جب ریاست کی طرف سے آزادی پسند
سیاسی کارکنوں کو کچلنے کے لیے بہیمانہ طریقہ واردات استعمال کیا جاتا رہے
اور اس طریقہ واردات پر تیزی کے ساتھ عمل کیا جاتا رہے، ریاستی حکمران چاق
و چوبند نظر آئیں تو یہی سمجھ میں آتا ہے کہ ریاست کے خلاف جاری جدوجہد نے
ریاستی مقتدرہ کو سخت مشکلات و پریشانی میں مبتلا کردیا ہے- اس لیے ریاست
اپنی حاکمیت اور اپنے جابرانہ رویوں کو برقرار رکھنے کے جنونی و پاگل پن
جیسے ہتھکنڈوں کو مظاہرہ کرتی ہے- جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ( حکمران )
ریاست اپنا وجود قائم و دائم رکھنے کے لیے ہر گھناؤنی اور انسانی تذلیل پر
مبنی جیسی حرکات پر عار محسوس نہیں کرتی- اب یہی کچھ چند عرصوں سے بلوچستان
میں تواتر کے ساتھ محسوس کیا جارہا ہے- کہ ریاست ایک خوف میں مبتلا ہوچکی
ہے کہ اپنے تحفظ اور بقاء کے لیے انسانی اقدار ماوریٰ اقدام سے بھی گریز
نہیں کرتا ہے- اس لیے تو کبھی نواب صاحب ( شہید نواب اکبر خان بگٹی ) کی
دوران مزاحمت شہادت کے بعد جسد خاکی کے تابوت کو تالا لگا کر اسے سیکورٹی
فورسز کی تحویل میں زمین میں اتارا جاتا ہے تو کبھی بلوچ سیاسی رہنماؤں کو
معروف وکیل کے دفتر سے اغواء کر کے اذیت دینے کے بعد مسخ شدہ لاشیں ویرانے
میں پھینک کر اپنی بہادری و شجاعت پر اپنے آپ کو تسلی و تشفی دیتی ہے- لیکن
ان تمام مجرمانہ کاروائیوں میں اخلاقی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے دنیا کے
سامنے ذمہ داری اٹھانے سے گریزاں رہتی ہے- مبادہ کہیں انہیں پاگل و جنونی
نہ سمجھا جائے لیکن ان کے جاری اعمال ہی انہیں پاگل و جنونی ثابت کرنے کے
لیے کافی ہیں لیکن عالمی دنیا اپنے مفادات و مصالحت کے تحت ریاست کے اسی
باؤلے پن کو صرف نظر کررہی ہے-
ہر خوف و دہشت قائم و دائم رکھنے کے لیے ایک بار ریاست کی اصل قوتوں نے ایک
نہتے سیاسی کارکن کو اغواء کرکے قتل کردیا- حالیہ ریاستی جنونیت کا شکار بی
این ایم (بلوچ نیشنل موومنٹ) کے بانی رکن و مرکزی جوائنٹ سیکریٹری رسول بخش
مینگل تھے- جنہیں ٢٣ اگست کو مقدس ماہ رمضان کے پہلے روزہ میں اوتھل کے
علاقے وایارو سے ریاستی خفیہ اداروں نے اغواء کیا تھا- جس کی بازیابی کے
لیے بلوچ سیاسی محاذ سراپا احتجاج تھا اور واقعہ سے ایک روز قبل مقتول رسول
بخش مینگل کے چھوٹے بچوں نے بھی پریس کانفرنس میں والد کی عدم بازیابی پر
تعلیم سے دستبرداری اور کتابوں کو جلانے کی دھمکی بھی دی تھی- شہید رسول
بخش مینگل کے اغواء کے بلوچ نیشنل موومنٹ اور دیگر آزادی پسند سیاسی
جماعتوں نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ انہیں ریاستی خفیہ ایجنسیاں قتل
کردیں گی اور آخر ان کے خدشات درست ہوگئے-
٣١ اگست کو یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح ہر بلوچ گھر میں پھیل گئی کہ بلوچ جہد
کار اور بی این ایم کے مرکزی رہنما کی درخت سے لٹکتی نعش بیلہ کے مقام پر
برآمد ہوئی- زرائع ابلاغ کے مطابق بلوچ رہنما کےجسم پر بوٹوں، سگریٹ سے
پاکستان زندہ باد کے نعرے، گوشت کھینچنے اور تیز دھار آلے سے لگائے گئے
نشانات اور بی ایل اے (بلوچ لبریشن آرمی) مردہ باد لکھا ہوا تھا- جسم پر
تشدد کیے گئے علامات سے ریاستی قوتوں کی بلوچ جہد کاروں سے خوفزدگی اور ان
سے بھر پور نفرت کا بخوبی اظہار ہوتا ہے-
پاکستانی ریاستی مقتدرہ عرصے سے بلوچستان میں بلوچ سیاسی کارکنان کے خلاف
اغواء نما گرفتاریوں کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے بعد بھی بلوچستان میں
جاری جدوجہد برائے قومی آزادی کو کچلنے اور اسے زیر کرنے پر ناکامی کے بعد
اپنے طریقہ واردات کو بدل کر اغواء نما قتل کے فلسفہ پر عمل پیرا ہے- تاکہ
بلوچستان میں سیاسی جدوجہد میں مصروف ان سیاسی کارکنوں کو خوفزدہ کیا جاسکے
جو بلوچستان میں ریاستی لوٹ مار کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے ہوئے ہیں-
رسول بخش مینگل شہید نے اپنی مقتل مزاجی اور سچی وابستگی سے سیاسی کارکنوں
کے لیے اس راہ کو واضح صورت میں متعین کیا کہ عارضی آسائشیں اور ہر بدلتے
دن کے ساتھ سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کے بجائے اصولی سیاست پر سر کٹنے کو
ترجیح دی جائے- ریاست اب کھل کر جنگی جنون پر اتر آئی ہے- بلوچستان کے
پہاڑوں، میدانوں اور صحراؤں کے علاوہ اب وہ بلوچ سرزمین کے درختوں کو بھی
بلوچ نوجوانوں کے خون سے سرخ کرنا چاہتی ہے- بلوچستان میں جاری مزاحمتی
تحریک روز بروز توانا اور مضبوط ہوتی جاری ہے اوراس طرح کے بہیمانہ واقعات
سے مزاحمتی جدوجہد کو جلا مل رہی ہے- اس لیے اس طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں سے
نہ قومی تحریک کو سبوتاژ کیا جاسکنا ممکن ہے اور نہ لوگوں نے اپنے طوق
غلامی کو بخوشی قبولیت بخشی ہے- بلکہ اس طرح کے واقعات سے ریاست سے نفرت
زیادہ امڈ کر سامنے آتی ہے- جس کا ردعمل ہڑتال کی صورت میں سامنے آیا ہے-
وقت ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا ہے- جہد مسلسل اور سچی وابستگی حالات کو اپنے
حق میں بدل سکتے ہیں- رسول بخش مینگل کی درخت لٹکتی نعش اور اس کے جسم پر
سگریٹ کے داغ سے پاکستان زندہ باد کے نعرے نئے جذبوں اور ولولوں کو جنم
دینے کا مؤجب بنے گی- یہ درخت بلوچ جدوجہد میں ایک علامت کے طور پر یاد
رکھا جائے گا- |