پاکستان پر بڑھتا ہوا امریکی
تسلط اور قومی سلامتی کے تقاضے
اندیشے، وسوسے اور وہ واہمے جس کا اظہار ہمارے دانشور، صحافی، سیاستدان اور
سابقہ فوجی اہلکار گزشتہ کافی عرصے سے بڑی شدت کے ساتھ کررہے تھے، بالآخر
آہستہ آہستہ حقیقت کا روپ دھار رہے ہیں اور پاکستان میں بڑھتی ہوئی امریکی
سرگرمیاں قومی سلامتی کیلئے تشویش اور تحفظات کے دائرے سے نکل کر نہ صرف اب
حقیقت کی خطرناک حدوں کو چھو رہی ہیں بلکہ ہر آنے والے دن کے ساتھ محب وطن
حلقوں میں یہ تاثر بھی پختہ ہوتا جارہا ہے کہ امریکہ پاکستان پر آہستہ
آہستہ اپنی گرفت مضبوط کررہا ہے، پاکستان جیسے زخم خوردہ ملک کیلئے امریکہ
کے ماضی پر نظر رکھنا، اُس کے حال کا باریک بینی سے جائزہ لینا اور مستقبل
کے عزائم کا فہم و ادراک رکھنا انتہائی ضروری ہے، لیکن کمزور ہونے کے خوف،
امریکی جارحیت کے ڈر، بھیک کیلئے پھیلے ہوئے کشکول اور حکمرانوں کے ذاتی
مفاد نے آج پاکستان کو اس مقام پر لا کھڑا کیا ہے جہاں سوچ، سمجھ اور قومی
مفادات کے تحفظ کے سارے تقاضے امریکی پالیسیوں اور مفادات کے تحفظ میں
مصروف عمل ہیں، حال ہے کہ سادہ لوح عوام کو دھوکہ اور فریب دینے کیلئے وہ
تمام اقدامات جن سے پاکستان کے مفاد ات پر شدید ضرب پڑتی ہے ”قومی مفاد“ کے
ملمع میں لپیٹ کر قوم کے سامنے پیش کئے جاتے ہیں اور ببانگ دہل یہ کہا جاتا
ہے کہ قوم کے وسیع تر مفاد میں حکومت نے یہ فیصلہ کیا ہے اور پھر ان فیصلوں
کے حق میں جو جواز اور تاویلیں تراشیں جاتی ہیں وہ خود ہی ساری حقیقت حال
کو واضح کررہی ہوتی ہیں، اس کی عملی مثال کراچی، پشاور اور اسلام آباد میں
بدنام زمانہ امریکی دہشت گرد تنظیم بلیک واٹر جو ”زی ورلڈ وائیڈ“ کے نام سے
چھپ کر کام کررہی ہے، کی موجودگی، اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کی
سولہ ایکڑ پر قلعہ نما توسیع اور میرنیز کی تعداد میں اضافے کی وہ خبریں
ہیں جو اوپر بیان کئے گئے پس منظر کا وہ پیش منظر پیش کررہی ہیں جس کا
اظہار یہ حلقے مسلسل کرتے رہے ہیں۔
دہشت گردی کیخلاف جنگ کے نام پر امریکہ نے افغانستان اور عراق کے مسلمانوں
کیخلاف جو کروسیڈ کا سلسلہ شروع کیا تھا، اب اس کا دائرہ پاکستان کے اہم
اور حساس علاقوں تک وسیع ہو چکا ہے، اس نام نہاد جنگ میں شمولیت کے بعد
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے بقول پاکستان 36 ارب ڈالر کا نقصان اٹھا چکا
ہے جبکہ امریکہ سے اب تک پاکستان کو بمشکل دس ارب ڈالر کی بھیک ملی ہے اور
اگلے پانچ سال کے دوران مزید ساڑھے سات ارب ڈالر کی خیرات ملنے کی امید ہے،
لیکن اس بھیک نما امداد کا چکمہ دے کر فنڈز خرچ کرنے کے نظام کی نگرانی اور
ممکنہ نتائج کے نام پر امریکہ نے اسلام آباد میں اپنی خفیہ ایجنسیوں، فوج
اور دیگر خفیہ اداروں کا وسیع و عریض نیٹ ورک قائم کرلیا ہے، گزشتہ روز
پاکستان میں امریکی سفیر این پیٹرسن نے یہ اعتراف بھی کیا کہ امریکہ اسلام
آباد میں 200 مکان کرائے پر لے چکا ہے اور وہ سفارت خانے میں توسیع کر کے
میرینز کی تعداد میں اضافہ کررہا ہے، اگرچہ امریکی سفیر نے انکی تعداد کم
بتائی ہے، مگر دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط پہلے ہی ان میرینز کی تعداد
ایک ہزار ظاہر کر چکے ہیں، اس کے علاوہ بدنام زمانہ امریکی دہشت گرد تنظیم
بلیک واٹر کے اہلکاروں کی کراچی، پشاور اور اسلام آباد جیسے اہم شہروں میں
موجودگی کی اطلاعات بھی منظر عام پر آچکی ہیں، جس کے سربراہ پر عراق میں
قتل اور عصمت دری کے کئی مقدمات چل رہے ہیں اور اب یہ تجربہ پاکستان میں
دوہرایا جارہا ہے، لیکن اس کا سب سے خطرناک ترین پہلو یہ ہے کہ ”بلیک واٹر“
کے ہرکارے ویزوں کے تکلف کے بغیر چارٹرڈ طیاروں میں پاکستان آتے ہیں اور ان
کی آمدورفت کا کوئی ریکارڈ پاکستانی انتظامیہ کے پاس نہیں ہے۔
یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ یہ پراجیکٹ امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے
زیر نگرانی کام کررہا ہے، جس کا مقصد بظاہر القاعدہ اور طالبان کے اہم
لیڈروں تک رسائی اور انہیں قتل کرنا ہے لیکن درحقیقت پس پردہ پاکستان کے
ایٹمی اثاثوں پر نظر رکھنا، چین اور ایران کے گرد گھیرا تنگ کرنا ہے،
بدقسمتی سے یہ سب کچھ دہشت گردی کیخلاف نام نہاد جنگ کے نام پر ہو رہا ہے،
جس کی وجہ سے نہ صرف پاکستان کی خودمختاری ختم ہو کر رہ گئی ہے بلکہ امریکی،
پاکستانی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں ان اطلاعات کے شائع ہونے کے بعد
کہ سی آئی اے نے پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں امریکہ کے مخالفین کو قتل
کرانے کے لئے ”بلیک واٹر“ نامی بدنام زمانہ تنظیم کی خدمات حاصل کرلی ہیں،
پاکستان کے سیاسی، سماجی، مذہبی اور صحافتی حلقوں میں شدید تشویش بھی ظاہر
کی جا رہی ہے، جبکہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بھارت اور اسرائیل
کے ملوث ہونے اور دہشت گردوں سے بھارتی اور امریکی اسلحہ برآمد ہونے کے بعد
پہلے سے سکیورٹی کو لاحق خطرات میں اضافہ ہو رہا ہے، بلیک واٹر تنظیم نے
عراق اور افغانستان میں جو قتل عام کیا ہے، اسے امریکی ذرائع ابلاغ نمایاں
انداز میں سامنے لا چکے ہیں، اس تنظیم سے عراق میں جاسوسی اور مخالفین کو
قتل کرانے کا جو کام سی آئی اے نے کرایا ہے، اس پر امریکہ کے اندر بھی
تنقید ہو رہی ہے، سینٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے چیئرمین جان کیری بلیک
واٹر کے بارے میں تفصیلات طلب کر چکے ہیں، جبکہ سینٹ ارکان کی طرف سے سی
آئی اے کو مطعون کیا جارہا ہے کہ امریکی پرائیویٹ کمپنی کو بدستور جاسوسی
کے ٹھیکے دینے کے مقاصد کیا ہیں، قارئین کو یاد ہوگا کہ پاکستان میں بلیک
واٹر کا نام اسلام آباد میں میریٹ دھماکے کے وقت سامنے آیا تھا اور اس وقت
بعض اخبارات و جرائد نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ اس دھماکے میں ”بلیک واٹر“ کے
اہلکار مارے گئے، تاہم اب جبکہ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کو
بلاجواز توسیع کی جا رہی ہے اور ایک ہزار میرینز کے تعیناتی کی اطلاعات گشت
کر رہی ہیں، بلیک واٹر کی اسلام آباد میں موجودگی اور قبائلی علاقوں میں
کارروائیوں کے انکشاف سے عوام میں تشویش اور قومی سلامتی کو درپیش خطرات
اورپاکستان میں بڑھتی ہوئی امریکی دخل اندازی کی وجہ سے عوام میں امریکہ
نفرت جذبات اور اشتعال میںاضافہ بھی ہو رہا ہے۔
امریکی سفارتخانے کی توسیع کے حوالے سے میڈیا میں جو کچھ بیان کیا جارہا ہے
وہ سب درست ہے یا غلط، اس سے قطع نظر حقائق یہ بتاتے ہیں کہ جو کچھ زبان
خلق کہہ رہی ہے وہ صحیح اور سو فیصد درست ہے، افغانستان میں موجود امریکی
افواج کی کارگزاری اور پھر پاکستان پر نظر رکھنے کی امریکی پالیسی کے ساتھ
ساتھ چین کو لگام ڈالنے کی امریکی خواہش کے پس پشت جو عوامل کار فرما ہیں،
امریکی سفارتخانے کی توسیع اس کا پہلا قدم ہے، پاکستان کی یہ بدقسمتی رہی
ہے کہ اسے کبھی ٹالبوٹ کبھی رچرڈ باؤچر تو کبھی ہالبروک سے واسطہ پڑتا رہا،
یہ تھرڈ کلاس امریکی اہلکار جس شاہانہ طریقے سے پاکستان آتے رہے اور جس طرح
ہمارے فوجی اور عوامی حکمران ان کے سامنے” لائن حاضر“ ہوتے رہے، اس سے ان
کی غلامانہ ذہنیت صاف عیاں ہے، یہاں یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ
امریکہ کو صرف اپنے مفادات سے دلچسپی ہے، نا اس کی کسی سے دوستی رہی ہے اور
نا ہی اسے کسی سے دوستی عزیز ہے، بلکہ وہ اپنے مفادات کیلئے ہمیشہ ہمارے
حکمرانوں کو استعمال کرتا رہا ہے، عجب طرفہ تماشا ہے کہ کل تک جس دہشت گردی
کا منبع اسے افغانستان اور عراق میں نظر آتا تھا اب اسے اس دہشت گردی کے
سارے سوتے پاکستان سے پھوٹتے نظر آرہے ہیں، جس کی وجہ سے اسے بلیک واٹر کی
مدد، میرینز کی تعداد میں اضافے اور اسلام آباد میں فوجی چھاؤنی کی ضرورت
پیش آرہی ہے، لیکن ہمارے حکمران اس حوالے سے بالکل خاموش تماشائی بنے ہوئے
ہیں اورعوام کو اس توسیع، بلیک واٹر کی موجودگی اور بڑھتی ہوئی امریکی
سرگرمیوں کے بارے حقائق بتانے سے گریزاں ہیں، مگر عوام امریکی غلامی کی اس
صورتحال سے اتنے متنفر ہوچکے ہیں کہ وہ موجودہ حکومت کو پرویز مشرف کی
پالیسیوں کا تسلسل اور صرف چہروں کی تبدیلی سمجھتے ہیں۔
پاکستان میں پہلے ہی ڈرون حملوں اور دیگر اقدامات کی وجہ سے امریکہ کیخلاف
نفرت کے جذبات شدید ہیں، جس کا اعتراف خود امریکی سفیر کے علاوہ رچرڈ
ہالبروک اور مائیک مولن بھی کر چکے ہیں، اس لئے اتنی بڑی تعداد میں
امریکیوں کی وفاقی دارالحکومت میں موجودگی بذات خود نہ صرف سیکورٹی مسائل
کا باعث بنی رہے گی، بلکہ اس سے عام شہریوں کو بھی خطرات لاحق رہیں گے، اس
کا تازہ ثبوت وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے سیکٹر جی نائن میں 4 امریکی
میرینز جو کہ خطرناک اسلحے سے لیس اور سفارت خانے کی تبدیل شدہ نمبر پلیٹ
والی گاڑی پر سوار تھے کی ایک افغان باشندے کے ساتھ ناروا سلوک پر پاکستانی
حکام کے ہاتھوں گرفتاری اور امریکی سفارت خانے کی مداخلت پر رہائی ہے، اُس
امریکی متکبرانہ اور توہین آمیز رویے کی وجہ سے جس کا اعتراف مائیک مولن نے
اپنے مضمون میں کیا، عالم اسلام میں نفرت اور اشتعال موجود ہے، لیکن
پاکستان میں یہ سب سے زیادہ ہے، اس لئے امریکہ برطانیہ کی طرف سے پاکستان
کو دہشت گردی کیخلاف جنگ کی صلاحیت بڑھانے اور مزید کردار ادا کرنے کی ہلہ
شیری کسی بھی لحاظ سے اطمینان بخش نہیں، بلکہ یہ پاکستان کو مسلسل حالت جنگ
میں رکھ کر سیاسی، معاشی اور اقتصادی عدم استحکام کا شکار کرنے اور پاک فوج
کو اپنے ہی عوام کیخلاف الجھائے رکھنے کی سازش ہے، امریکہ نے اب تک پاکستان
سے جو کام لیا ہے، اس کے عیوض ناروا شرائط کے ساتھ آئی، ایم ایف کے قرضوں
میں اضافے، قومی سطح پر ہیجان اور خلفشار اور سلامتی کے مسائل کے سوا کچھ
نہیں ملا اور اگر کچھ ملا بھی ہے تو اسے اپنے ہی مسلمان بھائیوں کیخلاف
کارروائیوں سے مشروط کردیا گیا، یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ سوات کی
طرح قبائلی علاقوں میں حالات کی خرابی میں امریکی، بھارتی، اسرائیلی خفیہ
ایجنسیوں کا کردار ہے، تاکہ پاک فوج مسلسل پھنسی رہے اور شیطانی اتحاد
ثلاثہ ہمارے ایٹمی پروگرام، اسلامی تشخص اور قومی سلامتی کیخلاف اپنی
سازشوں کو یکسوئی سے پروان چڑھا سکے۔
گزشتہ چند ماہ کے دوران پاکستان میں امریکی سینٹ ڈیپارٹمنٹ اور پینٹگان کے
عہدیداروں کی آمد و رفت میں جو اضافہ دیکھنے کو ملا ہے، اسے قومی حلقے
پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت کے ساتھ کسی نئی سازش کا پیش
خیمہ اور افغانستان اور پاکستان کے بارے میں نئی امریکی اسٹرٹیجی نتیجہ
قرار دے رہے ہیں، دوسری طرف اوبامہ حکومت کی طرف سے افغانستان میں بیس ہزار
سے زائد نئے فوجیوں کی پاک افغان سرحد پر تعیناتی اور آپریشن میں توسیع کے
بعد پاکستان میں طالبان جنگجوﺅں کے منتقل ہونے کا خدشہ بھی بڑھ گیا ہے،
لیکن تمام تر پاکستانی تحفظات اور اندیشوں کے باوجود امریکہ اپنے مفادات
کیلئے پاکستان پر مسلسل دباﺅ ڈال رہا ہے کہ پاکستانی فوج سوات طرز کا
آپریشن وزیرستان میں بھی کرے، ظاہر ہے کہ یہ صورتحال پاک فوج کی قیادت کو
ہرگز قبول نہیں اور وہ امریکی عہدیداروں کو باور کرانے میں مصروف ہے کہ وہ
پاک افغان سرحد پر نئے امریکی فوجیوں کی تعیناتی سے پیدا شدہ صورتحال کی
بہتری، افغانستان کا مسئلہ طاقت کے بجائے مذاکرات سے حل کرنے، ڈرون حملے
بند کرنے، وزیرستان میں فوجی آپریشن پر اصرار نہ کرنے اور اسلام آباد کے
سفارت خانے کو سفارت خانہ رہنے دینے کے اقدامات کرے، حقیقت یہ ہے کہ امریکہ
کا ایجنڈا اب کسی سے مخفی نہیں رہا، وہ اسلام، مسلمانوں اور پاکستان کے
دشمنوں بھارت اور اسرائیل کا حقیقی دوست اور خیرخواہ ہے اور یہ تینوں ممالک
اپنے دیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کر اس پاکستان مخالف ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں
جس کا مقصد پاکستان کو ایک نئی امریکہ کالونی میں تبدیل کرناہے، لہٰذا دہشت
گردی کی نام نہاد جنگ کی اس دلدل سے نکلنے کی کوشش ضروری ہے، جس پر 36 ارب
ڈالر اپنے پلے سے خرچ کر کے ہم نے سوائے ذلت و رسوائی، عدم استحکام، سلامتی
کیلئے خطرات کی فصل کاشت کرنے کے اور کچھ نہیں پایا، چنانچہ عقل مندی اور
قومی مفاد کا تقاضہ یہ ہے کہ امریکہ پر یہ باور کرادیا جائے کہ اب ہم مزید
اس کارزیاں کو جاری نہیں رکھ سکتے۔
حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کی نظریں ایک طرف پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں پر
مرکوز ہیں تو دوسری طرف وہ اپنے مفادات کیلئے قبائلی علاقوں سے بلوچستان تک
جو خوفناک کھیل ،کھیل رہا ہے، اس سے پاکستان کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق
ہیں، یہاں یہ بات بھی انتہائی حیرت ناک ہے کہ جن امریکیوں کو ناپسندیدہ
قراردے کر پاکستان سے نکالا گیا تھا، ان کو دوبارہ ویزا دے کر پاکستان بھیج
دیا گیا، ایسے ہی ایک شخص نکولس شمیڈل کو جو بظاہر صحافی تھا مگر اس کی
سرگرمیاں مشکوک تھیں پاکستان سے نکالا گیا تو اگلے ہی ہفتہ امریکہ میں
پاکستانی سفیر حسین حقانی نے اس کو ویزا دے کر پھر واپس پاکستان بھجوا دیا،
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر وہ شخص مشکوک سرگرمیوں میں ملوث نہیں تھا تو
اسے نکالا کیوں گیا اور اگر وہ جاسوسی میں ملوث تھا تو حسین حقانی نے اس پر
خصوصی نظر کرم کیوں فرمائی؟ تمام محب وطن حلقوں کے واضح خدشات اور تحفظات
کے باوجود پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کا یہ کہنا کہ اسلام آباد
میں امریکی سفارت خانے کی توسیع پر مجھے کوئی پریشانی نہیں، نہ صرف باعث
حیرت و استعجاب بلکہ قومی مفادات پر ذاتی مفاد کو ترجیح دینے کے مترادف ہے،
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی سترہ کروڑ عوام کو امریکی سرگرمیوں اور مستقبل
کے حوالے سے خوفناک سازشوں پر شدید پریشانی لاحق ہے، امریکہ جن مقاصد کو لے
کر آگے بڑھ رہا ہے، اس سے اب ہمارے عوام اچھی طرح واقف ہوچکے ہیں، لیکن
امریکہ کے خطے میں واضح خطرناک عزائم اور سازشوں کے طشت ازبام ہونے کے بعد
ہمارے سیاستدانوں اور حکمرانوں کی بے حسی دیکھ کر قوم سراپا احتجاج اور
سوالی ہے کہ کب تک ہمارے حکمران اور سیاستدان امریکہ کے آگے جی حضوری کا
سلسلہ جاری رکھتے ہوئے ملک و قوم کے مستقبل کو غلامی کے اندھیروں کے حوالے
کرتے رہیں گے، وقت کا تقاضہ یہ ہے کہ ارباب اقتدار پاکستانی سر زمین کو
امریکی سازشوں کی مزید آماجگاہ بننے سے بچانے کیلئے پاکستانی عوام، سیاسی و
مذہبی حلقوں اور پاک فوج کی قیادت کے تحفظات کی روشنی میں فوری اقدامات
کریں، کیونکہ قوم گزشتہ 62 سالوں سے جاری امریکہ کی پاکستان کے سیاسی،
داخلی، عسکری، معاشی اور سماجی شعبوں میں اس مداخلت کا خاتمہ چاہتی ہے جو
پاکستان کے وجود، سالمیت، تحفظ استحکام اور بقاء کیلئے ناگزیر ہے۔ |