مائی جنتے زندہ باد

جب دیکھو‘ بابا عمر اور مائی جنتے‘ کسی ناکسی بات پر‘ بحث کر رہے ہوتے۔ لوگ‘ ان کی تو تکرار سے بدمزا ہونے کی بجائے‘ لطف اندوز ہوتے اور رک کر‘ ان کے مکالمے سنتے۔ وہ اسے پھپھے کٹن کہتا‘ مائی جنتے بابے عمر کو‘ چاتر کہتی۔ جب بات بڑھتی‘ تو وہ طعنوں پر اتر آتے۔ بالکل بچوں کی طرح لڑتے۔ انہیں اس امر کی پرواہ تک نہ ہوتی‘ کہ انہیں کوئی دیکھ سن رہا ہے اور وہ‘ زمانے کا مذاق بن رہے ہیں۔
میں جب منڈی سے لوٹا‘ تو تمہیں تازہ تازہ اور چنویں بیر دیئے تھے۔ تم تو ہو ہی ناشکری۔
جانتی ہوں‘ تم کتنے کو سخی ہو۔ بیر ہی دییے‘ امرود تو نہیں دیے نا۔۔۔۔۔ مانگنے پر‘ بچکی میں چھپا لیے تھے۔ بھوکے کہیں کے۔
جھوٹی کہیں کی۔ کب کی بات کرتی ہو۔ میں تو بانٹ کر کھاتا ہوں۔
واہ! آگیے بانٹ کر کھانے والے۔ میں نے اپنی آنکھوں سے‘ تمہارے ہاتھ میں دیکھ لیے تھے۔
تم تو ہو ہی بکھی ندیدی۔ تب ہی تو‘ میرے پیٹ میں درد اٹھنے لگا تھا۔
یہ تو درد ہوا تھا‘ ابھی تمہارے پیٹ میں کیڑے پڑنے ہیں۔
واہ‘ تم تو کیتی کرائی پر پانی پھیر دیتی ہو۔
کیا کیتی کرائی۔
جب بھی تم نے ادھار مانگا‘ میں نے دیا نہیں؟!
لو اب طعنوں پر اتر آئے ہو۔ لین دین تو دنیا میں چلتا رہتا ہے۔
میں نے کبھی ادھار مارا بھی ہے؟

وعدے پر تو کبھی نہیں دیا۔ تم تو احسان فرموش ہو۔ تمہارے ساتھ بات کرنا بھی‘ سو کا گہاٹا ہے۔

بس کرو۔۔۔۔ بڑے آئے سیٹھ صاحب۔ مہاجے کا جب ابا زندہ تھا‘ تب پوری گرمیاں‘ ہمارے گھر سے لسی لے جاتے رہے‘ میں نے کبھی جتایا تک نہیں۔ ایک دو بار‘ میں نے بن مانگے‘ مکھن بھی دے دیا تھا۔ چائے کے لئے بھرا گلاس دودھ لے جایا کرتے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔ سب بھول گیے ہو۔

غرض اس نوعیت کی تکرار اور نوک جھونک‘ دوسرے تیسرے‘ سننے میں آتی رہتی تھی۔ ہم میں سے کسی نے غور ہی نہ کیا‘ کہ ان کی یہ بحث وتکرار کیوں ہوتی ہے۔ اس اٹ کتے کے بیر کی‘ کوئی تو وجہ ہو گی۔ عمومی طور پر‘ دونوں بڑے ملن سار اور ہم درد قسم کے انسان تھے۔ دونوں کا درد ایک تھا۔ بڑھاپے میں‘ ان کے ساتھی چھوڑ گیے تھے۔ شاید وہ چڑچڑے ہو گیے تھے۔ جو بھی سہی‘ دونوں دل کے برے نہیں تھے۔ وقت اور حالات نے‘ انہیں اکتایا اکتایا سا‘ بنا دیا تھا۔ ساتھی مر جانے کے بعد‘ تنہائی نے‘ شاید انہیں اس طرح کا بنا دیا تھا۔ وہ ایک دوسرے سے بحث کرکے‘ من کا بوجھ ہلکا کر لیتے ہوں گے۔

بچے اپنی اپنی دنیا میں چلے گیے تھے۔ وقت اور حالات کے گرداب میں پھنسے‘ کسی دوسرے کی کیا خبر رکھ سکتے ہیں۔ میں نے سوچا‘ اگر بچے وقت دیں‘ تو بڑھاپا احساس محرومی کا شکار نہیں ہوتا۔ تنہائی‘ اور اوپر سے عمر کا پچھلا پہر۔۔۔۔۔اف الله‘ ان کے لمحے کس قیامت سے دوچار ہوتے ہوں گے۔ وہ لڑتے نہیں‘ اپنے بد قسمت بڑھاپے اور اکلاپے کا رونا روتے ہیں۔ اب تو یہ رونا ساری عمراں دا اے۔
جانے والوں کو کون واپس لا سکتا ہے۔ اس بستی میں گیا‘ کب کوئی واپس آیا ہے۔ ایک بار نتھو نے کہا‘ ان دونوں کا نکاح کرا دینا چاہیے۔
بھائی یہ تو شام تک ککڑوں کی طرح لڑتے رہیں گے۔
رہنے دو‘ مائی نے جب دو تین بار مسکرا کر دیکھا تو‘ بابا عمر دم ہلانے لگے گا۔ فضلو نے قہقہ لگاتے ہوئے کہا
بابا بڑا قلغی والا ہے‘ پیندی سٹے مائی کو ڈھیر کر دے گا۔ گامو نے لقمہ دیا
اوہ چھڈ‘ چلا جاتا نہیں‘ در فٹے منہ گوڈیاں دا۔ ڈھیر کر دے گا‘ مائی بڑے شے آ‘ توں نئیں جاندا۔ شاکو نے کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا
دیر تک بابا عمر اور مائی جنتے ہماری گفتگو کا موضوع بنے رہے۔ اتنی دیر میں ویرو آ گیا اور آتے ہی چھا گیا۔
کچھ سنا
نہیں تو
اماں جنتے‘ بابے عمر کے ساتھ نکل گئی ہے۔
ہائیں‘ کیا بکتے ہو؟!
میں بکتا نہیں‘ پھرما رہا ہوں۔

ہم سب دوستوں کی آنکھیں‘ کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ ان کا لڑنا محض ہمارے دکھاوے کے لیے تھا؟ یہ بوڑھے بھی بڑے کھلاڑی ہوتے ہیں۔ اتنے سیدھے سادے نہیں ہوتے۔ یہ جلیبی کے موافق سیدھے ہوتے ہیں۔ بابے عمر کا پوتا‘ بڑے غصہ میں تھا۔ مائی جنتے کے پوتے کے منہ سے‘ بڑے تلخ کلمے نکل رہے تھے۔ وہ کہہ رہا تھا‘ مائی نے پوری برادری میں ہماری ناک کٹوا دی ہے۔ اگر ہاتھ لگ گیے‘ تو میں دونوں کے ڈکرے کر دوں گا۔ یہ پہلا موقع تھا‘ جو دو بوڑھوں کے باعث ان کی اولاد کی ناک کٹی تھی‘ ورنہ آج تک‘ لڑکے لڑکیوں نے ہی‘ اپنے بڑوں کی ناک کٹوائی تھی۔

جوانوں کی جنسی شدت‘ ان کی عقل پر پردے ڈال دیتی ہے۔ یہاں تو یہ معاملہ تھا ہی نہیں۔ جن جوان بچوں کے منہ سے‘ جھاگ نکل رہی تھی اور وہ اپنے بوڑھوں کے قتل کے درپے تھے‘ انہوں نے کبھی بھی‘ اپنے ان بھاگ جانے والے بزرگوں کے پاس‘ دو لمحے ٹھہرنے کا کشٹ نہیں اٹھایا تھا۔ وہ کس حال میں ہیں‘ ان کی اولاد میں سے کسی کو معلوم کرنے کی توفیق نہیں ہوئی۔

ہوں‘ آج ان کی غیرت جاگ گئی ہے۔ الله کرئے‘ وہ بہت دور نکل گیے ہوں اور ان جھوٹے غیرت مندوں کے ہاتھ میں ہی نہ آئیں۔ تجربہ کار لوگ ہیں‘ کچی گولیاں نہیں کھیلے ہوں گے۔

الله انہیں‘ ان مردودوں سے محفوظ رکھے۔ شہابو‘ جو ان بوڑھوں کا کچھ بھی نہیں تھا‘ برستی آنکھوں سے دعائیں مانگ رہا تھا۔

وہ مائی جنتے کے برے حال سے آگاہ تھا۔ اسی طرح‘ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ بابا عمر‘ مرے کتے سے بھی بدتر زندگی گزار رہا تھا۔

بابا عمر‘ بنیادی طور پر بزدل اور رن مرید قسم کا انسان تھا۔ وہ اتنا بڑا قدم نہیں اٹھا سکتا تھا۔ مائی کی دلیری نے‘ اس کے ضعیف گھٹنوں میں بھاگ نکلنے کی شکتی‘ بھری ہوگی۔
دتو کے وچار سن کر سب کہہ اٹھے
مائی جنتے زندہ باد
12-10-1969

maqsood hasni
About the Author: maqsood hasni Read More Articles by maqsood hasni: 170 Articles with 176077 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.