بسم اللہ الرحمن الرحیم

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمدللہ۔ ہم سب مسلمان ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ قرآن اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی آخری کتابِ ہدایت ہے لیکن سچ تو یہ ہے کہ ہم ایک عام مشین کی اوپیرٹنگ مینویل کے برابر بھی اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ہم تو بس جلدی جلدی قرآن ختم کرکے زیادہ سے زیادہ ثواب بٹورنا چاہتے ہیں۔ ہمارے ذہن میں بچپن سے صرف یہی تو ڈالا گیا ہے۔ ہمیں کب بتا یا گیا ہے کہ قرآن ہماری اپنی اور ہمارے ملک و معاشرے کی اوپریٹنگ مینویل (Operating Manual) ہے ‘ ہمیں اس کو سمجھنا ہے‎‘ اس کے مطابق اپنے دل و دماغ کو اوپریٹ (operate) کر نا ہے اور اسی کے مطابق سماج میں زندگی گزارنا ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ قرآن مجید میں ہر سورت ’ بسم اللہ الرحمن الرحیم ‘ شروع ہوتا ہے۔ ہر سورت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے تمام انسانیت کی فلاح و بہوبود کے لئے احکامات بتائیں ہیں۔ ہم نے نا جانے کتنے بار قرآن پڑھا ہوگا اور ہر سورت کے شروع میں ’بسم اللہ ‘ بھی پڑھا ہوگا لیکن کیا ہم نے کبھی غور بھی کیا کہ ہمارے رب نے ہر سورت کا آغاز ’بسم اللہ ‘ سے ہی کیوں کیا؟ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس افتتاحیہ کلمہ سے اپنے بندوں کو کیا سمجھانا چاہا ہے؟ ہمارے رب کی اس میں کیا حکمت ہے؟

چلئے آج سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ہر سورت کو ’’بسم اللہ ‘‘سےشروع کرنے میں ا پنے رحیم و کریم رب کی حکمت۔

’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘ جس کے اردو میں معنی ہے ’’ شروع کرتا / کرتی ہوں اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔‘‘

بسم اللہ میں’ اللہ‘ اسم ذات ہے جس کا کویٴ ہمنام‘ ہم پلہ یا ہمسر نہیں۔ یہ نام صرف اور صرف ذاتِ وحدہ و لا شریک کی ہے۔ جیسا کہ اس نے خود بیان کیا ہے۔

رَّبُّ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَمَا بَيْنَهُمَا فَاعْبُدْهُ وَاصْطَبِرْ لِعِبَادَتِهِ ۚ هَلْ تَعْلَمُ لَهُ سَمِيًّا ﴿٦٥﴾ سورة مريم
’’ (وہ اللہ) آسمانوں اور زمین کا اور جو کچھ ان دو کے درمیان ہے (سب) کا رب ہے پس اس کی عبادت کیجئے اور اس کی عبادت میں ثابت قدم رہئے، کیا آپ اس کا کوئی ہم نام جانتے ہیں۔‘‘

تو بسم اللہ کہتے ہی ہمارے ذہن میں آنا چاہئے کہ
ہم اُس ’ اللہ‘ کے نام سے شروع کرتے ہیں جو نا صرف ہمارا بلکہ آسمانوں اور زمین اور جو کچھ بھی ان کے درمیان ہے سب کا خالق‘ مالک‘ رازق‘ اور رب ہے جو لا محدود وسعتوں ‘ لا محدود برکتوں ‘ لا محدود خزانوں والا ہے اور اسکی لا محدود علم ، حکمت ، عظمت ، قدرت …. غرض کہ تمام لا محدود صفات الہیہ اسی با برکت نام میں پنہا ہے‘ جو مثال سے پاک ہے‘ جو شریکوں سے منزہ ہے‘ جس نے اپنے بندے کو ہدایت دینے اور اسکی اصلاح کرنے کیلئے قرآن کی یہ سورت ہمیں پڑھنے کی توفیق دی۔

الرحمن الرحیم
اور رحمن و رحیم ’ اللہ ‘ کے صفاتی نام ہیں۔ لیکن سمجھنے کی بات یہ ہے کہ اس لا محدود علم ، حکمت ، عظمت ، قدرت والے اللہ نے ہر سورت کے آغاز میں ’ رحمن و رحیم ‘ ہی کو کیوں مقدم رکھا اس کے تو اور بھی بہترین نام ہیں۔ جیسے کہ اس نے ہمیں خود بتایا ہے۔

هُوَ اللَّـهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ ۖ لَهُ الْأَسْمَاءُ الْحُسْنَىٰ سورة الحشر
’’ وہی اللہ ہے پیدا کرنے واﻻ وجود بخشنے واﻻ، صورت بنانے واﻻ، اسی کے لیے (نہایت) اچھے نام ہیں۔‘‘

رحمن اور رحیم رحمت سے مشتق ہے اور رحمت دو قسم کی ہوتی ہے۔ ایک عام ہے جو دوست دشمن سب کے لےٴ ہے اور دوسرا خاص جو دوستوں کے ساتھ خاص ہے۔ رحمٰن پہلے معنی کو شامل ہے کہ اللہ کی رحمت عام ہے۔ دوست ہو یا دشمن‘ مومن ہو یا کافر‘ نیک ہو یا بد سب کو اللہ نے پیدا کیا اور سب کو اپنی رحمتوں کے سائیے میں گھیرے ہوئے ہے۔ اور رحیم دوسری قسم کیلئے خاص ہے۔یعنی صرف دوست کیلئے‘ صرف ایمان والوں کیلئے ہے ۔ تو اِن دونوں میں عام خاص کی نسبت ہویٴ یعنی جو رحمٰن ہوگا وہ رحیم ضرور ہوگا لیکن رحیم کیلئے رحمٰن ہونا ضروری نہیں۔ لفظ ’رحمن‘ کا اطلاق اللہ کے علاوہ کسی پر نہیں ہوتا۔
لہذا ’’ بسم اللہ ‘‘ کو ہر سورت کے آغاز میں پڑھنے یا سننے والے کو معلوم ہو کہ اس سورت میں بیان کردہ احکامِ الہیہ ’ رحمت ‘ پر مبنی ہے۔ اللہ الرحمن الرحیم کے طرف سے ہے اور اس کے بندے کے لےٴ رحمت ہی رحمت ہے۔ یہ رحمت ہے اِن احکامات کو ماننے والے کیلئے بھی اور اِنکار کرنے والے کیلئے بھی کیونکہ کافر بھی اِن ہی رحیمانہ احکامات سے رحمتِ الٰہی میں ہے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے جا بجا خود ہی فرمایا ہے۔

كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۖ سورة الأنعام
" تمہارے پروردگار نے اپنے اوپر رحمت لازم قرر دے لی ہے۔"
کسی بھی سورت کے احکام پہ غور کرتے جائے اور رحمت کے نظارے دیکھتے جائے۔ اگر ہم صرف عوام الناس میں معروف احکامات پہ نظر ڈالیں جیسے:
نماز
نماز کو لیجئے 24 گھنٹے میں صرف پانچ نمازیں فرض ہیں اور پچاس کا ثواب ملتا ہے‘ پڑھنے میں قریب ایک گھنٹہ لگتا ہے۔ 24 گھنٹے میں سے ایک گھنٹہ نکالنا کون سا مشکل ہے۔ صرف ایک گھنٹہ اللہ کی عبادت کے لئے نکالیں۔ 23 گھنٹے اپنی لائف انجوئے کریں۔ کیا یہ رحمت نہیں ہے ؟ اگر الٹ ہوتا یعنی 23 گھنٹے نمازیں پڑھنی پڑتی تو یہ زحمت ہوتا۔

روزہ
روزہ سال بھر میں صرف ایک مہینہ فرض ہے۔ گیارہ مہینہ کھالو ‘ پیلو اور جیلو ۔ اللہ کا قانون نہیں روکتا۔ اگر کہیں گیارہ مہینے روزے رکھنے پڑتے تو یہ زحمت مانا جاتا۔ لیکن میرے رب جو الرحم لراحمین ہے ہمارے ساتھ رحمت کا معاملہ کیا اور صرف ایک مہینہ روزہ فرض کیا۔ اسکی طبی فوئد الگ ہیں۔

زکات
زکات کا حکم صرف نصاب کے دائرے میں آ نے والے مالداروں پر ہے‘ غریبوں پر نہیں۔ نصاب کتنا قلیل و حقیر ہے اور فائدہ کتنا زیادہ ‘ مال کو پاک کرتا ہے‘ چوری اور ڈاکے سے حفاظت کرتا ہے۔ سال میں صرف ایک بار ایک معمولی سا حصہ‘ جو کسی طرح بھی مالدار پہ بار نہیں ہوتا اور غرباء و مالدار‘ دونوں پہ رحمت ہی رحمت ہے۔ اس سے غریب کے دل میں مالدار کے خلاف نفرت پیدا نہیں ہوتا اور مالدار غریب کی مدد کر کے جو خوشی خوشی محسوس کرتا ہے وہ انمول ہے۔ معاشرے کا میزان برقرار رکھنے کا کتنا اچھا نظام۔
اگر یہ نصاب بہت زیادہ ہوتا یا غریب و امیر دونوں پہ زکات کا حکم ہوتا تو زحمت کہلاتا لیکن ہمار ے پروردگار ہمارے لئے اسے رحمت بنا دیا۔

حج
حج زندگی میں صرف ایک بارصرف امیروں کیلئے ہے غریب کیلئے نہیں ۔اگر ہر سال حج کرنا پڑتا یا غریب و امیر دونوں کیلئے ہو تا تو زحمت ہوتا ۔ لیکن میرے رب کی رحمت یہاں بھی کار فرماں ہے۔

ہمارا رب الرحمن الرحیم ہے۔ اس کی ہر بات‘ ہر حکم میں ہمارے لئے رحمت ہی رحمت ہے۔ آج کے دور میں جدید علوم نے ان سارے احکامات کے جو طبی ‘ معاشی اور معاشرتی فوائد بتائے ہیں اس سے ایک عام کافر و مشرک بھی ہمارے رب کی بے بہا رحمتوں کو آسانی سے سمجھ سکتا ہے۔

ہمارے رب نے ہمیں پیدا کرکے یوں ہی نہیں چھوڑ دیا۔ ہماری چھوٹی بڑی ہر ضرورت کا خیال رکھا۔ ماں کی اندھرے پیٹ میں زندگی کی تحفظ سے لے کر شرک و کفر کی ظلمات سے بچانے تک‘ ہماری رہنمایٴ کی۔ ہمیں ہدایت دینے کے سارے انتظامات کئے۔ ہمیں کسی ایرے غیرے پیر فقیر کے حوالے نہیں کیا اور نہ ہی ہمیں ہمارے اپنے نفس کے حوالے کیا۔

ہمارا رب ’ رَبِّ الْعَالَمِينَ‘ ہے اور ہمیں جن کے حوالے کیا‘ جن کی اتباع کا حکم دیا انہیں ’’ رحت للعالمین ‘‘ (صلی اللہ علیہ و سلم) بنا کر بھیجا۔

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ ﴿١٠٧﴾ " اور ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لئے صرف رحمت بناکر بھیجا ہے۔ " سورة الأنبياء

اور ہمارے لئے آپ ﷺکے خیر خواہی کے جذبات کچھ یوں بیان کیا ہے:

لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِكُمْ عَزِيزٌ عَلَيْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِيصٌ عَلَيْكُم بِالْمُؤْمِنِينَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ﴿١٢٨﴾ سورة التوبة
" بیشک تمہارے پاس تم میں سے (ایک باعظمت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے۔ تمہارا تکلیف و مشقت میں پڑنا ان پر سخت گراں (گزرتا) ہے۔ وہ تمہارے لئے (بھلائی اور ہدایت کے) بڑے طالب و آرزو مند رہتے ہیں (اور) مومنوں کے لئے نہایت (ہی) شفیق بے حد رحم فرمانے والے ہیں۔"

آپ ﷺکے ذریعے ہدایتوں و نصیحتوں سے بھرا قرآن کریم دیا جو کہ دلوں کے لیے شفا ہے اور رہنمائی کرنے والی ہے اور رحمت ہے ایمان والوں کے لیے۔

يَا أَيُّهَا النَّاسُ قَدْ جَاءَتْكُم مَّوْعِظَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَشِفَاءٌ لِّمَا فِي الصُّدُورِ وَهُدًى وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ ﴿٥٧﴾ سورة يونس
" اے لوگو! تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک ایسی چیز آئی ہے جو نصیحت ہے اور دلوں میں جو روگ ہیں ان کے لیے شفا ہے اور رہنمائی کرنے والی ہے اور رحمت ہے ایمان والوں کیلئے ۔"

اور اللہ ارحم الراحمین نےآپ ﷺکی مبارک زندگی کے ہر چھوٹے بڑے واقعات کو حدیث کی صورت میں ہمارے لئے محفوظ کردیا تاکہ ہمیں زندگی کی ہر قدم پر یہیں سے صحیح رہنمایٴ مل سکے۔ جیسا کہ ارشاد ہے :

لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّـهَ كَثِيرًا ﴿٢١﴾ سورة الأحزاب
" در حقیقت تم لوگوں کے لیے رسول اﷲ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات) میں نہایت ہی حسین نمونۂ (حیات) ہے، ہر اُس شخص کے لئے جو اﷲ (سے ملنے) کی اور یومِ آخرت کی امید رکھتا ہے اور کثرت سے اللہ کو یادکرتا ہے۔"
اور ہمارے رحیم و کریم رب نے ہمیں اپنا اور اپنے پیارے رسول کی اطاعت کرنے کا حکم دیا :

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ ﴿٢٠﴾ سورة الأنفال
" اے ایمان لانے والو، اللہ اور اُس کے رسُول کی اطاعت کرو اور حکم سُننے کے بعد اس سے سرتابی نہ کرو ۔"
اور ہمارے رب کی سب سے بڑی رحمت یہ ہے کہ اس نے ہمیں صرف اپنا بندہ بنایا۔ ایک اللہ پر ایمان لانا ہی سب سے بڑی رحمت ہے‘ اس لئے کہ اللہ سب سے بڑا ہے اور شرک کرنا سب سے بڑی زحمت و عذاب۔ إِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيمٌ ’’ بے شک شرک ظلم عظیم ہے۔ ‘‘ سورة لقمان
وہ ایک سجدہ جسے تُو گراں سمجھتا ہے
ہزاروں سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات

جو شرک میں مبتلا ہیں انکی زندگی کا بھی مشاہدہ کیجئے‘ کیسے بھٹک رہے ہوتے ہیں۔ کبھی ایک مندر کبھی دوسری مندر‘ کبھی ایک درگاہ کبھی دوسری درگاہ‘ کبھی ایک خانقاہ تو کبھی دوسری خانقاہ‘ کویٴ اولاد دینے والا تو کویٴ رزق کی دیوی‘ طاقت کا کویٴ دیوتا تو علم کی کویٴ دیوی غرض 32کڑوڑ ہندو 33 کڑوڑ دیوتا والی مثال ہے۔

اور آج یہ روگ کلمہ گو مسلمانوں کو بھی لگا ہوا ہے۔ کہنے کو تو مسلمان ہیں لیکن شرک و بدعات میں در در کی ٹھوکر یں کھا رہے ہیں۔ نماز‘ روزہ‘ حج و زکات ۔۔ سادہ سیدھا معروف عبادات کو چھوڑ کر نئے نئے خود ساختہ عبادات میں غرق ہیں۔
º مسجد میں نماز کیلئے ایک گھنٹہ نہیں نکال سکتے لیکن مزاروں پہ دنوں اور مہینوں چھلے کاٹنے کی مشقتیں جھیل رہے ہیں۔
º حج و عمرے پہ آنا ممکن نہیں؛ اجمیر شریف‘ داتا دربار جانے کیلئے جان ہلکان کر رہے ہیں۔
º زکات کے نام سے دل ڈوبتا ہے‘ مزارات پہ چادریں چڑھا رہے ہیں۔
º صدقہ و قربانی سے دل تنگ ہوتا ہے لیکن عرش اور میلے ٹھیلے کے لئے مال خرچ کئے جا رہے ہیں۔
º نبی کریم ﷺ کی محبت کا راگ الاپنے والے نام نہاد پیر فقیر چکر میں پڑ کر انکی اتباع کئے جا رہے ہیں۔
º قرآن کریم کو چھوڑ کر صوفیانہ فلسفے اور قصے کہانیوں میں ہدایت و رہنمایٴ ڈھونڈھے جا رہے ہیں۔
º طرح طرح کے خود ساختہ شرکیہ دعائیں و درود الگ بنا رکھیں ہیں۔ غرض جتنے مشرک اتنے طریقے۔

اللہ الرحم الراحمین نے تو ہم پہ بے بہا رحم کیا ہے ۔ کچھ ہم بھی اپنے پہ رحم کریں اور شرک سے بچیں۔ مسلم معاشرے میں کون نہیں جانتا کہ اللہ وحدہ و لا شریک ‘ شرک کی گناہ کبھی معاف نہیں کرے گا اور شرک سارے اعمالِ صالحہ ضائع کر دے گا۔

نبی کریم ﷺنے فرمایا:
’’ اے لوگو! شرک سے بچ جاوٴ کیونکہ یہ چیونٹی کے چلنے کی آواز سے بھی زیادہ پوشیدہ ہے۔‘‘
کسی صحابی نے عرض کیا ’’ یا رسول اللہ ﷺ! ہم اس سے کیسے بچ سکتے ہیں جبکہ یہ چیونٹی کے رینگنے کی آواز سے بھی زیادہ مخفی ہے۔‘‘
آپ ﷺنے فرمایا: ’’ تم یوں کہا کرو:

اللَّهُمَّ إِنَّا نَعُوذُ بِكَ مِنْ أَنْ نُشْرِكَ بِكَ شَيْئًا نَعْلَمُهُ ، وَنَسْتَغْفِرُكَ لِمَا لَا نَعْلَمُهُ
" یا اللہ! ہم اس بات سے تیری پناہ میں آتے ہیں کہ ہم جانتے بوجھتے کسی کو تیرا شریک ٹھہرائیں اور لا علمی میں ہونے والے خطاوٴں سے تجھ سے بخشش کے طلب گار ہیں۔" آمین
دعاوٴں کا طالب: محمد اجمل خان
 

Muhammad Ajmal Khan
About the Author: Muhammad Ajmal Khan Read More Articles by Muhammad Ajmal Khan: 95 Articles with 63476 views اللہ کا یہ بندہ اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی محبت میں اللہ اور اللہ کے رسول ﷺ کی باتوں کو اللہ کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق سیکھنا‘ سمجھنا‘ عم.. View More