بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
سنگساری
محترم جناب جاوید چودھری صاحب!
آپ کا آرٹیکل بعنوان ’’سنگساری‘‘پڑھا۔آپ کےسوالات اور ان کے ترتیب
وارجوابات پیشِ خدمت ہیں۔دعا ہے اللہ پاک مجھے، آنجناب کو اور تمام
مسلمانوں کو دینِ اسلام کی صحیح سمجھ اورپھر ہمیشہ اس پرکاربند رہنے کی
توفیق نصیب فرمائے۔
۱)کیا قرآنِ مجید نے کسی جگہ زناکاروں کو سنگسار کرنے کا حکم صادر کیا؟اگر
ہاں تو وہ آیات کہاں ہیں؟اگر نہیں تو پھر ہمارے ملک میں سنگساری کا مطالبہ
کیوں کیا جاتا ہے؟
مسلم شریف کی حدیث ہےحضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہےکہ
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے منبرِ رسول سے ایک خطبہ ارشاد فرمایا:
’’بلا شبہ اللہ عزوجل نے محمد ﷺ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایااور آپ ﷺ پر
قرآنِ مجید اتارا،سو ان آیات میں جو آپ پر نازل ہوئی سنگساری کی آیت
بھی ہے،جسے ہم نے پڑھا ،یاد رکھا اوربخوبی سمجھا۔اسی کے مطابق رسول اللہ ﷺ
نے سنگساری کی سزا جاری فرمائی اورپھر آپ کے بعد ہم نے سنگساری کی سزا
جاری کی۔مجھے ڈرہے کہ ایک زمانے بعد کوئی یہ کہنےلگے :’’ہمیں سنگساری کی
سزا کا ذکر کتاب اللہ میں نہیں ملتا ‘‘اور اس طرح وہ لوگ اللہ کے فریضے
(سنگساری) کو چھوڑ کر گمراہی میں مبتلا ہو جائیں۔حالانکہ کتاب اللہ میں ہر
شادی شدہ زانی مرد و عورت کے لیے سنگساری کا حکم یقیناََموجود
ہے.....‘‘(صحیح الامام مسلم ،باب رجم الثیب)
وہ آیت جس کی طرف حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اتنی تاکید کے ساتھ اشارہ
فرمایاکہ ’’ہم نے اسے پڑھا،یاد رکھااوربخوبی سمجھا‘‘کونسی ہے؟یہ سورۃ
النساء کی آیت نمبر ۱۵ ہے۔’’والتی یاتین الفاحشۃ من نسائکم فاستشہدوا
۔۔۔الخ‘‘(ترجمہ: اورجو بدکاری کرے تمہاری عورتوں میں سے تو گواہ لاؤ ان پر
اپنوں میں سے چار مرد۔ پھر اگر وہ گواہی دیں تو بند رکھو ان عورتوں کو گھر
میں ، یہاں تک کہ ان کو موت اٹھا لےیا اللہ ان کےلیے کوئی راہ مقرر کر دے)۔
بظاہر تو اس آیت میں سنگساری کو کوئی ذکر نہیں ۔یہی وہ نکتہ ہے جس کے بارے
میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنا اندیشہ ظاہر فرمارہے ہیں کہ ’’مجھے
ڈرہےکہیں ایک زمانے بعد کوئی یہ کہنےلگے :’’ہمیں سنگساری کی سزا کا ذکر
کتاب اللہ میں نہیں ملتا ‘‘۔‘‘ کیونکہ قرآن میں سنگساری کا ذکر صراحتاََ
نہیں ہے اور ہر وہ شخص جو سرسری طور پر قرآنِ مجید میں سنگساری کی سزا کو
تلاش کرنا چاہے وہ بے نیل و مراد رہے گا ۔لیکن اگر ساتھ میں جنابِ نبی کریم
ﷺ کے فرامین (جو درحقیقت کتاب اللہ کے اجمال کا بیان ہے)کا جائزہ لیا
جائےتو یہ صریح حدیث سورۃ النساء کی اس آیت کی تشریح کرتی ہے۔حضرت عبادہ
بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:’’مجھ سے
زنا کی سزا اچھی طرح سن لو،(مکرر ارشاد فرمایا)مجھ سے زنا کی سزا اچھی طرح
سن لو۔اللہ عزوجل نے ان عورتوں کے لیے (جن کا حکم سورۃ النساء میں موقوف
رکھا گیا تھا)راہ نکال دی ہے۔اب غیر شادی شدہ زانی مرد و عورت کی سزا سو
کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے ،جبکہ شادی شدہ زانی مرد و عورت کی سزا سو
کوڑے اورسنگساری ہے‘‘۔(صحیح الامام مسلم،باب حد الزنا)
خلاصہ یہ کہ قرآن وحدیث اسلامی احکام کے بنیادی مآخذ ہیں(جنہیں آئینِ
پاکستان میں بھی تسلیم کیا گیا ہے)۔قرآن مجید درجہ اجمال میں ہے اوررسول
اللہ ﷺ کی احادیث اس اجمال کا بیان ہیں اور جب ان دونوں کو ملایا جائے تو
سنگساری کی سزا حوالے سے یہ نتیجہ سامنے آتا ہے:
سنگساری کی سزا قرآن میں صراحتاََ نہیں ۔البتہ اس کی طرف ’’او یجعل اللہ
لہن سبیلا‘‘ میں اشارہ ہےاور اس اشارے کی وضاحت رسول اللہ ﷺ کی احادیث میں
ہے۔
۲)نبی اکرم ﷺ سے منسوب رجم کی سزا کے دونوں واقعات کب وقوع پذیر ہوئے؟سورۃ
النور کے نزول سے پہلے یا ان آیات کے نزول کے بعدوقوع پذیر ہوئے جن کے
ذریعے اللہ تعالیٰ نے زنا کی حد طے فرمائی؟اگر یہ دونوں واقعات آیات کے
نزول سے پہلےکے ہیںتو کیا پھر رجم درست ہے؟
رجم کے یہ دونوں واقعات سورۃالنور کے نزول کے بعد کے ہیں،کیونکہ سورۃ النور
واقعہ افک (حضرت عائشہ عفیفہ طاہرہ مطہرہ رضی اللہ عنہاپر تہمت کے واقعے)کے
متصل بعد نازل ہوئی۔اس سورۃ کے ذریعے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر لگائی
جانے والی جھوٹی تہمت کا خود رب تعالیٰ نے جواب دیا اور واقعہ افک غزوہ بنو
المصطلق میں پیش آیا،جس کا سن وقوع امام السیر موسیٰ بن عقبہ کے مطابق۵ ھ
ہے۔حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اور علامہ عینی رحمہ اللہ نے بھی اسی کی
صحیح قرار دیا ہے۔جبکہ بعض اصحابِ سیر ومغازی نے اس غزوہ کا سنِ وقوع ۳ھ
اور ۶ھ بھی قرار دیا ہے۔اگر بالفرض سن ۶ھ والی رائے کو بھی لے لیا جائےتب
بھی سنگساری کے تمام واقعات اس سورۃ کے نزول کے بعد کے ہیں۔تفصیل حسبِ ذیل
ہے:
ا )دورِ رسالت میں سنگساری کا سب سے پہلا واقعہ یہودی مردو عورت کی سنگساری
کا ہے۔باقی تمام واقعات اس کے بعد وقوع پذیر ہوئے۔جیسا کہ حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:’’اول مرجوم رجمہ رسول اللہ ﷺ من الیہود‘‘(سب سے
پہلے جسے رسول اللہ ﷺ نے سنگساری کی سزا دی وہ یہود میں سے تھا(مصنف عبد
الرزاق:۷؍۳۱۶،الرقم:۳۳۳۰)۔اسی طرح آپ ﷺ نے خودارشاد فرمایا:’’اللہم انی
اول من احیا امرک اذا اماتوہ۔‘‘اے اللہ!تیرے جس حکم کو ان لوگوں نے چھوڑ
دیا تھا،میں نے سب سے پہلے اسے زندہ کردیا(صحیح الامام مسلم،باب رجم
الیہود)۔
ب)یہود کی سنگساری کا واقعہ سن ۸ھ میں پیش آیا۔حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ
اللہ نے اس کی دلیل یہ بیان کی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن حارث بن الجزء رضی
اللہ عنہ فرماتے ہیں :’’فکنت فیمن رجمہما۔‘‘(میں ان لوگوں میں شامل تھا
جنہوں نے ان دویہودیوں کو سنگسار کیا)اور حضرت عبد اللہ بن حارث بن الجزء
رضی اللہ عنہ اپنے والد کے ساتھ فتح مکہ کے بعد مدینہ تشریف لائے اور اسلام
قبول کیا۔(فتح الباری: ۱۲؍۱۵۲)۔اسی طرح حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے
ہیں:’’کنت جالسا عند رسول اللہ ﷺ اذ جاءرجل من الیہود۔‘‘اس واقعے کے وقت
میں رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں موجود تھا(تفسیر ابن جریر:۶؍۱۳۵)اور حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ عنہ سن ۷ ھ میں اسلام لائے،لہذا یہ واقعہ بھی لازماََ سن ۷
ھ کے بعد کا ہے۔
اس کےعلاوہ سورۃ المائدۃ کی آیات ۴۳،۴۴انہی یہودیوں کے بارے میں نازل
ہوئیں(صحیح الامام مسلم ،باب رجم الیہود)اور سورۃ المائدہ قرآن مجید کی ان
سورتوں میں سے ہے جو آخر میں نازل ہوئیں۔چنانچہ اس کا بعض حصہ حدیبیہ میں
،بعض حصہ فتح مکہ اور بعض حصہ حجۃ الوداع میں نازل ہوا(تفسیر
قرطبی:۶؍۳۰)۔گویا صلح حدیبیہ یا اس کے بعد ہی اس کا نزول ہوا ہے اور صلح
حدیبیہ کا وقوع سن ۶ھ میں ہے۔جبکہ غزوہ بنو المصطلق تو صلح حدیبیہ سے پہلے
کا ہے،جس کے فوراََ بعد سورۃ النور نازل ہوئی۔
ج)امراہ غامدیہ کے حوالے سے متعدد روایات سے ثابت ہے کہ یہ واقعہ سورۃ
النور کے نزول کے بعد کا ہے۔مثلاََ حضرت بریدۃ رضی اللہ عنہا کی روایت میں
ہے کہ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ان کی سنگساری میں شریک تھے(صحیح
الامام مسلم،باب من اعترف علیٰ نفسہ بالزنا)اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ
عنہ سن ۸ھ میں اسلام لائے۔چنانچہ یہ واقعہ بھی سن ۸ ھ یا اس کے بعد کا ہے۔
الحاصل سورۃالنور کانزول زیادہ سے زیادہ سن ۶ ھ(اگرچہ راجح قول کے مطابق سن
۵ ھ)میں ہوااور سنگساری کے تمام واقعات سن ۸ ھ میںیا اس کے بعد پیش
آئے۔(تلخیص من الکتاب’’تکملۃ فتح الملہم‘‘لشیخ الاسلام محمد تقی العثمانی
حفظہ اللہ:۲؍۲۵۲-۲۵۵)
۳)کیا حیاتِ طیبہ میں ان دو واقعات کے علاوہ کوئی تیسرا واقعہ موجود ہے؟اگر
نہیں تو کیا ان دو واقعات کے بعد اسلامی ریاست میں ایسا کوئی واقعہ پیش
نہیں آیا؟اگر واقعہ پیش آیا تو مجرم کو کیا سزا دی گئی؟
اول تو یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ سنگساری کی سزا کیسے مشروع
ہوئی؟ابتداءمیں زنا کی سزا حبس (گھروں میں قید رکھنا )تھی،جیسا کہ سورۃ
النساء کی آیت ۱۵ کے حوالے سے پہلے یہ بات آچکی،لیکن اسی آیت میں اللہ
رب العزت نے یہ سزا حکمِ ثانی کے نزول تک مقید کی تھی اور وہ حکمِ ثانی’’
سنگساری‘‘ہے،جیسا کہ گزشتہ سطروں میں باحوالہ اس کا تذکرہ گزر چکااور حضرت
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے بھی بعینہ یہ مضمون منقول ہے(اخرجہ الطبرانی کما
فی مجمع الزوائد:۶؍۲۶۳)خلاصہ یہ کہ سنگساری کی سزا کی اصل مشروعیت رسول
اللہ ﷺ کے ان فرامین کی وجہ سے ہے جن سے یہ حکم ابد الآباد کے لیے ثابت
ہوتا ہےاور یہ ایک نہیں سینکڑوں احادیث ہیں جنہیں تقریباََ ۵۲ صحابہ کرام
رضوان اللہ علیہم اجمعین نے روایت کیا ہےاور اس طرح سنگساری سے متعلق
احادیث تواتر کے درجہ کو پہنچ گئی ہیں جس کی تصریح محدثین اور فقہاٗء نے
بھی کی ہے۔اگر تفصیل مطلوب ہو تو تکملہ فتح الملہم :۲؍۲۴۹تا۲۵۲ملاحظہ کرلیا
جائے جس میں حجرت مفتی تقی عثمانی صاحب حفظہ اللہ نےسنگساری سے متعلق
مرویات کا جدول درج کردیا ہے۔من جملہ ان روایات کے ایک روایت یہ بھی ہے
:’’الولد للفراش وللعاہر الحجر‘‘(بچہ کا نسب شوہر سے ثابت ہوگا اور زانی
(شادی شدہ،کیونکہ غیر شادی شدہ کا حکم یعنی کوڑےتومعروف ہے)کو سنگسار کیا
جائے گا)۔یہ بھی حدیثِ متواترہےاور یہ آپ ﷺ نے حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد
فرمایاجو کہ سورۃ النور کے نزول کے بھی بہت بعد کا ہے۔یہی وجہ ہے کہ
سنگساری کی سزا پر آج تک امت کا اجماع رہا ہے اور کسی ایک بھی فرقے نے اس
کو منسوخ قرار نہیں دیا۔(سوائےخوارج کے صرف ایک گروہ ازارقہ کےاور یہ وہ
فرقہ تھا جس کے عقیدے میں ان کے علاوہ باقی سب کافر تھے،حتیٰ کہ حضرت
علی،عثمان،عائشہ،زبیر،طلحہ ، ابن عباس رضی اللہ عنہم اجمعین جیسے اکابر
صحابہ کو بھی یہ لوگ مسلمان نہ سمجھتے تھےاور ایسے تمام خوارج کو بھی کافر
کہتے تھے جو ان کی طرف ہجرت کرنے کی بجائے مسلمانوں کے ساتھ رہ رہا ہو۔ظاہر
سی بات ہے کہ جب دار الاسلام کے قریب جانے کی بھی نوبت نہ آئے تو اسلامی
احکامات کا کہاں سے پتہ چل سکتا ہے؟)غرض بنیادی طور پرتوسنگساری سے متعلق
واقعات پر انحصار کرنے کی بجائے ان احادیث کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے۔
دوم اگر تاریخی نقطہ نظر سے تحقیق مقصود ہو تو دورِ رسالت میں سنگساری کے
ان دو واقعات(حضرت ماعز رضی اللہ عنہ اور حضرت غامدیہ رضی اللہ عنہا
)کےعلاوہ ’’قصۃ العسیف‘‘ بھی ہے(صحیح الامام البخاری:باب الاعتراف بالزنا)۔
۴)ان دونوں واقعات میں اعترافِ گناہ کے بعد سزا دی گئی،تفتیش یا گواہی کی
بنیاد پر نہیں۔کیا نبی اکرم ﷺکے دور میں شکایت ، گواہی اور تفتیش کی بنیاد
پر بھی کسی کو سنگسار کیا گیا؟اگر نہیں تو کیا ہم تفتیش کے بعد کسی کو
سنگسار کرسکتے ہیں؟
شریعت میں سنگساری یا کوڑےکی سزا کے لیےزنا کا جرم یقینی طور پر ثابت
ہوناضروری ہے اور شریعت نے خود ہی اس یقینی ثبوت کے دو طریقے متعین کردیے
ہیں،ایک اعتراف دوسرا گواہی۔اعتراف والی صورت تو واضح ہےاور بذریعہ گواہی
زنا کا ثابت ہوناسورۃ النساء کی ۱۵نمبرآیت میں مذکور ہے۔جس کا حوالہ پہلے
بھی آچکا۔اس کے علاوہ سورۃ النور کی آیت 13:’’لولاجاءوا عليه با ربعة
شهداء‘‘(یہ (افتراء پرداز )اپنی بات (کی تصدیق)کے(لیے)چارگواہ کیوں نہ
لائے)۔ اورآیت4 : ’’والذين يرمون المحصنات، ثم لم ياتوا باربعة شهداء‘‘
(اور جو لوگ پرہیزگار عورتوں کو بدکاری کا عیب لگائیںاور اس پر چارگواہ نہ
لائیں)سے بھی اس کا پتہ چلتا ہے۔باقی گواہی کی کیا کڑی شرائط ہیں؟ان کی
تفصیل کا یہاں موقع نہیں۔صرف اتنی بات عرض کرنی ہے کہ کسی بھی اسلامی حکم
کی تفصیل جاننے کے لیے اس سے متعلق آیاتِ قرآنی،تمام قولی وفعلی احادیث
اوراقوالِ صحابہ کا جائزہ لیناانتہائی ضروری ہے۔صرف چندایک واقعات کی روشنی
میں اس اسلامی حکم کی تمام تفصیلات و جزئیات کوسمجھنے کی کوشش کرناسخت
خطرناک،الجھنوں اور غلظ فہمیوں کا باعث ہوگا ۔
باقی جہاں تک زنا کے معاملے کی تحقیق کا تعلق ہے کہ حاکم یا قاضی ازخود یا
کسی کے کہنے پر زانی مرد و عورت سے تفتیش کرے اور ان کے اعتراف کے بعد سزا
جاری کرے تو شریعت کا اصل حکم یہ ہے کہ ایک مسلمان کے گناہوں پر پردہ ڈالنا
چاہیے نہ یہ کہ اس کی تفتیش یا ٹوہ میں لگا جائے۔البتہ اگر کبھی ایسی
صورتحال ہو کہ پردہ پوشی کے نتیجہ میں زناجیسی فحشاء(بدترین برائی )کے
پھیلنے کا اور دوسروں کے اس پر جری ہونے کااندیشہ ہویا اس طرح کی اور کوئی
صورت ہو تو پھر وہاں تفتیش کرنے کی بھی اجازت ہے۔اگرچہ سزا (اعتراف یا
گواہی میں سے کسی ایک ذریعے سے )جرم ثابت ہونے کے بعد ہی دی جائے گی۔اس کی
دلیل’’ قصۃ العسیف‘‘ (عسیف عربی میں ملازم اوراجیر کو کہا جاتا ہے)ہےکہ ایک
صحابی کسی کے ہاں ملازم تھے ۔مالک کی بیوی اوران کےدرمیان یہ واقعہ پیش
آیا۔اللہ رب العزت نے تنبیہ فرمائی۔انہوں نے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر
اعتراف کیا۔آپ ﷺ نے ان صحابی کو سو کوڑےکی سزا سنائی اور حضرت اُنیس رضی
اللہ عنہ کوفرمایا:’’واغد یااُنیس!الی امرأۃ ھذا،فان اعترفت فارجمہا.‘‘(اے
انیس!اس عورت کے پاس جاؤ،اگر وہ اعتراف کرلے تو اس کوسنگسارکردو)۔اب غور
فرمائیں ایک طرف آپ ﷺ زنا کا اعتراف کرنے والے کو بھی نظر انداز کرنے کی
کوشش کررہے ہیںاور دوسری طرف اس عورت کے پاس ایک صحابی کو تفتیش کی غرض سے
روانہ فرمارہے ہیں؟؟؟وجہ واضح ہے کہ خاتون نے شادی شدہ ہونے کے باوجود اپنے
شوہر کے ملازم کے ساتھ زنا کیا اوریہ نہایت سنگین جرم تھا،جس پر خاموشی
خلافِ مصلحت تھی۔لہذا اصل حکم تو یہ ہے کہ زنا کے معاملے میں پردہ پوشی سے
کام لیا جائے ،لیکن اگر کہیں ضرورت پیش آئے تو تفتیش بھی کی جاسکتی ہے۔
۵)نبی اکرم ﷺ کے بعد خلفائِ راشدین کا دور آیا،کیا خلفائِ راشدین نے کسی
کو پتھر مروائے؟
جیساپہلے عرض کیا جاچکا کہ اصل غور طلب بات یہ نہیں کہ سنگساری کے کتنے
واقعات ہوئے اور کب کب پیش آئے،کیونکہ سنگساری کا دارومدار صرف ان واقعات
پر نہیں ،بلکہ ان کے ساتھ ساتھ آپ ﷺ کے ان ارشادات پر ہے جن میں اس سزا کے
ابدالآباد ہونے کا پتہ چلتا ہے۔البتہ کیونکہ ان واقعات کی روشنی میں ہمیں
جرم کے ثبوت کا ضابطہ کار اور سزا جاری کرنے کی بہت سی تفصیلات معلوم ہوتی
ہیں ،لہذا اس زاویہ سے ان واقعات کو جاننا بھی از حد ضروری ہے جو دورِ
رسالت یا دورِ خلافتِ راشدہ میں پیش آئے۔
مصنف ابن ابی شیبہ اور السنن الکبریٰ بیہقی میں ایسے واقعات مذکور ہیں جن
سے پتہ چلتا ہے کہ دورِ خلفاء میں بھی حسبِ سابق سنگساری کی سزائیں دی
گئیں۔حضرت عمر سے روایت ہے :رسول اللہ ﷺ نے سنگسارری کی سزا جاری فرمائی
اور آپ کے بعد ہم نے یہ سزا جاری کی(صحیحین)۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نےمقامِ
جابیہ میں ایک عورت اورحضرت علی رضی اللہ عنہ نےشراحہ ہمدانیہ کےحق
میںسنگساری کا حکم جاری فرمایا۔
۶)کیا زناکے علاوہ کو ئی دوسرا ایسا جرم ہے جس کی حدود کے لیے چار گواہوں
کی شرط ہواور جو شرائط زنا کے جرم کی گواہی میں ہیں وہ کسی اور میں بھی
ہیں؟
زنا کی گواہی میں سب سےکڑی شرائط ہیں۔دیگر سزاؤں میں چار گواہوں کی شرط
نہیں۔
۷)مجرموں کو سزا دینا ریاست کا کام ہے یا پھر یہ فریضہ عام لوگ بھی سر
انجام دے سکتے ہیں؟
یہ کام ریاست کا ہے۔یعنی یا تو مسلمانوں کا حاکم بذاتِ خود یہ سزا جاری
کرسکتا ہے یا جسےحاکم نے یہ اختیارات سپرد کیے ہوں۔جیسے ’’قصۃ العسیف
‘‘میںرسول اللہ ﷺ نے حضرت انیس رضی اللہ عنہ کو یہ اختیار سونپ کر تفتیش کے
لیے روانہ فرمایا۔
آخر میں اگربارِ خاطر نہ ہو تو آنجناب کی خدمت میں دو باتیں عرض کرنا چاہوں
گا:
۱)اللہ نے آپ کے قلم کو قبولیت سے نوازا ہے ۔ ایک بہت بڑا طبقہ آپ کے
کالموں سے استفادہ کرتا ہے۔اگر کوئی چیز پڑھنے والوں کو شیئر کرنے سے پہلے
کلیئر کرلی جائے تو بہت بہتر ہوگااور اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کے ملک کے
ہر شہر میں بڑے بڑے دارالافتاء قائم ہیں اور اب تو عوام کی آسانی کی
خاطربذریعہ انٹرنیٹ رابطے کی سہولت بھی فراہم کردی گئی ہے۔لہذا ہوسکے تو
ایسے مسائل میں قلم اٹھانے سے پہلے جس دارالافتاءکوآنجناب قابلِ اعتماد
سمجھیں وہاں اپنے اشکالات ارسال کردیاکریں۔
۲)دوسری بات یہ کہ اگر بالفرض کہیں کسی اسلامی حکم کا غلط استعمال ہوتا ہے
تو کوئی مسلمان اس کی حمایت نہیں کرے گا۔لیکن آج ہمارے معاشرے میںانفرادی
اور اجتماعی سطح پر کتنے ہی اللہ کے احکامات توڑے جارہے ہیںاور یقناََ
ہماری تباہی اور بربادی کا اصل سبب یہی ہے۔میرے ناقص خیال میں ان
نافرمانیوں کے سدباب کی طرف توجہ دینے کی ضرورت بنسبت کسی ایک جگہ اسلامی
حکم کے غلط استعمال کی طرف توجہ دلانے سے کہیں زیادہ ہے۔مثلاََ یہاں ایک
جگہ زنا کی سزا ریاست کی بجائے عوام نے دی۔لیکن زنا کے اسباب یعنی شادیوں
کو مشکل بنانے،بے پردگی ،فحاشی اور عریانی کو ہوا دینےکا سلسلہ تو ہمارے
ملک کے طول وعرض میں پھیلتاجارہا ہے۔کیا ان معاشرتی خرابیوں کا سدباب ہماری
توجہ قلم کازیادہ لائق نہیں؟؟؟
آخر میں صدقِ دل سے آنجناب سے معافی کا خواستگار ہوں۔کیا کروں قلم کا صحیح
استعمال جو نہیں آتا ،انجانے میں کہیں پھسل گیا ہو!!! |