ایک علمی کارکن کی رحلت

"علمی کارکن"کی اصطلاح شاید آپ کو عجیب سی محسوس ہو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دیگر اور کارکنان علم و ادراک سے محروم ہیں ۔ان الفاظ کی پشت پر ایک اہم بات پوشیدہ ہے ہمارے دائرے میں بعض ایسے افراد ہوتے ہیں جو سو فیصد ہمارے کارکن ہوتے ہیں ان سے آپ ملیں تو تحریکی گفتگو کے علاوہ کوئی اور موضوع نہیں ہوتا لیکن وہ جماعت کے تنظیمی اجتماعات میں بالکل شریک نہیں ہوتے مقامی حلقوں کے مستقل نوعیت کے پروگراموں میں بھی ان کی موجودگی نظر نہیں آتی ناظم حلقہ و دیگر کارکنان کو ایک درجہ میں ان سے شکایات بھی ہوتی ہیں ۔لیکن وہ صاحب ان تمام چیزوں کی پرواہ کیے بغیر اپنے کام میں لگے رہتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو ایسا لگتا ہے کہ دنیا میں کچھ لوگوں کو اﷲ میاں کسی خاص کام کے لیے پیدا کرتا ہے اور وہ صبح سے شام بلکہ 24گھنٹے اسی کام میں جنون کی حد تک منہمک رہتے ہیں۔محترم قاسم جمالی صاحب شاید ایسے ہی اپنے رب کے چنیدہ بندوں میں سے تھے ،جو تحریکی فکر کو آگے بڑھانے اور پھیلانے کی فکر میں ڈوبے رہتے تھے ۔1972میں جب میں عملاَتنظیم سے وابستہ ہوا اور ایک سال بعد اپنے حلقہ کا ناظم بنایا گیا تو اس وقت ہمارے پاس جتنے کارکنان تھے اس میں قاسم جمالی صاحب بھی تھے ۔تعارف تو ان سے پہلے ہو چکا تھا یہ چونکہ باتیں بڑی اچھی کرتے تھے جو دل کو بھی لگتی تھی لیکن یہ حلقہ کے اجتماع کارکنان میں شریک نہیں ہوتے تھے ہاں البتہ کوئی اہم یا بڑا پروگرام ہو تو اس میں ضرور شرکت کرتے تھے ۔ایک دفعہ میں نے اسی حلقہ کے ایک دیرینہ کارکن مرحوم اسلام اﷲ صاحب سے پوچھا کہ یہ جمالی صاحب کیسے کارکن ہیں میں چونکہ نیا نیا کارکن بلکہ ناظم بنا تھا اس لیے انھوں نے بہت ہی مثبت (positive)الفاظ استعمال کرتے ہوئے جواب دیا کہ جمالی صاحب جماعت اسلامی کے علمی کارکن ہیں مجھے ان کا یہ جواب اس لحاظ سے اچھا لگا کہ اس سے جمالی صاحب کی شخصیت کا ایک اچھا تاثر سامنے آیا ورنہ آج کل اس طرح کے کیس میں آپ کسی سے سوال کریں تو وہ چھوٹتے ہی کہہ گا کہ "ارے وہ کیا کارکن وارکن بس ان سے باتیں بنوالو یا پھر جماعت پر ان کی ناقدانہ گفتگو سنو کام ایک ڈھیلے کا وہ نہیں کرتے"

جمالی صاحب سے میری پہلی باقاعدہ ملاقات ان کے گھر میں ہوئی تھی جب میں کسی کارکن کے ساتھ گیا ویسے تو سلام دعا اور تعارف ہو چکا تھا،سکندرآباد میں پیلی کوٹھی سے تھوڑا آگے اعظم نگر کی طرف جاتے ہوئے ان کا گھرتھا میں جب ان کے پہلے کمرے میں جو ان کا ڈرائنگ روم تھا بلکہ وہ کتابوں والا کمرہ یعنی لائبریری جس میں سیکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کتابیں ہوں گی۔اس سے پہلا تاثر تو بہت اچھا پڑا دراصل جب کوئی فردنیا تحریک میں داخل ہوتا ہے تو ہر چیز کو بڑی گہرائی سے دیکھتا اور پرکھتا ہے ،جمالی صاحب کی علمی شخصیت کے حوالے سے تعارف کے بعد ان کی درد میں ڈوبی ہوئی بات چیت نے ان کی جماعت اور تحریک کے ساتھ لگن اور تڑپ کو ظاہر کیا پھر انھوں نے اپنی بچیوں کو رابعہ اور امینہ کہہ کر آواز دی یہ دونوں بہنیں جو اس وقت چھ اور سات سال کی ہوں گی جب پانی کا جگ اور گلاس لیے ہوئے آئیں تو کم عمری کے باوجود انھوں نے سر پر دوپٹہ اس طرح اوڑھا ہوا تھا جس طرح خواتین نماز کے لیے پورے بالوں اور کانوں کو ڈھانپتی ہیں اور انھوں نے بڑے ادب سے ہم سب کو سلام کیا یہاں مجھے جمالی صاحب کے قول فعل میں یکسانیت نظر آئی ایک تاثر یہ بھی ذہن میں ابھرا کہ جماعت کے لوگ کس طرح اپنے بچوں کی تربیت کرتے ہیں ۔قاسم جمالی صاحب کی گفتگو کا موضوع "قرآن"ہوتا تھا ۔وہ تبلیغی جماعت والوں یہ تنقید کرتے تھے یہ لوگ قران کی بات اور قران سے کوئی بات نہیں کرتے اپنی مخصوص کتب کا مطالعہ کرتے ہیں اور قصے کہانیوں میں لوگوں کو الجھاتے ہیں سوائے جماعت اسلامی کے دیگر تمام دینی جماعتیں مسلک اور فرقوں میں منقسم ہیں جمالی صاحب کہتے تھے کہ پورے ملک میں صرف جماعت اسلامی وہ واحد جماعت ہے جو لوگوں کو قرآن کی طرف بلاتی ہے ۔لیکن وہ اس بات پر کڑھتے تھے کہ کارکنان جماعت قرآن پڑھتے تو ہیں اس کو سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے ۔سیکھنے سے ان کی مراد یہ تھی جماعت کے کارکنان کو عربی سیکھنی چاہیے تاکہ وہ قران پڑھتے وقت اس کا ترجمہ بھی سمجھتے رہیں جمالی صاحب کو مطالعہ کا جنون کی حد تک شوق تھاوہ کھانا کھاتے ہوئے بھی کچھ نہ کچھ پڑھتے رہتے تھے ۔آپ ان سے ملیے تو سلام دعا کے بعد وہ اپنے اصل پسندیدہ موضوع پر بات شروع کردیتے،اگر کوئی حال ہی میں کوئی کتاب پڑھی ہو تو اس کی کوئی خاص چیز ان کے ذہن میں ہوتی تو اسی سے بات کا آغاز کر دیتے ۔کتاب خریدنے کا شوق اتنا شدید تھا کہ ان کی اہلیہ بتاتی ہیں کہ جمالی صاحب جو سرکاری ملازم تھے کثیر العیال ہونے کے باوجود قلیل تنخواہ میں بڑی خود داری سے گزارہ کرتے تھے وہ جب صبح دفتر جاتے تو دوپہر کے کھانے کے لیے جو پیسے لے کر جاتے ان پیسوں سے وہ کوئی کتاب خرید لاتے اور دن بھر بھوکے رہتے نئی کتاب خریدنے کے بعد انھیں شاید بھوک کا احساس ختم ہو جاتا جمالی صاحب کی ایک عادت یہ بھی تھی کہ جو کوئی بھی ملتا اس سے اگر بات کرنے کا موقعہ نہ مل پاتا تو اسے کوئی پمفلٹ، دوورقہ یا کوئی کتاب ضرور دیتے،جس مسجد میں نماز پڑھتے وہاں کے پیش امام،خطیب اور موذن سے خصوصی رابطہ رکھتے اور انھیں کچھ نہ کچھ لٹریچر دیتے رہتے۔ایک ناظم حلقہ کی حیثیت سے ان سے رابطہ رہتا تھا ایک ہی موضوع پر بار بار کی گفتگو سے بعض اوقات بوریت بھی محسوس ہوتی تھی لیکن وہ جو بات کرتے تھے اس میں وزن ہوت تھا مثلاَوہ کہتے"جاوید صاحب آج اگر آپ کے پاس کوئی مسجد ہو تو اس کے لیے خطیب ،پیش امام اور عالم نہیں ملے گا "جس وقت وہ یہ بات کہتے تھے اس وقت واقعی ایسی ہی صورت تھی یہ تو1990کے بعد جماعت نے یا جماعت کے کچھ لوگوں نے اپنے شوق سے مدرسوں کا سلسلہ شروع کیا اور پھر جمعیت طلبہ عربیہ بھی کچھ فعال ہوئی تو اس شعبہ میں بھی کچھ لوگ دستیاب ہونے لگے ۔میں جمالی صاحب سے کہتا تھا کہ آپ عملاَ اس حوالے سے کوئی کام کر کے بتائیں تو لوگ اس طرف متوجہ ہوں گے اس سلسلے میں انھوں نے کچھ کام کی ابتدا بھی کی تھی لیکن اپنے خاص طرز فکر میں اکیلے ہونے کی وجہ سے انھیں ان جیسا کوئی مددگار نہ مل سکا ۔ہم میں سے جب کوئی آپس میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں تو سلام دعا کے بعد عموماَیہ جملے ادا کرتے ہیں :کیا حال ہے: آپ کیسے ہیں :کاروبار کا کیا حال ہے : ملازمت کہاں کررہے ہیں:بچوں کا کیا حال ہے:والدین جو بیمار تھے اب کچھ بہتر ہیں:یہ اور اس طرح کی دیگر معلومات کا ہم ایک دوسرے سے تبادلہ کرتے ہیں لیکن جمالی صاحب کی ڈکشنری میں سلام دعا کے بعد قرآن،حدیث اور کسی لٹریچر یا تازہ کتاب کے حوالے سے بات شروع کرنے کا قاعدہ لکھا ہوا تھا ۔یہ الگ بات ہے کہ آپ خود ان سے ان کے حال احوال اور بچوں کا پوچھیں تو اس کا مختصر سا جواب دے کر اپنے موضوع پر بات آگے بڑھاتے یا اس کے جواب میں بھی وہ اپنی کڑھن کا اظہار کردیتے ایک دفعہ میں نے ان کی بچیوں کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے ان کی تعلیم وغیرہ کا بتا کر کہا کہ دیکھیے یہ کتنا المیہ ہے کہ میں اپنی بچیوں کے لیے چاہتا ہوں کہ دینی علوم سے وابستہ قران و حدیث کے عالم طرز کا کوئی رشتہ مل جائے لیکن اس شعبہ کتنا تحت الرجال ہے ۔قاسم جمالی صاحب اصلاَ اور نسلاَ بنگالی تھے ان کے زخیرہ کتب میں بنگلہ کتب بھی بڑی تعداد میں تھی ہم اپنے ایک بنگالی دوست جناب سراج صاحب کو جمالی صاحب سے بنگلہ لٹریچر لے کر پڑھنے کے لیے دیتے تھے ۔سراج صاحب کے دو بیٹے طہٰ سراج اور طاسین سراج اس وقت جماعت اسلامی میں فعال ہیں ۔جمالی صاحب شروع سے کراچی میں رہائش پزیر تھے یہاں انھوں نے پنجاب فیملی میں شادی کی ان کی اہلیہ اور ساس دونوں لیاقت آباد میں جماعت کی فعال کارکن تھیں ان کی اہلیہ اب بھی فعال ہیں جمالی صاحب نے اپنے بچوں کی تربیت بہت اچھی کی میں اس کا تذکرہ خاص طور پر اس لیے کر رہا ہوں کہ اب تحریک سے وابستہ افراد نے اپنے بچوں کو جماعت کے سپرد کرنے کا سلسلہ ختم کر دیا اس طرح اب کوئی رکن وفات پاجاتا ہے تواس کے گھر سے دو جنازے اٹھتے ہیں ایک اس کا اپنا اور ایک جماعت اسلامی کا اور پھر کچھ دن بعد اس رکن کی یاد بھی ذہنوں سے محو ہو جاتی ہے مگر جب اس کا بیٹا یا بیٹی میں سے کوئی تحریک سے وابستہ ہوتا ہے تو اسے دیکھ کر اس کے باپ کی یاد ذہنوں میں اس رکن کی شکل نظروں کے سامنے آجاتی ہے مثلاَ اعجاز اﷲ کو دیکھ کر اسلام اﷲ مرحوم کی،مسلم بھائی کو دیکھ کر حاجی عبدالستار صاحب مرحوم کی،تحسین قاضی اور آصف قاضی کو دیکھ کر انکے والد شمیم قاضی مرحوم کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں پھر ان حضرات کے لیے دعائے مغفرت بھی ازخود دل سے نکلتی ہے ۔جمالی صاحب کے چار بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں اور سب کسی نہ کسی حوالے سے تحریک سے وابستہ ہیں ۔بڑی بیٹی رابعہ جن کے شوہر سعود احمد ہیں جو اسلامیات کے ٹیچر ہیں یہ دونوں اور ان کے بچے جماعت اور جمعیت سے منسلک ہیں دوسری بیٹی امینہ رکن جماعت ہیں اور بہت عرصے تک جماعت اسلامی لیاقت آباد کی ناظمہ بھی رہی ہیں ان کے شوہر سلیم صاحب ہیں جو نائب امیر زون لیاقت آباد جناب شہاب الدین کے چھوٹے بھائی اور خود بھی تحریکی فکر سے منسلک ہیں ان سے چھوٹے تیسرے نمبر پر طاہر جمالی جو رکن جماعت ہیں اور محمود آباد میں اپنا اسکول چلاتے ہیں ان سے چھوٹی بیٹی طاہرہ ہیں جن کے شوہر لطیف صاحب آزاد کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں تحریک سے وابستہ ہیں ان سے چھوٹے بیٹے ابراھیم جمالی ہیں جو یو کے اسلامک مشن لندن سے وابستہ ہیں ان سے چھوٹے طارق جمالی ہیں جو فیڈرل بی ایریا میں رہتے ہیں ان ہی گھر پر جمالی صاحب رہتے تھے بلکہ یہ جمالی صاحب کے ساتھ ان کے گھر پر رہتے ہیں اور سب سے چھوٹی بیٹی رافعہ ہیں جن کے شوہر عاقب جاوید ہیں یہ بھی آزاد کشمیر سے تعلق رکھتے ہیں اور تحریک سے وابستہ ہیں۔جمالی صاحب پچھلے تقریباَ تین سال سے بیمار تھے اس بیماری میں گرم و سرد کیفیت چلتی رہتی تھی لیکن پچھلے ایک ہفتے سے شدید بیمار تھے احمد میڈیکل سنٹر میں آئی سی یو میں داخل تھے ہفتہ اور اتوار 15اور16مارچ کی درمیانی شب یہ قرآن کا مبلغ اور مجاھد اپنے ارب کے حضور عازم سفر ہو گیا ۔اﷲ تعالی جمالی صاحب کی مغفرت فرمائے ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کے بچوں کے نیک اعمال کو ان کے درجات کی بلندی ذریعہ بنائے۔آمین

Jawaid Ahmed Khan
About the Author: Jawaid Ahmed Khan Read More Articles by Jawaid Ahmed Khan: 60 Articles with 43731 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.