قابل رحم ہے وہ قوم...سیف و سبو

موت کا رقص بھی جاری ہے اور ساتھ ساتھ گیم ’’پلان‘‘ پر بھی عمل ہورہا ہے۔ لیکن قوم مسلسل بے ہوش ہے۔ خلیل جبران نے کہا تھا کہ ’’قابل رحم ہے وہ قوم جو جنازوں کے ہجوم کے سوا کہیں اور اپنی آواز بلند نہیں کرتی اور ماضی کی یادوں کے سوا اس کے پاس فخر کرنے کا کوئی اور سامان نہیں ہے اور یہی تو آج ہورہا ہے اور اب تو آواز بھی بلند نہیں ہورہی، جنازے اٹھاتے ہوئے صرف چیخیں ہی بلند ہوتی ہیں۔ پھر ہم جیسے لوگ اس وقت کو یاد کرتے ہیں کہ جب ہم واقعی ایک زندہ قوم تھے۔پاکستان ابھی اٹھارہ سال کا ہی ہوا تھا اور میری عمر صرف 8 سال تھی کہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ کا آغاز ہوگیا۔ جنگوں کے نتیجے میں قومیں ہلاک ہوجایا کرتی ہیں، لیکن اس جنگ کے نتیجے میں ہماری قوم زندہ ہوگئی۔ گھر گھر میں خندقیں کھو دی جانے لگیں۔ جوش و جذبہ ایسا کہ ہم جیسے بچوں نے اپنی ایک فوج بنالی، مجھے یاد ہے کہ میں نے اپنی والدہ مرحومہ سے کہا کہ وہ ہمیں کپڑے کی ’’بیلٹیں‘‘ بناکر دیں انہوں نے ہمیں کافی ساری ’’بیلٹیں‘‘ بنادیں، جس میں ہم نے ’’کچن نائف‘‘ اڑوس لیے اور پھر رات بھر محلے میں پریڈ کی صورت میں پہرہ دینے لگے۔ نجانے کس نے ہمیں بتا دیا کہ بھارت ہماری سرزمین پر اپنے جاسوس اتار رہا ہے۔ ویسے تو ہم رات کو قبرستان جانے سے ڈرتے تھے۔ لیکن اس وقت رات کو ہم بچے قبرستان کے اندر تک چلے جاتے تھے اور وہاں ہم بھارتی جاسوسوں کو تلاش کرتے تھے۔ ہمیں کوئی ڈر اور خوف محسوس نہیں ہوتا تھا۔ اس وقت ہم نے خود سے ایک ہتھیار بھی ایجاد کیا تھا، یہ جان کر آپ حیران ہوں گے کہ یہ ہتھیار بہت ہی سادہ تھا۔ دھاگے والی نلکی (اندرونی حصہ) کے ساتھ ربڑ لگاکر اور ’’کانے‘‘ (تیلے) کے آگے سوئی لگاکر اسے ایک تیر کمان کی شکل دے دی تھی۔ اس ہتھیار کو چلانے کی مشق کے دوران بچوں کی انگلیوں میں وہ سویاں اتر جاتی تھیں جنہیں وہ بھارتی جاسوسوں کے جسم میں اتارنے کی شدید خواہش رکھتے تھے۔ اس وقت پاکستان بہت ہی محدود وسائل کے ساتھ یہ جنگ لڑ رہا تھا۔ لڑاکا جہاز بھی نہیں تھے میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا کہ چکلالہ ایئر پورٹ سے سی 130 جیسے طیارے لگا تار چڑھتے اور اترتے تھے جن کے بارے میں معلوم ہوا تھا کہ وہ بطور لڑاکا طیارے استعمال ہورہے تھے۔ پوری قوم نہ صرف بیدار تھی بلکہ اس جنگ میں عملی طور پر شریک تھی، یہی وجہ تھی کہ 65 کی جنگ میں باوجود کمزور ہونے کے پاکستان سرخرو ہوا تھا۔آج بھی ایک جنگ جاری ہے۔ لڑائی ہورہی ہے، لیکن مجھے لگتا ہے کہ قوم جو مر رہی ہے اس جنگ میں حصہ دار ہی نہیں۔ دہشت گرد ہمارے وطن کا تیاپانچہ کررہے ہیں وہ جہاں چاہتے ہیں وہاں حملہ کرتے ہیں۔ ایئر بیسوں سے لے کر فوجی ہیڈ کوارٹر تک اور عام شہروں سے لے کر دارالحکومت اسلام آباد تک کچھ بھی ان کی دسترس سے باہر نہیں۔ حکومت ا ن کے سامنے بے بس اور محض مذاکرات کا راگ الاپ رہی ہے فوج بھی جیسے لاشیں ہی اٹھانے میں لگی ہوئی ہے عام لوگ بے حسی کا شکار نظر آتے ہیں، کسی بھی واقعہ سے یوں لاتعلق ہوجاتے ہیں، جیسے کہ مرنے والے مر گئے وہ تو زندہ ہیں۔

40 ہزار سے زائد ہم وطن موت کے اس رقص کی نذر ہوچکے ہیں۔ لیکن بحیثیت قوم ہمیں زندگی نہیں مل رہی۔ سب کچھ سہہ رہے ہیں، دیکھ رہے لیکن دن بدن مردہ ہوتے چلے جارہے ہیں۔ ایک دجال کو ہم پر مسلط کرنے کی سازش کی جارہی ہے اور دجالی و طالبانی شریعت کو ہم پر نافذ کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔ لیکن قوم خواب کی حالت میں ہے۔ کوئی تھوڑا سا ’’رسپانس‘‘ بھی نہیں دے رہی۔ ایک ماہ کی عارضی جنگ بندی کے دوران بھی ہمیں مارا جارہا ہے اور ہم خوش ہیں کہ چلو جنگ بندی کا اعلان تو ہوگیا۔ نہیں معلوم کہ یہ جنگ بندی بھی کسی گیم پلان کا حصہ ہے۔ دو مسلمان ممالک کے درمیان ہونے والی سردجنگ شام میں عملی جنگ کی صورت اختیار کرچکی ہے۔ ’’جیش اسلام‘‘ کے نام سے ایک فوج ترتیب دی جارہی ہے۔ جو شام میں بشارالاسد کی حکومت کے ساتھ جنگ کرے گی۔ بین الاقوامی سطح پر ایک غیر مصدقہ رپورٹ کے حوالے سے کہا جارہا ہے کہ اس فورس کی تربیت میں پاکستان مدد کررہا ہے اور اس کی تعداد پانچ ہزار سے 50 ہزار تک ہوسکتی ہے۔ اندرون خانہ رسائی رکھنے والے پاکستانی حلقوں میں یہ بات گردش کررہی ہے کہ گزشتہ چار سال سے ایک اسلامی ملک اس کوشش میں ہے کہ وہ پاکستان کی فوج کی خدمات حاصل کرے۔ دوسرے لفظوں میں انہیں اس معاملے میں پاکستانی فوج کی ضرورت ہے اور میاں نوازشریف کے برسراقتدار آنے کے بعد یہ دبائو بہت بڑھ گیا ہے۔ اسلامی دنیا میں تقریباً سب سے بڑی اور دنیا میں پاکستانی فوج چھٹے نمبر پر آتی ہے اور اسے ایک منظم ترین فوج سمجھا جاتا ہے۔ لیکن موجودہ حالات میں وہ اپنے ملک میں ہونے والی دہشت گردی سے نبرد آزما ہے اور یہی جواب پہلے اس اسلامی ملک کو بھی دیا جاتا رہا ہے۔ لیکن ایسی حالت میں اچانک تحریک طالبان کی جانب سے جنگ بندی کی خواہش کا اظہار شاید اسی گیم پلان کی ایک کڑی کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے اور بات یہاں پر ہی ختم نہیں ہوجاتی بلکہ ایک شخصیت اس اسلامی ملک کا دورہ کرتی ہے اور پھر طالبان کی طرف سے ایک ماہ کی جنگ بندی کا اعلان بھی سامنے آجاتا ہے۔ یہ ایسے سوالات ہیں جو خودبخود بین الاقوامی حالات پر نظر رکھنے والوں کے ذہن میں آجاتے ہیں۔ اب پاکستان کے موجودہ حکمران جو پہلے ہی اس ملک کے احسان کی دبیز چادر تلے سانس لے رہے ہیں۔ کیا وہ اپنی افواج بھیجنے سے کسی طور انکار کرسکیں گے، جبکہ حالات ان کے حق میں سازگار کیے جارہے ہوں اور دہشت گردوں کی ہجت بھی موجود نہ ہو؟ایسے موقع پر اس کے سوا اور کیا کہا جاسکتا ہے کہ قوم کو جاگنا ہوگا اپنے 65 والے جذبے کو پیدا کرنا ہوگا۔ یہ جنگ اگر جیتنی ہے تو پوری قوم کو زندہ ہونا پڑے گا۔ مردہ قومیں احساس سے عاری ہوجاتی ہیں اور ’’قابل رحم ہے وہ قوم جو جنازوں کے ہجوم کے سوا کہیں اور اپنی آواز بلند نہیں کرتی اور ماضی کی یادوں کے سوا اس کے پاس فخر کرنے کا کوئی اور سامان نہیں ہوتا۔‘‘

shafqat nazir
About the Author: shafqat nazir Read More Articles by shafqat nazir: 33 Articles with 32555 views Correspondent · Daily Jang London, United Kingdom.. View More