گزشتہ چند سالوں سے پاکستان میں تھری جی لائسنس کی نیلامی
کا بہت چرچا ہے، اور اب تو حکومتی اعلان کے مطابق تھری جی کے ساتھ فور جی
لائسنس بھی فروخت کیے جائیں گے۔ لیکن آخر یہ تھری جی اور فور جی ہے کیا بلا؟
اور اس ٹیکنالوجی کے آنے یا نہ آنے سے پاکستانی عوام کو کیا فائدہ یا نقصان
ہوگا؟
تھری جی کے بارے میں جاننے سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ اصل میں یہ ’جی‘ کیا چیز
ہے؟ اس سے مراد موبائل ٹیکنالوجی کی جنریشن ہے، جس میں ٹاور میں نصب سامان
اور موبائل فون دونوں شامل ہیں۔ 1980 میں وائرلیس (موبائل) ٹیکنالوجی کی
پہلی نسل متعارف کروائی گئی۔ ون جی میں اینالاگ ٹیکنالوجی کا استعمال کیا
گیا اور ہوا کے دوش پر صوتی پیغامات پہنچانے کی سہولت سب سے پہلے جاپان میں
فراہم کی گئی۔
|
|
1991 میں فن لینڈ میں 2G ٹیکنالوجی کا آغاز کیا گیا اوراس میں ڈیجیٹل GSM,
CDMA اور دیگر موبائل کمیونیکیشن سٹینڈرڈز کی بنیاد رکھی گئی۔
2G میں صاف وائس کالز کے ساتھ ساتھ ایس ایم ایس، پکچر میسجز اور MMS جیسی
سروسز کا بھی آغاز کیا گیا۔ پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں آج بھی
موبائل کمیونیکیشن کے لیے یہی ٹیکنالوجی استعمال کی جارہی ہے۔
بعد ازاں موبائل انٹرنیٹ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے تیز رفتار
GPRS اور EDGE سروسز متعارف کروائی گئی جسکی بدولت موبائل پر انٹرنیٹ کی
زیادہ رفتار حاصل کی جاسکتی ہے۔ اسے عام طور پر تھری جی اور ٹو جی کے
درمیانی ٹیکنالوجی جانا جاتا ہے اور اسکا نام 2.5G رکھا گیا ہے۔ پاکستان کے
بڑے شہروں میں EDGE سروس دستیاب ہے۔ اس وقت جی پی آر ایس سروس کے ذریعے
صارفین کو 15 سے 20 کلو بائیٹ فی سیکنڈ کی رفتار فراہم کی جاتی ہے۔
|
|
تھری جی ٹیکنالوجی کا آغاز 2001 میں جاپان میں کیا گیا، پرانی ٹیکنالوجی کے
مقابلے میں تھری جی زیادہ تیز رفتار ڈیٹا ٹرانسفر اور بہتر نیٹ ورک سروسز
فراہم کرتی ہے۔
تھری جی کے ذریعے موبائل صارفین کو تیز رفتار براڈبینڈ انٹرنیٹ فراہم کیا
جاسکتا ہے۔ اس ٹیکنالوجی کی مدد سے آپ موبائل فون پر ویڈیو سٹریمنگ، لائیو
ٹیلی ویژن، ویڈیو کانفرنسنگ، تیز رفتار انٹرنیٹ براؤزنگ اور دیگر سروسز
حاصل کرسکتے ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ EVO اور WiMAX بھی دراصل تھری
جی ٹیکنالوجی ہی ہیں۔
تھری جی کے تحت صارفین کو 512Kbps سے 3.1Mbps تک انٹرنیٹ سپیڈ فراہم کی
جاسکتی ہے۔ یعنی جتنی سپیڈ پی ٹی سی ایل کی ایوو سروس آپ کو فراہم کرتی ہے
آپ اب اتنی سپیڈ اپنے موبائل پر حاصل کرسکتے ہیں اور اسکی مدد سے سکائپ،
وائبر اور دیگر انٹرنیٹ سروس بلا تعطل استعمال کرسکیں گے۔ یعنی اب صارفین
کو موبائل پر انٹرنیٹ استعمال کرنے کے وائی فائی کا محتاج نہیں رہنا پڑے گا،
اور آپ جب چاہے جہاں چاہے موبائل پر تیز رفتار انٹرنیٹ استعمال کرسکیں گے۔
فور جی اس وقت سب سے تیز رفتار موبائل کمیونیکیشن ٹیکنالوجی ہے۔ اس
ٹیکنالوجی کے ذریعے جہاں روایتی کالز، ایس ایم ایس اور ایم ایم ایس جیسی
سہولیات حاصل کی جاسکتی ہیں وہیں آپ 100Mbps تیز رفتار موبائل براڈبینڈ کی
سہولت بھی حاصل کرسکتے ہیں۔ فور جی میں IP-based وائس کالز، آن لائن گیمنگ
اور ایچ ڈی سٹریمنگ کے فیچرز شامل ہیں۔ یہ سروس اس وقت دنیا کے گنے چنے
ترقی یافتہ ممالک میں میسر ہے اور اسکے تحت صارفین زیادہ تر موبائل انٹرنیٹ
کا ہی استعمال کرتے ہیں۔
یہاں یہ بات نوٹ کرلیجئے کہ ہر نئی موبائل جنریشن کے لیے موبائل ٹاورز اور
موبائل فون کو اپ گریڈ کرنا لازمی ہے۔ اگر آپ کے پاس تھری جی فون ہے تو آپ
اس پر فور جی ٹیکنالوجی استعمال نہیں کرسکتے۔ لیکن اگر آپ کے پاس فور جی
فون جیسے آئی فون 5S یا گلیکسی ایس 4 ہے تو آپ اسے نہ صرف فور جی نیٹ ورک،
بلکہ تھری جی یا جی پی آر ایس کے ساتھ بھی استعمال کرسکتے ہیں۔
پاکستان میں اس وقت موجودہ جی پی آر ایس اور نئی آنے والی تھری جی / فور جی
ٹیکنالوجی میں انٹرنیٹ کی رفتار کا موازنہ اس چارٹ میں ملاحظہ کیجئے-
|
|
اس وقت تھری جی سروس دنیا کے کم و بیش ڈیڑھ سو سے زائد ممالک میں موجود ہے
تاہم فور جی سروس فراہم کرنے والے ممالک گنے چنے ہی ہیں۔ پاکستان میں اس
وقت تین ٹیلی کام کمپنیاں فوری طور پر تھری جی سروس شروع کرنے کی صلاحیت
رکھتی ہیں۔
یہاں یہ بات یاد رکھیں کہ اس نئی سروس سے صارفین کو فائدہ تو پہنچے گا تاہم
یہ کچھ سستی نہ ہوگی۔ جس طرح براڈ بینڈ انٹرنیٹ پہلے پہل کافی مہنگا تھا
اسی طرح تھری جی پیکجز کی قیمت بھی کافی زیادہ مقرر کی جائے گی۔ |