بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم
(پاکستانی کالم نگاروں اور اینکر پرسنز کے نام)
مملکت اسلامیہ پاکستان کا باسی ہونے کے ناتے عوام کی ملکی صورت حال پر
تشویش ایک فطری امر ہے۔ ایک عام شہری حالات کے تجزیے اور ان کے حل کی ممکنہ
صورتوں ، تجاویز کےلیےاخبارات کا مطالعہ کرتا ہے یا ٹیلیویژن دیکھتا ہے۔
مسائل کی فہرست بنانے بیٹھیں تو شاید اخبار کےکئی صفحات بھی کم پڑ جائیں ۔حکومت
کی ترجیحات ،اعلیٰ سطح پر ہونے والی بدعنوانیاں، پارلیمنٹ میں بیٹھے ہوےٴ
افراد کے معاملات اور عوام کی اخلاقی حالت اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں رہی
اور ان حالات و مسائل پر روزانہ جو تبصرے، تجزیے اخبارات کے ادارتی صفحات
پر شائع ہوتے ہیں ان کا تو کوئی شمار ہی نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح ٹیلیویژن کے
ٹاک شوز میں اینکر پرسن مسائل کو اجاگر کرنے کی اپنی حد تک سعی کرتے ہوۓ
نظر آتے ہیں لیکن حالات ہیں کہ دن بدن بد سے بد تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
صرف بدعُنوانی کے معاملات کو لے لیں ۔ ہر روز کسی نئی بدعُنوانی کا انکشاف
ہوتا ہے۔ جو کہ اب کروڑوں اور اربوں میں ہوتی ہیں۔ میڈیا کی مبیّنہ آزادی
کے باوجود کیا آپ کہہ سکتے ہیں کہ بدعنوانیوں میں کوئی کمی آئی ہے۔ حکومت
کی ترجیحات کو دیکھیں تو دو دفعہ مرکز میں اور تین دفعہ صوبے میں حکومت
کرنے والی پارٹی کے پاس نہ وزیرِ خارجہ ہے نہ وزیر دفاع۔ وزیر تعلیم کا نام
تو کہیں سننے میں نہیں آتا۔ ہو سکتا ہے قارئین میں سے کوئی جانتا ہو۔
حالات کے تجزیے کرنےاور بہتری کے لیےتجاویزپیش کرنے والےاداریہ نویس، تجزیہ
نگار، کالم نگاراور اینکر پرسن یقیناً اپنے طور پر معاشرے میں اصلاح کی
کوششیں کر رہے ہیں۔ لیکن انہیں سوچنا ہو گا کہ ان کی یہ ساری سعی کس حد تک
کامیاب اور نتیجہ خیز ہو رہی ہے۔
کالم نگاروں ، تجزیہ نگاروں کو اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی صلاحیّت سے نوازا
ہے جس کی اللہ تعا لٰی نے قرآن میں قسم کھائی ہے۔
سورہ القلم میں اللہ تعالٰی کا ارشاد ہے
"ن-قسم ہے قلم کی اور اس چیز کی جسے لکھنے والے لکھ رہے ہیں۔( اے نبی ؐ )تم
اپنے رب کے فضل سے مجنوں نہیں ہو اور یقیناً تمہارے لیے ایسا اجر ہے جس کا
سلسلہ کبھی ختم ہونے والا نہیں ہے۔(پارہ 29 ،آیت 1 تا 3)
پھر لکھنے اور بولنے دونوں صلاحیتوں کا اللہ تعالٰی نے قرآن میں ذکر کیا
ہے۔
پہلی وحی سورۃ "علق" میں اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں۔
" پڑھ اپنے ربّ کے نام کے ساتھ جس نے (انسان کو) پیدا کیا ۔(جس نے) انسان
کو جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے (عَلَق) سے پیدا کیا۔ پڑھ اور تیرا ربّ بڑا
کریم ہے جس (ربّ) نے قلم کے ذریعہ سے علم سکھایا (علّم بالقلمِ)۔ اور انسان
کو وہ علم دیا جسے وہ نہ جانتا تھا"
سورۃ "الرّحمٰن"میں ارشاد فرمایا
" الرحمٰن(نہایت مہربان ہے) (وہ جس نے) قرآن کا علم دیا۔ (اُسی) نے انسان
کو پیدا کیا اور اسے بولنا سکھایا (عَلّمَہُ البَیان)"۔
اور یہ دونوں صلاحیّتیں دینے کے بعد یہ بھی بتا دیا ہے کہ اللہ تعالٰی
تمہاری ایک ایک حرکت پر نگاہ رکھے ہوئے ہے۔
ارشاد باری تعالٰی ہے۔
ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے اور اس کے دل میں اُبھرنے والے وسوسوں تک کو ہم
جانتے ہیں۔ ہم اس کی رگ ِگردن سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں۔ دو کاتب اس کے
دائیں اور بائیں بیٹھے ہر چیز ثبت کر رہے ہیں۔ اور کوئی لفظ اس کی زبان سے
نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگران موجود نہ ہو۔
اس لیے ہونا تو یہ چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نےاہل قلم حضرات کو جو صلاحیت بخشی
ہے وہ انسانوں کی بھلائی کے لیے استعمال ہو اوراس صلاحیت کے استعمال کے
نتیجے میں معاشرے میں کوئی اصلاح ہو سکے اور اگر اصلاح نہ بھی ہو تو وہ کل
روزِ قیامت اپنے ربّ کے حضور اپنی معذرت پیش کر سکیں اور اس سے اپنی کاوشوں
کا اجر پا سکیں۔
کالم نگار ،تجزیہ نگاراور اینکر پرسن حضرات میں سے کسی کی بھی پہلی کامیابی
تو یہ ہو سکتی ہے کہ اگر اُس نے حکومت کی کسی غلطی یا خامی کی نشان دہی کی
ہےتو حکومت اپنی غلطی ، خامی کا احساس کر کے اس کو درست کر لے۔ اگرکالم
نگار یا تجزیہ نگار نے کسی محکمے یا کسی معاملے میں بہتری کے لیے کوئی
تجاویز پیش کی ہیں تو اس کی تجاویز پر بحث مباحثہ کرواےٴ اور ان کے قابلِ
عمل ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کوئی فیصلہ کرے۔
ان کی دوسری کامیابی یہ ہو سکتی ہے اگر کسی کالم نگارنے کوئی اچھی تجویز دی
ہو تو دیگر لوگ جن میں اس کے ہم پیشہ صحافی، سیاسی جماعتیں، معاشرے میں کام
کرنے والے دیگر ادارے ان کے ہم نوا ہو جائیں اور اس کی تجاویز پر بحث و
مباحثہ کر کے ان کے قابلِ عمل ہونے کی صورت میں اس کو ایک تحریک کی صورت
میں لے کر اٹھیں اور اس طرح بہتری کی کوئی صورت پیدا ہوسکے۔
اس سلسلے میں کسی ایک کیس کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لے کر اسے کسی انجام تک
پہنچانے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔
علاوہ ازیں بہت سے کالم نگار معاشرے میں موجود اخلاقی ، معاشرتی مسائل کو
اجاگر کرتے ہیں اس صورت میں ان کی کامیابی یہ ہو سکتی ہے کہ کوئی ایک آدمی
بھی ان کا کالم پڑھ کر اپنی اصلاح کر لے۔ اگر درج بالا ساری صورتوں میں سے
کچھ بھی نہ ہو تو بھی تجزیہ نگاروں اور کالم نگاروں کی اصل کامیابی یہ ہے
کہ ان کی کاوشیں ہمارےاور ان کے ربّ کے ہاں شرفِ قبولیت حاصل کر لیں اور کل
روز قیامت وہ اپنی کاوشوں کا اجر پا سکیں۔
اللہ تعالیٰ نے کلامِ مجید میں ایک بستی کا قصہ بیان کیا ہےاورقرآن میں یہ
بات بار بار دہرائی گئی ہے کہ یہ قصّے یا مثالیں اس لیے بیان کی جاتی ہیں
تاکہ لوگ ان پر غور و فکر کریں ان سے نصیحت حاصل کریں۔ اللہ تعالی ٰ اپنے
نبؐی سے کہتے ہیں کہ
" ذرا اِن سے اْس بستی کا حال پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھی اور وہاں
کے لوگ سَبت (یعنی ہفتہ )کے دن احکامِ الٰہی کی خلاف ورزی کرتے تھے اور یہ
کہ مچھلیاں بھی سبت ہی کے دن اْبھر اْبھر کرسطح پر ان کے سامنے آتی تھیں
اور سبت کے علاوہ باقی دنوں میں نہیں آتی تھیں۔ یہ اس لیے ہوتا تھا کہ ہم
ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان کی آزمائش کر رہے تھے۔
اور انہیں یہ بھی یاد دلاوٴ کہ جب ان میں سے ایک گروہ نے دوسرے گروہ سے کہا
تھا کہ تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا یا
سخت سزا دینے والا ہےتو انہوں نے جواب دیا تھا کہ ہم یہ جو نصیحت کرتے ہیں
تو اس لیے کہ تمہارے ربّ کے حضور اپنی معذرت پیش کر سکیں اور اس امید پر
کرتے ہیں کہ شاید یہ لوگ اس(ربّ )کی نا فرمانی سے پرہیز کرنے لگیں۔
آخر کار جب وہ ان ہدایات کو بالکل ہی فراموش کر گئے جو انہیں بتائی گئی
تھیں تو ہم نے ان لوگوں کو بچا لیا جو برائی سے روکتے تھے (اَنجینا الذین
ینھون عن ا لسؤ ) اور باقی سب لوگوں کو جو ظالم تھے ان کی نافرمانیوں پر
سخت عذاب میں پکڑ لیا"(سورۃ الا عراف آیت 163۔164)
ان آیات کی تشریح میں صاحبِ تفہیم القرآن نے لکھا ہے
" اس بیان سے معلوم ہوا کہ اس بستی میں تین قسم کے لوگ موجود تھے۔ ایک وہ
جو دھڑلّے سے احکام ِ الہٰی کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔ دوسرے جو خود تو خلاف
ورزی نہیں کر رہے تھے لیکن اس خلاف ورزی کو خاموشی کے ساتھ بیٹھے دیکھ رہے
تھے اور نصیحت کرنے والوں سے کہتے تھے کہ ان کم بختوں کو نصیحت کرنے سے کیا
حاصل۔تیسرے وہ جن کی غیرتِ ایمانی حدوداللہ کی اس کھلم کھلا بے حرمتی کو
برداشت نہیں کر سکتی تھی اور وہ اس خیال سے نیکی کا حکم کرنے اور بدی سے
روکنے میں سرگرم تھے کہ شاید وہ مجرم لوگ ان کی نصیحت سے راہ راست پر آ
جائیں اور اگر وہ راہِ راست نہ بھی اختیار کریں تب بھی ہم اپنی حد تک تو
اپنا فرض ادا کر کے اللہ کے سامنے اپنی برأت کا ثبوت پیش کر سکیں"۔
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے نصیحت کرنے والوں کی زبان سے ان کے نصیحت کرنے
کے دو مقاصد بیان کیے ہیں جس میں پہلا اور ترجیحی مقصد یہ کہ وہ ربّ کے
حضور اپنی معذرت پیش کر سکیں اور کل روز قیامت اللہ کے حضور کہہ سکیں کہ جب
تیری نافرمانی ہو رہی تھی اس وقت نہ صرف یہ کہ ہم اس میں شامل نہیں تھے
بلکہ ہم نے اپنی استطا عت کی حد تک لوگوں کو اس نافرمانی سے روکنے کی کوشش
کی۔
اور دوسرامقصد یہ کہ شاید لوگ نصیحت حاصل کریں اور اللہ کی نافرمانی سے
بچتے ہوۓ اپنی اصلاح کر لیں ۔( ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے نصیحت کرنے
والوں کی زبان سےنصیحت کرنے سے روکنے والوں پر ایک لطیف طنز بھی فرمایا
ہے۔یہ نہیں فرمایا کہ ہم اپنے ربّ کے حضورمعذرت پیش کرنے کے لیےیہ نصیحت
کرتے ہیں بلکہ فرمایا کہ تمہارے ربّ کے حضور معذرت پیش کرنے کے لیے یہ
نصیحت کرتے ہیں یعنی کہ یہ ذمّہ داری تو تمہاری بھی ہے کہ تم نصیحت کرو ،
الٹا تم ہمیں نصیحت کرنے سے روکتے ہو)
ان آیات میں اگر چہ کہ نصیحت کرنے والوں کی کوئی تخصیص نہیں ہے اس میں کسی
بھی معاشرے میں رہنے والے تمام افراد یہ نصیحت کرنے کے ذمہ دار ہیں لیکن اس
وقت مقصود اس طبقے کو متوجہ کرنا ہے جو قوم کی رہنمائی اور ذہن سازی کر رہے
ہیں۔ان پر اللہ کی دی ہوئی صلاحیت کی وجہ سے بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
ایسے افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے جو اخبارات میں شائع ہونے والے کالموں،
تجزیوں اور مضامین اور ٹیلیویژن کے ٹاک شوز سے غیر معمولی حد تک اثر قبول
کرتے ہیں۔
اصل بات یہ ہے کہ ہمارے اداریہ نویس، تجزیہ نگار ،کالم نگاراور اینکر پرسن
کبھی فرصت نکال کر سوچیں کہ ان کی کاوشیں کس حد تک معاشرے کی اصلاح میں
معاون ثابت ہو رہی ہیں اور اگر بظاہر ایسا نہ بھی ہو رہا ہو تو وہ اپنے
لکھے اور کہے ہوےٴ کے بارے میں کس حد تک مطمئن ہیں کہ کل روزِ قیامت وہ
اپنے ربّ کے حضوراپنے لکھنے اور بولنےکا کیا جوازپیش کر سکیں گے اورروزِ
قیامت اپنے ربّ سے اپنے لکھے پر کس اجر کی توقع رکھتے ہیں ۔
کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے
" کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو ۔
یقیناً تم سے تمہارے سننے،تمہارے دیکھنے اور تمھارے دل کے بارے میں سوال
کیا جاےٴ گا"۔
(پارہ 15 سورۃ بنی اسرائیل آیت36 )۔
اپنی بات کو حضرت عمر ؓ کے ایک واقعے پر ختم کرتا ہوں۔
حضرت عمرؓ ایک مرتبہ شام تشریف لے گئے ۔ ایک بوڑھا راہب ان سے ملنے کے لئے
آیا۔ اس نے پوری زندگی گرجا گھر میں گذاری تھی بڑھاپے کی وجہ سے اس کا جسم
کمزور ہو چکا تھا حضرت عمرؓ نے اسے دیکھا تو آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔ کسی
نے ان سے رونے کی وجہ پوچھی تو فرمایا " یہ مسکین آدمی زندگی بھر نجات کے
لیے ہاتھ پاؤں مارتا رہا ہے مگر ہدایت سے محرومی کی وجہ سے اس کی زندگی
نجات سے محروم ہے۔ یہ اللہ کے ہاں جاۓ گا تو اس کے لیے وہاں سواۓ
مایوسیوں کے کچھ نہ ہو گا۔ یہ کتنی افسوس اور حسرت کی بات ہے۔ اس کے بعد آپ
نے سورہ الغاشیہ کی آیا ت 2 تا 4 تک تلاوت کی جس کا ترجمہ یہ ہے۔
" کچھ چہرے اس روز خوف زدہ ہوں گے، سخت مشقت میں مبتلا ہوں گے، تھکے جاتے
ہوں گے اور شدید آگ میں جھلس رہے ہوں گے"
اس واقعہ کو بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یقیناً صحافت اور اینکر پرسن کی
ذمہ داریاں اتنی آسان نہیں ۔ اس میں بہت محنت بھی ہے، مشکلات بھی۔ آزمائشیں
بھی آتی ہیں کوڑے کی بھی اور توڑے کی بھی۔ اس آزمائش میں کون کون پورا
اترتا ہے اور کون ناکام ہوتا ہے یہ تو وہ خود ہی جانتے ہوں گے جو ان تمام
مراحل سے گذرتے ہیں۔ مجھے تو توجہ یہ دلانا مقصود ہے کہ کل جب اللہ کے حضور
حاضری ہو تو کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کی ساری سعی و جہد رائیگاں جاۓ۔
کیونکہ اللہ تعالٰی نے کلام مجید میں فرمایا۔
اے نبیؐ ! اِن سے کہو کیا ہم تمہیں بتائیں کہ اپنے اعمال میں سب سے زیادہ
ناکام و نامراد لوگ کون ہیں؟ وہ لوگ کہ دنیا کی زندگی میں جن کی ساری سعی و
جہد راہِ راست سے بھٹکی رہی اور وہ سمجھتے رہے کہ وہ سب کچھ ٹھیک کر رہے
ہیں۔ سورۃ الکہف 13۔104
کامیابی تو یہ ہو کہ کل جب ربّ کے حضور حاضر ہوں تو ہمارا اور آپکا ربّ کہے
کہ
" یہ ہے تمہاری جزا اور تمہاری کارگز اری قابل قدرٹھہری ہے" (وکان سعیکم
مشکورا) سورہ الد ہر پارہ 29 آیت 22 |