وہ میری شعوری زندگی کے ابتدائی ماہ و سال تھے۔ جب میں نے
مفتی محمد جمیل خان اور ان کے ’’اقرأ‘‘ کا نام سنا اور اس کثرت سے سنا کہ
بڑوں کی مجلسوں میں، چھوٹوں کی گفتگوؤں میں، خواص میں ، عوام میں، اخبارات
میں، سائن بورڈوں اور دیواروں پر، دیکھتا، پڑھتا اور سنتا رہا۔ جس سے ان کے
نام وکام کی ہیبت وعظمت دل ودماغ میں بیٹھتی گئی۔
وہ ایک عجیب سی پرکشش شخصیت کے مالک تھے، ان کا ایک بالکل نئے طرز وانداز
کا ادارہ ’’اقرأ روضۃ الاطفال‘‘ ہی اطفال و اکبار کی راحت و دل افروزی اور
ترتیب و تہذیب کا سامان بہم پہنچانے کے لئے روبہ عمل نہ تھا، بلکہ ان کے
’’اقرأ ڈائجسٹ‘‘ نے بھی ادبی اور صحافتی دنیا میں اک ہلچل مچا دی تھی۔
ڈائجسٹ کا نام سنتے ہی رومانوی کہانیوں، ہیجان انگیز تصویروں اور جرائم
پروری، اخلاق باختگی اور جنس و مادہ کی پوجا پاٹ پر مشتمل مواد کے ایک ایسے
مجموعے اور مغلوبے کا تصور ذہن میں آتا ہے ، جسے کوئی شریف آدمی ہاتھ تک
نہیں لگاتا اور نہ ایمان و اخلاق کی قدروں سے وہ کوئی میل کھاتا ہے۔ مگر
’’اقرأ ڈائجسٹ‘‘ کی تحریریں، دینی واخلاقی رنگ میں رنگی ہوئی اور مقصدیت و
متانت کا ایسا نمونہ ہوتی تھیں کہ نونہالوں سے لے کر بزرگوں تک اور اسکول
کالج سے مسجدوں اور خانقاہوں تک، مردوں عورتوں سبھی میں اس کی مقبولیت
یکساں تھی۔ دل نشین تحریروں، پروقار انداز اور دیدہ زیب سیٹنگ کے ساتھ ساتھ
اس کا ایک بڑا امتیاز و انفرادیت یہ تھی کہ ایک مقدس مشن کا عَلم بردار اور
ایک عظیم مقصد کا ترجمان تھا۔ ’’اقرأ روضۃ الاطفال‘‘ اور ’’اقرأ ڈائجسٹ‘‘
کے علاوہ خود بانیٔ ’’اقرأ‘‘ مولانا مفتی محمد جمیل خان صاحب رحمہ اﷲ کی
شخصیت کچھ ایسی دل کش و متاثر کن تھی کہ موافق تو کیا مخالف بھی ان کی
شخصیت پر انگلی اٹھانا چاہتا تو اسے سمجھ نہ آتا کہ کیا کہے؟ ہدف تنقید
بنانے کے لئے اسے کوئی بات ، کوئی نکتہ سُجھائی نہ دیتا۔
مفتی صاحب رحمہ اﷲ مِیں ’’اقرأ‘‘ جیسے ملک گیر ادارے کے بانی مبانی اور اس
مستحکم ادارے کے کرتا دھرتا ہونے کے باوجود ادنیٰ تعلـی اور دعوے داری نہ
تھی۔ امتیازی شان و شوکت ، مخصوص جبہ وقبہ کا تو ان کے ہاں کوئی تصور ہی نہ
تھا، بس اک عام سی مولویانہ وضع قطع کہ جب تک اپنی پہچان خود نہ کروائیں،
پہچانے بھی نہ جائیں۔ نام اور کام کی بے پناہ شہرت ومقبولیت کے علی الرغم
پس پردہ اور سادہ اطوار رہنے کی وجہ سے وہ شکل و شباہت سے جمیل خان بالکل
نہیں لگتے تھے جس کے پرشکوہ تصور اور دیوہیکل تشخص سے دل ودماغ ہیبت زدہ
تھا۔ سادگی کے باوصف اس بلا کی ذہانت، بیدار مغزی اور مردم شناسی کا ایسا
جَوہر اﷲ تعالیٰ نے ان میں ودیعت فرمادیا تھا کہ کسی کا ان کو فریب دینا
اور غلط فہمی میں ڈالنا تو دور کی بات، ان کی طبیعت سمجھنے اور اس کا صحیح
اندازہ لگانے کا بھی کوئی دعویٰ نہیں کرسکتا تھا۔
میرے لئے ان کی شخصیت کئی حوالوں سے دل چسپی اور جستجو کا محور تھی، ایک تو
طبعی طور پر معاشرے کے ایسے حقیقی کرداروں سے مجھے محبت اور دلچسپی تھی، جو
اپنی خداداد صلاحیت وبصیرت کی بناء پر کوئی انقلابی اقدام کرتے ہیں اور
کوئی ایسا کردار ادا کرتے ہیں جو صحیح معنوں میں دریافت، ایجاد، تخلیق اور
کارنامہ کہلاسکتا ہے۔
دوم اتفاق سے کم عمری میں ہی تدریس اور وفاق کی دوہری ذمہ داریاں ایک ساتھ
مجھ پر آن پڑی تھیں اور مفتی صاحب رحمہ اﷲ بھی نوجوانی میں میدان عمل میں
اترے تھے اور مجھ سے قبل مولانا حسین احمد، مولانا شمس الحق مشتاق اور ان
دونوں سے پہلے مفتی صاحب رحمہ اﷲ ہی وفاق کے ذیلی ناظم تھے۔ اس حوالے سے ان
کی ذات میں میرے لئے بڑی کشش تھی اور ان کے تجربات ، آراء اور مشاورت سے ہی
مستفید ہوتا تھا اور اسے اپنے لئے ضروری سمجھتا تھا۔ میں یہ محسوس کرتا ہوں
کہ مفتی صاحب رحمہ اﷲ خلوص اور شفقت سے میری رہنمائی فرماتے تھے۔ ۱۹۹۰ء سے
پہلے کی بات ہے ،مخدوم ومعظم حضرت مفتی نظام الدین شامزئی نوراﷲ مرقدہ یہاں
راہ گزر مسجد میں ہوتے تھے، مفتی محمد جمیل خان رحمہ اﷲ اور برادر گرامی
مولانا سعید احمد جلال پوری ان کے ہاں تشریف لاتے تھے۔
میں بھی اکثر خدمت میں حاضر ہوتا تھا، باتیں ہوتیں تو بزرگوں کا احترام
ملحوظ رکھتے ہوئے میں بھی گفتگو میں حصہ لیتا تھا، ایک روز باتوں باتوں میں
مفتی محمدجمیل خان صاحب، حضرت مفتی صاحب سے کہنے لگے: ’’مفتی صاحب! یہ
نوجوان لڑکا ہے، اس کی اچھی استعداد ہے، وفاق کے دفتر میں بیٹھ بیٹھ کر
ضائع ہوجائے گا، ان سے کہیں ہمارے ساتھ آجائیں، اقرأ میں کوئی شعبہ ان کے
حوالے کردیں گے، ہمارا بھی کام ٹھیک ہوگا، ان کی بھی ترقی ہوگی‘‘۔ مفتی
نظام الدین شامزئی رحمہ اﷲ نے فرمایا: ’’نہیں! یہ ادھر ہی ٹھیک ہے، تدریس
سے بھی وابستہ ہے، اور یہاں کام کے مواقع بھی اس کے لئے زیادہ ہیں‘‘۔ مفتی
محمد جمیل خان اپنے مشن کی کامیابی کے لئے پرخلوص اور سرگرم تھے، اس کے لئے
محنتی ، لائق اور پُھرتیلے افراد کی تلاش میں رہتے تھے۔ اپنے ساتھیوں اور
نوجوانوں سے کام لینے اور ان کی بھلائی کے لئے بھی فکر مند ہوتے تھے۔
بزرگوں اور اکابر علماء سے مفتی صاحب کی گہری محبت اور ان کی خدمت سے انہیں
جنون کی حد تک لگاؤ تھا۔ مشایخ اندرون ملک کے ہوتے یا بیرون ملک کے جمیل
خان رحمہ اﷲ گویا ان کی خدمت کے لئے وقف تھے۔ ان کا کمال یہ تھا کہ بزرگوں
کی خدمت کرنا چاہتے تھے تو خدمت کاطریقہ بھی جانتے تھے، خدمت کا جذبہ تو
بہتوں میں ہوتا ہے، تاہم اسکے لطائف واسرار کوئی کوئی جانتا ہے۔ بعض لوگوں
کی خدمت کبھی کبھار بزرگوں کے لئے زحمت کا باعث بن جاتی ہے۔ مفتی صاحب خدمت
اکابر کے صحیح معنوں میں رمزشناس تھے اور اکابر ہی کیا وہ تو ہم جیسے اصاغر
کے کام آکر بھی خوشی محسوس کرتے تھے۔ ۱۹۹۴ء میں راقم نے عمرہ کے لئے جانا
چاہا تو بہتیری کوشش کے باوجود کام نہ بن سکا، ایسے مواقع پر ہمیں جمیل خان
صاحب رحمہ اﷲ ہی یاد آتے تھے، میں نے ان سے درخواست کی، تاہم دل میں سوچا
کہ اولاً تو مولانا اس کو کوئی زیادہ اہمیت نہیں دے پائیں گے اور اگر اہمیت
دے بھی دی تو ہفتوں ، مہینوں بعد ہی شاید کوئی صورت بنے گی۔ مگر میری حیرت
کی کوئی انتہا نہ رہی، جب اسی رات مفتی صاحب نے مجھے فون کرکے بتایا کہ:
’’بھائی! آپ کا کام ہوگیا ہے، ویزا لگ چکا ہے‘‘۔ میں نے پہلے تو اسے مذاق
سمجھا مگر ان کے انداز سے یقین ہوگیا کہ وہ حقیقت بتارہے ہیں اور پھر مجھے
جب یقین آیا تو اب مجھ سے رہا نہ جارہاتھا، میں نے فوراً آنے کے لئے کہا تو
انہوں نے کہا: ’’ابھی آنے کی ضرورت نہیں ہے، میں نے پاسپورٹ قاری فیض اﷲ
چترالی صاحب کو دے دیا ہے، وہ پہنچا دیں گے‘‘۔ میں رات گئے نکلا اور پرانی
سبزی منڈی میں قاری صاحب سے پاسپورٹ لیا، میری خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی،
میں مفتی صاحب کو دل و زبان سے دعائیں دیتا رہا اور ان کی ’’چستی‘‘
اورمہربانی کی داد دینے لگا۔
مفتی محمد جمیل خان کانام آتا ہے تو یادوں کا ایک دستہ صف بستہ آنکھوں کے
سامنے آجاتا ہے، ہر یاد، یادِ شیریں اور ہرادا، ادائے دل نواز ہے۔ ان کا
ہنستا مسکراتا چہرہ کبھی کہیں ایک انداز میں خیالات میں گھومتا ہے، تو کہیں
دوسری ہیئت میں تصورات کو ٹٹولتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ پچھلے سال ریجنٹ پلازہ
میں مفتی محمود اکیڈمی کی طرف سے حسبہ ایکٹ کے حوالے سے مفتی صاحب کی
زیرنگرانی منعقدہ پروگرام میں ان کی محبت و شفقت اور برادرانہ ونیازمندانہ
گفت و شنید آج بھی سماعت میں رس گھول رہی ہے اور نگاہیں اس منظر کو ترس ترس
جاتی ہیں۔
پچھلے سال ’’اقرأ‘‘ کی تقریب کے موقع پر انہوں نے بڑی محبت سے حضرت صد ر
وفاق المدارس مولانا سلیم اﷲ خان صاحب مدظلہم العالی کو مدعو کیا اور پھر
حضرت کو لے جانے کے لئے خصوصی گاڑی بھیجی۔ میں ، برادرم مولانا عزیز الرحمن
العظیمی استاد جامعہ اور بعض دیگر احباب بھی پروگرام میں شرکت کے لئے لے
جائے گئے۔ یہ ایک منفرد اجتماع تھا، جس میں جدت، روحانیت، ندرت، تمکنت، دل
کشی اور کشش اپنے نقطۂ عروج کو پہنچی ہوئی تھی۔ وہ جدید طبقے کو دین کی طرف
راغب کرنے کا سلیقہ اور ملکہ رکھتے تھے، ان کے دلوں میں اسلام کا پائیدار
نقش بٹھانے کا گُر جانتے تھے اور بڑی کامیابی کے ساتھ قرآن کی تعلیم اور
پیغام حق کی ترویج میں مصروف عمل تھے۔ اﷲ تعالیٰ مفتی محمد جمیل خان شہید
رحمہ اﷲ کی خدمات قبول فرمائے۔ آمین۔
(بینات، مفتی محمد جمیل خان نمبر)
|