نجکاری کمیشن نے قومی اداروں کی تیز بنیادوں پر نجکاری کا
عمل شروع کر دیا،30 جون 2014ء تک 1.6ارب ڈالر کا ہدف پورا کرنے کے لئے او
جی ڈی سی ایل، پی پی ایل، یونائیٹڈ بینک کے مالیاتی مشیر 16اپریل کو طلب
جبکہ ہیوی الیکٹریکل کمپلیکس کے 96 فیصد شیئرز کی نجکاری کے لئے 16مئی تک
اظہار دلچسپی کی درخواستیں مانگ لی گئیں۔ اعلیٰ حکومتی قیادت کی ہدایت پر
نجکاری کمیشن آف پاکستان نے قومی اداروں کی فاسٹ ٹریک نجکاری کا عمل شروع
کر دیا ہے جبکہ 30 جون تک نجکاری کے ذریعے 1.6 ارب ڈالر آمدنی کا ہدف پورا
کرنے کے لئے حکومتی موقف کے برعکس سب سے پہلے منافع بخش ادارے کا نمبر
لگایا گیا ہے۔ مذکورہ تینوں ادارے حکومت پاکستان کو منافع دے رہے ہیں جبکہ
صرف او جی ڈی سی ایل نے گزشتہ مالی سال کے دوران 100 ارب روپے خالص منافع
کمایا۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت ہمیشہ کہتی آئی ہے کہ خسارے میں چلنے والے
قومی ادارے خزانے پر بوجھ ہیں جنہیں چلانے کے لئے سالانہ 500ارب روپے قومی
خزانے سے خرچ کرنا پڑتے ہیں۔ مشترکہ مفادات نے مذکورہ اداروں کے صرف 26فیصد
شیئرز فروخت کرنے کی منظوری دے رکھی ہے۔ نجکاری کمشن نے مذکورہ بالا اداروں
کے 26فیصد سے زیادہ شیئرز نجی شعبے کے پاس فروخت کرنے کی پالیسی تیار کی ہے
جو کہ آئین کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ پیپلز پارٹی نے حکومت سے مطالبہ کیا
ہے کہ وہ قومی اداروں کی نجکاری کرنے سے گریز کرے، نجکاری کسی مسئلے کا حل
نہیں ہے۔ اگر کسی قومی ادارے میں کوئی خرابی ہے تو حکومت اسکو فوری طور پر
دور کرے، سرکاری محکموں کی نجکاری انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، حکومت
نجکاری کے نام پر ’’دوستوں‘‘ کے مفاد کیلئے کام کر رہی ہے، اگر حکومت نے
قومی اداروں کی نجکاری کی تو پھر ان قومی اداروں میں کام کرنے والوں کے
ساتھ ملکر حکومت کو ایسا کرنے سے روکیں گے۔ اگر کوئی قومی ادارہ ٹھیک کام
نہیں کر رہا تو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ اس ادارے کو ٹھیک کرے کیونکہ
اداروں کو فروخت کر دینا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ بدقسمتی سے ملک میں تاجروں
کی حکومت ہے۔قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ہمیں خوف
ہے کہ کہیں میاں صاحب کی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کی نجکاری کا اشتہار
نہ آ جائے۔ حکومت امن و امان نہیں دے رہی ،تو پولیس اور فوج کی بھی نجکاری
کر دے۔ کارخانے چلانا حکومت کا کام نہیں تو کس کا ہے۔ ادارے حکومت کے پاس
ہونے چاہیے۔ 169 ادارے ن لیگ نے پرائیویٹائز کیے اس پر کمیٹی بنائی جائے
اور رپورٹ سامنے لائی جائے۔ ہمیں بتایا جائے پہلے جن اداروں کی نجکاری ہوئی
ان کا پیسا کہاں استعمال ہوا، 34 فیصد ادارے نجکاری کے بعد تباہ ہوئے۔
خیبرپختونخوا، سندھ اور بلوچستان کے وزرائے اعلیٰ نجکاری کی مخالفت کریں تو
لاکھوں مزدورں کا بھلا ہوگا۔لاہور پریس کلب کے سامنے نجکاری کے خلاف ایک
احتجاجی جلسے سے امیر جماعت اسلامی سید منورحسن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ
حکومت گزشتہ ادوار میں فروخت کیے گئے 167 قومی اداروں سے حاصل ہونے والی
آمدن کا حساب دے اور جوڈیشل کمیشن بنا کر قوم کے سامنے حقائق پیش کیے جائیں
۔ قومی اداروں کی نج کاری سے لاکھوں محنت کش بے روزگار اور ملک کا مستقبل
تاراج ہوجائے گا۔ ملک بھر کی مزدور تنظیمیں ،کسان اور طلبہ متحد ہو کر نج
کاری کے خلاف جدوجہد کریں ۔ بیسیوں منافع بخش قومی اداروں کو اونے پونے
داموں بیچ دیا گیا جن کے بند ہونے سے لاکھوں مزدور بے روزگار ہو ئے۔ قومی
ادارے قوم کی ملکیت ہیں جبکہ حکمران ان اداروں کو کوڑیوں کے بھاؤ اپنے رشتہ
داروں کے حوالے کرنا چاہتے ہیں ۔نج کاری آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کا
ایجنڈا ہے ۔ حکمران اگر واقعی ملک سے مخلص ہیں تو اپنے اثاثے قومی بنکوں
میں لے کر آئیں تاکہ کسی بیرونی مالیاتی ادارے سے بھاری شرح سود پر قرض
لینے کی ضرورت پیش نہ آئے ۔حکمران آئی ایم ایف کو ہمارے سروں پر مسلط کرنا
چاہتے ہیں اگر ایک ایک کر کے قومی ادارے بکتے رہے تو بے روزگاری بڑھے گی جس
کے نتیجے میں ملک جرائم کا گڑھ بن جائے گا ۔ گزشتہ دور حکومت میں نوازشریف
نے حبیب بنک 22ارب روپے میں آغا خان کے ہاتھ بیچ دیا حالانکہ 184 ارب کے
بنک کے اثاثے تھے ۔ 2300 ملازمین کو فارغ کردیا گیا ۔ امریکہ اسرائیل اور
بھارت چاہتے ہیں کہ پاکستان میں انتشار اور بے چینی کو فروغ ملے تاکہ ان کی
پاکستان کے جوہری اثاثوں کو بین الاقوامی کنٹرول میں لینے کی خواہش پوری
ہوسکے ۔ اقوام متحدہ ، یورپی یونین اور امریکہ کو یہ فکر چھوڑ دینی چاہیے
کہ امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد افغانستان کا کیا بنے گا ۔ حکمران امریکہ
کے پاؤں پڑنے کی بجائے خطے سے انخلا میں اس کی مدد کریں جب تک ایک بھی
امریکی فوجی خطے میں موجود ہے ، ملک سے دہشتگردی ختم نہیں ہو گی ۔امریکی
فوج کی موجودگی ہی ملک میں دہشتگردی کی وجہ ہے ۔ کوئی حکومت بھی کرپشن ختم
کرنے کے لیے تیار نہیں جس کی وجہ سے حکمرانوں کو قرض لینا پڑتاہے اور پھر
قرض کی رقم اپنے اللے تللوں میں اڑا دیتے ہیں ۔ نج کاری سرمایہ دارانہ نظام
کی ناجائز اولاد ہے ۔سرمایہ دار غریب عوام سے ان کے جینے کا حق چھینا چاہتے
ہیں ۔ ملک کے لاکھوں محنت کش متحد ہو کر قومی اداروں کی نج کاری نہیں ہونے
دیں گے ۔ملک کے مختلف اداروں میں کام کرنے والے لاکھوں مزدور اور محنت کش
حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پریشان ہیں ۔ ملک کے اندر یہ کھیل
تماشا عرصے سے جاری ہے کوئی حکمران آ کر اداروں کو نیشنل لائز کر دیتاہے
اور کوئی بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے قرضے کے حصول کے لیے نج کاری کے
معاہدے کرتاہے ۔ قومی اداروں اور مزدوروں کے مفادات کسی کو عزیز نہیں ۔ جب
نج کاری ہوتی ہے تو بے روزگاری کی تلوار چلتی ہے جس سے سینکڑوں اور ہزاروں
مزدور ں کا معاشی قتل ہوتاہے ۔
|