شوہر بیویوں سے کیوں ڈرتے ہیں؟وجوہات؟

بندہ کتے بلی سے ڈرے، جن، چڑیل، بھوت سے ڈرے، ریچھ یا شیر سے ڈرے، اوبامہ یا طالبان سے ڈرے، اﷲ سے ڈرے پر یہ شوہر کی بیوی سے ڈرنے والی بات کچھ پلے نہیں پڑتی کہ آخر وہ کون لوگ ہیں جو اس صنفِ نازک سے اتنا ڈرتے ہیں کہ انڈیا میں ان بیویوں کے ستائے شوہروں نے جلوس تک نکال لیا۔ اب دیکھیں نہ کہ امریکی صدر اوبامہ جیسے پاورفل شخص سے پوری سے دنیا ڈرتی ہے پر اس بغلول نے کینسر یا دمے کے ڈر سے سگریٹ نہ چھوڑی، بلکہ اپنی کالی کلوٹی بیوی کے ڈر سے چھوڑ دی۔ہے نہ حیرت کی بات!معروف کرکٹر ٹنڈولکر صاحب فرماتے ہیں کہ میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے تمام شوہر اپنی اپنی بیگما ت سے ڈرتے ہیں اور ساتھ میں اور بہت سے ممنوعہ باتیں کیں جو کہ میں پہلے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھ چکا ہوں ۔ ٹنڈولکر کی بات تو سمجھ میں آتی ہے ایک پدا سا ٹنڈولکر اور اتنی لمبی چوڑی بیوی ڈاکٹر انجلی سے تو ڈرنا بجا کہ پتہ نہیں کس جگہ پر کب ، کونسا ٹیکہ لگا دے؟ ویسے کیا آپ یہ بات مانتے ہیں کہ حقیقت میں ایسا ہی ہے ۔؟؟ ویسے لگتاتو کچھ کچھ ایسا ہی ہے۔تبھی تو ہر گھر میں میاں کی آواز نیچی اور بیگم کا والیم ہمیشہ تیز ہوتا ہے۔تاہم ، ہم نے اکثر شوہروں کو یہ کہتے سنا ہے کہ یار یہ سب کچھ تو وہ بچوں کی وجہ سے برداشت کرتے ہیں، ورنہ یہ عورت ہے کیا چیز، صرف ایک تھپڑ کی مار! مگر بھائی ایک تھپڑ تو ماردو گے پر اس مخلوق کو چپ کون کرائیگا؟ سات دن تک سر پر ڈوپٹہ کس کر ، نوحے پڑھتی روتی رہے گی، پورے محلے اور آنے جانے والوں کو الگ رو رو کر رونے کی روداد سنائیگی۔ سات روز بعد جب اسکی ا ماں کراچی ، لاہور، ملتان یا سکھیکی منڈی سے آکر میت والے گھر کی طرح اسکے گلے لگ کر ملیگی تو تب اسکے رونے کا باجا بند ہوگا۔

بہر حال! ویسے کبھی آپنے غور کیا کہ شوہر حضرات بیویوں سے اتنا ڈرتے کیوں ہیں؟۔ میرے خیال سے اسکی مندجہ ذیل وجوہات ہو سکتی ہیں۔

اگر بیوی عمر ، کمر اور وزن میں بھاری ہو:تو شوہر پر اسکا سب کچھ بھاری ہوگا۔پہلے تو شوہر اسلیے ڈرے گا کہ یا ر عمر میں میری اماں کے برابر ہے اسکو کیا گالی د ے کر اسکے منہ لگوں ،الٹا گالی کا گناہ ملے گا!اگر وزن اور کمر زیادہ ہو تو بیچارہ ویسے ہی دبکا رہیگا کہ یار اگر یہ میرے اوپر گر گئی یا ہاتھ کھول لیا تو میں ویسے ہی مارا جاؤنگا اور میڈیکل بھی فری نہیں ہے ۔ اسلیے بھی بیچارہ چپ ہی رہتا ہے۔ ہم نے یو ٹیوب پر اپنی ان گنہگار آنکھوں سے ایسے کئی مناظر دیکھے ہیں ایک خرانٹ قسم کی خاتون بجلی سی بن کر ایک سنگل پسلی آدمی پر گری تو وہ بچ نہیں پایا۔ ویسے بھی شادی کے بعد بیوی ہی وز ن میں بھاری ہوتی ہے کہ وزن کرنے والا کنڈا بھی وزن کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔میاں بیچارہ تو گھر کے دکھڑوں میں دبلا ہی ہوا چلا جاتا ہے۔

اگر بیوی سخت اور شوہر نرم مزاج ہو:تو اکثر دیکھا گیا ہے کہ شوہر بیچارہ دب کر ہی رہتا ہے۔ بعض شوہر تو اتنے نرم مزاج ہوتے ہیں کہ بچے کو ڈانٹ بھی رہے ہوں تو لگتا ہے گذارش کر رہے ہوں اور بچے بھی انکی ڈانٹ ڈپٹ کا ا ثر نہیں لیتے۔ ہمارے ایک دوست جنہیں ہم انکی نرمی اور سستی کی وجہ سے ڈھیلے میاں کہتے ہیں۔ اگر انسے کبھی حال پوچھ لو تو۔۔۔ میں خیرت سے ہوں ـ۔۔۔ کہنے میں ہی آدھا گھنٹہ لگا دیتے ہیں۔ اگر کبھی بچوں کو پڑھانے بیٹھ جائیں تو اگلے روزاٹھتے ہیں۔ چھوٹے پیشاب کو جائیں تو آدھا گھنٹہ اور بڑے پیشاب کو گھنٹہ بھر لگا دیتے ہیں۔عصر کی نماز شروع کریں تو مغرب میں، اور مغرب کی نماز سے عشاء کے وقت فارغ ہوتے ہیں۔سودا سلف لینے بھیج دو تو مسجد میں گمشدگی کا اعلان کرانا پڑتا ہے، پھر کئی روز بعد گھر آتے ہیں۔ دوسری طرف انکی بیگم کا مزاج ایسا کرخت کہ مجال ہے کوئی بچہ چوں چرا کرے۔عموما گھروں میں یہ ہوتا ہے کہ شوہر گھر میں داخل ہو تو بچے دبک جاتے ہیں، پر انکے گھر میں شوہر کے آتے ہیں بچے بھنگڑا ڈالنا شروع کر دیتے ہیں۔خاص طور سے اگر بیوی بازار گئی ہو تو بچوں اور شوہر کی عید ہوتی ہے۔لہذا یہاں بھی ڈرا ڈرا بیچارا۔

اگر بیوی زیادہ پڑھی لکھی ہو:تو یہ انپڑھ شوہر کو انگریزی کے چند رٹے رٹائے الفاظ بول بول کر ہی مار دیتی ہے۔ویسے بھی تعلیم عورت کا زیادہ کچھ نہیں بگاڑتی ، اگر بگاڑتی بھی ہے تو دماغ مزید بگاڑ دیتی ہے ۔ ہمارے ایک دوست کی بیگم تقریبا سولہ جماعت پاس اور وہ خود س جماعت پاس۔ پر انکے گھرمیں آئے روز دنگل ہوتا ہے کہ ساس کو گھر سے نکالو یا کہیں اور کھڈے لائین لگاؤ کہ کیا منحوس بڑھیا سارا دن بیٹھی کھانستی رہتی ہے ۔ میاں نے لاکھ سمجھایا کہ تم پڑھی لکھی ہو کر کیسی باتیں کرتی ہو۔؟ پر بیگم ٹس سے مس نہ ہوئی اور بیمار ساس کو کھڈے لائین لگوا کر ہی دم لیا۔اسی طرح ایک پڑھی لکھی بیوی کو نوکری مل گئی، انپڑھ شوہر بیچارہ بے روزگار سارا دن گھر میں پڑا مکھیاں مارے یا بچے سنبھالے۔ یوں بیچارہ انپڑھ یا کم پڑھا لکھا شوہر ہمیشہ ہی دبا رہتا ہے۔

شوہر خرچ پورا نہ کر پاتا ہو:تو یہ ایک اور وجہ ہے شوہر کی بیوی سے ڈرنے کی۔ اگر گھریلو ناچاقیوں کی وجہ سے رزق میں برکت نہ ہوتو بیچارہ شوہر بھلا کہاں سے گھر کے اخراجات پورے کرے۔ ویسے تو اس بیچارے کی کوشش ہوتی ہے کہ گھر میں داخل ہو تو اسکی جیب بھری ہو اور اسکے لیے وہ سارا دن گدھے کی طرح محنت کرتا ہے ۔ تاہم اگر پھر بھی اخراجات پورے نہ ہوتے ہوں تو بیوی روز روز کان کھا کھا کر اسکا جینا حرام کیے رکھتی ہے اور وہ بیچارہ ڈرا ڈرا اور سہما سہما رہتا ہے۔کچھ چالاک قسم کی بیگمات گھریلو راشن میں سے دودھ، پتی، چینی، دالیں ، گھی وغیرہ چرا کر اپنے میکے بھجواتی رہتی ہیں اور پھر مہینے کے آخر میں راشن کے لیے پھر شور کر نا شروع کر دیتی ہیں۔اب بتائیں کہ شوہر اپنے گھر کا راشن پورا کرے کہ سسرال والوں کا!

پیار محبت کی شادی ہو:تو شادی سے پہلے دونوں ایک دوسرے کو بہت پیارے لگتے ہیں۔ تا ہم شادی ہوتے ہی سوچتے ہیں کہ یار کونسا دن آئے کہ ہم الگ ہوں۔ بیوی کے لچھن دیکھ کر شوہر دعائیں مانگتا ہے کہ یار یہ مر جائے تو اچھا ہے ، پر کہاں!۔ اگر یہ خواہشِ ناتمام پوری ہونے لگتی، یا اﷲ پاک کہیں یہ مرنے والی دعا قبول فرمانے لگیں تو سوچیں کہ دنیا کے اسی فیصد شوہروں کی بیویاں وفات پاچکی ہوں اور بچے در بدر رل رہے ہوں۔تو جناب! عورت چاہے جیسے مزاج کی بھی ہو، اﷲ پاک کے ہاں اسکے مرنے کی دعا قبول کرنے ۔۔۔ کی کوئی گنجائش بہرحال نہیں ہے!

بیوی کراٹے ماسٹر ہو:تو شو ہرپہلے تو اس سے شادی کرے گا ہی نہیں اور اگر گھر والوں بالخصوص ہمشیرگان (جو کہ شادی کرانے میں پیش پیش ہوتی ہیں) کی وجہ سے یہ بیل منڈھے چڑھ بھی جائے تو اسے ہر وقت ڈر رہتا ہے کہ پتہ نہیں کب ٹانگ یا بازو توڑ ڈالے۔ اس ڈر سے اکثر بیچارے اسطرح کے شوہر گرمی میں بھی کپڑوں کے نیچے جرسی اور لیگی پہنے پھرتے ہیں۔ اگر بچے ہوجائیں تو بیگم صاحبہ انہیں بھی ٹرینڈ کر کے ساتھ ملا لیتی ہیں کہ برے وقت میں ہمیشہ بچے ہی کام آتے ہیں۔۔۔ یوں بیچارہ کراٹے کا مارا دم سادھے رہتا ہے۔

بیوی لڑاکا یا قصائی خاندان سے ہو:تو شوہر بیچارے کو قربانی کے جانور کی طرح ہر وقت چھریاں ہی نظر آتی ہیں کہ پتہ نہیں موصوفہ کب چھری چلادے۔ہمارے ایک دوست قصائیوں کے محلے میں رہتے ہیں اور بقول انکے کہ ،انکے گھروں سے ہر وقت ۔۔( چیر کے رکھ دونگی، پھاڑ کے رکھ دونگی، چھرا ہے میرے پاس، زیادہ بات نہ کریو، گردن اتار دونگی، زیادہ نہ چلائیو چمڑی ادھیڑ دونگی کھنڈی چھری سے)، کی سی آوازیں آتی رہتی ہیں۔ مزید یہ کہ انکے بھاری بھرکم سومو پہلوان کے سے ڈیل ڈول دیکھ کر تو بندہ ویسے ہی ادھ موا ہو جاتا ہے ۔ا سی ڈر سے انکے تو گھر کے قریب سے بھی کوئی نہیں پھٹکتا کہ انکے تو بچے بھی چھریوں سے کھیلتے اور چھریوں سے کھانا کھاتے اور چھریوں پر سوتے ہیں۔ابھی حال ہی میں لاہور میں ایک سنگدل بیوی نے اپنے دو سگے بچے ماردیے، پتہ نہیں وہ بھی قصائی خاندان سے نہ ہو؟ تو بتائیں اگر ان قصائیوں کی لڑکی سے شادی ہو جائے تو کیا کوئی شوہر تا عمر سر اٹھا کے جی سکتا ہے؟۔

بچے زیادہ ہوں: تو یہ ڈر رہتا ہے کہ بیوی موصوفہ کہیں بمعہ بچوں کے ہی شوہر پر نہ پل پڑے۔ کچھ کیسس میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ بیوی صاحبہ شو ہر کو تڑی لگا دیتی ہیں کہ اگر زیادہ چوں چرا کی تو سارے بچے تمہارے سر پر چھوڑ کر ابا کے ہاں چلی جاؤں گی، پھر خود بھگتا نا انہیں۔ درجن بھر بچوں کو اٹھانا، سلانا، کھلانا، پلانا، پڑھانا، نہلوانا وغیرہ کا سوچ کر ویسے ہی بندے کا تراہ نکل جاتا ہے۔ یوں بیچارہ ہر حال میں شکر ادا کرتے ڈرا اور سہما سہمار سا رہتا ہے کہہ چلو جیسی بھی ہے بچے تو بھگتا ہی رہی ہے نہ!ویسے بھی درجن بھر بچے تو باپ کو ویسے ہی سیدھا نہیں ہونے دیتے، اس بیچارے نے اس سے پھڈا کرکے کیا اپنے سر میں سواہ ڈالنی ہے۔یوں بیچارہ ڈرا ڈرا، سہما سہما ہی رہتا ہے۔

بات بات پر رونا جانتی ہو: تو میاں بیچارے کو تو ہمیشہ یہ ڈر کھائے رہتا ہے کہہ یار ! اسکو کیا تنگ کرنا کہ یہ اگر ایک بار رونے کو چھڑ گئی تو چپ کرانا مشکل ہو جائیگا۔ لہذا بیچارہ ہر وقت ڈرا ڈرا ، سہما سہما سا رہتا ہے۔ویسے بھی رونے میں تو خواتین پی ایچ ڈی ہوتی ہیں۔مرحوم اداکار محمد علی کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ اداکاری کرتے بغیر گلیسرین کے آنسو لاکر رونے کی ایکٹنگ کر لیتے تھے۔ تا ہم خواتین کو تو کو ئی بیٹ کر ہی نہیں کر سکتا کہ انکے آنسو تو بس آنکھ کے نچلے پیوٹے میں ہر وقت تیار ہوتے ہیں ادھر مزاج مخالف بات ہوئی اور آنسو کا نمکین پانی رخسار سے ہوتا لپ اسٹک خراب کرتا سیدھا خاتون خانہ کے منہ میں۔ پھر یہ نمکین پانی اسوقت بند ہوتا ہے کہ جیسے میں اوپر لکھ چکا ہوں۔۔۔ یا پھر ڈنڈا چھترول سے!۔

نئے کپڑے اور زیور:کا گلہ تو تقریبا ہر عورت کو ہی رہتا ہے۔ شوہر کا ہاتھ تنگ ہو یا کھلابیویوں کی فرمائشیں کبھی ختم نہیں ہوتیں۔ فطرتا چونکہ ناشکری اور شکی مزاج ہوتی ہیں ، لہذا جتنا بھی کھلاؤ ، پلاؤ، کپڑے لتے، زیور کچھ بھی بنوا دو اسنے یہ ہی کہنا ہے کہ کم ہے، فلاں ۔۔۔ تو روز کپڑے بناتی ہے اور اسکے شوہر آئے روز اسے زیور گفٹ بھی کرتے رہتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔چاہے وہ حرام کا مال ہی کیوں نہ ہو۔ اب آپ ہی بتا ئیں کہ ہر شوہر تو منشا ء گروپ ، لکشمی متل گروپ،سہگل گروپ، گیٹس فیملی، یا شریف گروپ کی طرح لینڈ لارڈ تو ہے نہیں کہ آئے روز انکی مہنگی اور ناجائز فرمائشیں پورے کرتا پھرے ۔ یوں بیچارے اس خوف سے یہاں بھی دبا دبا سا رہتا ہے۔

پیدائشی لڑاکا اور گھر کے ماحول کے اثرات:آپ نے دیکھا ہوگا کہ کچھ بچے پیدائشی طور پر ہی بہت جارحانہ مزاج رکھتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اگر یہ بچی ہے تو شادی کے بعد بھی اسکی یہی روش جاری رہیگی۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ اگر لڑکی کی والدہ بھی اتھرے اور اکھڑ مزاج کی ہواور اپنے شوہر کو انگلیوں پر نچاتی ہو تو ا نکی بیٹی موصوفہ نے اگلے گھر جاکر ماما کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے شوہر نامدار کے ساتھ ویسا ہی سلوک کر نا ہوتا ہے جو کہ وہ اپنے ابا کے ساتھ اپنے گھر میں دیکھ چکی ہو تی ہے۔ ایسے صورت میں شوہر کچھ عرصہ ریززسٹ کرتا ہے، پھر بیوی کے سخت مزاج میں تبدیلی نہ دیکھ کھر وہ بھی ڈرتا ڈرتا اسکے تھلے لگ جاتا ہے۔

شوہر گھر داما ہو: تو آگے مزید کچھ لکھنے کی ضرورت ہی نہیں۔ شوہر موصوف بیوی کے حکم سے سوئیں گے، اسی کے حکم سے جاگیں گے، اسی کے حکم سے نہائیں دھوئیں، کھائیں پئیں گے۔ بیوی کے ابا اور اماں اور بیوی کی ٹانگیں دابیں گے۔ گھر کی صاف ستھرائی، کچن ہیلپری، سودا سلف لانا لیجانا ،بچوں کو (اگر ہوں) تو کھلانا پلانا، اسکول ، ٹیوشن، پارک لانا لیجانا۔ بچوں کے لیے گھوڑا اور گدھا بننا۔۔۔ وغیرہ ۔۔۔ غرضیکہ تا عمر روبوٹک گھر داماد ہونے کی وجہ سے وہ بیوی کے تھلے ہی لگا رہیگا کہ کہیں بیوی ، یا اسکے ابا ، اماں اسکو گھر سے دھکے دیکر نہ نکال د یں۔ ایسے ہی ایک شوہر نے اپنی بیوی سے گستاخی کی کوشش کی تھی، بیوی کے ابا نے نیکر پہنا کر پولیس والوں کے حوالے کر دیا تھا۔۔۔۔ اور پھر۔۔۔ آگے آپ آپ خود سمجھ جائیں۔

بیوی ہٹ دھرم، ضدی، بد مزاج، بد کلام:ہو تو ویسے ہی شوہر بیچارے کا جینا حرام رہتا ہے کہ پتہ نہیں موصوفہ کو کونسی بات بری لگے اور پھر پھڈا کر بیٹھے۔ مثال کے طور پر آپ اسے کہیں آنے جانے سے روکیں گے تو وہ ضد کر کے بیٹھ جائیگی کہ نہیں میں نے وہاں لازمی جانا ہے۔بد مزاجی اور بد کلامی کے لیے موقع کی تلاش میں ر ہیگی کہ آپنے کپڑے اتار کر ٹھیک جگہ کیوں نہیں رکھے۔ میں نے بینگن کہا تھا آ پ کدو لے آئے۔میں نے کہا تھا شاپنگ کو جاناہے، آپ اماں کے ہاں چلے گئے۔ حالآنکہ چاہے آپ واش روم بھی انکی اجازت سے جاتے ہوں ، پر وہ نہ مانیگی ۔اسی طرح بچوں کے رشتے کرنے ہوں تو اکڑ اور ضد کر کے بیٹھ جائیگی کہ میری مرضی سے کرو ، ورنہ میں شامل ہی نہ ہونگی۔ اب آپ ہی بتائیں کہ کیا گھر والی کے بغیر بچوں کی شادیاں ہو سکتی ہیں؟؟شکر ہے کہ ہٹ دھرمی ، ضدی پن، بد مزاجی اور بد کلامی میں کوئی ڈپلومہ یا ڈگری نہیں ہوتی ورنہ ساری پوزیشنیں پاکستانی خواتین کے حصے میں آتیں!۔

بیوی نیم پاگل ہو: تو : مزید کچھ لکھنے کی ضرورت ہی نہیں کہ پاگل بندہ تو ویسے ہی ہر کسی کو کھانے کو دوڑتا ہے اور اگر یہ شے گھر میں فری میں میسر ہو تو کیا کہنے۔ مثلا: ہمارے ایک جاننے والے اپنے سوتیلے والدین کی غلطی کی وجہ سے ایک آدھی پاگل خاتون سے شادی کر بیٹھے ۔ وہ محترمہ اکثر انہیں ابا اور بھائی کے نام سے پکارتی رہتی ہیں۔موصوفہ بچوں کو سردیوں میں ٹھنڈے پانی سے اور گرمیوں میں گرم پانی نہلاتی ہیں۔ رات کو بارہ بجے بچوں کو سوتے میں اٹھا دیتی ہیں کہ اسکول جانا ہے۔ کھانے میں اکثر مرچوں کی جگہ ہلدی ڈال کر ثابت کر تی کہ مرچیں ڈالی ہیں ۔ زنانہ کی بجائے مردانہ کپڑے پہن کر گھر سے باہر نکل جاتی۔ ایک روز گھر میں مہندی گھلی رکھی تھی،پودینے کی چٹنی سمجھ کر خود بھی کھا گئی اور بچوں کو بھی ڈنڈے کے زور پر زبر دستی کھلوا دی۔ استری کرتے میاں کے کپڑے ساڑ دیتی ہے ۔ کھانا شروع کرتی تو شام کردیتی اور زبر دستی اٹھانا پڑتا، پھر بھی کہتی کہ ابھی تو پیٹ نہیں بھرا، ایک سائڈ خالی ہے ۔ بچوں کے سر اتنی مرتبہ پھاڑ چکی ہیں کہ اب وہاں ٹانکے لگنے کی بھی گنجائش نہیں۔ میاں کے سر پر ایک بال نہیں چھوڑا۔بولنے پر آئے تو خاموش کرانے کو منہ پر ٹیپ یا کپڑا لگانا پڑتا ہے۔ بچوں سے مالش کرانا، شوہر سے ٹانگیں دبوانا، ہو ہو ہا ہا، چیخناچلانا، محلے بھر کے بچوں اور بڑوں کو ڈرانا اسکے مشاغل میں شامل ہے۔ جسکی وجہ سے تنگ لوگ اس پاگل کو پاگل خانے داخل کرانے کے لیے گھر کے باہر مظاہرے تک کر چکے۔ اب آپ ہی سوچیے کہ ایسی عورت سے بندہ ڈرے گا نہیں تو کیا مریگا۔

ڈرامے باز : قسم کی خواتین شوہر کو نیچے لگا نے اور ڈرانے کے لیے بہت سے حربے استعمال کرتی ہیں مثلا: جھوٹی موٹی خود کشی کی کوشش، خواب آور دوائیں کھالینا، کئی کئی روز تک سر پر دوپٹہ کس کے ہائے ہائے کرتے پھرنا، شوہر کی کمزوریاں دوسری ہم عصر خواتین سے شیئر کرنا (آجکل فیس بک اور ٹوٹر پر بھی)، کئی کئی روز تک شوہر کے سامنے کھانا نہ کھانا (چھپ کر کھانا)، عدالتی کاروائیوں کی دھمکیاں دینا، باپ اور بھائیوں سے پھینٹی لگوانے کی دھمکیاں، تعویذ گنڈوں کے ذریعے جلانے کی دھمکیاں، زمین جائداد میں حصہ مانگنا ، بچوں کو چھوڑ کر میکے جانے کی دھمکیاں وغیرہ وغیرہ۔دھنیا مزاج، دہی مزاج، دھتورامزاج ، افیمی مزاج شوہر تو ویسے ہی بیچارے ان دھمکیوں کے آگے گیلی بلی بن جاتے ہیں۔۔۔

اختتامیہ: میرا ذاتی تجربہ اور مشاہدہ یہ کہتا ہے کہ انسان جو کچھ غلط اس دنیا میں کرتاہے اسے اسکی سزا دنیا میں ہی ضرور ملتی ہے اور ملیگی۔ تو غلط چاہے شوہر ہو یا بیوی، دونوں سے گذارش ہے کہ اچھے میاں بیوی بن کر، ایک دوسرے کو سمجھ کر اور برداشت کرکے زندگی گزاریں، ورنہ دکھ ، پریشانیاں، بیماریاں مصیبتیں، نافرمان اولاد، معاشی تنگی وغیرہ آپکے گھر میں ہمیشہ ڈیر ے ڈالے رکھے گی۔ مذکورہ وجوہات کے علاوہ اگر آپ کچھ اور مزید وجوہات جانتے ہوں تو مجھے ضرور آگاہ کیجئے گا۔ مزید یاد د رہے کہ گھر اور مرد کو بگاڑنے اور سنوارنے میں عورت کاکردار ہمیشہ بہت اہم ہوتا ہے۔(ویسے کچھ مزید وجوہات ؟بھی ہوتی ہیں، پر وہ یہاں لکھی نہیں جاسکتیں)سو۔سوری!لگتا ہے چار پیج لکھ کر جھک ماری ہے سیدھا لکھ دیتا کہ شوہر حضرات صبح اٹھتے ہی بیوی کو دیکھتے ہیں اسلیے ڈرتے ہیں!۔

Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660
About the Author: Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660 Read More Articles by Mohammad Shafiq Ahmed Khan-0333-6017660: 93 Articles with 234011 views self motivated, self made persons.. View More