیمسٹرپڑھا یا،میرا ایک شاگرد ارشد سجرا جسے میَں کلاس میں ارشد بھٹی کہا کرتا تھا حالانکہ وہ بھٹی نہیں تھا، اسی کلاس کا ایک طالب علم عرفان گوندل تھا ، یہ ارشد کا قریبی دوست تھا، اس نے ایک کارنامہ انجام دیا، پہلے سیمسٹر کا امتحان تھا، مجھے چھٹی پر کراچی جانا پڑا، اپنا پرچہ بنا کر نور مصطفی کو دیدیا ، جس دن میرے مضمون کا امتحان تھا سنا ہے کہعرفان نے اپنی جگہ کسی دوسرے لڑکے کو امتحان دینے کے لیے بٹھا دیااور وہ پکڑا بھی گیا، اس کے بعد سے عرفان گوندل نے کلاس میں آنا ترک کردیا، میَں جب واپس سرگودھا آیا تو یہ قصہ معلوم ہوا، اب میَں نے ارشد کو اس کے دوست کی دوستی کی بنا پر ارشد بھٹی کہنا شروع کردیا۔ کیونکہ عرفان بھٹی کے نام سے معروف تھا۔ارشد نے مجھے اپنے گاؤں ’جھال چکیاں لے جانے اور وہاں کی مشہور دال ’’دال جھال چکیاں دی‘‘ کھلانے کی دعوت دی، اس کا گاؤں سرگودھا شہر سے بارہ کلو میٹر کے فاصلہ پر ہے ،میں نے قبول کرلی، مقررہ وقت ارشدموٹر بائیک پر مجھے جھال چکیاں لے گیا، راستے میں بارش بھی ہوئی لیکن یہ مجھے موٹر بائیک پر سر پٹ دوڑاتا ہوا اس مشہور ہوٹل لے گیا جہاں کی یہ دال سرگودھا ہی میں نہیں بلکہ پورے پنجاب میں مشہور ہے، ایسا ہی ہے کہ جیسے کراچی میں اسٹوڈنٹ بریانی،ملتان کا سوہن حلوہ، خوشاب کا ڈوڈا، کراچی میں کبھی عبدالخالق کے رس گلے بہت مشہور ہوا کرتے تھے، فریسکو کی میٹھا ئی بہت مشہور تھی، برنس روڈ کی نہا ری بہت پسند کی جاتی تھی، ہوٹل بڑا تھا، لوگ جوق درجوق چلے آرہے تھے، صفائی کا فقدان تھا، ہوٹل میں دال روٹی کا ریٹ فکس تھا یعنی ڈیڑ سو روپے میں ایک شخص جس قدر دال اور جس قدر روٹی کھا سکتا ہے کھا لے، خوش خوراکو ں کے تو وارے نیارے اور ہم جیسوں کے لیے ایک وقت کی دال روٹی ڈیڑھ سو روپے میں، لیکن یہ عام دال نہیں بلکہ سرگودھا کی مشہور و معروف ہے دال ہے،دال گرینڈ کی ہوئی تھی، کچھ کچھ کراچی کے حلیم کا مزاہ تھا لیکن یہ دال ہی تھی، ۔ارشد نے بھی مجھ سے ناتا جوڑا ہوا ہے، اکثر فون کر لیتا ہے۔

میر۱ ایک شاگرد افتخار احمد سینئر کلاس میں تھا ، اس کا چھوٹا بھائی مختار احمد بھی ایک سال قبل میرا شاگرد رہ چکا تھا، یہ سرگودھا شہر سے دور ایک گاؤں ’ للیانی‘ میں رہتے ہیں، کینوؤں کا موسم تھا، سرگودھا تو ہے ہی کینو ؤں کا شہر، اس نے اپنے گاؤں لے جانے کی دعوت دی،جس دن اس کے گاؤں جانا تھا میَں نے اپنی بیٹی جو لاہور میں رہتی ہے کو بھی بلا لیا، وہ بھی اپنی کار میں آگئی، اب ہم افتخار کے بتائے ہوئے راستہ پر چل دئے، عاصم کار ڈرائیوکررہے تھے ، میری نواسی نہا اور نواسہ ارحم بھی ساتھ تھے، کچھ دیر میں ہم افتخار کے گاؤں ’للیانی‘ پہنچ گئے، چاروں طرف زرعی زمین جس میں مختلف اشیاء کاشت کی ہوئی تھیں، تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر کینوؤں کے درخت کینوؤں سے لدے ہوئے تھے، خوبصورتی کا بے مثال منظر، درمیان میں افتخار کا گھر تھا، فاھینہ اور بچے اندر چلے گئے ، باہر ایک جانب گائیں ، بھیسیں، بکریاں بندھی تھیں، چارہ کاٹنے کی مشین لگی ہوئی تھی، ٹریکٹر بھی ایک جانب کھڑا تھا، دو عدد چارپائیاں جن پر صاف ستھری چادریں بچھی ہوئی تھیں ،افتخار کے والد اور چچا نے ہمارا استقبال کیا، سادگی، خلوص و محبت کا لازوال اظہار،سلام دعا اور تعارف ہوا، تھوڑی دیر سستانے کے بعد افتخارنے ہم سب کو اپنے کینوؤں کے باغ میں چلنے کو کہا، افتخار کا بھائی مختار اور اس کی چھوٹی بہن سمینہ بھی ہمارے ہمراہ تھے، کینوؤں کے درختوں کے درمیاں پہنچ کر دونوں بچوں نے کینوں توڑنا شروع کردیے، ہم نے بھی اپنے ہاتھوں سے کینوں توڑکر اسی وقت کھائے، کراچی کے رہنے والوں کے لیے دیہات کے قدرتی نظاروں کا میسر آجانا ایک نعمت سے کم نہیں۔ ہم نے خوب خوب کینوں توڑے اور کھائے بھی، کچھ سبزیاں بھی لگی ہوئی تھیں وہ بھی توڑیں ، بڑالطف آیا، واپس گھر آئے ،شام ہورہی تھی، افتخار کے والد نے گدھا کھولا اورزرعی زمین کی جانب چل دئے، تھوڑی ہی دیر میں گدھے پرجانوروں کا چارا لادکر واپس آئے، چارا اُتارا اور پھر سے واپس چلے گئے، اس طرح انہوں نے کافی چارہ جمع کر لیا، اب گدھے کو اپنی جگہ باندھا اور چارہ کاٹنے والی مشین چلا ئی اور جو چارا وہ لائے تھے اسے کاٹنا شروع کیا، کچھ ہی دیر میں سارا چارا کٹ گیا، اب انہوں نے یہ چارہ جانوروں کے سامنے ڈالنا شروع کیا، تھوڑی دیر میں مختار نے ٹریکٹر اسٹارٹ کیا اور ٹریکٹر لے کر اپنی زمین کی جانب چلا گیا، یقینا یہ شام کے وقت زمین پر حل چلا نے گیا ہوگا۔اب ہم گھر میں گئے جہاں پر گرما گرم کھانا ہمارا منتظر تھا، لذیذ و مزیدار کھانا کھا یا،گھر والوں سے اجازت چاہی ،افتخار کی امی اور بہن سے سلام دعا ہوئی اور واپسی کا سفر شروع ہوا، افتخار نے گاڑی کی ڈگی میں ڈھیروں کینوں اور سبزیاں رکھ دیں ،اسے ہم نے منع بھی کیا لیکن اس نے ایک نہ سنی۔ دیہات کی زندگی اب بھی بناوٹ اور دکھاوے سے پاک ہے۔اس میں حسن ہے، سادگی ہے، پیار ہے ، محبت ہے، حالانکہ یہ گاؤں اب شہروں کا روپ دھار چکے ہیں ، یہاں شہر کی تمام سہولتیں اور آسائشیں فراہم ہیں اس کے باوجود یہاں بناوٹ اور ریاکاری کا عنصر نہیں پایا جاتا۔ افتخار نے بتا یا کہ وہ دونوں بھائی اپنے والد کا ہاتھ بٹاتے ہیں، ساتھ ہی انہوں نے گاؤں میں ایک اسکول بھی کھولا ہوا ہے جہاں پر وہ دونوں بھائی صبح کے وقت مصروف رہتے ہیں۔ افتخار کی بہن میری بیٹی فاھینہ کی دوست بن گئی ہے ، گو عمر میں اس چھوٹی ہے یہ اکثر اسے فون کرکے خیریت معلوم کرلیتی ہے، افتخار بھی رابطہ میں رہتا ہے۔

جونیئر کلاس کے ایک اور طالب علم حماد نے بھی دعوت دی، اس کا شادی ہال تھا، دوپہر کی دعوت تھی، میرا ایک شاگرد ارشد مجھے اپنی موٹر سائیکل پر لے گیا، گاڑی ایک شادی ہال کے سامنے روکی میَں نے کہا کہ کیاشادی کا کھانا کھلاؤگے، اندر گئے تو استقبالیہ پرحماد موجود تھا، پتا چلا کہ یہ شادی ہال اسی کا ہے، اس نے ہماری دعوت اسی شادی کے کھانے میں کی ہے، راجہ مصطفی صاحب کی رہائش شادی ہال کے نزدیک ہی تھی انہیں بھی مدعو کیا تھا وہ بھی آگئے۔ فاضل صاحب نے ، نور مصطفی نے، میاں صاحب نے،ڈاکٹر شمشاد احمد نے الگ الگ الوداعی دعوتوں کا اہتمام کیا۔شعبہ کی جانب سے الوداعیہ بھی ہوا۔ میری دو شاگرد بہنو ں صائیمہ اور سمیۂ نے اپنے گھر دعوت پر بلا یا، اس کی امی اور بھائی بہت خلوص سے ملے۔ واپسی پر صائمہ کے بھائی نے ہاسٹل بھی چھوڑا۔سب لوگوں کی محبت ، خلوص اور عقیدت کو میں کبھی بھلا نہیں سکوں گا۔

جامعہ سر گودھا کا ٹیچرز ہاسٹل کا کمرہ نمبر ۵ میرے لیے مختص کیا گیا تھا۔ میَں بائیالوجی کے استاد ڈاکٹر ظفر اقبال کا روم میٹ تھا، ڈاکٹر ظفر اچھے انسان تھے، تحقیق کے آدمی تھے، لکھنا اور چھپنا ان کا محبوب مشغلہ تھا،ہاسٹل میں ٹیچر کو نیٹ کی سہولتیں میسر تھیں،ظفر صاحب جتنی دیر کمرہ میں ہوتے لیب ٹاپ پر سرچنگ کرتے اور مضامین لکھتے رہتے، میَں اپنے لیب ٹاپ پر مصروف رہا کرتا ، دونوں اپنے اپنے بیڈ پر لیب ٹاپ پر مصروف عمل رہا کرتے۔ خاموش طبع تھے، کم سے کم گفتگو کیا کرتے تھے، اتفاق سے میَں بھی ان کا ہم مزاج تھا، ہم دونوں کے درمیان بہت کم جملوں کا تبادلہ ہواکرتا،لیکن دونوں کوایک دوسرے سے کبھی شکایت نہیں ہوئی،وہ اردو کم سرائیکی زیادہ بولا کرتے تھے، ان کی فیملی جھنگ میں تھی۔ وہ ہر جمعہ کی دوپہر اپنے گھر چلے جایا کرتے اور پیر کی صبح واپس آیاکرتے تھے، اس دوران میَں کمرہ میں تنہا ہی ہوا کرتا۔ شہر نیا ، لوگ نئے، ماحول اجنبی‘ البتہ خالصتاً علمی۔ زندگی کا پہلا تجربہ تھا گھر سے باہررہنے کاوہ بھی ہاسٹل لائف۔اکثر احباب سے سنا کرتا تھا کہ ہاسٹل لائف عام زندگی سے مختلف ہوتی ہے۔ میَں شام پانچ بجے تک شعبہ میں رہتا ، عصر کے وقت شعبہ سے واپس ہاسٹل آتا اور عصر کی نماز کے لئے مسجدچلاجاتا اور پھر کیمپس کے پر فضا ماحول میں کھو جایا کرتا۔ جامعہ سرگودھا کا عین وسطی حصہ خوبصورت منظر پیش کرتا ہے ‘ اس میں وسیع و عریض سر سبز کھیل کے میدان، جن کے گرد لہلہا تے درخت حسین نظارہ پیش کرتے اور شام کے اوقات میں ان میدانوں میں طلبہ ہر قسم کے کھیلوں میں مصروف نظر آتے۔ ان میدانوں کے چاروں اطراف صاف ستھری سڑکیں صبح و شام جاگنگ ٹریک بنی ہوتی تھیں‘جہاں ہر عمر کے لوگ دوڑتے اور چہل قدمی کر تے نظر آتے ۔ میَں بھی اس حسین منظر نامے کا حصہ بن گیا تھا۔ ٹیچرز ہاسٹل میں زمینی منزل پر ہمارے علاوہ کمرہ نمبر ۲ میں ڈاکٹر طاہر تونسوی صاحب رہتے تھے، ڈاکٹر صاحب شعبہ اردو کے چیٔر مین تھے، اردو کے معروف ادیب، شاعر اور دانشور بھی، کمرہ نمبر۳ میں ڈاکٹر ارشد جن کا تعلق عارف والا سے تھا‘ رہا کرتے تھے ۔ پہلی منزل پر ڈاکٹر شاہد راجپوت ، ڈاکٹر دانش اور دیگر احباب تھے، ہمارے برابر میں ’’فارن فیکلٹی ہاسٹل‘‘ تھا جس میں فاضل صاحب اور نورمصطفی، ڈاکٹر عبدالرشید رحمت، ڈاکٹر ڈوگر اور دیگر کی رہائش تھی۔ میَں مغرب کی نماز پڑھ کر واپس ہاسٹل کا رخ کیاکرتا تو باہر کھلی فضا میں کرسیاں رکھی ہوا کرتیں اور ایک کرسی پرعام طور پر ایک صاحب کو مستقل بیٹھا ہوا دیکھا کرتا، میرے ہی ہم عمر تھے ۔میَں انہیں دور ہی سے سلام کر دیا کرتا وہ مجھے اسی طرح جواب دے دیا کرتے۔ اکثر احباب ان کے پاس آکر بیٹھتے اور چلے جاتے‘ لیکن یہ مستقل مزاجی سے اپنی نششت پر براجمان رہتے۔ایک دن ڈائینگ ٹیبل پر ناشتہ کرتے ہوئے تفصیلی تعارف ہوا۔جب میَں نے انھیں یہ بتا یا کہ میرا تعلق کراچی سے ہے اور میَں ڈاکٹر محمد فاضل کے شعبہ میں استاد کی حیثیت سے آیا ہوں، عمر تو کراچی میں گزری‘ لیکن پنجاب کا شہر میلسی میری جنم بھومی ہے۔ انہوں نے بھی اپنا تعارف کرایا کہ میرا نام طاہر تونسوی ہے شعبہ ُاردو کا چیئر مین ہوں۔ اب ہم ایک دوسرے کے زیادہ قریب آگئے۔ دور دور کے سلام قربتوں کے سلاموں میں بد ل گے‘ ساتھ ہی میَں باقاعدگی سے ان کی شام کی محفل کا مستقل حصہ بن گیااور گرمیوں کی شامیں ایک ساتھ گزرنے لگیں‘ حتیٰ کہ گرم شامیں سرد شاموں میں تبدیل ہوگئیں اور یہ بھی فرق ہوا کہ یہ محفل کھلی فضاء کے بجائے میرے کمرے میں سجنے لگی ۔ اس محفل میں ہمارے شریک ڈاکٹر ظفر اقبال اور ڈاکٹرعبدالر رشید رحمت بھی ہوتے، ڈاکٹر ظفر بائیالوجی میں اور ڈاکٹرعبدالر رشید رحمت ، ڈین فیکلٹی آف اسلامک اینڈ اورینٹل لرنگ تھے، ڈاکٹر صاحب کے رفیق کار ڈاکٹر خالد ندیم بھی اس محفل کے شریک ہوتے ۔ کبھی کبھار ڈاکٹر شاہد راجپوت جو ہمارے ہا سٹل کے میں سیکریٹری تھے شریک محفل ہو جا یا کرتے۔سردیاں اپنی بہاریں دکھا رہی تھی، سوچتا ہوں کہ اگر کمرہ میں ھیٹر نہ ہوتا تو ہمارا کیا حال ہوتا، میَں اور تونسوی صاحب مغرب کی نماز کے بعد سے رات گئے تک محفل سجائے رکھتے، ڈاکٹر ظفر عام طور پر رات کاکھانا کھانے کے بعد دوسرے ہاسٹل میں اپنے دوستوں کے پاس چلے جاتے، ڈاکٹرعبدالر رشید رحمت نے اپنا معمول بنا لیا تھا کہ وہ مغرب کی نماز پڑھ کر ہمارے کمرہ میں آجایا کرتے اور مختلف موضوعات پر گفتگو جاری رہتی، آج بھی جب کبھی وہ دن یاد آتے ہیں تو ایک فلم ذہن میں چل جاتی ہے اور ساری باتیں، سارے واقعات اور وہ حسین لوگ ایک ایک کرکے نظروں کے سامنے آجاتے ہیں۔ترکی کے انقلابی شاعر نا ظمؔ حکمت کا شعر فیض احمد فیصؔ نے ترجمہ کیا:
مری جاں تجھ کو بتلاؤں ، بہت نازک یہ نکتہ ہے
بدل جاتا ہے انسان ، جب مکاں اس کا بدلتاہے

جامعہ کے ٹیچرز ہاسٹل میں میس کا انتظام ہاسٹل کے مکینوں کو از خود کرنا ہوتا تھا، جامعہ کی طرف سے ڈائننگ روم ، کچن اور ایک عدد ککُ کی سہولت فراہم کی گئی تھی۔ نذر حسین ہمارا ککُ تھا، سابق فوجی تھا، برد بار اور اچھی عمر تھی، کھانا ٹھیک ہی پکا یا کرتا تھا۔خاص طور پر مکس سبزی،کڑھی،کریلے جن میں کڑاوہٹ نام کو بھی نہ ہوتی تھی اور آلو بھرے پراٹھے، میس سیکریٹری شعبہ تاریخ کے پروفیسر ڈاکٹر شاہد راجپوت تھے، ان کاگھر اسلام آباد میں تھا۔وہ اکثر جمعرات کو اپنے گھر اسلام آباد چلے جاتے، اسی طرح وہ احباب جن کی فیمیلیز سرگودھا کے قرب و جوار میں تھیں وہ بھی اپنے اپنے گھروں کو سدھار جاتے، ہاسٹل میں میرے اور ڈاکٹر طاہر تونسوی صاحب کے علاوہ شاید ہی کوئی اور ہوا کرتا۔ شاہد راجپوت صاحب کی غیر موجودگی میں ہمارا ککُ یہ سمجھتا کہ اب اس کی بھی چھٹی ہے وہ ان احباب سے پہلے اپنے گھر روانہ ہوجاتا، گویا ہفتہ کے تین دن جمعہ ، ہفتہ اور اتوار ہمارے میس میں کھانے کی چھٹی ہونے لگی، ہمارے لیے یہ مشکل تھا کہ کیمپس کے باہر کھانا کھانے جایا کریں وہ بھی سخت سردی میں۔اس حوالہ سے ڈاکٹر خالد ندیم اور طارق کلیم کی محبت اور خبر گیری کو کبھی بھلا یا نہیں جا سکتا، سخت سردی میں یہ دونوں صا حبان موٹر سائیکل پر رات گئے کھانا لیے آیا کرتے، ان کے مزیدار کھانے بہت یاد آتے ہیں،خاص طو پر ساگ کا لطف میَں آج بھی محسوس کرسکتا ہوں۔

ڈاکٹر خالد ندیم شعبہ اردو ، جامعہ سرگودھا میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، تخلیقی سوچ رکھتے ہیں، لکھنا پڑھنا ان کا محبوب مشعلہ ہے،متعدد مضامین ادبی رسائل میں شائع ہوچکے ہیں، ان کی ایک کتاب بھی منظر عام پر آچکی ہے،لکھاریوں کی مدد کرکے خوشی محسوس کرتے ہیں۔سر گودھا میں قیام کے دوران خاکہ نویسی پر میری خاص توجہ رہی، شاید ماحول کا اثر تھا، ڈاکٹر طاہر تونسوی اور عبد الوحاب خان سلیم پر ہاتھ صاف کیا اور ان کے خاکے قلم بند کیے ، دونوں خاکے شائع ہوچکے ہیں۔تیسرا خاکہ اپنی ہم پیشہ فرخندہ لودھی کا لکھنا شروع کیا، جو اردو و پنجابی ادب کی معروف لکھاری بھی تھیں، مجھے فرخندہ لودھی پرمواد درکار تھا، یونیورسٹی کے مرکزی لائبریری سے مجھے کچھ نہ مل سکا، ایک دن میَں نے ڈاکٹر خالد ندیم کو فون کیا اور مدعا بیان کیا، لمحے بھرکو سوچا اور گویا ہوئے ، کچھ کچھ ذہن میں آرہا ہے، میں آپ کو ابھی تھوڑی دیر میں فون کرتا ہوں۔ مشکل سے پانچ منٹ بھی نہ گزرے ہوں گے میرے موبائل پر گھنٹی بجی، ڈاکٹر خالد ندیم گویا ہوئے آپ کا مطلوبہ مواد مجھے مل گیا، میں کچھ ہی دیر میں آپ کے ہاسٹل آتا ہوں۔ میں نے کہا میں آپ کا انتظار کررہا ہوں۔ فروری کا مہینہ‘ سردی اپنی بہاریں دکھا رہی تھی، سورج غروب ہونے کے بعد تو سردی زیادہ ہی شدید ہوجاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب سردی کی پروا نہ کرتے ہوئے میرے کمرہ میں آموجود ہوئے۔ کہنے لگے لیجئے آپ کی مشکل انشاء اﷲ آسان ہوجائے گی، یہ کہہ کر انہوں نے بڑے سائز کا ایک ذخیم مجلہ میرے ہاتھ میں تھمایا،یہ تھا ’’مجلہ راوی ۲۰۱۰ء‘‘جی سی یونیورسٹی لاہور کا خصوصی مجلہ،اس مجلہ میں گوشہ میرتقی میرؔ، گوشہ ن۔م۔راشدؔ، گوشہ ڈاکٹر عبدالوحید قریشی، گوشہ ڈاکٹر وزیر آغا کے علاوہ ’’گوشہ فرخندہ لودھی ‘‘ بھی تھا۔اس لمحہ میری خوشی کی انتہا نہ رہی، میری ایک ہم پیشہ کے بارے میں یہ گوشہ مرحومہ کی علمی و ادبی خدمات کا کھلا اعتراف تھا، ا ُسی لمحہ مجھے احسا س ہوا کہ اب میَں یقینا فرخندہ کو خراجِ تحسین پیش کر سکونگااور ایسا ہی ہوا، میَں نے فرخندہ پر اپنا خاکہ مکمل
کرلیا۔ ڈاکٹر خالد ندیم کی عنایتیں ہمیشہ یاد رہیں گی۔

اس موقع پر طارق کلیم اور اس کی محبتوں اور عنایتوں کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی، یہ ڈاکٹر تونسوی صاحب کے ایم فل کے شاگرد تھے انہوں نے تونسوی صاحب کے ساتھ ساتھ میرا اتنا ہی خیال رکھا جتنا وہ ڈاکٹر تونسوی کا رکھا کرتے تھے،گویا’ تمہیں چاہیں تمہارے چاہنے والوں کو چاہیں والی صورت تھی ‘ ۔ خوب اچھے اچھے اور لذیز کھانے کھلائے، یہ بھی سخت سردی میں موٹر سائیکل پر رات گئے آیا کرتے تھے، اسکول میں استادتھے، اکیڈمی میں بھی پڑھاتے تھے، صحافت سے بھی منسلک تھے، شاید اے آر وائی سے وابستہ تھے، مصروفیات کے با وجود اس قدر خیال ، طارق کلیم کے ایک اور عمل کو میَں کبھی بھلا نہیں سکو نگا ، اپنے استاد ڈاکٹر تونسوی کے فرمابردار تو تھے ہی اپنے استاد کے دوست کے ساتھ بھی ان کی مہر بانیاں اس بات کا واضع ثبو ت ہیں کہ ان کی تربیت اچھے ہاتھوں میں ہوئی ہے، ہوا یہ کہ سرگودھا میں قیام کے دوران میرے دانت میں تکلیف شروع ہوگئی جو بڑھتی ہی گئی، تونسوی صاحب نے طارق کلیم سے کہا کہ وہ مجھے ڈاکٹر کے پاس لے جائیں، طارق کلیم نے اگلے ہی دن آنے کے لیے کہا، وہ طے شدہ وقت پر آگئے مجھے اپنے ہمرہ ڈاکٹر صاحب کے پاس لے گئے،ڈاکٹر صاحب نے دانت دیکھا اور کہا کہ اس کا علاج یہی ہے کہ اسے نکال دیا جائے ورنہ یہ آپ کو مسلسل پریشانی میں مبتلا رکھے گا، تین دن کی دوا لکھ دی، اب مجھے تین دن بعد پھر ڈاکٹر صاحب کے پاس جانا تھا، طارق کلیم پھر طے شدہ وقت پر میرے شعبہ میں آموجود ہوئے، وہ مجھے پھر اُن ڈاکٹر صاحب کے پاس لے گئے، میرا دانت نکال دیا گیا، ڈاکٹر صاحب نے نہ تو پہلے فیس لی اور نہ ہی دوبارہ حالانکہ میَں نے طارق کلیم کو اشارہ بھی کیا جسے ڈاکٹر صاحب نے محسوس کر لیا کہنے لگے اشارے نہیں چلیں گے، بس ٹھیک ہے، ڈاکٹر صاحب طارق کلیم کے دوستوں میں سے تھے،جماعت اسلامی سے تعلق تھا ، طارق کلیم نے بتا یا کہ انہوں نے گزشتہ انتخابات میں جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر سرگودھا سے الیکشن بھی لڑا تھا اور کم ووٹوں سے ہار گئے تھے۔اچھے ڈاکٹر تو ہیں ہی ساتھ ہی نیک انسان بھی ہیں ، انہیں جب یہ معلوم ہوا کہ جامعہ سرگودھا میں استاد ہوں تو زیادہ محبت سے ملے۔

گرمیاں تھیں، میَں اور ڈاکٹر طاہر تونسوی صاحب ہاسٹل کے سامنے کرسیوں پر بیٹھے تھے، مغرب کے بعد کا وقت رہا ہوگا، فضاء میں زور دار دھماکہ ہوا، ساتھ ہی آسمان پر آگ کا گولا بھی ایک جانب سے دوسری جانب جاتا ہوا دکھا ئی دیا، ہم دوڑ کر اپنے کمرہ میں چلے گئے، ان دنوں پورا ملک دھماکوں اور خودکش حملوں کی لپیٹ میں تھا، سب لوگ پریشان تھے کہ یہ کس قسم کا دھماکہ ہوا ہے، اتنے میں کراچی سے فون آیا کہ ٹیلی ویژن پر پٹی چل رہی ہے کہ سرگودھا میں بم بلاسٹ ہوا ہے، میَں نے بتا یا کہ تاحال یہ معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ دھماکہ کس قسم کا ہے البتہ دھماکہ ضرور ہو ا ہے ،ہم خیریت سے ہیں۔ رات میں اطلاع ملی کے دھماکے کی وجہ بم بلاسٹ نہیں تھا بلکہ سرگودھا ایئر بیس سے ایف ۱۶ طیارے نے اپنی رفتار کو آواز سے تیز تر کیا یعنی (Sound barrier)عبور کیا جس کے باعث فضاء میں زور دار دھماکہ ہوا۔ یہ بات میرے علم میں پہلی بار آئی تھی کہ جب جہاز ساؤنڈ بیرئیر کراس کرتا ہے تو زور دار دھماکہ ہوتا ہے۔

حیات ہوٹل سرگودھا کے شاعروں اور دانشوروں کا مرکز بھی ہے، غالباً اس کے مالک ادبی ذوق رکھتے ہیں اور ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں کے قدر داں ہیں، یہاں ادبی محفلوں کا انعقاد بھی ہو تا ہے۔ ایک دن ڈاکٹر تونسوی صاحب نے کہا کہ آج محفل مسالمہ ہے اس میں جانا ہے، کہنے لگے کہ اگر آپ نے امام حسین کی شان بھی کچھ کہا ہے تو آپ کو بھی موقع مل سکتا ہے، میَں نے کہا کہ میَں صرف آپ کو اور دیگر احباب کو سنوں گا، مغرب کی نماز کے بعد ہم حیات ہوٹل پہنچ گئے، ایک چھوٹے سے کمرہ میں محفل مسالمہ کا اہتمام کیا گیا تھا، شاعر حضرات پہنچ گئے تھے، سب نے امام عالی مقام کی شان میں نذرانہ عقیدت پیش کیا، ڈاکٹر طاہر تونسوی صاحب ، عابد خورشید نے بھی اپنا کلام پیش کیا۔ دیگر شعراء میں مرتضیٰ حسن‘ ذوالفقار احسن‘ طارق حبیب‘ آصف راز‘ اخلاق عاطف کے علاوہ صاحبزادہ پروفیسرعبدالرسول صاحب بھی موجود تھے انہیں پہلی بار قریب سے دیکھنے کا اتفاق ہوا، سر گودھا کی تاریخ پر ان کی تحریر کردہ کتاب سے میَں استفادہ کرچکا تھا۔

جامعہ سرگودھا سے میری واپسی ایک ماہ قبل ہی طے ہوچکی تھی،کنٹر کٹ کے مطابق میَں نے ایک ماہ قبل انتظامیہ کو مطلع کردیا کے ۲۸ فروری ۲۰۱۱ء جامعہ میں میرا آخری ورکنگ ڈے ہوگا، ایسا ہی ہوا، یہ بات عام ہوئی کہ میَں جامعہ چھوڑ کر جارہا ہوں تو میرے کرم فرماؤں نے مجھے روکنے کی کس کس طرح درخواست نہیں کی، میرے دل میں ان سب کے لیے بہت احترام ہے، میرے عزیز طلبہ نے اجتمائی طور پر اورفرداًفرداً مجھ سے کہا کہ میَں اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کروں ، میَں ان سب کو اپنی مجبوریاں بتا تا رہا۔ میرے بعض طلبہ نے پروگرام بنا یا کہ وائس چانسلر صاحب کے پاس جاکر احتجاج کیا جائے ، یہ بات میرے علم میں آئی تو میَں نے ان طلبہ کو بہت سمجھا یا اورانہیں ایسا نہ کرنے کی تاکید کی، یہ مجھ سے محبت تھی، جمعہ کی نماز میں وائس چانسلر صاحب کے پی اے جناب مقصود صاحب سے ملاقات ہوئی ، انہوں نے فرمایا کے میرے پاس بعض لوگوں کے فون آئے ہیں ان کا کہنا ہے کہ ہم صمدانی صاحب کو نہ جانے دیں اور ان کی خواہش کے مطابق انہیں فیملی رہائش فراہم کریں، یہ میرے چاہنے والوں کی مجھ سے محبت تھی، احمد شاہ صاحب جو لائبریری میں تھے انہوں نے بھی مجھے بار ہا فیصلہ پر نظر ثانی کرنے کی درخواست کی، جب میَں نے انہیں اپنی مجبوری بتائی تو وہ مجھے سرگودھا شہر میں کئی مکان کرائے کے دکھانے کے لیے لے گئے، میَں ان کی اس محبت کو کبھی نہ بھلا سکونگا، میَں نے وائس چانسلر صاحب کے پی اے مقصود صاحب سے کہا کہ یہ مجھ سے محبت کرنے والوں کی مجھ سے چاہت ہے، میَں اس کی قدر کرتا ہوں، میرا نوٹس پیریڈ چل رہا تھا، وائس چانسلر صاحب اچانک لائبریری اور شعبہ میں آگئے، فاضل صاحب چھٹی پر تھے اور میَں قائم مقام چیٔر مین تھا، وائس چانسلر صاحب نے شعبہ کے مختلف حصے اور وہ کمرے دیکھے جو میڈیکل کالج کے لائبریری بلڈنگ سے منتقل ہوجانے کی صورت میں خالی ہوئے تھے، میَں وائس چانسلر صاحب کو تفصیل بتا تا رہا، وائس چانسلر صاحب کے علم میں یہ بات تھی کہ فاضل صاحب چھٹی پر بہاولپور گئے ہوئے ہیں۔ جب وائس چانسلر صاحب واپس جانے کے لیے لائبریری سے باہر آئے تو میرا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف لے گئے، کہنے لگے ۲۸ فروری کو آپ جارہے ہیں، اگر آپ رہائش کی وجہ سے جارہے ہیں تو ہم آپ کو یہ رہائش فراہم کردیتے ہیں، پھر انہوں نے اپنے پی اے کو اشارہ کیا اور کہا کہ صمدانی صاحب کو رہائش فراہم کریں،جب وہ یہ سب کچھ کہہ چکے تو میَں نے احترام سے عرض کیا کہ سرمجھے بعض مجبوریوں کے باعث جانا ہی ہوگا، آپ کا بہت شکریہ کہ آپ نے مجھے موقع فراہم کیا کہ میَں جامعہ میں آسکا، آپ کی اس عنایت کا بھی شکریہ۔

جامعہ سرگودھا کے شعبہ اردو نے سر گودھا جیسے شہر میں عالمی اردو کانفرنس کا انعقاد کیا، جس میں پاکستان ہی نہیں ‘ ہندوستان، بنگلہ دیش ، مصر، امریکہ سے دانشوروں نے بھر پور شرکت کی۔ کراچی سے سحر انصاری اور جامعہ کراچی کے ڈاکٹر ظفر اقبال نے شرکت کی، ان احباب سے ملاقات بھی ہوئی، سرگودھا کہنے کو تو شاہینوں کا شہرہے ‘لیکن عوام الناس کے لیے ائر پورٹ کی سہولت سے محروم ہے، یہاں پہنچنے کے لیے اسلام آباد ، لاہور، فیصل آباد سے تین گھنٹے کی مسافت طے کر نا پڑتی ہے۔اس مشکل کے باوجود عالمی اردو کانفرنس میں مندوبین نے بھر پور شرکت کی، مجھے بھی اس کانفرنس میں شریک ہونے کاموقع ملا،کئی سیشنز ہوئے جن میں ماہرین نے مقا لات پیش کیے، مشاعرہ بھی ہوا، شاعروں نے خوبصورت کلام پیش کر کے داد وصول کی۔پروفیسرڈاکٹر محمد اسلمؔ انصاری کے دو خوبصورت شعریاد رہ گئے ؂
میں نے روکا بھی نہیں اور وہ ٹھرا بھی نہیں
حادثہ کیا تھا جسے دل نے بھُلا یا بھی نہیں
وہ تو صدیوں کا سفر کر کے یہاں پہنچا تھا
تو نے منہ پھیر کے جس شخص کو دیکھا بھی نہیں

اپنے دوست ڈاکٹر طاہر تونسوی صاحب کی فرمائش پر میں نے اس کانفرنس کی تفصیلی روداد قلم کی، یہ روداد کراچی سے شائع ہوئے والے ادبی جریدہ ’’نگار پاکستان‘‘ کی اشاعت فروری ۲۰۱۲ء میں شائع ہوئی۔

میَں نے جامعہ سرگودھا کو خیر باد کہنے کا فیصلہ کر لیا، میرے سامنے دو راستے تھے ایک یہ کہ دو ماہ کی چھٹی لے لی جائے یا پھر استعفیٰ دے دوں ، مجھے وزٹ ویزا پر سعودی عرب جانا تھا، چھ ماہ سے پہلے میری واپسی ممکن نہیں تھی، چھٹیاں لینے کی صورت میں مجھے بار بار اپنی چھٹی بڑھوانا پڑتی، اس صورت میں طلبہ کا بھی نقصان ہوتا اور فاضل صاحب سے تعلقات خراب ہونے کا بھی اندیشہ تھا، فاضل صاحب لاکھ دوست صحیح مگر آفیسر پھر آفیسر ہوتا ہے ، میں ان کے لیے مشکلات پیدا کرنا نہیں چاہتا تھا چنانچہ فیصلہ کیا کہ استعفیٰ دے دیا جائے، یکم فروری کو میں نے ایک ماہ کا نوٹس دے دیا، مجھے ۲۸ فروری کے بعد میں جامعہ سے رخصت ہونا تھا۔ میرے دوست ڈاکٹر طاہر تونسوی صاحب یکم فروری کو سرگوددھا سے جی سی یونیورسٹی فیصل آباد چلے گئے، ایک ماہ ہاسٹل میں گزارنا میرے لیے مشکل ہوگیا۔ اس دوران میَں الوادعی دعوتیں کھاتا رہا جن کا ذکر اوپر کر چکا ہوں۔ میں یکم مارچ کو واپس کراچی آگیا۔سرگودھامیں گزرے میرے شب و روز میری زندگی کا قیمتی اور یادگار سرمایہ ہیں۔ انہیں میں کبھی بھلا نہیں سکوں گا۔اپنی ان یادوں کو سعودی عرب کی سر زمین میں جمع کرنے کا موقع ملا ، یہ میرے لیے اور بھی اعزاز ہے۔
(مصنف کی کتاب ’جھولی میں ہیرے اور موتی‘ ۲۰۱۲ء میں شامل)
جدہ، سعودی عرب ۲۰ اکتوبر۲۰۱۱ء، ۲۲ذیعقد ۴۳۲

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437136 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More