اکثر اوقات ہم اللہ سے اپنے تعلق،
ایمان کی بڑھتی گھٹتی کیفیت سے فکرمند ہوتے ہیں، تو کبھی آسمان میں اڑتے
پرندوں کو غور سے دیکھا ہے، انکے پر کبھی پھیلتے ہیں کبھی سمٹتے ہیں، اوپر
نیچے کی جانب حرکت کرتے انکی اڑان بھرنے میں آسانی کرتے ہیں الحمدللہ!
تو انسان کا معاملہ بھی کچھ ایسا ہے اکثر اسکو لگتا ہے وہ بنا کسی جدوجہد
کے اللہ کی یاد میں مگن ہے اور ایک سکون سا دل و جان میں ہے مگر کبھی کبھی
اچانک جیسے دل بے کیف سا ہونے لگتا ہے۔ بوجھل سا، تو یہ وہی پل ہوتے ہیں
جہاں اس نے ہمت نہیں ہارنی، اب اللہ یہ دیکھتا ہے کہ میرا بندہ کیا کرتا ہے،
جیسے پرندے کے اوپر نیچے جاتے پر اس کو اڑان بھرنے میں مدد دیتے ہیں ایسے
ہی بندے کو ایمان کے درجے میں بڑھنے کے لیئے ان دونوں کیفیات سے گزرنا لازم
ہے،دوسرا یہ کیفیات بندے کو اس احساس سے آشنا رکھتی ہیں کہ وہ درحقیقت کچھ
نہیں، رب کی توفیق کے بنا وہ کچھ نہیں کر سکتا! اور ایسے میں بندہ رب سے
توفیق مانگتا ہے۔ اللہ کو فار گرانٹڈ نہیں لیتا، کہہ لیجیے پہلے اللہ بندے
کو یاد کر رہا تھا اب بندے کو صحیح معنوں میں اللہ یاد آ جاتا ہے۔ تو اس
طرح یہ کیفیت بھی درپردہ عطا ہے!
مزید، جیسے ماں بچے کو چلانا سکھا رہی ہوتی ہے تو اکثر اس کو اس کے اپنے
وجود پر چھوڑتی ہے کہ اس کے چلنے میں استقامت آۓ، مگر کیا ماں غافل ہو جاتی
ہے؟ نہیں ناں! تو اللہ تو ماں سے زیادہ بندے سے پیار کرتا ہے وہ بھی دیکھ
رہا ہوتا ہے، مگر اب بس وہ یہ دیکھتا ہے کہ میرا پیارا سا ڈگمگاتا بندہ
اڑان بھرتا بندہ اپنی جدوجہد کو میرے لیئے کس طرح کامل کیئے جا رہا ہے!
خدا سے خودی کا یہ خوبصورت سفر رب کی عطا کے بنا نا ممکن ہے!
بندے کی ریاضت مجاہدہ سب کچھ بھی نہیں اگر بندہ اسکو اپنی ذات سے منسوب کرے
کہ درحققت یہ سب اللہ کی عطا ہے الحمدللہ رب العالمین!
کیوںکہ جو ذات پرندے کو فضا میں تھامے ہوۓ ہے، وہی ذات بندے کو اس کیفیت
میں بھی تھامے ہوۓ ہے جہاں وہ اپنے ایمان کے حوالے سے فکرمند ہے، اور اس کی
سعیء مسلسل ہی اسکا راستہ اسکی اڑان آسان کر دے گی ان شا اللہ!
تو کہو کوئ فکر بھلا کیوں ہو
گر ہمارے ساتھ اللہ ہے۔۔!
الحمدللہ رب العالمین! |