کہتے ہیں بڑے کی ہر بات بڑی ہوتی ہے۔ ہم تو اِس کہاوت کو
درست مانے بغیر نہیں رہ سکتے۔ جو کچھ بزرگوں نے کہا ہے اُس کے لیے ثبوت کی
تلاش میں ہمیں زیادہ دور نہیں جانا پڑتا۔ ذرا اپنے پڑوس میں جھانک لیجیے،
کوئی ابہام باقی نہ رہے گا۔ غلط نہ سمجھیں۔ ہم پڑوس کے مکان میں جھانکنے کی
بات نہیں کر رہے۔ جو ہم سے جُڑا ہوا ہے وہ ملک بھی تو پڑوسی ہی ہوا۔ بات ہو
رہی ہے اُس بھارت کی جسے چمکتا دمکتا قرار دینے کی دوڑ سی لگی ہوئی ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنے دورِ حکومت میں چمکتا بھارت کی ایسی گردان
لگائی کہ جن لوگوں نے ثبوت کے لیے بھارت پر نظر ڈالی اُن کی آنکھیں ’’کثرتِ
نُور‘‘ سے چُندھیا گئیں! یہ تو ہونا ہی تھا۔ جو کچھ پڑوس کی سرزمین پر ہوتا
ہے اُسے دیکھ کر کبھی کبھی تو ہمیں کمتر ہونے کا احساس شِدّت سے ستانے لگتا
ہے۔ جو لوگ ہر معاملے میں پاکستان کا موازنہ بھارت سے کرنے بیٹھ جاتے ہیں
اُنہیں کبھی کبھی اپنے گریبان میں بھی جھانک لینا چاہیے۔ ہم کہاں اور وہ
کہاں! ع
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِ قبا دیکھ!
بات یہ ہے صاحب کہ ہم اب تک دامن اور بندِ قبا کی منزل میں ہیں۔ پڑوسیوں نے
دامن اور بندِ قبا کو قِصّۂ پارینہ میں تبدیل کردیا ہے۔ دامن پر داغ لگنے
کی فکر تو تب دامن گیر ہو جب دامن سلامت رہا ہو! اور جب قبا ہی کو سات سلام
کرکے رخصت کردیجیے تو کون سا بندِ قبا، کہاں کا بندِ قبا؟
بھارت کی سرزمین پر جو کچھ ہوتا ہے اُس سے تھوڑی بہت ’’انسپیریشن‘‘ پاکر
ہمارے ہاں بھی اوٹ پٹانگ حرکات کی جاتی ہیں۔ مگر صاحب، اوریجنل تو اویجنل
ہوتا ہے! ہم اِس معاملے میں صرف نقل کی منزل میں رہتے ہیں، 43 سال قبل ہم
سے ہزار سالہ غلامی کا بدلہ لے چُکنے کا دعویٰ کرنے والے اب ہر معاملے میں
ہم سے ہزار قدم آگے ہیں۔ پاکستان میں جن لوگوں کو مہاراج کی غلامی کا ٹوکرا
سَر پر لادنے کا شوق ہے وہ سوچ لیں کہ اُن کی برابری ہمارے بس کی بات نہیں۔
امجد اسلام امجد نے کہا تھا ع
جو بھی کچھ ہے محبت کا پھیلاؤ ہے
بھارت محبت کی سرزمین ہے، پریم کی دھرتی ہے۔ اور پریم کرنے والے پریم کو
محدود کب رکھتے ہیں؟ محبت کرتے ہیں تو ’’پھیلاؤ‘‘ کی منزل تک پہنچنے میں
ذرا بھی دیر نہیں لگاتے۔ سچ تو یہ ہے کہ اہلِ ہند نے اپنے عمل سے ثابت کیا
ہے کہ محبت اور بے صبری مترادف الفاظ ہیں۔ محبت اُنہیں اِتنا کچھ سِکھاتی
آئی ہے کہ اب وہ دوسروں کو سِکھانے پر مجبور ہیں۔ اور جب سیکھنے والے
مرعوبیت پسند ذہنیت کے حامل ہوں تو معاملہ دو آتشہ ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی
مِٹّی میں جنم لینے والے ’’بھارت پریمیوں‘‘ کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہے۔
پریم کیا ہے، محبت کس بلا کو کہتے ہیں، لگاؤ کس حد تک پہنچا دیتا ہے یہ سب
ذہنوں میں اچھی ٹھونکنے کے لیے بالی وڈ کی فلمیں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔
اگر بالی وڈ کی رومانٹک فلمیں نہ ہوں تو دُنیا کو معلوم ہی نہ ہو پائے کہ
محبت کیا ہوتی ہے اور اُس کے آغوش میں پناہ لیکر انسان کیا سے کیا ہوسکتا
ہے اور ہو جاتا ہے! مگر صاحب، محبت کی تشریح کچھ فلموں ہی پر موقوف نہیں۔
بے چارے اسکرین رائٹرز اور ڈائریکٹرز کی ذہنی سکت کی بھی کوئی نہ کوئی تو
حد ہوتی ہی ہے۔ بھارت کے پریمی کسی حد کو جانتے ہیں نہ مانتے ہیں۔ اُن کا
جوش و خروش قابلِ دید بھی ہوتا ہے اور قابلِ داد بھی۔ ہم تو یہ سوچ کر
لرزاں و ترساں رہتے ہیں کہ اگر کبھی بھارت نے پریمیوں کو فوج میں بھرتی
کرلیا تو ہمارا کیا ہوگا۔ پریمی تو کسی ’’لائن آف کنٹرول‘‘ کو نہیں مانتے!
بھارتی ریاست اُتر پردیش کے علاقے بسال پور میں رتن پور کے مقام پر ماں مہا
مایا دیوی کے مندر میں 5 دن قبل عجیب و غریب واقعہ رُونما ہوا۔ چندریکا کی
شادی دیپک کونی سے طے تھی۔ مگر لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ دلہن نے
دولہا کی بجائے اُس کی پگڑی کے ساتھ پوتر اگنی کے گرد سات پھیرے لیے۔ آپ
سوچیں گے ایسی بھی کیا بے صبری تھی کہ دولہا کی پگڑی کو دولہا کا درجہ دے
دیا۔ بات یہ ہے کہ دیپک کونی بہت پڑھاکو ہیں۔ اُنہیں کیریئر بھی تو بنانا
ہے۔ چندریکا سے پریم ہے تو کیا ہوا۔ شادی کے بعد کوئی ندی کنارے چھوٹا سا
جھونپڑا بناکر تو نہیں رہنا۔ گھر چاہیے، اچھی نوکری چاہیے۔ جس دن شادی طے
ہوئی اُسی اُنہیں آئی ٹی آئی کا امتحان دینا پڑگیا۔ دیپک جی لگن منڈپ تک
آئے، حاضری لگائی اور اپنی مجبوری دلہن کے گوش گزار کرکے چلے گئے۔ دلہن نے
بھی بہ رضا و رغبت شادی کی باقی رسمیں دولہے راجہ کے بغیر پوری کیں۔ دیپک
کونی جب امتحان دیکر لگن منڈپ میں دوبارہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ تمام رسمیں
ہوچکی ہیں اور اُن کی پگڑی کو ساکشی مان کر چندریکا ہزاروں جنم تک ساتھ
نبھانے کا عہد کرچکی ہے۔ آپ سوچیں گے پھیرے بعد میں لیے جاسکتے تھے۔ آپ بھی
بہت بھولے ہیں۔ جنہیں پریم ہو جائے اُن کی ’’بُدّھی‘‘ کو دھار لگ جاتی ہے
اور وہ کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ اور کبھی کبھی تو شام کے
سائے جیسا دُھندلا سا موقع بھی گولڈن چانس میں تبدیل کرلیتے ہیں!
جو کچھ چندریکا اور دیپک نے کیا وہ تو ’’مثالی‘‘ تھا ہی۔ اُن سے ایک قدم
آگے جاکر مدھیہ پردیش کے ایک پریمی جوڑے نے ایسی انوکھی مثال قائم کی ہے کہ
آپ تک جانکاری پہنچے گی تو دانتوں میں اُنگلی داب لینے کے سوا چارہ نہ
ہوگا۔ بھوپال سے 446 کلو میٹر دور جبل پور کے نزدیک اِچھوار نام کے گاؤں
میں شادی کی تقریب ہنگامے کی نذر ہوتے ہوتے بچی۔ آپ نے ایسے واقعات تو سُنے
ہی ہوں گے کہ شادی سے کچھ دن پہلے، شادی والے دن یا شادی کے شامیانے سے
دلہن گھر کے تمام لوگوں کو بیگانہ سمجھ کر ’’آشنا‘‘ کے ساتھ فرار ہوگئی۔ آپ
سوچیں گے اِس میں ایسا کیا ہے کہ حیرت کا اظہار کیا جائے، ایسا صرف بھارت
میں نہیں بلکہ ہمارے ہاں بھی ہوتا ہے۔ آپ نے جو کچھ سوچا وہ بھی درست اور
جو کچھ فرمایا وہ بھی غلط نہیں۔ مگر جناب، مدھیہ پردیش کے اِچھوار گاؤں کی
الہڑ مُٹیار نے جو کیا وہ تو شاید آپ نے بُھولے بھٹکے خواب میں نہ سوچا
ہوگا۔ پنڈت جی پوتر اگنی کُنڈ تیار کر رہے تھے اور زیر لب منتروں کی گردان
بھی کرتے جاتے تھے۔ مہمان آچکے تھے۔ لڑکے والے بھی جب براج گئے یعنی بیٹھ
گئے تو اچانک شور سا اُٹھا۔ کچھ لوگ یہ سمجھے کہ شاید لڑکی بے ہوش ہوگئی
ہے۔ کوئی پانی لانے دوڑا۔ کسی نے ہاتھ کا پنکھا تلاش کیا تاکہ دلہن کو
جَھلا جاسکے۔ مگر شاید اِن دونوں چیزوں کی ضرورت نہیں تھی۔ لگن منڈپ میں جو
کچھ وقوع پذیر ہوا وہ ایسا تھا کہ پہلے تو لوگوں نے دانتوں تلے انگلیاں
دبالیں اور پھر (اپنے اپنے) سَر تھام لیے۔
دلہن نے لگن منڈپ ہی میں بچے کو جنم دے دیا!
آن کی آن میں ہنگامہ برپا ہوگیا۔ لڑکے والے جانے لگے۔ لڑکی والی اُن کے
پاؤں پڑگئے مگر لڑکے والے ماننے کا نام نہ لیتے تھے۔ ایسے میں لڑکے نے ساتھ
نبھانے کا وعدہ نبھادیا۔ وہ شادی پر بضد تھا اور دلہن کو لیے بغیر گھر نہیں
جانا چاہتا تھا۔ بیٹے کی ضد دیکھ کر باپ نے ہار مان لی۔ یوں دولہا دلہن
اپنے لختِ جگر کے ساتھ گھر چلے۔
ہم نے اور آپ نے بارہا سُنا ہوگا کہ بچے والدین سے پوچھتے ہیں کہ آپ نے
مُجھے اپنی شادی میں کیوں نہیں بُلایا تھا! لیجیے، اب ایک بچے کی یہ شکایت
تو ختم ہوئی! اُس نے والدین کی شادی میں صرف نہیں کی بلکہ اُس کی آمد ہی
شادی میں ہوئی! کل کو لوگ پوچھیں گے سُنا ہے تم والدین کی شادی میں گئے
تھے۔ اِس پر وہ کہے گا ’’میں تو شادی ہی میں ’آیا‘ تھا!‘‘
بات یہ ہے کہ لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو ایک سال سے جانتے تھے۔ ایک دوسرے
کو ’’پرکھنے‘‘ اور ’’مطمئن‘‘ ہونے کے لیے ایک سال کافی ہوتا ہے! ہم نے جب
ایک مشہور ہندی اخبار میں یہ واقعہ پڑھا تو آنکھوں کے سامنے اندھیرا
چھاگیا۔ یہ ویسا ہی اندھیرا تھا جو شاہد آفریدی کے دو چَھکّوں کے باعث
بھارت کے کروڑوں کرکٹ پریمیوں کی آنکھوں کے سامنے چھاگیا تھا! ہم یہ سوچ کر
اپنا سا مُنہ لیکر رہ گئے کہ چمکتے دمکتے بھارت کی ہمسَری ہم سے کیا ہوگی،
ابھی ہم اِتنے تیز رفتار اور ’’جِدّت پسند‘‘ نہیں ہوئے! |