لاڑکانہ میں قرآن مجید کی بے حرمتی....ایک نئی سازش؟

لاڑکانہ کے علاقے مراد وہن میں میں ہفتے کی رات قرآن مجید کی مبینہ بے حرمتی کی وجہ سے جنم لینے والے ہنگاموں کے بعد پیر کے روز صورتحال معمول پر آگئی۔ تمام کاروباری مراکز اور بازار کھل گئے ہیں۔ لاڑکانہ صوبہ سندھ کا ایک ضلع ہے۔ضلعی صدر مقام لاڑکانہ شہر ہے، جو سندھ کے بڑے شہروں میں سے ایک ہے۔ وادی سندھ کی قدیم تہذیب کا سب سے بڑا مرکز موئن جو دڑو یہیں واقع ہے۔پولیس حکام کے مطابق شہر لاڑکانہ میں ایک شخص نے ہفتے کو مقدس اوراق کی مبینہ طور پر بے حرمتی کی، جس کا تعلق ہندو برادری سے ہے، جبکہ اطلاعات کے مطابق بعض عینی شاہدین نے بتایا کہ انہوں نے بے حرمتی کرنے والے شخص کے گھر کے باہر قرآن مجید کے جلے ہوئے اوراق دیکھے ۔ قرآن مجید کی بے حرمتی کی خبر پھیلنے کے بعدشہر میں کشیدگی بڑھ گئی اور جگہ جگہ ہنگامہ آرائی ہوتی رہی۔ جس کے بعد 20 موٹر سائیکلوں پر سوار نامعلوم مسلح افراد نے شہر کے مختلف علاقوں میں جاکر ہندوﺅں کی املاک، مندر اور دھرم شالہ پر حملہ کیا اور لوٹ مار کی۔ نامعلوم مشتعل افراد نے لاڑکانہ شہر میں جمع ہوکر علاقے میں واقع دھرم شالا کو آگ لگا دی، جس کے نتیجے میں دھرم شالہ جزوی طور پر جل گیا ہے۔ اسی دھرم شالا کے اندر ایک مندر بھی واقع ہے، جس میں گھس کر نامعلوم افراد نے توڑ پھوڑ کی۔مندر پر حملے کی کوشش کے بعد اس سے متصل دھرم شالا میں آتشزدگی کی اطلاع ملتے ہی فائر بریگیڈ کی گاڑیاں آگ بجھانے کے لیے موقع پر پہنچ گئیں، تاہم بہت سے لوگوں نے قرآن مجید کی بے حرمتی کرنے والے مبینہ ہندو کے گھر کا محاصرہ کر لیا،گھر کے باہر شدید نعرے بازی کی، تاہم مکان پر تالہ لگا ہونے اور اہل مکان کے موجود نہ ہونے کی وجہ سے کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔ اس واقعے کے فوری بعد شہر کے مختلف علاقوں میں ہوائی فائرنگ شروع ہوگئی۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں نے بھی آنسو گیس کی شیلنگ اور ہوائی فائرنگ کی، لیکن پولیس نے قرآن مجید کی مبینہ بے حرمتی کے الزام میں ایک شخص کو گرفتار کے حالات پر قابو پالیا اوراسے پولیس کی وردی پہنا کر اس کو اس علاقے سے نکال کر نامعلوم مقام پر لے گئے۔مراد واہن محلے میں قرآن مجید کی بے حرمتی کے خلاف اتوار کو ضلع بھر میں مکمل ہڑتال رہی۔ تمام کاروباری مراکز،پیٹرول پمپ،اور ٹرانسپورٹ مکمل طور پر بند رہی،انتظامیہ نے صورتحال قابو میں رکھنے کے لیے ضلع بھر میں موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی لگا دی تھی۔ داخلی و خارجی راستوں پر خصوصی دستے مقرر کیے گئے۔ پولیس اور رینجرز اہلکار پورا دن شہر میں گشت کرتے رہے۔ لاڑکانہ میں پیش آنے والے واقعے کے خلاف گڑھی خیرو کی مذہبی جماعتوںکی کال پر گڑھی خیرو شہر میں شٹر بند ہڑتال کی گئی اورلاڑکانہ میں پیش آنے والے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور واقعے میں ملوث ملزمان کی فوری گرفتاری اور سخت سزا دینے کا مطالبہ کیا۔ نامعلوم افراد کی جانب سے مندر جلائے جانے اور دیگر املاک کو نقصان پہنچائے جانے پر اگرچہ ہندو برادری میں سوگ کی کیفیت پائی جاتی ہے، تاہم ہندو رہنماﺅں نے اپنی ہم وطن مسلم برادری کے رنج و غم میں ان سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے قرآن مجیدکے اوراق جلانے کے عمل کو سنگین گھناﺅنا جرم قرار دیا ہے اور اس کے ذمہ دار کو کڑی سزادینے کا مطالبہ بھی کیا۔ ہندو رہنماﺅں نے خطاب کر تے ہوئے کہا کہ پاک اوراق کی بے حرمتی پر ہمیں اتنا ہی دکھ ہو ا ہے جتنا مسلمانوں کو دکھ ہوا ہے۔ حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے اتوار کے روز لاڑکانہ سرکٹ ہاﺅس میں پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی محمد ایاز سومرو، رکن قومی اسمبلی رمیش لال، لاڑکانہ ڈویڑن اور ضلعی انتظامی افسروں، جمعیت علمائے اسلام، جمعیت علمائے پاکستان، جماعت اہلسنت، شیعہ علماءکونسل، پاکستان سنی تحریک، جسقم سمیت دیگر سیاسی اور مذہبی جماعتوں کا ایک گھنٹے تک اجلاس ہوا ،جس میں مذہبی جماعتوں کے مقامی رہنماﺅں نے انتظامیہ پر واضح کیا کہ مندر پر حملہ کرنے والے شرپسندوں سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، سازش کو بے نقاب کیا جائے۔ ہندوﺅں کے ہولی کے دن ہندو اور مسلمانوں کو لڑانے کی سازش کی گئی۔ انہوں نے عوام سے اپیل بھی کی کہ شرپسندوں کی نشاندہی کی جائے،تاکہ اس کے خلاف قانونی کارروائی کی جاسکے۔ اسلام کسی کے مذہبی مقامات پر یوں حملوں کی اجازت نہیں دیتا، یہ کون لوگ تھے، ان کا پتا لگایا جائے، یہ یقیناً سازشی عناصر تھے، جن کے خلاف کارروائی ہونا ضروری ہے۔ مذہبی رہنماﺅں کا کہنا تھا کہ قرآن مجید کے اوراق کی بے حرمتی کے بدلے میں کچھ لوگوں نے مندر پر حملہ کیا ہے، جس کی اسلام میں اجازت نہیں ہے،یہ وہ لوگ ہیں جو اس قسم کے واقعات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

سرکاری ذرائع کے مطابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے لاڑکانہ کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے سندھ حکو مت کو یہ ہدایت کی کہ ذمہ داروں کے خلاف سخت کاروائی کی جائے، اس کے ساتھ وزیر اعظم نے لاڑکانہ جیسے واقعات کے تدارک کے لیے تمام صوبائی حکو مت کو سخت انتظامات اور اقلیتوں کے مقدس مقامات کے لیے سیکورٹی انتظامات کر نے کی بھی ہدایت کی۔ پاکستان تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے بھی لاڑکانہ وا قعہ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عبادت گاہیں امن کی علامت اور قابل احترام مقامات ہیں ، حکومت سندھ لاڑکانہ وا قعہ کے حقائق کا جائزہ لے کر ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کرے ، لاڑکانہ میں قرآن مجید کے اوراق اور مذہبی عبادت گاہوں کی بے حرمتی انتہائی افسوسناک ہے۔ ان کے علاوہ بھی کئی رہنماﺅں نے لاڑکانہ میں پیش آنے والے واقعات کی مذمت کی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے لاڑکانہ میں مبینہ طور پر قرآن مجید کی بے حرمتی اور ہندو برادری کے مندروں پر حملے کی سخت مذمت کرتے ہوئے ڈویڑنل کمشنر اور ڈی آئی جی پولیس لاڑکانہ سے واقعہ کی تفصیلی رپورٹ طلب کر لی ۔ وزیراعلیٰ ہاؤس سے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق لاڑکانہ میں پیش آنے والے افسوسناک واقعہ کے بعد وزیراعلیٰ سندھ نے ڈویڑنل کمشنر اور ڈی آئی جی لاڑکانہ سے فوری رابطہ کرتے ہوئے ہدایت دی کہ لوگوں کے جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے اور امن و امان کی فضا کو ہر صورت برقرار رکھنے کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کیے جائیں۔ وہ واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف فوری طور پر سخت قانونی کارروائی کر کے ان کو عدالت کے کٹہرے میں لائیں،تاکہ ان کو سزا سنائی جائے۔سندھ کے وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے لاڑکانہ واقعہ کو مسلمانوں اور ہندوﺅں کو لڑانے کی ساش قراردیتے ہوئے کہا کہ اسلام امن و محبت کا مذہب ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ لاڑکانہ واقعہ کوئی بڑی سازش معلوم ہوتی ہے،قرآن مجید کی بے حرمتی سے تمام مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوئے ہیں، اس کے پس پردہ کیا ہے اس کا بھی پتا لگانا چاہیے۔ واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے امریکی حکومت کے مشاورتی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے پاکستان سے آئین میں تبدیلی اور توہین مذہب قانون میں اصلاحات کرنے کا مطالبہ کیا تھااور ساتھ ہی کمیشن کی رپورٹ میں مذہبی آزادی کے حوالے سے ممالک کو دو درجات میں تقسیم کیا گیا تھا۔ پہلے درجے میں پندرہ ممالک ہیں جن میں سے ایک پاکستان بھی ہے، امریکا کو ان ممالک پر تشویش تھی۔ دوسرے درجے میں آٹھ ممالک ہیں جن میں افغانستان اور بھارت بھی شامل ہیں۔اب قابل غور بات ہے کہ عین انہی دنوں لاڑکانہ میں توہین مذہب کا واقعہ پیش آجانا، اس کے نتیجے میں نامعلوم افراد کی جانب سے ہندﺅں کے مندر کو آگ لگانے کی کوشش کرنا کوئی خاص معنے رکھتا ہے۔کیا اسی قسم کے واقعات کو بنیاد بنا کر قانون توہن مذہب کو متنازعہ بنانے کی کوشش تو نہیں کی گئی؟ ویسے بھی جب تمام مذہبی رہنماﺅں نے لاڑکانہ میں مندر کو آگ لگانے سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے تو پھر وہ کون نامعلوم افراد تھے جنہوں نے مندر کو آگ لگانے کی کوشش کی؟اور حالات میں کشیدگی پیدا کی؟ان کو ڈھونڈنا حکومت کی ذمہ داری ہے، ان حالات میں تو مذہب کی حفاظت کی خاطر آئین و قانون پر عمل کرنا اور بھی زیادہ ضروری ہوگیا ہے، کیونکہ جب قانون پر عمل ہوگا تو کوئی شخص بھی خود سے کارروائی نہیں کرے گا۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 700719 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.