اردو ادب میں دیباچہ نگاری کی روایت

تقریظ صرف ثنائی نہیں ، اصلاحی بھی ہونی چاہیے

دیباچہ نگاری ادب کی ایک اہم اور منفرد صنف ہے جس کے بارے میں یقین سے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ اس کاآغاز کب اور کس نے کیا۔ لیکن یہ ایک قدیم روایت ہے کہ کتاب لکھنے والا اپنے سے زیادہ مستندلکھنے والے ، معروف قلم کار،شاعرو ادیب ، صاحب کمال شخصیت سے کتاب کے بارے میں مختصر رائے لکھوایا کرتے تھے۔ مصنف کے علاوہ کسی بھی دوسرے شخص کی لکھی ہوئی تحریر تقریظ،تمہید، مقدمہ، پیش لفظ، پیش نامہ، سر نامہ ،دیباچہ یا تعارف کے عنوان سے کتاب میں شامل ہوتی ہے۔انگریزی میں لفظForeword استعمال ہوتا ہے۔اس کا بنیادی مقصد پڑھنے والوں کو کتاب اور مصنف کے بارے میں ایک مستند اور ماہر لکھنے والے یا استاد کے تاثرات سے آگاہ کرنا ہوتا ہے۔تقریظ یا دیباچہ لکھنے والا جس موضوع پر کتاب لکھی گئی اس پراختصار سے اپنی رائے کا اظہار کرتاہے ساتھ ہی مصنف کے بارے میں بھی اپنی رائے کا اظہار کردیتا ہے۔یہ تقریظ یا دیباچے عموماً تعریفی و توصیفی ہی ہوا کرتے ہیں۔ شاید ہی کوئی تقریظ یا دیباچہ ایسا لکھا گیا ہو جس میں دیباچہ نگار نے کتاب یا صاحبِ کتاب کے بارے میں اپنی منفی رائے کا اظہار کیا ہو۔بھلا منفی رائے کو مصنف کتاب میں کیوں کر شامل کرے گا۔غالبؔ نے سرسید کی کتاب کی تقریظ میں منفی باتیں لکھیں سرسید نے اس تقریظ کو کتاب میں شامل کرنے صاف انکار کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ دیباچے یاتقریظ کتاب پر لکھے گئے تبصروں سے مختلف ہوتے ہیں۔ دیباچہ دوسروں سے لکھوانے میں ایک مصلحت یہ بھی کار فرما ہوتی ہے کہ مصنف اپنی اور اپنی کتاب کی تعریف از خود لکھے،یہ کسی بھی طور اچھا نہیں لگتا، یہ خود ستائی کے زمرہ میں آجاتا ہے، چناچہ اس مقصد کے حصول کے لیے اپنے سے زیادہ عالم فاضل شخص سے اپنی کتاب کے بارے میں تعریفی و توصیفی کلمات لکھوانے کے لیے دیباچہ سازی نے مقبولیت حاصل کی ۔دیباچہ بنیادی طو پر جس موضوع پر کتاب لکھی گئی اس موضوع کے ماہر قلم کار، عالم فاضل ہی سے لکھوانے کی روایت تھی لیکن وقت کے ساتھ دیباچہ نگاروں میں ملک کی معروف شخصیات جیسے صدر مملکت، وزیر اعظم، وزراء اکرم، معروف سیاست دانوں، معروف شخصیات کو بھی اس فہرست میں شامل کرلیا گیا، یقناً اس کا مقصد کتاب کی اہمیت میں اضافہ کرنا ہی ہے۔

رضا علی عابدی نے اپنی تصنیف’کتابیں اپنے آباء کی‘ میں لکھا ہے کہ ۱۸۰۴ء میں شائع ہونے والی کتاب میر امن کی ’’باغ و بہار ‘‘ تھی یہ ہندوستانی پریس کلکتہ سے شائع ہوئی تھی ۔ اس کتاب کا دیباچہ ’جان گلکرسٹ کا تحریر کردہ ہے۔ سرسید کی تصنیف ’’آثار الصنادید‘‘پہلی بار ۱۸۴۷ء میں’سید الاجنار‘ کے تحت جب کہ دوسری بار ’منشی نول کشور‘ لکھنؤ سے ۱۸۷۶ء میں شائع ہوئی ۔اس کتاب کے آخر میں تقریظیں شامل ہیں۔آثار الضنادید پر تقریظیں لکھنے والوں میں محمد مومن خان مومن،مولوی امام بخش صہبائی، مرزا اسد اﷲ خان غالبؔ اور محمد صدرالدین خان شامل ہیں۔یہ تقریظیں نظم اور نثر دونوں میں لکھی گئیں۔ مولانا حالی نے لکھا ہے کہ ’’دہلی کے جن نامور لوگوں کی تقریظیں آثار الصنادید کے آخر میں درج ہیں انہوں
نے آئین اکبری پر بھی نظم یا نثر میں تقریظیں لکھی تھیں مگر آئین کے آخر میں صرف مولانا صہبائی (مولانا امام بخش صہبائی) کی تقریظ چھپی ہے‘‘۔

حالیؔ ’’حیات جاوید ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ سر سید احمد خان نے اپنی کتاب ’آئینِ اکبری‘ ۱۸۵۵ء میں مکمل کی۔ انہوں نے محسوس کیا کہ مرزا اسد اﷲ خان غالبؔ ایک ایسی شخصیت ہیں کہ جو ان کی اس علمی کا وش اور محنت کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ سر سید نے مرزا غالبؔ سے رابطہ کیا کہ وہ اس کتاب کی تقریظ (اس وقت کی روایت کے مطابق ثنائیہ پیش لفظ) تحریر کردیں۔غالبؔ نے سر سید کی حوصلہ شکنی نہیں کی بلکہ ان کی کاوش کو وقعت کی نگاہ سے دیکھا ۔ غالبؔ نے کتاب کا احاطہ کرتے ہوئے اپنے طور پر ایک اصلاحی نظم لکھی جو فارسی میں تھی۔سرسید نے اس تقریظ کو آئین اکبری میں شامل کرنا مناسب نہ سمجھا۔ یہ نظم سر سید کی کتاب آئینِ اکبری‘ کا پیش لفظ یا تقریظ ضرور ہے لیکن اس کتاب کا حصہ نہیں۔ یہ دیباچہ یا مثنوی تعریفی نہیں بلکہ اس میں مصنف کی سرزنش بھی کی گئی اور بہت سے مفید مشورے غالبؔ نے سرسید کو دئے۔ دیباچہ نگاری کے سفر میں یہ اہم پیش رفت تھی اور غالب ؔ کی جانب سے دیباچہ نگاروں کو یہ پیغام بھی تھاکہ دیباچہ یا تقریظ صرف ثنائی ہی نہیں ہونی چاہیے بلکہ اصلاحی یا تنقیدی بھی ہوسکتی ہے۔ دیباچہ نگار تصنیف میں کوئی کمی یا خامی محسوس کرے تو بلا تردد اس کا اظہار بھی کردے۔ غالبؔ کی یہ نظم’’کلیاتِ غالب‘‘ کے علاوہ سبط حسن کی کتاب ’نویدِ فکر‘ میں شامل ہے۔غا لبؔ شاعری کی معراج پر ہونے کے ساتھ ساتھ اردو ادب میں خطوط نگاری کے دولھا بھی تصور کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے مکتوب نگاری کو بھی ایک نیا رنگ اور منفرد اسلوب دیا۔مرزا غالبؔ کی تقریظ کوسرسید نے قصداً نہیں چھپوایا۔ اس تقریظ میں مرزا نے ظاہر کیا ہے کہ ابو الفضل کی کتاب اس قابل نہ تھی کہ اس کی تصحیح میں اس قدر کوشش کی جائے۔ڈاکٹرجمیل جالبی نے اپنی کتاب ’تاریخ ادبِ اردو‘ جلد چہارم میں بھی اس مثنوری کا ذکر کیا ہے۔مرزا غالب کے علاوہ مصطفےٰ خاں مرحوم نے بھی آئین اکبری پر تقریظ لکھی جو کتاب میں شامل نہ ہوسکی۔

۱۸۴۷ء ہی میں ایک اور کتاب پیرس سے ’’انتخاب تصانیف ہندوستانی‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی جس میں قدیم اردو اور دکھنی نظم و نثر کے نمونے شامل تھے۔ اس کتاب کا دیباچہ جو فرانسیسی میں تھا ’’گارساں دتاسی‘‘ نے تحریر کیا تھا۔دیباچہ نگاری کی جانب یہ بھی ایک مثبت پیش رفت تھی۔سر سید کے بعد تصانیف و تالیفات میں دیباچہ یا تقریظ کی روایت جاری و ساری رہی۔ اس کی صورت کچھ اس طرح تبدیل ہوئی کہ ابتداء میں تقریظ یا دیباچے کتاب کے آخر میں دئے جاتے تھے بعد ازاں دیباچے کتاب کے ابتدائی صفحات میں دئے جانے لگے۔ یہ سمجھا گیا کہ کتاب کے بارے میں کسی دوسرے شخص کی رائے جوزیادہ علم و فضیلت رکھتا ہے اہم اور فوقیت رکھتی ہے۔

اردو کے ممتاز دیباچہ نگاروں میں بابائے اردو مولوی عبد الحق کا مقام بلند نظرآتا ہے۔ بابائے اردو کے لکھے ہوئے مقدمات محض تعریفی و توسیفی ہی نہیں ہوا کرتے تھے بلکہ ان کے مقدمات میں متعلقہ موضوع پر تحقیق ہوا کرتی تھی۔شاہد دہلوی کے مطابق’’مقدمہ بازی (دیباچہ،تقریظ) تو مولوی عبد الحق مرحوم ہی پر پھبتی تھی‘ اور ان ہی کے ساتھ ختم ہوگئی‘‘۔

عہد حاضر کے تمام ہی تجربہ کار لکھنے والے اور استاد لااساتذہ دیباچہ نگاروں کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان میں استاد الااساتذہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری مرحوم کا مقام و مرتبہ بلند نظر آتا ہے۔ آپ بلا شبہ موجودہ عہد کی ممتاز اور قد آور علمی و ادبی شخصیات تھے۔ڈاکٹر صاحب نے بے شمار تصانیف و تالیفات کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا ۔ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے نزدیک’ دیباچہ نگاری ایک مستقل فن ہے ‘۔یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر صاحب کے تحریر کردہ دیباچے ، تقریظ، تعارف ،پیش لفظ،مقدمہ ، دیباچہ اور فلیپ نہ صرف مصنف اور کتاب کا تعارف کراتے ہیں بلکہ موضوع پر بھر پور روشنی بھی ڈالتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب کے خیال میں نئے لکھنے والوں کی اصلاح، رہنمائی اور حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔ اس لیے وہ کتاب میں کمزوری محسوس کرتے ہیں تو اس طرح اصلاح کرتے ہیں کہ مصنف کا دل بھی رکھ لیتے ہیں اور کمزوری کی نشان دہی بھی کر جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ کام وہی کرسکتا ہے جو موضوع پر مکمل گرفت رکھتا ہو۔ڈاکٹر صاحب کی دیباچہ نگاری کا انداز بھی منفر د ہے۔ آپ نے حد درجہ سادہ، رواں اور عام فہم زبان میں دیباچے تحریر کیے ہیں تاکہ قاری کو کسی قسم کی الجھن نہ ہو۔’ تنقید نما‘ اور ’ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے تنقیدی زاویئے مختصر مختصر‘ ایسی تصانیف ہیں جن میں ڈاکٹر فرمان فتح پوری کے لکھے ہوئے دیباچے شامل ہیں جن کی تعداد ملا کر ۱۰۰ بنتی ہے ۔یہ کتب سید محمد اصغر کاظمی نے مرتب کی ہیں۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے دمِ رخصت آخر میری کتاب کا دیباچہ تحریرفرمایا۔ میَں اس اعزاز پر فخر محسوس کرتا ہوں۔

نامور شخصیات جنہیں دیباچہ نگار کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا اور انہوں نے بے شمار کتب کے دیباچے بھی تحریرکیے ان میں حکیم محمد سعید شہید کا نام قابل ذکر ہیں ۔ حکیم صاحب نے بے شمار مضامین کے علاوہ دو سو سے زیادہ تصانیف و تالیفات تحریر کیں ساتھ ہی بے شمار دیباچے،مقدمے اور تقریظیں لکھیں۔دیباچہ نگاری اور تقریظ نگاری کے حوالے سے ڈاکٹر جمیل جالبی کا نام بھی معتبر ہے۔ انہوں نے بھی بے شمار مصنفین کی کتب کے دیباچے تحریرکیے۔ڈاکٹر صاحب پر مرتب ہونے والی کتابیات میں ۷۰کے قریب کتابوں کی فہرست دی گئی ہیں جن کے دیباچے یا تقریظ ڈاکٹر جالبی نے لکھے۔ شاہد احمد دہلوی جنہوں نے ڈاکٹر جمیل جالبی کا خاکہ تحریر کیا جو ان کی کتاب گنجینۂ گوہر میں شامل ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے دیباچوں اور مقدموں کے حوالے سے لکھاہے کہ ’’تذکرہ صوفیائے سندھ‘‘ اور’’ شیخ عبدالقدوس گنگو‘‘ہی اور ان کی تعلیمات پر جمیل صاحب نے عالمانہ مقدمے لکھ کر مجھے حیرت میں ڈال دیا کہ یہ ادب کا ایک شائستہ طالبِ علم اور اردو کا ایک شریف نقاد تصوف اور صوفیوں میں کہا جا کر پھنس گیا۔ان مقدموں کو لکھنے کے لیے اس کو اپنا کتنا خون پانی کرنا پڑا ہوگا‘‘۔ یہ بات ۱۹۶۲ء کی ہے اور یہ تصانیف اعجاز الحق قدوسی کی ہیں۔۱۹۸۸ء میں قدوسی صاحب کی ایک کتاب’میری زندگی کے پچھتر سال‘ کا مقدمہ بھی ڈاکٹر جالبی نے ہی لکھا۔ڈاکٹر احسن فاروقی کی کتاب ’تاریخ ادب انگریزی‘، اشتیاق حسین قریشی کی کتاب ’جدوجہد پاکستان‘، ڈاکٹر سید عبد اﷲ ، ڈکٹر وحید قریشی اور ڈاکٹر عبادت بریلوی کی کتاب ’پاکستان کی قدیم اردو شاعری‘ کا دیباچہ ڈاکٹر جالبی کا ہی
لکھا ہوا ہے۔ اب تک ان کتابوں کی تعداد سو سے زیادہ ہوگی جن کے دیباچے ڈاکٹر جمیل جالبی لکھ چکے ہیں۔

اردو ادب سے تعلق رکھنے والے ایسے لوگ بے شمار ہیں جنہوں نے قابل ذکر دیباچے یا مقدمے تحریر کیے۔ ان میں احسان دانش ، جمیل الدین عالی، احمد ندیم قاسمی، تابش دہلوی،ڈاکٹر انورسدید، پروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفی خان، پروفیسر سحرانصاری ، ڈاکٹر سلیم اختر، ڈاکٹر طاہر تونسوی ، ڈاکٹر وزیر آغا،امجد اسلام امجد، رئیس امروہوی ، زہرہ نگاہ ، کشور ناہید ، فیض احمد فیصؔ، ادا جعفری، ڈاکٹر ابو اللیث صدیقی مرحوم، عطا ء الحق قاسمی، فہمیدہ ریاض اور دیگر بے شمار ادبی شخصیات ایسی ہیں جن سے مصنفین تقریظ لکھوا کر مطمئن و شاد ہوتے ہیں۔دیباچہ نگاری یا تقریظ نگاری ادب کی اہم اور مقبول صنف ہے۔ شائع ہوئے والی ہر کتاب نہیں تو ہر دوسری کتاب میں دیباچہ یا تقریظ کتاب کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے ممد و معاون ہوتی ہے۔
شائع شدہ روزنامہ جنگ میڈویک میگزین۳۰؍ ستمبر ۲۰۱۳ء کو شائع ہوا-

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1286885 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More