ثریا کو میرا دل ایک عرصہ پہلے‘ طلاق دے چکا ہے لیکن دنیا
چاری کے طور پر‘ ہم ایک چھت کے نیچے رہتے ہیں۔ ہمارا کھانا پینا‘ اٹھنا
بیٹھنا‘ سونا جاگنا‘ غرض بہت کچھ‘ مشترک ہے۔ میں جانتا ہوں‘ ثریا بھی میری
کبھی نہیں رہی۔ اس کی ہر مسکراہٹ‘ جعلی ہوتی ہے۔ وہ مجھے زندگی بھر دھوکا
دیتی آئی ہے۔ وہ سمجھتی ہے‘ کہ میں بےخبر ہوں۔ سچی بات یہی ہے‘ کہ ہم میں
سے کوئی ایک دوسرے سے مخلص نہیں۔ اتنا قریب اور بہت ساری سانجھیں موجود
ہونے کے باوجود‘ ہم دلی اور دماغی اعتبار سے‘ ایک دوسرے سے‘ کوسوں میل کے
فاصلے پر ہیں۔ وہ ہی نہیں‘ میں بھی‘ اس رشتہ کے حوالہ‘ پرلے درجے کا
بےاعتبارا اور غیر متعلق ہوں۔ وہ میری بیوی اور میں اس کا خاوند ہوں۔ اس کا
ثبوت گھر میں چلتے پھرتے بچے ہیں۔ میں جانتا ہوں‘ ان میں سے بڑی لٹرکی
کلثوم کے سوا‘ میرا کوئی بچہ نہیں ہیں۔ باقی چاروں کی پہچان ہمارے دونوں کے
حوالہ سے ہے۔ بچے بھی‘ اسے سچی اور پکی پہچان سمجھتے ہیں۔ وہ کہہ نہیں سکتی‘
کہ صفیہ اور اقصا کے بچے میرے بچے ہیں۔ ہم پرلے درجے کے جھوٹے عیار اور
منافق ہیں۔ ایک دوسرے کو جانتے اور پہچانتے ہوئے بھی‘ اس امر کے دعوی دار
ہیں‘ کہ ہم ایک دوسرے سے مخلص‘ ہمدرد اور وفادار ہیں۔ ہماری جوڑی‘ مثالی
رہی ہے۔ اصل حقیقیت یہ ہے‘ کہ ایک ہی چھت کے نیچے‘ دو منافق‘ زندگی بسر
کرتے آ رہے ہیں۔
اول اول میں ثریا ہی کو غلط‘ بےوفا اور دغا باز سمجھتا تھا۔ سچائی تو یہ
ہے‘ کہ میں بھی ٹیڑھا رہا ہوں۔ میں نے بھی اسی کا چلن لیا ہے۔ کہیں ناکہیں‘
غلط میں بھی ہوں۔
آج ناسہی‘ اس زمانے میں‘ میٹرک بہت بڑی تعلیم تھی۔ دور دور تک میٹرک پاس
نہیں ملتا تھا۔ آج ہر محلہ میں‘ آسانی سے‘ بی اے پاس مل جاتا ہے۔ اپنے بچے
کو پڑھانا‘ ہر کسی کے بس کا روگ نہ تھا۔ لوگ زیادہ تر‘ اپنے بچوں کو ہنر
سکھانے پر توجہ دیتے تھے۔ ان کا خیال تھا‘ کہ ہنر سیکھ کر‘ ان کا بچہ باعزت
روٹی کمانے کے قابل ہو جائے گا اور بھوکا نہیں مرے گا۔
ایسے وقت میں‘ میٹرک پاس کر لینا معمولی بات نہ تھی۔ میں بڑی آسانی سے‘ ضلع
دار کا منشی منتخب ہو گیا۔ ابا خوش تھے‘ لیکن مطمن نہ تھے۔ وہ مجھے افسر
دیکھنا چاہتے تھے۔ ادھر ملازم ہوا ادھر میرے لیے اچھی اور پڑھی لکھی بہو کی
تلاش شروع ہو گئی۔ اس دور میں‘ مرضی پوچھنے کا رواج نہ تھا۔ دوسرا میری بھی
کوئی پسند نہ تھی۔ امی اپنی بہن کی بیٹی بیاہ کر لانا چاہتی تھیں‘ لیکن اس
پر ان پڑھ ہونے کا لیبل چسپاں تھا۔ کافی سوچ بچار اور پرکھ پڑچول کے بعد‘
شہاب صاحب کی بیٹی پسند کر لی گئی۔ وہ میٹرک جے وی تھی اور پاس کے گاؤں میں
پڑھانے جایا کرتی تھی۔ سب سے بڑی بات یہ کہ‘ وہ نائب صاحب کی دختر نیک اختر
تھی۔ میرے سامنے اس کی شرافت اور حسن کے شیش محل کھڑے کر دیے گیے۔ میرے
اشتیاق میں‘ ہر لمحہ اضافہ ہوا۔ وہ واقعی‘ خوب صورت عورت تھی۔ ایک بات تو
سچ ثابت ہو گئی۔ کہتے تھے‘ ثریا منہ میں زبان نہیں رکھتی۔ یہ بات بھی سچ
نکلی۔ اس کی زبان ہمیشہ منہ سے باہر رہتی۔ بعض اوقات‘ محافل میں‘ اس کا منہ
اور زبان‘ متوازی سفر کرنے لگتے۔
بہت کم‘ کسی کو کچھ کہنے کا موقع فراہم کرتی۔ رہ گئی شرافت کی بات‘ وہ بھی
ڈھکی چھپی نہ رہی۔ بڑے باپ کی بیٹی تھی‘ کسی کو‘ چوں تک کرنے کی جرات نہ
ہوتی۔ میں اس کا میاں ہو کر بھی‘ اسے کچھ کہنے کی ہمت نہیں رکھتا تھا۔ اس
کا باپ افسر تو تھا ہی‘ اوپر سے بھولو پہلوان سے‘ کسی طرح کم نہ تھا۔
بےتحاشا کھاتا تھا۔ پلے سے‘ اسے کبھی کھاتا نہیں دیکھا گیا۔ زبان سے کم‘
ہاتھ سے زیادہ کام لیتا تھا۔ اس کا سارا زور موچھوں پر تھا۔ مونچھیں بڑی
خوف ناک تھیں۔ تحقیق سے معلوم ہوا‘ ذات کے تیلی ہیں لیکن لوگ بڑے ملک صاحب
کہہ کر پکارتے تھے۔ ان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے۔ بعض
ایسی خوبیاں بیان کرتے‘ جن کا خود ملک صاحب کے فرشتوں کو بھی علم نہ ہو گا۔
ایسے شخص کی بیٹی کی ہاں میں ہاں نہ ملا کر‘ موت کو ماسی کہنے کے مترادف
تھا۔
میں تنخواہ پر گزارا کرنے کا قائل تھا۔ تنخواہ میں ٹھاٹھ کی نہیں گزاری جا
سکتی۔ یقینا یہ بہت بڑا جرم تھا۔ میرے ہم پلہ کیا‘ میرے جونیئر موجیں کر
رہے تھے۔ کئی نے دیکھتے ہی دکھتے‘ عمارتیں کھڑی کر لی تھیں۔ کپڑے نوابوں کے
سے‘ زیب تن کرتے۔ ان کے بچے انگریز اور بیگمات‘ پشتنی رائس زادیاں لگتی
تھیں۔
ادھر ہمارے ہاں‘ ان کے مقابلہ میں‘ کمی کمینوں کا سا ماحول تھا۔ ایک بار
میرے کولیگ کے ہاں کوئی فنکشن تھا۔ ہمیں مدعو نہ کیا گیا۔ ان کی بیوی نے
برسرعام کہہ دیا‘ کہ ہم شرفا میں سے ہیں‘ اس لیے ہم تھرڈ کلاس لوگوں کو بلا
کر‘ فنکشن کا ستیاناس نہیں مارنا چاہتے۔
ثریا روٹھ کر‘ اپنے باپ کے گھر چلی گئی۔ ددسرے دن‘ ملک صاحب ہمارے ہاں آ
دھمکے اور بہہ جا بہہ جا کرا دی۔ میں حیران تھا‘ آخر شرافت اور ایمانداری‘
اس اسٹیج پر‘ بےمعنی کیوں ہو جاتی ہے۔ اس عزت افزائی کے بعد‘ میں نے ایمان
داری کو طاقچے میں رکھ دیا۔ لہریں بحریں ہو گئیں۔ ضلع دار صاحب بھی خوش
تھے۔ ان کا حصہ پہلے نکالتا۔ ثریا کا برادری میں ٹہوہر ٹپا ہو گیا۔ اس کے
ملنے والوں میں بھی اضافہ ہوا۔ بچے آزاد ماحول میں زندگی بسر کرنے لگے۔ میں
باہر ہی سے کھانے لگا۔ کام نکلوانے کے لیے‘ مسکراہٹوں کا‘ سائل اہتمام کرنے
لگے۔ بہتر کارگزاری کی بنا پر‘ آؤٹ آف ٹرن پروموشن بھی مل گیا۔
گھر کے معاملات میں‘ ہم ایک دوسرے کے لیے‘ اجنبی سے ہو گیے۔ ایک دوسرے کی
حرکتوں کو جانتے ہوئے‘ اندھے‘ گونگے اور بہرے سے ہو گیے۔ کسی کو انگلی
اٹھانے کی ہمت نہ ہوتی تھی۔ میرا تعلق مغل فیملی سے تعلق تھا‘ لیکن میں بھی
ملک صاحب ہو گیا۔ بڑے ملک صاحب کی موت بعد‘ یقینا میں بڑے ملک صاحب کے لقب
سے ملقوب ہونے والا تھا۔ میں نے ان سے بڑھ کر شہرت کمائی تھی۔ وہ اب‘ صرف
مونچھوں میں مجھ سے آگے تھے‘ ورنہ رزق اور شخصی آزادی‘ ہمارے ہاں کہیں‘
زیادہ تھی۔ والد صاحب پڑھے لکھے ہو کر بھی‘ پرانی وضع کے شخص تھے۔ انہوں نے
ہمیں الگ کر دیا تھا۔ نہ بھی کرتے تو ہم خود علیدہ ہو جاتے۔ ان کا مکان‘
مکان کم‘ مرغیوں کا ڈربا زیادہ تھا۔
میں نے میٹرک پاس کیا تھا۔ اتنا پڑھنے اور خرچہ کرنے کے بعد بھی‘ رونا
دھونا اور بامشکل گزارا ہو‘ تو پڑھنے لکھنے کا فائدہ ہی کیا۔ دوسرا میں
اکیلا تھوڑا‘ اس رستے کا راہی تھا۔ ہر دفتر کا‘ چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے
بڑا اہل کار‘ اسی راہ کا راہی تھا۔ لحاظ‘ مروت اور رواداری‘ عزت‘ شہرت اور
خوش حالی کے کھلے دشمن ہیں۔
مجھے ریٹائر ہوئے‘ آج سات سال ہو گیے ہیں۔ پنشن مل رہی ہے۔ بالائی کا
ماہنانہ بنک دے رہا ہے۔ کچھ ضرورت مندوں کو بھی دے رکھا تھا‘ وہ طے شدہ‘
منافع وقت پر دے جاتے ہیں۔ بڑے ملک صاحب کی جائیداد سے‘ اچھا خاصا حصہ ملا
ہے۔ میں نے‘ بس کلثوم کی شادی‘ اپنی مرضی اور دھوم سے کی ہے۔ دوسری دونوں
نے لو میرج کر لی ہے۔ دقیانوسی کہتے ہیں‘ کہ وہ نکل کر گئی ہیں۔ مجھے کوئی
دکھ نہیں‘ وہ میری تھیں ہی کب؟ لڑکے بھی‘ پسند کی شادیاں کر چکے ہیں۔ آج
بھی میں ہمیشہ کی طرح آزاد ہوں۔ ثریا اپنی مرضی کی گزار رہی ہے۔
سب درست سہی‘ گامو سوچیار کا یہ کہنا‘ گلے میں پھانس بن کر اٹکا ہوا ہے کہ
حرام نسبی ہی نہیں‘ کسبی بھی ہوتا ہے۔ حرام سے‘ بہرطور حرامدا ہے۔ میری ماں
نیک اور پرانی وضع کی عورت تھی۔ مجھے سو فیصد یقین ہے‘ کہ میں حالدا ہوں۔
کلثوم میری بیٹی ہے۔ کیا حرام کھا کر‘ ہم حرامدے ہو گیے ہیں۔
گامو سوچیار کے ان لفظوں نے‘ میری اور سکون چھین لیا ہے۔ میں کئی بار‘ اپنے
ضمیر کو مطمن کرنے کی کوشش کر چکا ہوں۔ کم بخت‘ مطمن ہونے کا نام نہیں لے
رہا۔ گامو سوچیار جیسے لوگوں کو‘ مصلوب کیا جاتا رہا ہے‘ اس کے باوجود‘
کوئی ناکوئی‘ ہر عہد میں‘ ان کی جگہ لے ہی لیتا ہے۔
گامو سوچیار کا کہا‘ درست ہے‘ یا نہیں‘ یہ بات غور طلب ہے‘ تاہم یہ طے ہے
کہ اس گھر میں ہنستے مسکراتے دو منافق رہتے ہیں۔
21-2-1972
|