چند ہفتے پہلے کی بات ہے میں
صوفے پر بیٹھا ٹی وی پرواہیات نیوز چینلز میں سے کوئی ایک دیکھ رہا تھا کہ
اچانک میرے برابر میں میرے سب سے چھوٹے 8 سالہ بیٹے اُسید نے کوئی چیز لا
کر رکھ دی۔ میں نے نظریں گھما کر دیکھا تو برابر میں ایک انتہائی ڈرا، سہما
اور دُبکا ہوا بَلُونگڑا موجود تھا۔ میں نے سوالیہ نظروں سے اپنے بیٹے کی
طرف دیکھا جو سڑک پر دھوپ میں کرکٹ کھیلنے کی وجہ سے پسینہ میں شرابور تھا
اور اُس کا تنفس بھی قدرِ تیز تھا۔ اُسید نے بلّی کے بچے کا چہرہ اپنے ہاتھ
سے میری طرف کرتے ہوئے کہا "ابّوُ! یہ ہمارے گھر کے دروازہ کے باہر بیٹھا
تھا۔۔۔۔۔ آپ دیکھیں اس کی آنکھوں میں آنسوُ ہیں۔۔۔۔۔ اِس کی امّی نہیں ہے۔۔۔۔۔
کیا ہم اسے اپنے گھر میں رکھ لیں؟" یہ سوال اُسید نے کچھ اس انداز سے کیا
کے میرے اندر سے آواز آئی کے میرے بیٹے اگر تو ُ اتنی دردمندی سے مجھ سے اس
طرح کا سوال کرے گا تو اللہ مجھے ہمت دے تُو جتنی بھی بے آسرا بِلّیوں کو
لائے گا میں اُن سب کو اَپنے گھر میں جگہ دے دوں گا۔ لیکن اس خطرے کے پیش
نظر کے کہیں میرا بیٹا گھر سے نکل کر تمام عالم کی بے آسرا بلّیاں جمع کرنے
کی مہم نہ شروع کر دے میں نے اپنے اندر کی آواز پر قابوُ پاتے ہوئےاُسید سے
صرف اتنا کہا:"ہاں بیٹا! اِسے رکھ لو"۔
ایسی بات نہیں کے ہمارے گھر میں جانوروں کی کوئی کمی ہے۔ ماشاءاللہ ہمارا
گھرانسانوں کا گھر کم اور چڑیا گھر زیادہ ہے۔ بلّیاں تو بے بھاؤ کے حساب سے
ہمارے گھر خود اللہ میاں نے بھیجی ہیں۔ چند ماہ سے لے کر چند سال عمر والی
درجن بھر سے زاید بِلّیاں ہمارے ہاں موجود ہیں اس لیے اُسید کی یہ بات کے
مزید ایک عدد بلّی کے بچہ کو ہم گود لے لیں قطعی طور پر اس لیے نہیں تھی کہ
اُسید کو ایک بلّی کا بچہ اپنے کھیلنے کے لیے درکار تھا بلکہ اُس کا مجھ سے
سوال سو فیصدی جذبہ ہمدردی کے تحت تھا۔ اُس کا سوال اُن گول گول ، چھوٹی
چھوٹی، سہمی ہوئی آنکھوں میں موجود آنسوؤں کے اُن ننھے قطروں کی وجہ سے تھا
جنہیں وہ دیکھ بھی رہا تھا اوراُنہیں وہ اپنے دل میں محسوس بھی کر رہا تھا۔
اُسید کا مجھ سےسوال در حقیقت ایک بے آسرا کا آسرا بننے کے لیے تھا، ایک بے
گھر کو گھر دینے کے لیے تھا۔ اُس کا سوال ایک بھوکے کو کھانا دینے کے لیے
تھا۔ مجھے دُنیوی تعلیم سے کہیں بڑھ کر اِس بات کی خوشی ہے کہ اَلحمدُللہ
میرےبچوں میں جذبہ رحمدلی پروان چڑھ چکا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ اِن کا یہی
وصف ایک دن اِن پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کا باعث بنے گا اور ان شاء اللہ یہ
سرخروُ ہوں گے۔
رحم دلی وہ جذبہ ہے کہ جس کے تحت ایک اچھے معاشرے کی بنیاد رکھی جاتی ہے
اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل پاتا ہے جہاں ایک انسان دوسرے انسان کا درد آشنا
بن جاتا ہے۔ عفو و درگزر جیسے اوصاف بھی انسان میں رحم دلی کی بدولت ہی
پروان چڑھتے ہیں جو اللہ کے نہایت ہی پسندیدہ اوصاف میں سے ہیں۔ ایک رحم دل
انسان اپنی عارضی عرصہ حیات میں اس بات کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے وہ
دَردمندی سے کسی دَرماندہ کے دَرد کا دَرماں کر سکے۔ وائے تقدیر! گزشتہ
چنددہائیوں میں موثر علاج نہ ہو پانے کے باعث بے حسی کا مرض ایک معمولی
بخار سے بڑھ کرڈینگی جیسے بخار میں تبدیل ہوا اور چند سالوں میں ہی اس نے
ہمارے خون میں سے رحم دلی کے پلیٹلیٹس (platelets)کوتقریباً ختم (deplete)کر
ڈالا۔ فی زمانہ نفسا نفسی کا یہ عالم ہے کےکسی شخص کو کسی شخص کی کوئی
پرواہ نہیں۔ جانور کی بات تو بہت دُور ہے یہاں تو لوگ باگ اپنے جیسے
انسانوں کو بھی بخشنے کے لیے تیار نہیں ۔ لوٹ کھسوٹ، ملاوٹ اور ایسی ہی بد
فعلی کرنے والے معاشرے کے ناسور تو موجود ہیں ہی مگر اصل افسوس تو اس بات
کا ہے کہ اس کارِ بد میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو سمجھتے ہیں کے وہی اللہ
تعالیٰ کے سچّے بندے ہیں، جو اُس 'ناجی' فرقے سے تعلق رکھتے ہیں کہ جس کے
لیے جنت کی نوید ہے۔ اگر اس طرح کے لوگ صرف اپنے آپ کو سچا اور تمام عالم
کو جھوٹا قرار دے کر تہہ تیغ کرنے کے در پر نہ ہوتے تو شاید یہ اُمت ایک
پسماندہ حیثیت میں اَقوام عالم کے سامنے یوں سِسک نہ رہی ہوتی۔ یہ نادان
لوگ ایک دفعہ بھی یہ نہیں سوچتے کے اگر اللہ تعالیٰ کو اپنے نافرمان اِس
دُنیا سے مکمل طور پر ختم ہی کرنے تھے تو اُس کے پاس کیا طاقت کی کمی تھی (معاذ
اللہ) جو وہ یہ کام "کن فیکون" کہہ کر نہ کرپاتا؟ کیا اِن لوگوں نے ابابیل
اور ہاتھیوں والا واقعہ جو خود اللہ تعالیٰ نے بیان کیا ہے نہیں پڑھا؟ اور
کیا وہ نہیں جانتے کے نبی پاک ﷺ کے دادا حضر ت عبدالمطلب نے مکہ کے لوگوں
کو کیا کہہ کر کعبہ چھوڑ کر پہاڑوں پر چلنے کے لیے کہا تھا؟ امر بالمعروف و
نہی عن المنکر کا مقصد زمین سے ظلم و جبر و فساد کا خاتمہ ہے، ظلم وجبر و
فساد پھیلانا نہیں! کرے کوئی بھرے کوئی ۔۔۔۔ یہ کون سا اسلام ہے؟ یہ تو
اللہ کے اُس واضح قانون کی صریحاً خلاف ورزی ہے کہ جس کو نبی ﷺ نے اپنی
آخری خطبہ میں اِس طرح بیان فرمایا : "مجرم اپنے جرم کا آپ ذمہ دار ہے۔ باپ
کے جرم کا بیٹا ذمہ دار نہیں اور بیٹے کے جرم کا باپ ذمہ دار نہیں!"
اللہ کی عبادت ایک مسلمان پر یقیناً سب سے اولّین فرض ہے۔ اصل آقا کون ہے
یہ بات ایک مسلمان کو دن میں کم از کم پانچ بار ضرور دہرانی چاہیے لیکن
درحقیقت 24 گھنٹے کی عبادت کے صحیح معنی اور مفہوم کیا ہیں اسے ہمیں ضرور
سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ میں یہاں چند حروف میں عبادت جیسے وسیع و عریض
موضوع کی جامع تعریف تو بیان نہیں کر سکتا ہاں البتہ احباب کو یہ تحریک
ضرور دے سکتا ہوں کے وہ یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کتاب الفرقان کا موضوع
کیا ہے؟ کیا قرآن کریم کا موضوع اللہ تعالیٰ نے اپنی ہستی کو رکھا ہے؟ نہیں!
اللہ تعالیٰ کی کتاب کا موضوع بنی نوع انسان ہے یعنی اُس کی افضل ترین
مخلوق۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک اتنی بڑی ہستی کے جس کی کبریائی کا
اندازہ انسان کبھی نہیں لگا سکتا وہ بزرگ و برتر ہستی اپنی مخلوق میں اس
قدر دلچسپی رکھتی ہے کہ اُسے ایک نجس کتےُ کی پیاس بجھانے والا انسان اس
قدر پیارا ہو جاتا ہے کہ وہ اُس شخص پر معمولی سی ہمدردی کے بدلے جہنم کی
آگ حرام قرار دے کر جنت عطاء کر دیتا ہے۔۔۔ سبحان اللہ!
دوسری طرف جس اُمت میں کبھی خلیفہ وقت میں خوف خدا اس قدر تھا کہ وہ ایک
کتے کی بھوک کا بھی خیال کرتا تھا آج اُس اُمت کی پستی کا یہ حال ہے کے
اَرباب اختیار کُتے بن کر ہر انسان سے اُس کا بنیادی حق چھین جھپٹ رہے ہیں۔
افسوس تو اس بات پر بھی ہے کے ہمارے ہاں لوگ پہلے عوام کا حق چھین کر خوب
مالدار ہوتے ہیں اور عوام کو پیاس سے ترسا دیتے ہیں پھر اپنے جمع شدہ سیلِ
حرام میں سے چند قطرے انہی جاں بلب عوام کی سوکھی ہوئی زبانوں پر ٹپکا کر
عوام کی نظروں میں ان داتا بن جاتے ہیں۔ یوں اِن حرام خوروں کی واہ واہ بھی
خوب ہوتی ہے۔ اور آپس میں لوگ کہتے ہیں: چور تو ہے مگر دکھی انسانیت کی
خدمت ضرورکرتا ہے! مگر افسوس کوئی یہ نہیں سوچتا کے اِن جیسے غاصبوں کی وجہ
سے ہی تو ہماری عوام غربت کے پاتال میں جا گری ہے۔ اگر لوٹ کھسوٹ کا بازار
اتنی بے حسی سے گرم نہ کیا گیا ہوتا تو شاید کسی بھی قسم کی امداد اور بھیک
کی ہماری عوام کو ہرگز ضرورت نہ پڑتی۔ خصوصاً ایک ایسےملک میں جسے اللہ
تعالیٰ نے حد سے زیادہ اور ہر طرح سے نوازا ہو۔
کہتے ہیں آج سے تقریباً دو ہزار برس پہلے جب روم جل رہا تھا تو قیصر روم
یعنی نیرو بیٹھا بانسری بجا رہا تھا۔ تاریخ اپنے آپ کو ہمیشہ دہراتی ہے۔ آج
جب تھر میں موت کے شعلوں کا رقص ہوتا ہے تو عین اُسی وقت موجودہ دور کے
نیرو بھی سازوں کی آواز میں مگن دکھائی دیتے ہیں۔ وقت بدل گیا مگر لوگ نہیں
بدلے!
خیر یہ تو بڑے لوگوں کی بے حسی کی بڑی باتیں ہیں لیکن اصل افسوس تو اس بات
کا ہے کے ہماری عوام نے بھی بے حسی اور گراوٹ کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دیے
ہیں۔ معاشرے میں پھیلے اَن گنت عوامی جرائم اپنی جگہ لیکن جب ایک مسلمان
ملک میں قوم کی حالت اس قدر پست ہو جائے کے لوگ چند روپوں کے عوض گٹر
کےچوہے کے گوشت کا قیمہ سموسہ میں ڈال کر اپنے بھائیوں کو کھلانا شروع کر
دیں تو پھر اس قوم پراللہ کا قہر نہیں نازل ہوگا تو اور کیا ہوگا؟ کیا ہم
نے کبھی سوچا کہ ہمارے پاس ایسی کیا چیز ہے جو اس قوم اور اِس کی بربادی کے
درمیان آجائے؟ ہم تو اس قابل بھی نہیں رہے کے ہم پر ترس کھایا جائے!
خدارا! لوگوں کی آنکھوں میں موجود آنسوؤں کو بغور دیکھیں اور اگر اِن کے
لیے کچھ نہیں کر سکتے تو کم از کم اِن نمکین پانی کے چھلکتےہوئے قطروں کا
درد اپنے دل میں محسوس کریں۔ شاید یہ ادنیٰ درجہ کا نیک احساس ہی آپ کی
نجات کا باعث بن سکے!
آخر میں اس دُعا کے ساتھ ہم اجازت چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پاکستان،
پاکستانیوں اور تمام مسلمانوں پر اپنا رحم فرمائے اور ہمیں دور حاضر کے
مسائل سے نبرد آزما ہو کر سرخرو ہونے کی توفیق عطا فرما۔ آمین! |